شام کی نظمیں ۔۔۔ ترنم ریاض

 

پردیس کا شہر

 

یہ سرمئی بادلوں کے سائے،

یہ شام کی تازہ تازہ سی رت

یہ گاڑیوں کی کئی قطاریں

یہ باغ میں سیر کرتے جوڑے

یہ بچوں کے قہقہے سریلے

وہ دور سے کوکتی کویلیا

یہ عکس پانی میں بجلیوں کا

چہار جانب ہے شادمانی

مگر میں ہوں بے قرار مضطر

نہیں ہے اس شہر میں مرا گھر

٭٭٭

 

 

 

عیاشی

 

محبوب کی مانند اٹھلائے

معشوق کی صورت شرمائے

ہریالی کا آنچل اوڑھے

ہر شاخ ہوا میں رقصاں ہے

میں پیار بھری نظروں سے انھیں

مسکاتی دیکھے جاتی ہوں

شاموں میں پیڑوں کو تکنا

ہے میری نظر کی عیاشی

٭٭٭

 

 

 

پتوں کے سائے

 

شام کے ڈھلتے، اترنے کے لئے کوشاں

ہوا کرتی ہے جب جب مخملیں شب

باغ کے اطراف پھیلے سب گھروں کی بتیاں

جلتی ہیں اک کے بعد اک اک

ایسے میں پتوں کے سائے کھڑکیوں کے لمبے شیشوں پر

سمیٹے اپنا سارا حسن مجھ کو دیکھ کر گویا

خوشی سے مسکراتے ہیں، جہانِ دل سجاتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

شفق گوں سبزہ

 

بڑی تکلیف تھی تحریر کو منزل پہ لانے میں

تناؤ کا عجب اک جال سا پھیلا تھا چہرے پر

کھنچے تھے ابروؤں میں سیدھے خط

پیشانی پر آڑی لکیریں تھیں

خمیدہ ہوتے گاہے لب

کبھی مژگاں الجھ پڑتی تھیں با ہم!

گرا کر پردۂ چشم اپنی آنکھوں پر

غر ق ہو جاتی سوچوں میں

کہ افسانے میں دیوانے کا کیا انجام لکھوں ؟

اور اسی میں دوپہر ڈھل گئی

نظر کھڑکی جانب جب اٹھی تو

دیکھا شام آتی ہے عظمت سے

شجر، پتے عجب سے نور میں روشن ہیں

شامل ہیں بہت سے رنگ جس میں

قرمزی کرنوں نے

سبزے کو شفق گوں سا منعکس کر کے

ملکوتی فضا میں ڈھال کر

میری نگاہوں تک بڑی عجلت سے لایا ہے

میں اس کو دیکھنے میں گر نہ کچھ پل خود کو گم کرتی

تو ماتھے کے شکن چہرے پہ چھایا یہ تناؤ

بے سکوں آنکھیں

سبھی مل کر میرے دل کو بجھا دیتے

٭٭٭

 

 

 

 

میڈیٹیشن (Meditation)

 

کچھ نہ سوچوں

میں کچھ نہیں سوچوں

یوں ہی کھڑکی سے شام کو دیکھوں

پر سکوں آسماں خموش درخت

سرمئی روشنی، ہوا، یہ سکوں

اپنی نس نس میں منتقل کر لوں

دل کی دھڑکن کو روک دوں کچھ پل

ایک دفعہ پلک نہیں جھپکوں

یوں ہی بیٹھی رہوں جو بے جنبش،

روح پھر رب سے بات کرتی ہے

کتنے ہی کام ساتھ کرتی ہے

٭٭٭

 

 

شام کا سحر

 

ابھی پرچھائیاں اونچے درختوں کی،

جدا لگتی ہیں رنگِ آسماں سے،

ذرا پہلے گیا ہے اِک پرندہ باغ کی جانب

اُدھر سے آنے والے ایک طیّارے کی رنگیں بتیاں،

روشن نہیں اتنی

وہ نکلی ہیں سبھی چمگادڑیں اپنے ٹھکانوں سے

بڑا مبہم سا آیا ہے نظر، زہرا فلک کے بیچ،

ٹی کوزی کے نیچے ہے گرم اب بھی بچا پانی

کسی نے مجھ کو اندر سے نہیں آواز بھی دی

میں

ذرا برآمدے میں اور رہ لوں

فسوں میں شام کے، پُروا سی بہہ لوں

٭٭٭

 

شرمیلی خاموشی

 

شام کی شرمیلی چپ کو

روح میں محسوس کرتے

کام میں مصروف ہیں ہم دوپہر سے

دل کی آنکھیں دیکھتی ہیں گہری گہری سبز شاخوں کو

جو بیٹھی ہیں خموشی سے

کئے خم گردنیں اپنی

کسی دلہن کی صورت

سر پہ اوڑھے آسماں کی سرمئی چنری

ستارے جس میں ٹانکے جا رہے ہیں

ہم اپنے اس تصور پر خود ہی مسکا رہے ہیں

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے