چیز چمکیلی سی بیٹھی تھی مرے پھن میں تنی
سنگ اسود کا کوئی ٹکڑا تھا یا پارس منی
کھٹکھٹائیں کس کا در اس شہر کے دریوزہ گر
گانٹھ کے پکے ہیں دونوں، شوُم کیا اور کیا غنی
اک زمرد اب اگلنا ہی پڑے گا وقت پر
بھول سے وہ کیوں نگل بیٹھی تھی ہیرے کی کنی
رات کس کے بخت جاگے تھے، بتا، اے نازنین
آنکھ بھی ہے سوئی سوئی، زلف بھی ہے ان منی
اک اٹھنی بھی نہیں، جیبیں الٹ کر دیکھ لیں
یوں تو اپنے رام ہیں ہر شام قسمت کے دھنی
اک نُچی سی فاختہ تھی صبح کو وہ فاحشہ
رات بیٹھی تھی وہ کوٹھے پر سجی، سنوری، بنی
(ق)
گھر کی ہر اک اینٹ جیسے روکتی ہی رہ گئی
"جاؤ مت، اس وقت، دیکھو، رات ہے کتنی گھنی”
سنگدل تھا پر کپل وستو کا شہزادہ، جسے
روک کب سکتے تھے بچہ اور جیون سنگنی
ہر طرف ہے ہُو کا عالم شہر سب چپ چاپ ہے
الاماں! کیسی ہے گورستان سی یہ سنسنی
پڑھنے والوں کا بھی سینہ چھید ڈالے گی غزل
لفظ ہر اک یوں تنا ہے جیسے نیزے کی انی
٭٭
بول کر سب کو سنا، اے ستیا پال آنند! بول
اپنی رامائن کتھا، اے ستیا پال آنند! بول
تو کہ کامل تھا کبھی، اب نصف سے کم رہ گیا
دیکھ اپنا آئنہ، اے ستیا پال آنند! بول
ایسے گم صم مار مت کھا، اٹھ کھڑا ہو، دے جواب
تان مُکّا، غُل مچا، اے ستیا پال آنند! بول
کیا خموشی کی رِدا اوڑھے ہوئے مر جائے گا؟
سیکھ لے اب بولنا، اے ستیا پال آنند! بول
شہر ہے سوداگروں کا اور تو پتّھر کا بُت
بول کر قیمت بتا، اے ستیا پال آنند! بول
جنّت و دوزخ تو اب ابلیس کی جاگیر ہیں
کس جگہ تو جائے گا؟ اے ستیا پال آنند! بول
ابن مُلجِم پھر کوئی آنے نہ پائے اس جگہ
کربلا کو کر بلا، اے ستیا پال آنند! بول
پڑھنے والوں کا اُجَڈ پن اور نقّادوں کی ڈِینگ
تیری اب قیمت ہے کیا؟ اے ستیا پال آنند! بول
شعر کہنا، سنگ برداری سے بڑھ کر کچھ نہیں
سِسّی فُس کو بھول جا، اے ستیا پال آنند! بول
صرف مُردوں کو ہی ملتی ہے خموشی کی سزا
لب بکف ہو، ہاتھ اُٹھا، اے ستیا پال آنند! بول
سب زبانوں پر ہیں پہرے، شہر اب خاموش ہے
گُنگ ہے ساری فضا، اے ستیا پال آنند! بول
٭٭٭