خاک خمیر کی تخلیقی کائنات ۔۔۔ سلیم انصاری

 

انسانی تاریخ کے لا محدود سفر میں عشق ایک ازلی اور ابدی حقیقت ہے اور ہجر و وصل ایک فطری تجربہ۔ عشق کے بغیر کائنات کی ترسیل و ترویج اور تفہیم کا تصور ہی ممکن نہیں۔ لہٰذا انسانی زندگی کے ہر شعبۂ حیات میں عشق کی کار فرمائی اور اس کے محرکات و ممکنات اور انسلاکات کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ عشق کا یہ تصور جب کسی تخلیقی فنکار کی شعری سوچ کا حصہ بنتا ہے تو اپنے پورے وجود کے ساتھ اس کے حرف و لفظ کی پوری شعری کائنات پر پھیل جاتا ہے۔

کرشن کمار طور ہمارے عہد کے ان چند برگزیدہ تخلیق کاروں میں شمار کئے جاتے ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کے حوالے سے عشق اور ہجر و وصل کا نیا محاورہ ایجاد کیا ہے اور اسے اپنی شاعری میں نئی جہتوں میں روشن کیا ہے۔ خاک خمیر ان کی شاعری کا تازہ ترین تخلیقی اظہار ہے، ا س سے قبل ان کی شاعری کے دس سے زائد مجموعے منظرِ عام پر آ کر ناقدینِ شعر و ادب سے خراج تحسین وصول کر چکے ہیں۔ کرشن کمار طور ایک ایسے تخلیق کار ہیں جن کی فکر کا کینوس بے حد وسیع ہے، ان کی شاعری میں اسلوب اور اظہار کی سطح پر اگر چہ کلاسیکی رچاؤ کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے، مگر لہجے کی تازہ کاری، منفرد ڈکشن اور انوکھی تراکیبِ لفظی کے علاوہ طرزِ اظہار کی شگفتگی اور اسلوب کی ندرت نے شاعری سے ان کے عشق کو نئے رنگ و آہنگ سے ہم کنار کر دیا ہے۔ وہ ایک ایسے مست قلندر اور درویش صفت انسان ہیں، جس کا زیادہ تر شعری سفر بیرونِ ذات سے اندرونِ ذات کی طرف ہے اور خود آگہی اور خود آگاہی کے حوالے سے ان کی ذات کا تخلیقی شناخت نامہ ہے۔ نام و نمود کی خواہش اور اردو مراکز سے دور برسوں کی تخلیقی ریاضت اور شعری مراقبے کے باوجود ناقدینِ شعر و ادب کی کم توجہی بھی انہیں اپنی وضع بدلنے پر مجبور نہ کر سکی اور یہی ایک سچے قلم کار کا منصب ہے۔ ادب میں قدامت اور جدت کی مروجہ بحثوں اور تضادات کی پرواہ کئے بغیر اپنے طور پر شعری سفر کرنے والے کرشن کمار طور کے یہاں عشق ایک طرح کی تخلیقی عبادت سے کم نہیں۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ کرشن کمار طور کے یہاں غیر مانوس شعری اصطلاحات کا استعمال کثرت سے ملتا ہے، جو ان کے ہم عصر تخلیق کاروں کے یہاں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔ یہ تراکیب اور اصطلاحات میرے نزدیک ان کے انفرادی فکری اور وجودی تجربات کا اہم حصہ ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان کی یہ اصطلاحات ادب کے عصری تقاضوں کو پورا کرنے میں مکمل طور سے کامیاب ہیں اور یہی سبب ہے کہ ان کی شاعری قدامت اور جدت کے ٹکراؤ اور کسی بھی نظریاتی انحراف اور تحفظات کے بغیر اپنے عہد کی بھرپور ترجمانی کرتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اردو شاعری میں راست اظہار اور اسلوب کے اکہرے پن کی گنجائش نہیں ہوتی۔ شعر کے عمودی اور فکری ارتقا کے لئے رمز و کنایہ اور ایہام و ارتکاز ناگزیر ہے، اپنے شخصی تجربات و مشاہدات اور حقیقت کو مجاز میں تبدیل کر کے عصری جمالیات سے ہم آغوش کرنے کا نام ہی در اصل شاعری ہے، اور کرشن کمار طور اس فن میں پوری طرح کامیاب و کامران نظر آتے ہیں۔

اپنے مافی الضمیر کے تخلیقی اظہار کے لئے اکثر شاعروں کے یہاں کچھ ترجیحی اور کلیدی الفاظ ہوتے ہیں جو شاعری میں بار بار استعارات کی شکل میں نمو پذیر ہوتے ہیں اور اشعار کی تفہیم کے زاویے مقرر کرتے ہیں، کرشن کمار طور بھی اس سے مبرا نہیں، ان کے یہاں بھی ایسے کلیدی الفاظ وافر مقدار میں موجود ہیں جو اشعار کی معنویت اور ان کی گہری فکری بصیرت کو مختلف دشاؤں میں روشن کرتے ہیں۔ عشق، ہجر، وصل، گماں، یقین، سفر، جنوں، دنیا، آئینہ اور دہر وغیرہ ایسے ہی کچھ الفاظ ہیں جنہیں ان کے شعری ڈکشن میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ان لفظیات میں عشق ایک ایسا لفظ ہے جس نے ان کی شاعری کو نہ صرف منفرد تخلیقی جہت و ذائقے سے آشنا کیا ہے بلکہ غیر شعوری طور پر ان کی شاعری میں انفرادی اور اجتماعی شعور کے اظہار و ابلاغ اور ترسیل میں سرنامے کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔

وفورِ عشق سے کیا ہو گیا ہوں

میں خود ہی چہرہ خود ہی آئینہ ہوں

 

کچھ اس نے بھی رکھنی تھیں حدیں عشق میں اپنی

کچھ ہم کو بھی اب وہم و گماں اور تھا ہونا

 

ہمیں تو کام فقط عشق کا ہی آتا تھا

یہ کاروبار نہ کرتے تو اور کیا کرتے

 

جو پیچ ہیں دنیا میں وہ اوروں کے لئے ہیں

اک گیسوئے پر خم سے ہمیں عشق بہت ہے

 

تیری پہچان کی خاطر جو مٹا دے خود کو

ایسا کرنے کے لئے ہو گا کوئی پیکرِ عشق

 

ہم ہی نہیں رہیں گے اگر اس جہان میں

پھر کس کے درمیان رہے گا اک ان کا عشق

 

نہیں ہے عشق اگر زندہ صفت سارے جہاں میں

ہمارے ہجر میں رنگِ وصال آیا کہاں سے

 

طریقِ عشق میں اپنے علاوہ اس کو بھی

گناہ گار نہ کرتے تو اور کیا کرتے

محولہ بالا اشعار میں نے کرشن کمار طور کے شعری مجموعے خاک خمیر سے سرسری طور پر ہی منتخب کئے ہیں۔ ان اشعار میں شاعر نے عشق کی مختلف کیفیات اور واردات کو انسانی نفسیات کے حوالے سے ایک وسیع کینوس پر اس طرح پینٹ کیا ہے کہ عشق ان کی شاعری میں غیر شعوری طور پر ایک انفرادی تجربے سے اجتماعی شعور کی طرف سفر کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور بعض اوقات انکشافِ ذات اور قلبی و ذہنی سرشاری کا وسیلہ بن جاتا ہے۔ انہوں نے عشق کے جن انسلاکات اور محرکات کو اپنے فن کی تخلیقی اساس پر رکھا ہے وہ ان کی شاعری میں امتیازات کے اعتبار سے خاصی اہمیت کا حامل ہے اور ان کی جمالیاتی حس کو انگیز کرتا ہے۔ وہم و گمان سے ذات کے اثبات اور انکشاف تک کے وسیع سفر میں، چہرے سے آئینہ بننے تک، عشق کرشن کمار طور کے یہاں ہجر و وصل کے نئے معانی و مفاہیم کے ساتھ انسان کے پورے وجود میں پھیل کر بیکراں ہونے کا عمل ہے، لہٰذا یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ عشق ان کے یہاں ایک ایسا داخلی اور فکر انگیز استعارہ ہے، جس نے ان کی تمام شاعری کو عشق زار بنا کر نئے ذائقے سے آشنا کر دیا ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ کرشن کمار طور کی شاعری میں رمز و کنایہ اور غیر مانوس تراکیب لفظی، منفرد استعارات و تشبیہات اور غیر مستعمل بحروں کی کارفرمائی بھی بہت ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کے اتنے غیر مانوس تخلیقی اور شعری نظام کے باوجود ان کے یہاں تفہیم شعر کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ مکرر قرأت سے اشعار کی معنویت کو کئی دشاؤں میں منعکس کر کے مفاہیم کو نیا وژن عطا کرتا ہے۔

مجھے کرشن کمار طور کی شاعری کے مطالعے کا شرف برسوں سے حاصل رہا ہے، کبھی رسائل و جرائد کے صفحات پر کبھی براہِ راست ان کے شعری مجموعوں کے حوالے سے۔ اور مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی تکلف نہیں ہے کہ ان کی شاعری میں عشق ایک وسیع تر اور معنی خیز استعارہ ہے، مگر ان کے یہاں داخلی تجربات و محسوسات کی آمیزش سے ایک نئی اور پر اسرار شعری فضا قائم کرنے کا عمل شدید ہے، جو کئی بار ان کی خاموشی اور کلام کے درمیان پھیلی ہوئی بسیط و بے پناہ تخلیقی بصیرت و آگہی کی بشارت دیتا ہے، جو آخر کار ان کی شاعری میں ایک تجسس اور تحیر کی شکل میں منتج اور نمودار ہوتا ہے۔ مجھے دورانِ مطالعہ اکثر یہ محسوس ہوا ہے کہ ان کے یہاں نہ صرف خود سے مکالمہ کرنے کا جذبہ ہے بلکہ زندگی کے مسائل و مصائب سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ بھی ہے۔

کوئی بھرم مری تکمیل کا ضروری ہے

کرے نہ کیوں مرا افلاک مجھ کو گردش میں

 

جو کہ تھی وادیِ اسرار، اسے ڈھونڈ لیا

رکھ دیا سارے زمانے کو خبر میں ہم نے

 

تھی اس کی بزم میں موجودگی ضروری مگر

وہاں پہ ہم نہ تھے حاضر جہاں تھا کوئی اور

 

نکل پڑوں اگر اثبات کے طلسم سے میں

یہ اسم میرے نہیں کا، نہیں ہے رہنے کا

 

میں اس کی آنکھ پہ پورا کبھی اترتا نہیں

مرے علاوہ اسے اور کچھ گماں بھی ہے

 

یقیں کو سمجھوں یہاں میں فقط اضافی شئے

کچھ اور طرح سے اب خانۂ گماں کھولوں

 

حیراں ہیں بھلا دنیا میں اب زندہ ہے کیسے

وہ شخص جسے خواہشِ دنیا بھی نہیں ہے

 

اک ذرا سا بھی نہ انکار مرے دل نے کیا

یہ مسافر بڑی جلدی سے سفر میں اترا

مایوسی، قنوطیت، یاس تنہائی موجودہ صارفی عہد میں زندگی کرتے ہوئے انسان کا مقدر ہے، اجنبیت، خود فراموشی اور عدم تکمیلیت اور نا آسودگی کے احساس نے موجودہ عہد میں انسان اور معاشرے کے درمیان ممکنہ رابطوں کو نہ صرف کمزور کیا ہے بلکہ تہذیبی قدروں کے زوال کے احساس اور اعتبار کو شدید ہی کیا ہے، اور شاید یہی سارے موضوعات ہمارے عہد کی شاعری میں کثرت سے پائے جاتے ہیں، مگر کرشن کمار طور کی شاعری کے کینوس پر زندگی کے مثبت رنگوں اور جذبوں سے بنائی ہوئی تصویروں میں دلکشی اور شگفتگی کو نمایاں طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ان کے یہاں اثبات ہے، امکان ہے، خواب ہیں اور یقین ہے۔ وہ اپنی شاعری میں جہاں نظر آتے ہیں وہاں نہیں ہیں، ان کے یہاں شاعری میں ایک ایسے عام آدمی کو پیکر کیا گیا ہے جسے خواہشِ دنیا تو نہیں مگر وہ اپنے خانۂ گماں کو ایک بالکل نئی طرح سے کھول کر اس کے اندر سے یقین کو کشید کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے، اور میں سمجھتا ہوں یہی انفرادیت کرشن کمار طور کی شاعری کی قرأت کو ایک نئے زاویے سے کرنے کا نہ صرف مطالبہ کرتی ہے، بلکہ قاری کو ایک طلسمِ خانۂ معانی میں لے جاتی ہے، جہاں وہ ذہنی آسودی اور سرشاری کے نئے موسموں اور منظروں سے ہم آغوش اور ہم آہنگ ہوتا ہے، جو میرے نزدیک اچھی اور عمدہ شاعری کا جواز بھی ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ کرشن کمار طور کے یہاں اشعار میں منفرد تراکیبِ لفظی اور نئی شعری اصطلاحات کا خاص التزام پایا جاتا ہے اور میں پورے وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ یہ فنی نظام ان کے یہاں بغیر کسی تصنع اور شعوری کوشش کے فطری طور پر ہی ان کے تخلیقی عمل کا حصہ بنتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ناقدینِ شعر و ادب کرشن کمار طور کی شاعری کو ادب کے کس خانے میں رکھتے ہوں گے، یا جدید شاعری کے مطالبات اور تقاضے کیا ہونے چاہئیں، مجھے بس اتنا معلوم ہے کہ اچھی شاعری وہ ہے جو قاری کے ذہن و دل پر مثبت اثرات مرتب کرے اور اسے آسودگی اور سرشاری سے ہم آغوش کرے، اس اعتبار سے دیکھیں تو میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ کرشن کمار کی شاعری کی غیر مشروط قرأت قاری کو ذہنی سرشاری سے ہم کنار کرتی ہے۔ میں چونکہ ان کی شاعری کا دیرینہ قاری ہوں اور میں نے ان کی شاعری کا توجہ اور دلچسپی سے با الستعیاب مطالعہ کیا ہے، لہٰذا یہ بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کی شاعری کے بنیادی اسٹرکچر پر موسموں کے سرد و گرم کا کوئی اثر نہیں پڑا ہے، یعنی ادب میں ہونے والے تغیرات اور تحریکات ان کی تخلیقی سوچ اور اسلوب و بیان پر اثر انداز ہونے میں ناکام رہے ہیں اور شاعری سے ان کا یہ کمٹمنٹ قابلِ تحسین ہے، وہ اردو ادب کے ایک ایسے درویش ہیں جو برسوں سے اپنے حجرے میں باہر کے موسموں سے بے خبر دھونی رمائے بیٹھا ہے۔

کبھی کسی سے طلب کرتے ہیں کہاں درویش

صدائیں دیتے ہی رہتے ہیں بے گماں درویش

 

وجودِ دہر پہ بس اک نگاہ ڈالتے ہیں

ہیں رکھتے ماتھے پہ خوش ہو کے ہر زیاں درویش

 

سنتا ہی نہیں کوئی کسی کی تو یہاں پر

درویش کی ہو عرضیِ سفاک کہ ہم ہوں

دنیا سے ان کی یہ بے خبری بلکہ بے ربطی انہیں درونِ ذات کے تمام موسموں اور منظروں کے حوالے سے خارجی دنیا کے اسرار و رموز کو سمجھنے کے مواقع فراہم کرتی ہے، اور اپنے اس مراقبے سے وہ ایک بالکل نئے طرح کا تخلیقی مواد حاصل کر کے واپس لوٹتے ہیں۔ دنیا جو انسانوں کے لئے ایک عارضی سرائے ہے مگر انسان اپنی جبلی خواہشوں کی تکمیل کی کوشش میں دن رات نہ صرف سرگرداں رہتا ہے بلکہ نا آسودگی کے جنگل میں بھٹکتے بھٹکتے وہ مرنا تک بھول جاتا ہے۔ یہ زندگی کے تئیں ایک عام آدمی کا نظریہ ہو سکتا ہے۔ مگر اہلِ نظر اور درویش صفت انسان دنیا کو دشمن کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کے اسرار و رموز کو سمجھنے کی نہ صرف مسلسل کوشش کرتے رہتے ہیں بلکہ دنیا سے فرار کی راہ بھی اختیار کرتے رہتے ہیں۔ کرشن کمار طور کے یہاں ایسے بہت سارے اشعار مل جاتے ہیں جن میں دنیا کے لفظ کو استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے مگر اصل میں اس سے زندگی کے خارجی عوامل کی افہام و تفہیم کا نیا محاورہ وضع کیا گیا ہے۔ ان کے یہاں ہاں اور نہیں، اثبات و نفی بظاہرسب ایک ہی ہیں اور زندگی کے گہرے فلسفے کے بطن سے پیدا ہونے والے امکان و انکشافات کا نہ صرف مظہر ہیں بلکہ عام انسانی تجربات کے ناقابلِ فہم ہونے کا بھی احساس دلاتے ہیں۔

ہے چکا چوندھ تماشے سے مزین سب کچھ

ایک دنیا کو بسا رکھا ہے گھر میں ہم نے

 

مٹی کی طرف ہاتھ نہ پھیلائے کبھی بھی

ہم نے تو کبھی جانبِ دنیا نہیں دیکھا

 

اس سر کو اٹھانے میں کی ہم نے بھی تاخیر

دنیا نے بھی کچھ اپنا ستم دیر سے رکھا

 

نکل بھی آتے ہیں دنیا کے دائرے سے ہم

ہیں چاہتے بھی کسی انتساب میں رہنا

 

کچھ ہم پہ بھی دنیا کا بہت خوف ہے طاری

کچھ ان دنوں اس کی بھی ادا ٹھیک نہیں ہے

 

دنیا کے افق میں ہی ہوئے جاتے ہیں مدغم

ہم لوگ کہاں رکھتے ہیں دن رات الگ سے

 

بس ایک پل کا تماشہ ہے سامنے کی چیز

میں کیا کہوں کہ یہ دنیا ہے سامنے کی چیز

 

اس قبیل کے اور بھی بہت سے اشعار خاک خمیر سے بطور مثال پیش کئے جا سکتے ہیں مگر مضمون کی طوالت کے سبب اتنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں، اپنی اس رائے کے ساتھ کہ کرشن کمار طور کے یہاں دنیا استعارے سے زیادہ ایک ایسے روشن دان کی حیثیت رکھتی ہے جس سے وہ اندرونِ ذات کے علاوہ بیرونِ ذات کے مناظر بھی نہ صرف دیکھ سکتے ہیں بلکہ محسوس بھی کر سکتے ہیں۔ ان کے یہاں تخلیقی سوچ کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس مضمون میں ان کی شاعری کے تمام پہلوؤں کا احاطہ ممکن ہی نہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ انہوں نے اپنا مخصوص ڈکشن از خود وضع کیا ہے اور کسی بھی شاعر کے لئے یہ ایک بڑی بات ہے، اس لحاظ سے بھی کہ یہی ڈکشن اس کی تخلیقی شناخت کا معتبر حوالہ بھی ہوتا ہے۔ کرشن کمار طور اب عمر کی اس منزل میں ہیں جہاں سے اکثر تخلیق کار واپسی کا سفر شروع کر دیتے ہیں مگر کرشن کمار طور ان خوش نصیب تخلیق کاروں میں ہیں جن کے یہاں اب بھی فکر اور اظہار کی سطح پر ایک طرح کی تازہ کاری اور شگفتگی ہے، نوع بہ نوع مضامین ان کے شاعری میں ایک تواتر اور تسلسل سے محسوس کئے جا سکتے ہیں، جس کے لئے وہ یقینی طور پر قابلِ مبارک باد ہیں کہ ابھی ان کی فکر کا سوتا جاری اور رو اں دواں ہے۔

شاعری جتنی ہوئی اس کے حوالے سے ہوئی

اس کا اک نام مرے سارے ہنر میں اترا

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے