غزلیں ۔۔۔ ڈاکٹر فریاد آزرؔ

 

حصۂ درد وراثت سے زیادہ ہی ملا

یعنی مجھ کو مری قسمت سے زیادہ ہی ملا

 

غم زمانے کا ذرا سا ہی خریدا تھا مگر

مال مجھ کو مری قیمت سے زیادہ ہی ملا

 

وہ سیاست نے دیا ہو کہ محبت نے تری

زخم اس دل کو ضرورت سے زیادہ ہی ملا

 

لاکھ تدبیر نے خوشیوں کو منایا لیکن

رنج تقدیر کو راحت سے زیادہ ہی ملا

 

ہم جسے یوں ہی سدا چھوڑ دیا کرتے تھے

حاشیہ حسن عبارت سے زیادہ ہی ملا

 

میں حقیقت کا پرستار ہوں لیکن آزرؔ

خواب آنکھوں کو حقیقت سے زیادہ ہی ملا

٭٭٭

 

 

آج کل جیسی تجارت پہ اتر آئے ہیں

اب تو دل والے بھی دولت پہ اتر آئے ہیں

 

جو تھے مخصوص کبھی اور ہی قوموں کے لئے

کچھ عذاب ایسے بھی امت پہ اتر آئے ہیں

 

ماتحت عقل کے اب اور نہیں رہ سکتے

دل کے جذبات بغاوت پہ اتر ائے ہیں

 

کیا بزرگوں میں بھی کچھ خامیاں پائی گئی ہیں؟

آج کیوں بچے نصیحت پہ اتر آئے ہیں؟

 

عرش کیوں ہلنے لگا ہے، کہیں ایسا تو نہیں!

کچھ گنہگار عبادت پہ اتر آئے ہیں

 

 

شہر تو شہر، جہاں شہر کا سایہ بھی نہیں

کیوں پرندے وہیں ہجرت پہ اتر آئے ہیں؟

 

کیا مرا نامۂ اعمال ہی کافی نہیں تھا؟

میرے اعضا بھی شکایت پہ اتر آئے ہیں

 

جن کو جاں بخش کے آزاد کیا تھا ہم نے

اب وہی لوگ شرارت پہ اتر آئے ہیں

 

احتراماً جو مری راہ سے ہٹ جاتے تھے

جانے کیوں بغض و عداوت پہ اتر آئے ہیں

 

روکھی سوکھی پہ سدا شکر ادا کرتے تھے

اب تو ہم لوگ بھی لذت پہ اتر آئے ہیں

 

بے حسی دیکھ کے انسانوں کی اکثر آزرؔ

درد خود اپنی عیادت پہ اتر آئے ہیں

 

استعارہ نہ کہیں رمز و کنایہ آزرؔ

اب سخن ور بھی صحافت پہ اتر آئے ہیں

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے