سائنس اور شاعری میں کئی باتیں مشترک ہیں۔
جیسا کہ شاعر اور سائنس دان ناربرٹ ہرسکارن (Norbert Hirschhorn) نے اپنے مضمون ’’جدید شاعری، جدید سائنس۔۔۔۔ ساخت، استعارہ اور مَظاہر‘‘ میں لکھا ہے:
’’شاعری اور سائنس کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں، کیوں کہ دونوں کائنات اور انسانی بقا کی اَصل تک پہنچنے میں کوشاں ہیں۔ ‘‘
جدید سائنس نے نہ صرف ہمارے طرزِ زندگی کو تبدیل کیا ہے بلکہ ہمارے طرزِ فکر، طرزِ احساس، طرزِ اظہار، طرزِ عمل اور دیگر بے شمار روّیوں کو بھی تبدیل کیا ہے۔ روّیوں سے مراد یہ ہے کہ ہم چیزوں کو کس طرح دیکھتے، محسوس کرتے اور ردِّ عمل کا اظہار کرتے ہیں جوں جوں سائنس ترقی کرتے کرتے پیچیدہ ہوئی ہے، چیزوں کو محسوس کرنے کا ہمارا طریقۂ کار بھی بتدریج پیچیدہ ہوا ہے۔ جدید سائنس نے ذات و کائنات سے متعلق ہمارے علم اور آگاہی کو وسیع اور متنوع کر دیا ہے۔ چناں چہ ہمارے طرزِ فکر میں بھی توسع اور تنوع پیدا ہوا ہے جس کا براہِ راست اثر ہماری شاعری پر بھی پڑا ہے۔ گویا سائنس نے ہماری زندگی کے ساتھ ساتھ ہمارے شعری روّیوں کی بھی تنظیمِ نو کی ہے۔ سائنسی عہد کا شاعر اپنے روّیوں، طرزِ فکر، داخلی و خارجی تجربات اور اپنی حسّیات و کیفیات میں پیچیدہ ہے، تو پھر اس کی شاعری کے موضوعات اور شاعری میں اس کا طرزِ اظہار سادہ اور سطحی کیسے ہو سکتا ہے؟
ناربرٹ ہرسکارن نے درست کہا ہے:
Deeper science demands deeper poetry۔
یعنی گہری تفہیم گہری شاعری کی متقاضی ہوتی ہے۔
اُردو شاعری کی تاریخ میں، کسی سائنسی موضوع کو poetify کرنے کا اوّلین نقش میرؔ کے ہاں مِلتا ہے:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اِس کارگہِ شیشہ گری کا
غالب کے ہاں بھی اِس نوع کے کئی اشعار مل جاتے ہیں جن میں کیمیا اور طبیعات کے قوانین و لفظیات سے استفادہ کرتے ہوئے مضمون آفرینی کی گئی ہے ؎
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
ضعف سے گریہ مبدّل بہ دمِ سرد ہُوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہَوا ہو جانا
ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام
مہرِ گردوں ہے چراغِ رہ گزارِ باد یاں
سخن کیا کہہ نہیں سکتے کہ جویا ہوں جواہر کے
جگر کیا ہم نہیں رکھتے کہ کھودیں جا کے معدن کو
پیکرِ عشاق سازِ طالعِ ناساز ہے
نالہ گویا گردشِ سیّارہ کی آواز ہے
ہر قدم دُوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے
رفتارِ عمر قطعِ رہِ اضطراب ہے
اِس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے
فشارِ تنگیِ خلوت سے بنتی ہے شبنم
صبا جو غنچے کے پردے میں جا نکلتی ہے
ہے کائنات کو حرکت تیرے ذوق سے
پرتو سے آفتاب کے ذرے میں جان ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے
کہ ہُوا مجھ سا ذرۂ نا چیز
رُوشناسِ ثوابت و سیّار
سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی
بن گیا سطحِ آب پر کائی
گردِ راہِ یار ہے سامانِ نازِ زخمِ دل
ورنہ ہوتا ہے جہاں میں کس قدر پیدا نمک
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھُلا
مضمحل ہو گئے قویٰ غالبؔ
وہ عناصر میں اعتدال کہاں
مستانہ طے کروں ہوں رہِ وادیِ خیال
تا، بازگشت سے نہ رہے مُدعا مجھے
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ، گھبرائیں کیا
ہے مشتمل نمودِ صُوَر پر نمودِ بحر
یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج و حباب میں
غالب بیدل سے متاثر تھے اور بیدل فارسی غزل میں سَبکِ ہندی کے بے تاج بادشاہ تھے۔
سَبک سے مُراد سٹائل یا اسلوب ہے۔ سَبکِ ہندی کا امتیازیہ ہے کہ ایک مصرعے میں دعویٰ اور دوسرے مصرعے میں دلیل لائی جاتی ہے۔ غالب نے بیدل کے اِس سٹائل کو اُردو غزل میں رواج دیا۔ سبکِ ہندی میں لائی جانے دلیل کی بنیاد عموماً قوانینِ فطرت، فلسفیانہ منطق یا سائنسی توجیہات پر رکھی جاتی ہے۔ غالب کی اُردو غزل میں سَبکِ ہندی میں لکھے گئے بے شمار اشعار موجود ہیں۔ مثلاً:
شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھُواں اُٹھتا ہے
شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد
سایہ میرا مجھ سے مثلِ دُود بھاگے ہے اسدؔ
پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
چمن زنگار ہے آئینۂ بادِ بہاری کا
پرتوِ خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک
آگ سے پانی میں بجھتے وقت اُٹھتی ہے صدا
ہر کوئی درماندگی میں نالے سے ناچار ہے
نشو و نما ہے اصل سے غالبؔ فروع کو
خاموشی ہی سے نکلے ہے، جو بات چاہیے
کَونیاتی (Cosmic) وژن کی صورت گری تو قدیم اساتذہ کی شاعری میں مل جاتی ہے مگر سائنسی وژن کی موُجودگی مفقود ہے۔
کاسمک وژن کی اوّلین و ارفع صورت گری اقبال کے ہاں بالخصوص ’’جاوید نامہ‘‘ کی صورت میں نظر آتی ہے۔ اقبال نے سائنسی نظریات و اصطلاحات سے بھی استفادہ کیا ہے۔ کچھ اردو اشعار کی مثالیں:
حقیقت ایک ہے ہر شے کی، خاکی ہو کہ نوری ہو
لہو خورشید کا ٹپکے، اگر ذرّے کا دل چیریں
مقامِ گفتگو کیا ہے، اگر میں کیمیا گر ہوں
یہی سوزِ نفَس ہے، اور میری کیمیا کیا ہے
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں
زمانہ ایک، حیات ایک، کائنات بھی ایک
دلیلِ کم نظری قصۂ جدید و قدیم
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود
کہ خالی نہیں ہے ضمیرِ وجود
فریبِ نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ہر ذرۂ کائنات
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات
مشرق کے خداوند سفیدانِ فرنگی
مغرب کے خداوند درخشندہ فَلِّزات
لفظ ’’ فَلِّزات‘‘ Minerals کا ترجمہ ہے۔
جبکہ اوّل الذکر شعر میں آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت سے استفادہ کیا گیا ہے۔
مجید امجد غالباً اُردو کے پہلے شاعر ہیں جنھوں نے اپنی شاعری میں کاسمک اپروچ کے ساتھ ساتھ سائنسی وژن کی موجودگی کا احساس دِلایا ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا ہے:
’’مجید امجد نے جس آفاقی شعور کا مظاہرہ کیا ہے، وہ اقبال کے بعد مجید امجد کی نظم میں پوری طرح اُجاگر ہوا ہے، اس فرق کے ساتھ کہ اقبال کا روّیہ فلسفیانہ ہے، جبکہ مجید امجد نے سائنسی سوچ سے استفادہ کیا ہے۔ ’’
مجید امجد موضوعاتی اور اسلوبیاتی ہر دو سطح پر اہم تر ہیں۔ اُس کے داخلی و خارجی تجربات، نفسیاتی و حیاتیاتی ہر دو سطح پر نہ صرف پیچیدہ اور تہ دار ہیں، بلکہ متنوع اور وسیع بھی ہیں۔ اس لیے اس کی شاعری میں ہمیں ایک تنوع، توسّع اور معنوی پیچیدگی و تہہ داری نظر آتی ہے۔ پھر اُس کی ارفع و اعلیٰ درجے کی حساسیّت و حسّیت نے اس کی شاعری کو ایک تخلیقی ترفّع سے ہم کنار کر دیا۔
مجید امجد کی نظم ہویا غزل یا پھر آخری ایّام میں لکھی گئی نثری آہنگ کی حامل نظمیں ہوں، کم و بیش اُن سب میں کا سمک اور سائنسی وژن کے آثار و شواہد ملتے ہیں۔ اِس سلسلے میں مجید امجد کی یہ نظمیں مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں:
پھر کیا ہو؟،
1942ء کا ایک جنگی پوسٹر،
ایک نظم،
امروز،
جہاں نورد،
سب سینوں میں۔۔۔،
خوردبینوں پہ جھکی۔۔۔،
آنکھوں کی ٹکٹکی کے نیچے۔۔۔،
اندر سے اک دُموی لہر۔۔۔،
مرے خدا مرے دل،
نہ کوئی سلطنتِ غم ہے نہ اقلیمِ طرب،
مؤخر الذکر نظم اِس سلسلے کی اہم ترین نظم قرار دی جا سکتی ہے جس کی ابتدا یوں ہوتی ہے:
کیا کہوں کتنے غموں، کتنے غموں کی شکن آلود بساط
وقت کے گھومتے زینوں پہ مرے رُکتے ہوئے قدموں کے ساتھ
کس طرح بچھتی لپٹتی ہی چلی آئی ہے
کیا بتاؤں یہ کہانی بڑی طولانی ہے
جوں جوں نظم آگے بڑھتی ہے، یہ اب شاعر کی محض داخلی و انفرادی واردات تک محدود نہیں رہتی، بلکہ وسیع و بسیط کائنات اور مظاہرِ کائنات کے سامنے انسان کی بے ثباتی اور بے بسی کا احاطہ کرتی ہوئی۔۔۔ شخصی کرب سے آفاقیت تک پھیلتی ہوئی۔۔۔ ستاروں سے ہم کلامی کی شکل اختیار کر لیتی ہے جسے شاعر نے ’’نغمۂ کواکب‘‘ کا نام دیا ہے۔
نغمہ کواکب سے پہلے کا بند دیکھیے:
کوئی غایت کوئی منزل کوئی حاصل سفرِ ہستی کا
کوئی مقصود بلندی کا کہ مفہوم کوئی پستی کا
کوئی مشعل بھی نہیں کوئی کرن بھی تو نہیں
شب اندھیری ہے، گھٹا ٹوپ ہے، طوفانی ہے
بولو اے نغمہ سرایانِ تحیر کدۂ کاہ کشاں
میں کہاں جاؤں کہاں جاؤں کہاں جاؤں کہاں
اِس بند کے بعد ’’ نغمۂ کواکب‘‘ میں دائموس، فیبوس، ارناؤس، پلوطو اور آخر میں کرۂ ارض کے نغمات اُبھرتے ہیں۔ کرۂ ارض کے نغمے کا اختتام اِس شعر پر ہوتا ہے:
اگر ہمیں بھری دُنیا میں مسکرا نہ سکے
تو ڈول جائیں گے یہ سلسلے ضرور کہیں
یعنی مجید امجد کے ہاں اس قدر وسیع و بسیط کائنات کے لا منتہی سلسلوں میں اگر کوئی اہم ترین چیز ہے تو وہ انسان کی خوشی اور مسکراہٹ ہے۔
اِس سلسلے کی دیگر نظموں کے اقتباسات دیکھیے:
دُنیا کے دھبے میں بھری ہوئی ہم سب بے چہرہ
بے کل رُوحیں
ہم سب کلبلاتے جرثومے
آگے جو کچھ ہو
اک بار تو خود پر ترس کھا کر دیکھیں
شاید ہم کو دیکھنے کے لیے
تقدیروں کو اپنی خورد بینوں کے زاویے بدلنے پڑیں
(خورد بینوں پہ جھکی)
مولا! تیری معرفتیں تو انسانوں کے جمگھٹ میں تھیں
میں کیوں پڑا رہا۔۔۔
اپنے ہی خیالوں کی اِس اندھیری کٹیا میں اب تک؟
(اندر سے اک دُموی لہر)
جس میٹھے، مٹیالے شہد کی بانٹ ہے
اس کو نارسا عاجزیاں،
اُن پھولوں سے حاصل کرنی ہیں، جو
فرعونوں کے باغوں میں کھِلتے ہیں
(عرشوں تک۔۔۔ )
میں دیکھتا تھا اچانک یہ آسماں یہ کرے
بس ایک پل کو رُکے اور پھر مدار میں تھے
ہزار بھیس میں سیّار موسموں کے سفیر
تمام عمر مری رُوح کے دیار میں تھے
(جہاں نوَرد)
سب سینے خالی ہیں۔۔۔۔ اُن دانستوں سے
جن میں یکجانی کی نشو و نما ہے
اپنی اپنی اناؤں کے اُن بے تسنیم بہشتوں میں
سب الگ تھلگ ہیں
ان کے علموں کی ڈالی پر استفہاموں کا میوہ نہیں لگتا
(سب سینوں میں)
اور پھر اِن سہمی ہوئی پتھریلی مستطیلوں سے اُبل پڑتا ہے
اُجلی اُجلی زندگیوں کا دریا
جس کا پانی اتنا مہین ہے
سونے کے ذرّے اس میں صاف نظر آتے ہیں
جن میں میرے خیال بھٹک جاتے ہیں
سر سے سارے بوجھ اُتر جاتے ہیں
بجلی کے پنکھے کی طوفانی جھنکار میں
میرے چہرے پر ٹھنڈے جھونکے کی جھالریں
بکھر جاتی ہیں،
اور پھر یہ بھی نہیں مَیں سوچتا:
’’میں کس جنت میں دوزخ میں ہوں!‘‘
(پھر مجھ پر بوجھ۔ )
تُو کس دُنیا سے ٹکرانے آیا ہے؟
تُو کس جگ کی کایا بدلنے آیا ہے؟
کوڑھی اوگن ہار دِلا!
(اپنی خوبی سی اک خوبی)
دل کو سہارا دینے والا ایک ڈر
من کو لبھانے والی ایک اُداسی
جس کا کوئی ابد ہے اور نہ کوئی عدم ہے
پل بھر میری زیست کا حصہ رہے ہیں
(دل تو دھڑکتے۔۔۔ )
تم بھی اُس اک پل کو جگمگا سکتے ہو
جس کا تمھاری عمر۔۔۔۔ اک ٹکڑا ہے
ورنہ یونہی اِن اپنی سچی سوچوں میں ٹھوکریں کھاؤ گے
(اِن بے داغ۔۔۔ )
اُس ایک دن کو جو سورج کی راکھ میں غلطاں
انھی دنوں کی تہوں میں ہے، کون دیکھے گا
میں روز اِدھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب اِدھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا
(کون دیکھے گا۔۔۔ )
ہم نے بھی اپنی نحیف آواز کو
شاملِ شورِ جہاں کرنا تو ہے
(ایک نظم)
گونجتے گھومتے جہانوں میں
کوئی آوازِ محرمانہ تو ہو
میں سمجھتا ہوں اِن سہاروں کو
پھر بھی جینے کا اک بہانہ تو ہو
(افتاد)
یہ اشکوں سے شاداب دو چار صبحیں، یہ آہوں سے معمور دو چار شامیں
انھی چلمنوں سے مجھے دیکھنا ہے وہ جو کچھ کہ نظروں کی زد میں نہیں ہے
(امروز)
وہ گردشیں جنھیں اپنا کے اَن گنت سورج
ترے سفر میں بجھے تو انھی اندھیروں سے
دوامِ درد کی اک صبح ابھری، پھول کھلے
مہک اٹھی تری دُنیا مرے خدا مرے دل
(مرے خدا! مرے دل!)
ہاں اِسی گم سم اندھیرے میں ابھی
بیٹھ کر وہ راکھ چننی ہے ہمیں
راکھ۔۔۔ اُن دُنیاؤں کی جو جل بجھیں
راکھ جس میں لاکھ خونیں شبنمیں
زیست کی پلکوں سے ٹپ ٹپ پھوٹتی
جانے کب سے جذب ہوتی آئی ہیں
کتنی روحیں ان زمانوں کا خمیر
اپنے اشکوں میں سموتی آئی ہیں
(ایک نظم)
نظموں کے علاوہ مجید امجد کے بے شمار غزلیہ اشعار بھی اِسی وژن اور اِسی وسعت پذیر فضا کے بطون سے اپنی اعلیٰ تخلیقی سطح پر تشکیل پاتے ہیں۔ مثلاً:
سوادِ نور سے دیکھیں تو تب سراغ ملے
کہ کس مقام کی ظلمت ہے کس جہاں کے لیے
پلٹ پڑا ہوں شعاعوں کے چیتھڑے اوڑھے
نشیبِ زینۂ ایّام پر عصا رکھتا
کسی خیال میں ہوں یا کسی خلا میں ہوں
کہاں ہوں؟کوئی جہاں تو مرا پتا رکھتا
عیب اپنی خوبیوں کے چُنے اپنے غیب میں
جب کھنکھنائے قہقہوں میں، مَن گھناؤنے
لرزاں ہے لہو کی خلیجوں میں، پیچاں ہے بدن کی نسیجوں میں
اک بجھتے ہوئے شعلے کا سفر، کچھ دن ہو اگر کچھ دن تو یہی
امجدؔ جہاں بھی ہوں میں، سب اُس کے دیار ہیں
کنجن سہاؤنے ہوں کہ جھنگڑ ڈراؤنے
گونجتا رہ گیا خلاؤں میں
وقت کا ایک قہقہہ تنہا
میں ایک پل کے رنجِ فراواں میں کھو گیا
مرجھا گئے زمانے مرے انتظار میں
اور پھر ’’شبِ رفتہ‘‘ کی یہ خود نوشت سطور بھی تو مجید امجد کے کَونیاتی وژن اور سائنسی روّیے کی بھرپورعکّاس ہیں:
’’ماضی کی راکھ سے میں نے جن بجھتی چنگاریوں کو چُنا ہے، اُن کے ماتھوں پر اُن شب و روز کے نقشِ قدم ہیں جو اِس کائنات اور اس کے حسنِ پُر اَسرار کے دھیان میں کٹ گئے ہیں‘‘
٭٭٭