وبا کے دنوں کی تنہائی
____________________________
کائیناتی بھید پانے اور
مرضی کی دیر پا قُربت کے لئے
سوشل ڈِسٹینسنگ کا تجربہ ضروری ہے
تنہائی ایک قیمتی شَے ہے
جہاں محبت صحیح معنوں میں آشکار ہوتی ہے
خواب در خواب بھی تو سفر جاری رہتا ہے
شکیب جلالی، سارہ شگفتہ اور ثروت حسین کو تنہائی ہی نے جنم دیا تھا
واک کمپینین کے ساتھ ایک میٹر کے فاصلے پر رہ کر سیر کو جایا جا سکتا ہے
اس عالمی آئیسولیشن میں
موسیقی سُن سکتے ہیں
دس گھنٹے کی نیند سونا ہے
کبوتروں کو نامہ بر کرنا ہے
محبت ترک تو نہیں کی جا سکتی
پسند کی مووی دیکھ سکتے ہیں
انار کلی کی دیوار میں چُننے کی اذیت محسوس کر سکتے ہیں
آئیں تاج محل پر ساحر کی نظم گُنگناتے ہیں
غُربت کی لکیر کے نیچے کراہتے لوگوں سے بِن ملے ملاقات ہو جائے گی
تنہائی سوچنا بھی سکھاتی ہے
دل و دماغ میں انقلاب لانے کا وقت بھی یہی ہے
گارسیا مارکیز کا ناول ’’تنہائی کے سو سال‘‘ دوبارہ پڑھا جا سکتا ہے
اکیلا پن خوبصورت ایسے بھی بنتا ہے
شاعر عروض سے چھٹکارا پا کر
نثری نظمیں لکھیں
اکنامکس پڑھیں
مذہبی زعما
تاریخ کا تقابلی مطالعہ کریں
اکلاپا سوچنے پر اُکساتا ہے
چوپایا آسمان سے گِرا یا
ارتقائی کگر سے اُترا
جنت سے کسی قصور پر گندمی رنگ میں رنگے گئے؟
یا بگ بینگ کا کرشمہ ہیں یہ مانس بنتے حشرات الارض
٭٭٭
نرگسیت کا تالاب
____________________________
جب پینٹنگ ختم ہوتی ہے
نمودار ہوتی ہے
ہماری اپنی ہی شکل
مجسمہ تکمیل کو پہنچتا ہے
ہم اسے اپنے نام سے پُکارتے ہیں
مادھوری ڈکشٹ کے رقص میں
اتنے محو ہو جاتے ہیں
اُس کی مسکراہٹ اور محرابوں سے
واپسی کا سفر
تکان سے بھر جاتا ہے
اپنے جنازوں کو خود کاندھا دیتے
قبرستان تک چلے جاتے ہیں
نو زائیدہ پرندوں کو
گھونسلوں سے گرنے کا خوف دامن گیر رہتا ہے
ہمارے ہونٹ ہماری تصویریں
ہمیں یاد کر کے چومنے لگتے ہیں
ایسا لگتا ہے
ان لوگوں کو پہلے کہیں دیکھ رکھا ہے
ستر ڈھانپتے
قریبی درختوں کے باندھے ہوئے پتے
پہلے جیسے خُشک رہتے ہیں
نرگسیت کے تالاب میں
گرے رہنے کے باوجود
ہم بھیگ نہیں پاتے
٭٭٭