دو غزلہ ۱
آنکھوں میں ہوں سراب تو کیا کیا دکھائی دے
پانی کے درمیان بھی صحرا دکھائی دے
بینائی رکھ کے دیکھ مری، اپنی آنکھ میں
شاید تجھے بھی درد کی دنیا دکھائی دے
دنیا نہیں نمائشِ میکانیات ہے
ہر آدمی مشین کا پرزہ دکھائی دے
آدم غبارِ وقت میں شاید بکھر گیا
حوّا زمینِ رزق پہ تنہا دکھائی دے
۔ ق ۔
جس انقلابِ نور کا چرچا ہے شہر میں
مجھ کو تو وہ بھی رات کا حربہ دکھائی دے
نکلو تو ہر گلی میں اندھیرے کا راج ہے
دیکھو تو کچھ گھروں میں اُجالا دکھائی دے
۔۔۔۔
شطرنج ہے سیاست ِ دوراں کا کھیل بھی
حاکم بھی اپنے تخت پہ مہرہ دکھائی دے
۔۔۲۔۔
مجھ کو درونِ ذات کا نقشہ دکھائی دے
آئینہ وہ دکھاؤ کہ چہرہ دکھائی دے
آدابِ تشنگی نے سکھائے ہیں وہ ہنر
پیاسے کو مشتِ خاک میں کوزہ دکھائی دے
ایسی رہی ہیں نسبتیں دیوارِ یار سے
کوئے ستم کی دھوپ بھی سایا دکھائی دے
ہر لب پہ حرفِ وعظ و نصیحت ہے شہر میں
ہر شخص آسمان سے اُترا دکھائی دے
افشاں کسی کسی میں ہی انوارِ فیض ہے
ویسے تو ہر چراغ ہی جلتا دکھائی دے
اُن کے ورق ورق پہ ہے نامِ خدا رقم
جن کی کتابِ زندگی سادہ دکھائی دے
تمثیل گاہِ وقت میں بیٹھے ہیں منتظر
پردہ اُٹھے تو کوئی تماشا دکھائی دے
دنیا فریب زارِ نظر ہے عجب ظہیرؔ
آنکھیں نہ ہوں تو خاک بھی سونا دکھائی دے
٭٭٭
دو غزلہ ۲
عشق پھر سے مجھے نیا کر دے
ہر بھرے زخم کو ہرا کر دے
آسرا چھین لے مسیحا کا
مجھے مرہم سے ماورا کر دے
زہر بننے لگا ہے سناٹا
شور مجھ میں کوئی بپا کر دے
میں اک آشوبِ اعتبار میں ہوں
اپنی آنکھیں مجھے عطا کر دے
ترے رستے میں ہم سفر کیسا
مجھے سائے سے بھی جدا کر دے
میں مکمل بھی ہو ہی جاؤں گا
تو کسی روز ابتدا کر دے
۔۔۲۔۔
جذبۂ شوق! انتہا کر دے
ہر تمنا کو بے صدا کر دے
قید اپنی انا کے بُت میں ہوں
کوئی توڑے مجھے، رہا کر دے
عمر گزری مری کٹہرے میں
زندگی اب تو فیصلہ کر دے
قد گھٹا دے مری نظر میں مرا
یا الہٰی مجھے بڑا کر دے
فخر کرتی ہے آدمی پہ حیات
جب کسی کا کوئی بھلا کر دے
میرے سر پر نہیں رہے ماں باپ
کوئی میرے لئے دعا کر دے
ہے مبارک وہ سانحہ جو ظہیؔر
بے نواؤں کو ہم نوا کر دے
٭٭٭