کبھی طلب، کبھی وحشت، کبھی نمُو نے مری
مجھے کہیں کا بھی رکھا نہ جُستجو نے مری
وہ ہاتھ جس کا دلاسہ ہی میرا سب کچھ تھا
بکھر چکا ہوں تو آیا ہے خاک چھُونے مری
کوئی نصاب نہ مکتب جو بھید کھول سکا
وہ عشق کھولا ہے مجھ پر کتاب رُو نے مری
گریز کر کے زمانے سے ٹھیک رہ جاتا
اُسے خراب کیا دوستی کی خُو نے مری
یہ اور بات میں ہارا کہ سرفراز ہوا
بنا کے راستے چھوڑے ہیں جستجو نے مری
زمانہ کاٹ کے سر سے مُکر گیا تھا سعیدؔ
گواہی دی ہے بالآخر مرے لہو نے مری
مری سخن پہ ہوا لطفِ کوئے میرؔ، سعیدؔ
غزل اٹھائی ہے یارانِ لکھنؤ نے مری
٭٭٭