پر شکوہ، با تمکیں، خوش خبر، سُخن آثار
بزمِ شعر گویاں کے بے شریک منصب دار
صاحبِ صدارت کے ساتھ کچھ مصاحب ہیں
اولیں صفوں میں کچھ شہر کے چنیدہ لوگ
پہلی پہلی کاوش پر
طالبِ پذیرائی شاعرہ جھجکتی ہے
ملتجی نگاہوں سے دھیمے دھیمے پڑھتی ہے
’’صدر کی اجازت سے ‘‘
صدر کے لبوں پر ہے اک تبسمِ پنہاں
جنبشِ مژہ پر ہیں صد ہزار ’ہاں‘ قرباں
نظم آگے بڑھتی ہے
اک ادھورے خط ایسی ناتمام کاوش پر
محفلِ سخن بے تاب
دور رس نگاہوں میں شاعرہ کا مستقبل
اک عظیم کل کا خواب
حسنِ صوت، زیر و بم، اک جدا نیا اسلوب
مرحلہ شناسوں کو ہر ادا جچی ہے خوب
گفتگو میں ہیں کتنے ان کہے سخن حیراں
بزم شعر گویاں شاد، ہر نفس ہے نکتہ داں
’’ایسے حبس موسم میں تازہ کار شاعر کا یہ سخن غنیمت ہے‘‘
اور یہ آخری جملہ
صاحبِ صدارت کی صاحبانہ رائے ہے
جس کے بعد چائے ہے
صدر کو اجازت ہے
زینہ زینہ اترے اور
کرسئی صدارت سے بسترِ علالت پر جا گزین ہو جائے
جی ہوا تو سو جائے
تازہ کار شاعر کی پہلی پہلی کاوش کا بول گنگنا لے
یا نیند کی دوا کھا لے
کچھ بھی بن نہ پائے تو
بے شک آج مر جائے
بسترِ علالت تک کرسئی صدارت سے
ہر قدم ہے مستثنیٰ
صدر کی اجازت سے
٭٭٭
عبیرہ احمد کی نظم نے متاثر کیا۔ موضوع یکسر نیا ہے۔ نظم ان گہری پرتوں کو ٹتولتی ہے، جنہیں صاحب ِ صدر ، حاضرین اور رطب للسان مقررۤ اپنی اپنی جاگیریں سمجھتے ہیں۔