ہمیں تو ہیں وہ ۔۔۔ سعود عثمانی

 

(میں نے امنڈتے خون کے ساتھ وہ منظر دیکھا جس میں چند سالہ نہتا بچہ مسلح فوجی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہوا ہے۔ اس کی آنکھوں میں خون ہے لیکن خوف کا نشان تک نہیں۔ یہ اس کے آباء کی وراثت ہے جو اس تک نسل در نسل منتقل ہوتی آئی ہے۔ یہ رجز اس کے آباء و اجداد نے غزوۂ خندق کے وقت بھی پڑھا تھا۔ تمام تر بے چارگی اور بے وسیلہ ہونے کے باوجود۔ غزوہ خندق کے موقع پر مہاجرین و انصار صحابہ خندق کھودتے، مٹی ڈھوتے ہوئے یہ رجز پڑھتے تھے: نحن الذین بایعوا محمدا… علی الاسلام ما بقینا ابدا

(ہم وہ ہیں جنہوں نے محمدﷺ کے ہاتھ پر اسلام کے لیے بیعت کی ہے، جب تک ہماری جان میں جان ہے)

 

ہمیں تو ہیں وہ

ہمیں تو ہیں وہ کہ جن کی بیعت ہے اور محمد کے ہاتھ پر ہے

ہمیں تو ہیں وہ

ہمیں تو ہیں وہ جنہوں نے بالحلف عہد باندھا کہ ہم پہ جو کچھ بھی بیت جائے

مگر کبھی ہم کسی بھی مخلوق کی عبادت نہیں کریں گے

غلاف کعبہ ہماری بیعت کو جانتا ہے

حطیم اور ملتزم ہماری گواہی دیں گے

کہ وہ ہمیں تھے

……

 

حجون و کوہِ قعیقعان اور کوہِ مروہ کی وادیاں ہم کو جانتی ہیں

ہماری خوشبو ہے دارِ ارقم کے راستوں پر

ہمیں نے اپنے نبی سے وعدہ کیا ہوا ہے

کہ مشرکوں سے الگ رہیں گے

سو ہم کو اس ذات کی قسم جس نے بئرِ زمزم کے پانیوں کو مٹھاس بخشی

ہمیں خبر تھی ہم اس کے بدلے ہزار جانب کے دکھ سہیں گے

……

 

ابو قبیس اور صفا کی تپتی ہوئی چٹانیں

ہمارے سینوں، ہماری پیٹھوں کی رنگتوں پر گواہی دیں گی

یہ ہم تھے جو سخت آزمائش کے وقت میں بھی اَحَد اَحَد ہی پکارتے تھے

ہمارے عم زاد ہی تھے جو ہم کو اونٹ گائے کی کچی کھالوں میں باندھ کر شعلہ زن زمینوں میں ڈال دیتے

ہمیں کھجوروں کی ٹہنیوں کی چٹائیوں میں لپیٹا جاتا

دھوئیں کی دھونی دلائی جاتی

وہ لوگ تھے ہی نہیں جو ہم کو نکال دیتے

سلگتی صبحیں، جھلستی دوپہریں جانتی ہیں

کہ وہ ہمیں تھے

ہمارے حق میں ہمارے اپنے قبیلے سفاک ہو چکے تھے

کبھی کبھی تو ہمارے چہروں پہ اس قدر سخت مار پڑتی

کہ خال و خد اور نقوش تبدیل ہونے لگتے

ہماری اولاد ہم کو پہچان تک نہ پاتی

تو ہم کو کپڑے میں ڈال کر گھر میں لایا جاتا

گمان ہوتا کہ آج تو ہم نہیں بچیں گے

وہ سب ہمیں تھے

 

ہمیں تو تھے جو مقاطعوں اور محاصروں سے نہیں جھکے تھے

ہمارے چولہوں پہ سال ہا سال پتے پکتے

ہماری خوراک گھاس تھی اور سوکھا چمڑا

بلکتے بچوں کا گریہ گھاٹی میں گونجتا تھا

پہاڑی دیواریں ایسے لوگوں کو دیکھتی تھیں

جو نسل در نسل پیٹ پر بھوک باندھتے تھے

 

ہمیں تو تھے وہ

منیٰ کی گھاٹی نے جن کو بیعت کی رات اپنی طرف بلایا

سمٹ سکڑ کر ہم اپنے ڈیروں سے یوں نکلتے تھے

جیسے چڑیاں جو گھونسلوں سے نکل رہی ہوں

ہمیں نے دست نبی پہ بیعت کے ہاتھ رکھے

تو جیسے روشن چراغ کی لو پہ سب کفِ دست ساتھ رکھے

ہمیں تو ہیں جن کا عہد یہ تھا

کہ اپنے نیزوں سے، اپنی ڈھالوں سے، اپنے تیروں سے ہم حفاظت

کریں گے، سینوں میں آخری سانس تک کریں گے

سو ہم وہی ہیں کہ جن کو یہ بیعتِ محمد

خود اپنی جانوں سے، اپنے مالوں سے، اپنے اہل و عیال سے بھی عزیز تر ہے

……

 

اور اب ہمیں ہیں

جو آج واقم کے اور وبرہ کے بیچ مٹی کو اور چٹانوں کو کھودتے ہیں

ہمارے آگے ہماری خندق ہے اور یہ حـرے ہیں جو یمین و یسار میں ہیں

ہم اپنے پیٹوں پہ بھوک باندھے ہوئے، پہاڑوں کو توڑتے ہیں

قریش و غطفان کے قبائل ہمیں مٹانے کو چل پڑے ہیں

سو ہم اسی انتظار میں ہیں

ہماری پشتوں پہ سَلع ہے اور سَلع کے بعد تھوڑا پیچھے

ہمارے گھر ہیں

منافقوں اور بنی قریظہ کے بیچ ہیں اور کشیدہ سر ہیں

غبار ہے، سر سے پاؤں تک ہم اٹے ہوئے ہیں

مگر یہ ہم ہیں، یہ جان رکھو

اسی طرح اپنی بیعتوں پر ڈٹے ہوئے ہیں

یہ جان رکھو

ہمیں تو ہیں وہ کہ جن کی بیعت ہے اور محمد کے ہاتھ پر ہے

ہم اپنی جانوں کی آخری سانس تک یہ و عدہ وفا کریں گے

ہماری عمروں کے بعد جتنے ہیں آنے والے

یہ تا قیامت زمانے والے

ہمارے صبر اور استقامت کے سب حوالے دیا کریں گے

ہمارے خیموں کے سارے روشن دیے ابد تک کی بستیوں میں جلا کریں گے

ہمیں تو ہیں وہ

کہ جن کو، واللہ، اپنی جانوں کا غم نہیں ہے

اور اپنی جانیں بچا بھی لیں گے تو کیا کریں گے

……

 

(حجون، قعیقعان، ابو قبیس، صفا، مکہ کے مشہور پہاڑ۔

منیٰ کی گھاٹی جہاں بیعت عقبہ ہوئی تھی۔

قریش، غطفان مشرکین کے دو بڑے لشکر جنہوں نے باقی مشرکین کے ساتھ مل کر مدینہ پر چڑھائی کی تھی۔

واقم، وبرہ مدینہ منورہ کے دائیں بائیں پھیلے دو حـرے۔

حرہ، لاوے کے سخت نکیلے پتھروں سے اٹا میدان۔

جبل سَلع، مدینہ منورہ کا مشہور پہاڑ جسے پشت پر رکھ کر اس کے سامنے خندق کھودی گئی تھی۔

بنی قریظہ، مدینہ میں مسلمانوں کے حلیف یہودی جنہوں نے غزوہ احزاب کے موقع پر عہد شکنی کی تھی)

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے