کیسی بخشش کا یہ سامان ہوا پھِرتا ہے
شہر سارا ہی پریشان ہوا پھِرتا ہے
کیسا عاشق ہے تیرے نام پہ قرباں ہے مگر
تیری ہر بات سے انجان ہوا پھِرتا ہے
ہم کو جکڑا ہے یہاں جبر کی زنجیروں نے
اب تو یہ شہر ہی زندان ہوا پھِرتا ہے
اپنے ہی شہر میں گھوموں مَیں بلا خوف و خطر
زندگی بھر کا یہ ارمان ہوا پھرتا ہے
کیا ستم ہے کہ سبھی زخم لگائے جس نے
اب وہی درد کا درمان ہوا پھرتا ہے
شب کو شیطان بھی مانگے ہے پناہیں جس سے
صبح وہ صاحب ایمان ہوا پھِرتا ہے
جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کر
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھِرتا ہے
٭٭٭
خار تنہائی کے اس دل میں چبھے ہیں کتنے
تیری یادوں کے مگر پھول کھلے ہیں کتنے
یہ محبت، یہ جدائی، یہ تڑپنا ہر پل
ایک انسان ہے اور روگ لگے ہیں کتنے
اک محبت ہی تو دنیا میں نہیں ملتی ہے
ورنہ جسموں کے تو بازار سجے ہیں کتنے
چند کرنیں جو نظر آتی ہیں ان کی خاطر
لوگ تاریکیوں کی بھینٹ چڑھے ہیں کتنے
گُل سے تتلی کو جدا رکھنے کی خاطر حیدرؔ
یار اغیار سبھی ساتھ ملے ہیں کتنے
٭٭٭