نظمیں ۔۔۔ عارفہ شہزاد

 

کتھارسس

¬____________________________

 

دباؤ، دباؤ

کوئی اندرونی دباؤ

رگوں کا کھنچاؤ

میری کنپٹی کی کوئی رگ دبی ہے

یا کچھ بھی نہیں ہے!

حلق میں اٹکنے لگی سانس میری

کہیں جھنجھناتے ہوئے لفظ چبھنے لگے ہیں

میری کلائی سے۔۔ ۔

کاندھے سے۔۔ ۔

باندھی ہوئی ایک اک رگ میں

پیوست بس درد ہے

اور دھڑکتا ہوا دل

سراپا سماعت ہے

کچھ بھی مگر میری سنتا نہیں ہے!

 

دباؤ، دباؤ

کوئی اندرونی دباؤ

رگوں کا کھنچاؤ

مگر پھیر سورج کا رکتا نہیں ہے

اور آسماں تو کسی کے بھی آگے

ذرہ برابر بھی جھکتا نہیں ہے

کوئی کام رکتا نہیں ہے!

 

دباؤ، دباؤ

کوئی اندرونی دباؤ

جھلاؤ، جھلاؤ

مجھے سانس کی آخری ان حدوں تک

اسی درد کا

آج جھولا جھلاؤ!

٭٭٭

 

مجھے برا کیوں لگتا ہے؟

¬____________________________

 

 

حائل ہو جاتے ہیں

آنکھوں کے درمیان

تیز دھوپ

آتے جاتے لوگ

دوڑتی بھاگتی گاڑیاں

اور اعصاب شکن کام

 

مصروف سڑک پر گاڑی کی مصنوعی خنکی میں

گفتگو

نہیں کشید کر سکتی

ہمارے اندر کے رنگ

 

کھلا آسمان

اور وسیع زمین

مل کر ہنستے ہیں

تو

مجھے برا کیوں لگتا ہے؟

٭٭٭

 

 

مٹی سونا ہو سکتی ہے!

¬____________________________

 

ہم بھٹکتے رہتے ہیں

اپنے اندر

اور نہیں وا کرتے

ایک دوسرے کی جانب

کھلنے والی کھڑکیاں!

 

محفوظ جنتیں

لوگوں کی آنکھوں سے دور

لپٹی ہوتی ہیں

ویران رستوں کی دھول کے ساتھ

اور جنگلوں کے گھنے درختوں کی

چھتر چھایا میں!

 

معمولات کا عفریت

اندھا ہوتا ہے

نہیں دیکھ سکتا

رو پوش جگہیں

جہاں گلابوں کی فصل اگتی ہے اورجھیلوں میں

چاندنی رقصاں رہتی ہے

اور

جہاں مٹھی بھر خاک سے ڈھلے جسم

سونا ہو جاتے ہیں!

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے