ایک ناول، دو تبصرے ۔۔۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی/ متین اشرف

محسن خان کا ناول ’’اللہ میاں کا کارخانہ‘‘ ایک مطالعہ ۔۔۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

قصہ سننا یا سنانا ہر زمانے میں انسان کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ اپنے حالات دوسروں کو سنانا چاہتا ہے اور دوسروں کے حالات جاننا چاہتا ہے۔ قصہ نگاری کی اسی فطری ضرورت کے تحت داستان، ناول، ڈرامہ اور افسانہ مقبول عام اصناف سخن رہی ہیں۔ ناول کی غیر مقبولیت اور افسانہ یا مختصر افسانہ کی مقبولیت کی اہم وجہ زندگی کی تیز رفتاری اور وقت کی کمی بیان کی گئی۔ لیکن اکیسویں صدی کی اس تیز رفتار زندگی میں بھی جب کہ انسان اخبار کی سرخیوں پر ہی اکتفا کرنے لگے ہیں، مختصر افسانے کے شانہ بہ شانہ ناول نے بھی اپنی شناخت برقرار رکھی ہے۔ اور اس وقت کی کمی کے اس المیے والے دور میں بھی اردو کے قاری ایک اچھے ناول کو مکمل پڑھنے اور اردو ناول نگاروں کی جانب سے اچھے ناولوں کے لکھے جانے کے منتظر رہے ہیں۔ اس طرح پتہ چلا کہ اردو میں ناول کو زوال تو نہیں آیا لیکن اردو ناول کے قاری نے ناول کے مطالعے کے لیے یہ پیمانہ رکھا کہ ناول اچھا اور معیاری ہو اور قاری کو مطالعے کے لیے اس قدر باندھے رکھے کہ وہ تیز رفتار زندگی میں بھی اتنا وقت نکال ہی لے کہ وہ اس عہد میں لکھے گئے ایک نسبتاً طویل ناول کو پڑھنے کے لیے تیار ہو۔ اکیسویں صدی میں اردو کے جن ناول نگاروں نے اپنے ناولوں سے نہ صرف ادب میں شناخت بنائی بلکہ قارئین سے بھرپور داد وصول کی ان میں رحمان عباس – روحزِن، نور الحسنین – ایوانوں کے خوابیدہ چراغ، عبد الصمد – شکست کی آواز، ترنم ریاض – برف آشنا پرندے، شمس الرحمان فاروقی – کئی چاند تھے سر آسماں، پیغام آفاقی – پلیتہ، مشرف عالم ذوقی – لے سانس بھی آہستہ، شائستہ فاخری – نادیدہ بہاروں کے نشان، غضنفر – فسون، مانجھی، شموئیل احمد – مہاماری، عمیرہ احمد – پیر کامل، خالد جاوید – موت کی کتاب وغیرہ شامل ہیں۔
اس صدی میں اپنے بھرپور بیانیہ کے ذریعے قاری کو مکمل ناول پڑھنے کے لیے اپنی توجہ مبذول کرانے والے ایک اور ناول نگار محسن خان بھی شامل ہو گئے ہیں جن کا پہلا ناول ’’اللہ میاں کا کارخانہ‘‘ ان دنوں اردو ناول اور فکشن کے باذوق قارئین کی دلچسپی کا باعث بنا ہوا ہے۔ محسن خان بنیادی طور پر بچوں کے ادیب کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اترپردیش کے ملیح آباد لکھنو سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1993ء میں ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’خواب کہانی‘‘ شائع ہوا۔ انہوں نے بچوں کے لیے کہانیاں اور کچھ ڈرامے لکھے۔ اتر پردیش اردو اکیڈیمی کے زیر اہتمام بچوں سے متعلق ان کی کہانیوں کے تین مجموعے شائع ہوئے۔ اور اکیڈیمی کی جانب سے انہیں بچوں کے ادب کے لیے ایک لاکھ روپے کا مجموعی خدمات ایوارڈ بھی دیا گیا۔ ’’اللہ میاں کا کارخانہ‘‘ ان کا پہلا ناول ہے جو ایم آر پبلی کیشنز نئی دہلی کے زیر اہتمام اس سال شائع ہوا ہے۔ ناول کے بیک کور پر جناب نیر مسعود صاحب کا ایک پیغام شائع کیا گیا ہے جو 6 جنوری 1985ء کو لکھا گیا تھا جس میں نیر مسعود نے اس بات کا اظہار کیا کہ ’’اردو ادب کو جن نوجوان لکھنے والوں سے آئندہ کے لیے خوش گوار توقعات ہیں ان میں محسن خان کا نام بہت نمایاں ہے‘‘۔ اور اس خط کے لکھے جانے کے 35 سال بعد جب ہم محسن خان کا ناول ’’اللہ میاں کا کارخانہ‘‘ پڑھتے ہیں تو جناب نیر مسعود صاحب کی بات سچ ثابت ہوتی ہے۔ عام طور پر ناول میں کسی کردار کی زندگی طویل دورانیے پر محیط بیان کی جاتی ہے لیکن محسن خان نے شمالی ہند کے ایک دیہات کے ایسے بچے کی تصویر پر مکمل ناول لکھ دیا جس نے صرف اپنے بچپن کی کچھ بہاریں اور کچھ غم و مایوسی کے سال دیکھے ہیں۔ ناول کے واقعات اور پس منظر میں پیش کردہ باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ناول بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں کے درمیان کے واقعات کو بیان کرتا ہے جب کہ زندگی میں کچھ ایسی تبدیلیاں واقع ہو رہی تھیں جیسے گھروں میں ٹیلی ویژن کی نئی نئی آمد تھی اور گاؤں میں کسی کے گھر ٹیلی ویژن لگ گیا تو سب لوگ اس گھر جا کر بڑی حیرت اور تعجب سے ٹیلی ویژن دیکھا کرتے تھے۔ ناول کی مقبولیت اور دلچسپی اس کا انداز بیان ہے۔ محسن خان نے جبران نامی لڑکے کی سرگزشت پر یہ ناول لکھا ہے۔ جبران ایک روایتی دیہاتی لڑکا ہے جس کے والد ولید مولوی قسم کے تبلیغی ذہن والے فرد ہیں۔ جبران کی ایک بہن نصرت ہے جو سارے ناول میں جبران کے مقابلے میں دانش مندی کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہے جبران کی والدہ ناہیدہ ہیں جو ایک باہمت خاتون کے طور پر بچوں کی پرورش کرتی نظر آتی ہیں۔ جبران ایک دینی مدرسے میں حفظ قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے روز اپنی بہن کے ساتھ مدرسے جاتا ہے۔ مدرسے کے استاذ کو سارے ناول میں جبران حافی جی کہتا ہے جو در اصل حافظ جی مراد ہیں۔ جبران فطرت کا پرستار ہے اور ہر بچے کی طرح وہ بھی بچپن کی ساری شرارتیں کرنا چاہتا ہے۔ جبران پتنگوں کا دیوانہ ہے۔ وہ جی بھر کر پتنگ اڑانا چاہتا ہے۔ جبران غریب ہے۔ لیکن بھرپور زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ جبران کے روز مرہ کے بچپن کے واقعات جو ہر بچے کی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں محسن خان نے اپنے گہرے مشاہدے دلچسپ اسلوب اور واقعاتی بیانیہ کے ساتھ اس انداز میں پیش کیے ہیں کہ بیسویں صدی کی آخری دو تین دہائیوں میں اردو کے جس قاری کا بچپن گزرا ہے، وہ بھی جبران کی صورت میں اپنے آپ کا بچپن محسوس کرتا ہے اور وہ محسن خان کے بیان کردہ تجربات میں اپنے آپ کو شریک محسوس کرتا ہے۔ دینی مدارس کے بچوں کے لیے جمعہ کا دن بہت اہم ہوتا ہے کیوں کہ اس دن ان کی چھٹی ہوتی ہے لیکن جبران کے لیے جمعہ کا دن ملے جلے رد عمل کا تھا اس ضمن میں محسن خان کا انداز بیان دیکھئے۔
’’جمعہ کا دن مجھے اچھا بھی لگتا تھا اور برا بھی۔ اچھا اس لیے لگتا تھا کہ اس دن مدرسے نہیں آنا پڑتا تھا اور برا اس لیے لگتا تھا کہ جمعہ کی نماز کے لیے نہانا پڑتا تھا۔ گرمیوں کی خیر کوئی بات نہیں تھی مگر جاڑوں کے دنوں میں جب جنوری اور فروی کی سردی سے بدن کانپ رہا ہوتا تھا، نہانے کے خیال سے ہی پسینے چھوٹنے لگتے تھے‘‘ (ناول اللہ میاں کا کارخانہ ص۔ ۹)
سردیوں میں نہانے کے خیال سے پسینے چھوٹنا اظہار خیال کا انوکھا انداز ہے۔ چونکہ جبران غریب گھرانے کا لڑکا تھا اس لیے محسن خان نے اپنے مشاہدات کو اس گہرائی سے بیان کیا ہے کہ جبران کے گھر کے ٹوٹے پھوٹے حمام سے بھی اس گھر کی جھلکتی غربت کی منظر نگاری کی گئی ہے۔
محسن خان نے اپنے ناول کا انتساب اللہ میاں کے نام کیا ہے۔ اور دوران ناول جبران کی اللہ میاں سے دلچسپ گفتگو ناول کے نام کی یاد دلاتی رہتی ہے۔ جمعہ کے دن کے بارے میں جبران مزید کہتا ہے۔
’’جاڑوں میں نہاتے وقت میں سوچا کرتا اللہ میاں کو تو یہ بات معلوم ہی ہو گی کہ جاڑوں کے دنوں میں بچوں کو نہاتے وقت کتنی سردی لگتی ہے تو پھر انہوں نے جمعہ کا دن سردیوں میں کیوں رکھا۔ وہ تو اسے گرمیوں میں بھی رکھ سکتے تھے‘‘۔ ( ص۔ ۹) اس طرح کے معصومیت بھرے خیالات سارے ناول کو دلچسپ بناتے ہیں۔
بچے فطرت پسند ہوتے ہیں اور انہیں جانوروں اور پرندوں سے پیار ہوتا ہے۔ سارے ناول میں حافی جی کی بکری کا تذکرہ ہے تو جبران کے گھر مرغیوں کا بیان بھی دلچسپ ہے۔ جبران کے گھر دو مرغیاں سفید چتکبری اور کالی کلو تھی۔ بچے ان مرغیوں کا اچھا خیال رکھتے تھے۔ لیکن ایک دن بچوں کی غفلت اور خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ان کی نظروں کے سامنے ایک بلی کلو کو پکڑ کر لے جاتی ہے۔ جس کا جبران اور اس کی بہن نصرت کو بہت افسوس ہوتا ہے۔ جبران اس موقع پر کہتا ہے کہ اللہ میاں نے مرغی بنائی تو بلی کیوں بنائی۔ نصرت جو کہ سارے ناول میں دانش مند دکھائی دیتی ہے جبران کے معصوم سوال پر کہتی ہے کہ معلوم نہیں کچھ سوچ کر ہی بنائی ہو گی۔ جبران رات میں خواب میں اللہ میاں سے بات کرتا ہے اور ان سے مرغی کے چلے جانے پر اپنے غم کا اظہار کرتا ہے۔ بچے جب کلو مرغی کے غم سے نہیں نکلتے تو جبران کی ماں باہر سے انڈے منگوا کر چتکبری کے لیے رکھواتی ہے کہ اس سے بچے نکلیں گے۔ بچے معصومیت سے اس دن کا انتظار کرتے ہیں جب بچے پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن قدرت کا کرنا ایسا ہوتا ہے کہ مرغی کے بچے ایک ایک کر کے مرتے جاتے ہیں اور بچوں کے غم میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ گھر کے برے معاشی حالات کے دوران چتکبری بھی بیچ دی جاتی ہے اور جنہیں بیچا جاتا ہے وہ اسے کاٹ کر کھا جاتے ہیں اس مرغی کے پروں کو باہر پڑا دیکھ کر بچے غمزدہ ہو جاتے ہیں۔ ناول میں مرغی کے علاوہ چاچا کے پاس موجود کتے قطمیر کے احوال بھی خوب بیان ہوئے ہیں کہ کس طرح بچے اس کتے سے ڈرتے تھے اور بعد میں اس سے بے خوف ہونے لگے۔
دینی مدارس کے اساتذہ کے بارے میں اکثر عوام کی جو رائے ہے، حافی جی بھی اسی انداز کے تھے۔ وہ مدرسے میں پڑھنے آنے والے بچوں سے اپنی خدمت کرواتے تھے۔ اس کے لیے محسن خان نے لکھا کہ ’’چلو بھئی اللہ میاں کو خوش کرنے کے لیے آ جاؤ۔ (حافی جی نے ہم لوگوں کو بتایا کہ تھا کہ والدین اور استاد کی خدمت کرنے سے اللہ میاں خوش ہوتے ہیں۔‘‘) محسن خان نے بچوں سے سوالات کراتے ہوئے سارے ناول میں بہت سی اسلامی تعلیمات بھی فراہم کی ہیں۔ حافی جی کی خدمت کرتے ہوئے ایک لڑکی نسرین ان سے اللہ میاں کے بارے میں اور دنیا کی تخلیق کے بارے میں مختلف سوالات کرتی ہے اور حافی جی اللہ میاں کو خوش کرانے والے کام کے دوران بچوں کو اللہ میاں کے بارے میں بتاتے جاتے ہیں۔ ناول میں جا بجا جبران کی شرارتوں کو دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ جبران حافی جی کے لیے سرتی اور ہاضمولہ لانے جاتا ہے وہ ان کی چونی واپس نہیں کرتا اور وہ چونی چور کے نام سے مشہور ہو جاتا ہے۔ اس واقعہ پر حافی جی اسے جو سزا دیتے ہیں اس کا دلچسپ انداز میں بیان ہوا ہے۔ جبران کو کچھ پیسے ملتے ہیں تو وہ ان سے پتنگ خریدتا ہے۔ نصرت کو اس کے چچا دنیا کے عظیم لوگ کتاب پڑھنے کے لیے دیتے ہیں ناول میں اس کتاب کے مطالعے اور جبران کے کھیلوں کا جا بجا تذکرہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دینی مدارس کے بچوں کے پیچھے شیطان کچھ زیادہ ہی حاوی رہتا ہے۔ جبران ایک دن مدرسہ جانے کے بجائے اپنے دوست کے بہکاوے میں آ کر نٹ کا کھیل دیکھنے چلا جاتا ہے۔ محسن خان نے مداری اور نٹ کے کھیل کے دوران جو منظر نگاری کی ہے، وہ ہر انسان کے بچپن کا حصہ ہے۔ بچپن کی شرارتوں میں گدھے کے پیچھے لوہے کا ڈبا باندھ کر اسے بھگانا بھی مشہور ہے۔ جبران اور اس کے ساتھی ایک مرتبہ یہ حرکت کرتے ہیں جس پر دوسرے دن حافی جی اس سے شدید غصے کا اظہار کرتے ہیں۔
ناول ’’اللہ میاں کا کارخانہ‘‘ میں آدھا حصہ جبران اور اس کے ساتھیوں کی شرارتوں اور بچوں کی نفسیات کے بیان اور درمیان میں ناول نگار کی جانب سے ان کے جذبات کی عکاسی اور فطرت کے بیان پر مشتمل ہے۔ جبران اور اس کے گھر پر اس وقت برے دن آنا شروع ہوتے ہیں جب جبران کے والد تبلیغ کے لیے گھر سے جاتے ہیں اور کافی عرصہ بعد بھی واپس نہیں آتے اور ان کے بارے میں اطلاع دی جاتی ہے کہ انہیں دہشت گردوں سے تعاون کے ضمن میں پولس نے گرفتار کر لیا ہے۔ محسن خان نے اس ناول کے پلاٹ اور واقعات کو عصر حاضر سے جوڑنے کے لیے ہندوستان اور عالمی سطح پر مسلمانوں پر ہو رہے مظالم کی جانب بھی اشارہ کیا ہے۔ جبران کی والدہ حاملہ تھیں اور اکثر پیٹ کے درد کے عارضے میں مبتلا رہتی تھیں۔ معاشی تنگی میں جب رمضان کے دن شروع ہوتے ہیں تو چاچا ان کی ہر لحاظ سے مدد کرتے ہیں۔ کچھ دن اپنے شوہر کے انتظار میں اور گھر کی معیشت کو سنبھالتے سنبھالتے جبران کی ماں زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ جبران کے چاچا بچوں پر رحم کرتے ہیں۔ انہیں اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد چاچا بھی اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔ چاچی ان یتیم بچوں کی پرورش کرتی ہے۔ چاچا کے گھر میں رہتے ہوئے معصوم جبران اپنے جیب میں ایک عریاں خاتون کی تصویر رکھنے کے جرم میں چاچی کی جانب سے گھر سے نکال دیا جاتا ہے۔ جبران حافی جی کی صحبت میں رہنے لگتا ہے جس کی ذمہ داری ان کی بکری کو چرانا ہے۔ جبران قبرستان لے جا کر روز بکری چراتا تھا اور اپنی ماں کی قبر پر کتبہ لگا کر ماں سے محبت کا اظہار کرتا ہے۔ وقت کے بہاؤ کے ساتھ حافی جی کہتے ہیں کہ وہ گاؤں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ بقر عید کے موقع پر وہ بکری قربان کر دی جاتی ہے جس کا ذکر سارے ناول میں ہے کہ کس طرح وہ روز چارے کی کمی سے آوازیں نکالتی رہتی تھی اور جبران اس بکری کو چرانے کے لیے روز اسے قبرستان لے جاتا تھا۔ جس دن حافی جی جبران کو چھوڑ کر جانے والے تھے اس دن جبران کو کافی بخار رہتا ہے۔ نیند میں وہ خواب دیکھتا ہے کہ ماں اس سے کہہ رہی ہے ’’جبران تم کو تو بہت تیز بخار ہے۔ یہاں اکیلے ہو۔ اٹھو میرے ساتھ چلو۔ وہاں چچا جان اور قطمیر بھی تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ رات بہت ہو چکی ہے۔ چراغ کی روشنی بھی کم ہو رہی ہے۔ شاید تیل ختم ہو رہا ہے۔‘‘ جبران کی زندگی کے اس المیے کے بیان کے ساتھ ایک غمزدہ ماحول میں ناول کا اختتام عمل میں آتا ہے۔
ناول ’’اللہ میاں کا کارخانہ‘‘ میں صفحات کے درمیان فکر انگیز بیانات شامل کیے گئے ہیں جس سے ناول کا انداز واعظانہ ہو جاتا ہے۔ ناول کے آخر میں لکھا گیا ہے کہ ’’تم چاہے جتنی کوششیں کر لو ہو گا وہی جو اللہ میاں چاہیں گے‘‘۔ ناول میں جگہ جگہ فطری انداز بیان اور ناول نگار کی گہری جزئیات نگاری کی مثالیں ملتی ہیں۔ جبران کے خواب و خیال میں پتنگ ہی ہوتی تھی اور پڑھتے پڑھتے وہ پتنگ اڑانے اور انہیں لوٹنے کی ترکیبیں سوچا کرتا تھا۔ حافی جی نے بچوں کو سزا دینے کے لیے جو چھڑی رکھی تھی اس کا نام عبرت کی چھڑی تھا۔ ایک دفعہ غلط سبق سنایا تو حافی جی جبران سے کہتے ہیں ’’ لگتا ہے تمہارے دماغ کا پٹرول ختم ہو گیا ہے ڈالنا پڑے گا اور عبرت کی چھڑی اٹھا کر سٹاک سے میری جانگھ پر ماری۔ اس کے بعد پھر وہی سبق دہراکے کہا اگر اب کے یاد نہ کیا تو دماغ کے پرزے کھول کر اوور ہالنگ بھی کر دوں گا۔ بے شرم لومڑ ہو چکے ہو اور ابھی تک پانچویں سپارے میں اٹکے ہوئے ہو تم کو تو اب تک قرآن حفظ کر لینا چاہئے تھا‘‘۔ (ص ۳۵)۔ نصرت کے چاچا جب اسے دنیا کے عظیم لوگ نامی کتاب پڑھنے دیتے ہیں تو نصرت کے والد ولید جو دنیا داری کے مقابلے میں دین داری کو ترجیح دیتے تھے، بچوں سے کہتے ہیں کہ اس کتاب میں ان لوگوں کی باتیں لکھی ہوئی ہیں جنہوں نے ہوائی جہاز، ریل، موٹر، ٹی وی اور بہت سی چیزیں بنائی ہیں۔ اس کے بعد وہ بچوں کو ’’مرنے کے بعد کیا ہو گا‘‘ نامی کتاب دیتے ہیں اور کہتے ہیں اس کے پڑھنے سے تمہارے دلوں میں اللہ کا خوف پیدا ہو گا اور کبھی کوئی برا کام نہیں کرو گے۔ جبران تو کتابوں سے دور بھاگتا تھا۔ نصرت بھی وہ کتاب تکیے کے نیچے رکھ دیتی ہے۔ اس طرح محسن خان نے واضح کیا کہ بچوں کو ان کی فطرت کی مناسبت سے تربیت کا سامان فراہم کرنا چاہئے۔
ناول میں قدامت پرستی اور جدت پرستی کا تقابل بھی دکھایا گیا ہے کہ ولید کے گھر میں قدامت پرستانہ ماحول تھا تو اس کے بھائی یعنی بچوں کے چاچا کے گھر میں ٹیلی ویژن فریج اور کتا سب کچھ تھا۔ جس کا کوئی نہیں اس کا تو خدا ہوتا ہے کہ مصداق ناول میں محسن خان نے فطری انداز میں بیان کیا کہ ولید کے تبلیغی دورے پر جانے اور پولس کی جانب سے گرفتاری کے بعد مصیبت کے مارے اس گھرانے کی مدد کے لیے خالہ چاچا چاچی اور گاؤں والے سامنے آتے ہیں۔ ناول کے ابتدائی حصے میں جبران حافی جی کی سختیوں کا شکار ہوتا ہے لیکن جب وہ یتیمی کے داغ کا دھبہ لیے چاچی کی جانب سے گھر سے نکال دیا جاتا ہے تو حافی جی ایک سرپرست کی طرح اسے آسرا دیتے ہیں۔ اس کے کھانے اور تربیت کا اہتمام کرتے ہیں۔ اسے سائیکل چلانا سکھاتے ہیں اور زندگی کے سفر میں اسے آگے بڑھنے کے گُرسکھاتے جاتے ہیں۔
ناول ’’اللہ میاں کا کارخانہ‘‘ جبران کی شکل میں ہر اس بچے کا المیہ ہے جو اپنا بچپن بھرپور طور پر نہیں جی سکتے اور ان کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ یہ دنیا اللہ میاں کا بنایا ہوا کارخانہ ہے جس میں وہی ہوتا ہے جو اللہ میاں چاہتے ہیں۔ لیکن جبران جیسا معصوم بچہ جب اپنی خواہشات کے خلاف چیزوں کو ہوتے دیکھتا ہے تو وہ اللہ میاں سے شکوہ کرتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا، ایسا کیوں نہیں۔ جبران کی معصومیت، زندگی کا جبر، متوسط مسلم گھرانے کی تگ و دو‘ولید کی شکل میں اللہ پر بھروسے اللہ کی راہ میں نکل پڑنا اور گرفتاری کی شکل میں اللہ کے امتحان میں پڑ جانا، حافی جی جیسے کردار جو بچوں کو نہ دین کے بناتے ہیں اور دنیا کے، اور ان کی زندگی یوں ہی بے معنی رہ جاتی ہے۔ جبران، نصرت، نسرین اور دیگر بچوں کی معصومیتیں، گاؤں والوں کو اپنا اپنا رویہ یہ سب ناول کا حصہ ہیں اور کہیں بھی نہیں لگتا کہ کوئی چیز غیر ضروری ہے۔
محسن خان کے بیان میں ایک قسم کا لوچ ہے وہ قاری کو اپنے اسلوب اور ناول کے واقعات کی جذباتیت سے باندھ کر رکھتے ہیں۔ ایک چالیس پچاس سالہ شخص جب اس ناول کو پڑھتا ہے تو اسے اپنا بچپن اپنی آنکھوں کے سامنے نظر آتا ہے۔ محسن خان نے بچوں کی فطرت اور ان کے مشاہدے کو باریک بینی سے بیان کیا ہے کہ بچے کس طرح سوچتے ہیں ان کے معصوم سوال کیسے ہوتے ہیں اور بڑے کیسے ان پر رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ ناول میں خوبصورت تشبیہات، واقعات کر برملا بیان اور زندگی کا دھیما پن ناول کو قاری کے لیے دلچسپ بناتا ہے۔ چونکہ ناول کا انجام زندگی کے المیہ پر ہوتا ہے اس لیے یہ ناول جبران کی طرح قاری کو بھی غمزدہ کرتا ہے اور اس کا اثر دیر پا رہتا ہے۔ اردو ناول کے اس نئے دور میں جب کہ اچھے ناول نگاروں کے منتخب ناول ہی اپنے معیار کے سبب پڑھے جا رہے ہیں اور ناول کی تاریخ کا حصہ بن رہے ہیں محسن خان کا یہ ناول ’’اللہ میاں کا کارخانہ‘‘ ایک شاندار اضافہ ہے۔ ناول میں پلاٹ کے اعتبار سے جھول کم ہے۔ زندگی کی ترقی کو ٹیلی فون، ٹیلی ویژن اور دیگر مادی ترقی سے واضح کیا گیا ہے۔ اس ناول میں جبران نامی بچے کا حال بیان کیا گیا ہے لیکن یہ کسی بھی لحاظ سے بچوں کا ناول نہیں ہے کیوں کہ دو سو صفحات پر مبنی یہ بیان بڑے ہی پڑھ سکتے ہیں لیکن اگر کوئی والدین بچوں کی دلچسپی کے لیے اس ناول کے ابتدائی حصے بچوں کو پڑھ کر سنائیں تو ان کے لیے کچھ دلچسپی کا باعث ہو سکتا ہے۔ اردو ادب کے وہ قاری جو عشق، دولت، حرص اور لالچ، عیاری، مکاری اور دیگر ظاہری باتوں پر مبنی افسانے اور ناول پڑھنے سے اکتا گئے ہوں تو ایک صاف ستھری زندگی سے قریب تحریر پڑھنا چاہیں تو ان کے لیے یہ ناول ایک قیمتی تحفہ سے کم نہ ہو گا۔ اس ناول کے جب سے سوشل میڈیا پر چرچے ہوئے ہیں احباب کی فرمائش پر ناول نگار نے بہ طور تحفہ یہ ناول انہیں مطالعے کے لیے فراہم کیا ہے۔ میں بھی محسن خان کا مشکور ہوں کہ میری فرمائش پر انہوں نے یہ ناول مجھے فراہم کیا اور اردو ادب کے قارئین کے لیے یہ بات باعث حیرت ہونی چاہئے کہ میں نے یہ ناول ایک ہی شام سات سے آٹھ گھنٹوں میں پڑھ لیا اور بعد میں بھی اس کے صفحات کی ورق گردانی کرتا رہتا ہوں۔
ناول کے حصول کے خواہش مند قاری اس ناول کو ایم آر پبلی کیشنز نئی دہلی اور ناول نگار محسن خان سے فون نمبرات 9335453034-9005485077 سے حاصل کر سکتے ہیں۔
٭٭٭

محسن خان کا ناول ’’اللہ میاں کا کارخانہ‘‘ ۔۔۔ متین اشرف

 

ایک وقت تھا جب طویل قصے مافوق الفطری عناصر کے ساتھ دلچسپی سے پڑھے اور سنے جاتے تھے۔ وقت نے کروٹ بدلی سائنس کی ترقی ہوئی تو داستان رخصت اور طویل حقیقی قصے نے اس کی جگہ لے لی۔ ناول سے مراد ایک ایسی نثری اور حقیقی کہانی ہے جو عملی زندگی کا مکمل آئینہ دار ہو اور جس میں کسی مخصوص دور کے حقیقی انسانی زندگی کے جُملہ پہلوؤں کو مُفصل، مربوط اور دل کش پیرائے میں بیان کیا جائے۔
موجودہ دور میں معیاری ناول پڑھنے والوں، اچھا اور معیاری ناول لکھنے والوں دونوں میں کمی آ گئی ہے۔ بہت کم ایسے لوگ ہیں جو ادبی سرمایہ میں اضافہ کا سبب بن رہے ہیں۔ ان چند لوگوں میں محسن خان کا نام کافی نمایاں ہے۔ وہ اس وجہ سے کہ ان کا مشاہدہ کافی گہرا ہے۔ ان کے یہاں بیانیہ کی جدید تکنیک ملتی ہے
اور ساتھ ہی ایک منظر کو آسان الفاظ میں قاری کے سامنے لانے کا دلچسپ انداز بھی۔
محسن خان کی بچوں کے لیے گیارہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ اور ان کا نام بھی اسی وجہ سے لیا جاتا ہے کہ بچوں کی نفسیات سے متعلق جو طرز اور بیان انہوں نے منتخب کیا، وہ دوسروں سے آپ کو ممتاز کرتا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ایک افسانوی مجموعہ “خواب کہانی” بھی ہے جس کو کافی سراہا گیا.
نیر مسعود نے اس خط میں، جو 6 جنوری 1985ء کو لکھا گیا، اس بات کا اظہار کیا کہ
’’اردو ادب کو جن نوجوان لکھنے والوں سے آئندہ کے لیے خوش گوار توقعات ہیں ان میں محسن خان کا نام بہت نمایاں ہے‘‘۔
اور اس خط کے لکھے جانے کے 35 سال بعد جب ہم محسن خان کا ناول ’’اللہ میاں کا کارخانہ‘‘ پڑھتے ہیں تو جناب نیر مسعود صاحب کی بات سچ ثابت ہوتی ہے۔
اس ناول میں محسن خان کا انداز بیان اتنا لطیف ہے کہ بیسویں صدی کی آخری دو تین دہائیوں میں اردو کے جس قاری کا بچپن گزرا ہے وہ بھی جبران کی صورت میں اپنے آپ کا بچپن محسوس کر سکتا ہے۔
ناول کا مرکزی کردار جبران ہے، جو پتنگ کا شوقین، نو ٹنکی کا دلدادہ، دادی اور حافظ جی کے پیسے مارنے میں ماہر اور چونی چور کے نام سے مشہور۔
وہ ان تمام تر شرارتوں کے باوجود بلکہ با وصف ناول میں قاری کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ معصومیت بھرے خیالات سارے ناول کو دلچسپ بناتے ہیں۔
جبران کے سوالات ’مرغی بنائی تو بلی کو پیدا کیوں کیا؟‘ اور ’جاڑوں کے دنوں میں جمعہ کے دن کو اگر رکھنا ہی تھا تو دھوپ کا ہی بھرپور انتظام کیوں نہیں کیا؟‘ اس کی موصومیت کے مظہر ہیں۔
اس ناول میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ بچے فطری طور سے جانوروں سے انسیت رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں حافی جی کی بکری کا تذکرہ ہے تو جبران کے گھر مرغیوں کا بیان اور قطمیر کتے کا تزکرہ ملتا ہے۔
ناول میں متوسط گھرانے کی غربت کا نقشہ بحسن و خوبی کھینچا گیا ہے، جس میں ایسے مناظر کا بیان ہے کہ جب دوسرے لوگ تہوار پر خوش ہوتے ہیں تو جبران کے گھر والوں کا پریشان ہوتا ہے۔
گھر کے برے معاشی حالات کے دوران چتکبری مرغی کا بھی بیچا جانا، جبران کے گھر کے ٹوٹے پھوٹے حمام سے بھی اس گھر کی غربت کا جھلک جانا اور ماں کی طرف سے کھانے کے وقت ایک بوٹی لینے کی تاکید کرنا، یہ سب وہ مناظر ہیں جو اس معاشی بحران کی شکل آنکھوں کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔
محسن خان نے اس ناول کے پلاٹ اور واقعات کو عصر حاضر سے جوڑنے کے لیے ہندوستان اور عالمی سطح پر مسلمانوں پر ہو رہے مظالم کی جانب بھی اشارہ کیا ہے۔ ایسے وقت میں پولس کا رویہ کیسا ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہے، مگر محلے اور خاندان والے کس طرح ان حالات میں خود کو پیچھے کر لیتے ہیں، یہ بھی دکھایا گیا ہے۔
ناول میں اس بات کی طرف طرف بھی اشارہ ہے کہ دین و دنیا دونوں کی تعلیم ضروری ہے، ولید، یعنی جبران کے والد کا گھر دینی تعلیم کا گہوارہ ہے تو عصری تعلیم سے نا بلد، ان کے بھائی کا گھرانہ دنیاوی اعتبار سے اچھا تو دین سے دور۔
مجموعی طور سے یہ دو سو صفحات پر مشتمل ناول اپنے موضوع اور بیان کے لحاظ سے کافی کامیاب ہے۔
ناول کے آخر میں لکھا گیا ہے کہ ’’تم چاہے جتنی کوششیں کر لو ہو گا وہی جو اللہ میاں چاہیں گے‘‘ اور یہی اس ناول کا مرکزی خیال ہے۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے