قہوہ خانے کے سامنے پہنچ کر ہما رک گئی۔ اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا سامنے ایک چھوٹی سی حویلی نما عمارت تھی جس کے کنگورے، بلند دروازہ، کھڑکیاں، گنبد اور محرابیں صدیوں پرانی کہانی سنا رہے تھے۔ کچھ سال پہلے تک یہ صرف قہوہ خانہ تھا اب اس میں کئی اضافے ہو گئے تھے۔ وہ اندر جانے ہی والی تھی کہ پیچھے سے شمع نے اس کے کندھے پر ہاتھ مارا۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش ہوئیں اور مصافحہ کیا۔ قہوہ خانے میں داخل ہونے کے لیے دونوں سیڑھیوں کی طرف بڑھیں۔ ہما نے اپنا قدم پہلی سیڑھی پر رکھا تو برقعے میں سے اس کی Jeans جھانکنے لگی جسے شمع نے دیکھ لیا تھا۔
’’ہما … تم ابھی بھی پرانے دنوں میں جی رہی ہو۔ ہم سب تو سٹانگس ((Stockings پہنتے ہیں۔‘‘ شمع نے سمجھانے کے انداز میں کہا۔ لیکن ہما کچھ جواب دیتی اس سے پہلے دونوں سیڑھیاں چڑھ چکی تھیں۔
سب سے پہلے قہوہ خانہ اور ریستوراں تھا اس کے بعد بڑا سا ریتیلا صحن جس میں کہیں کہیں پتھر بھی پڑے ہوئے تھے اور کچھ کھجور کے پیڑ بھی تھے۔ ایک طرف کچھ عارضی مگر خوبصورت دکانیں لگی ہوئی تھیں۔ کسی میں تکّا بوٹی اور کباب بھونے جا رہے تھے جس میں بعض اوقات انگاروں سے شرارے چھوٹ جاتے اور بھنے ہوئے گوشت کی خوشبو اپنی طرف مائل کرتی۔ کسی دکان میں قسم قسم کے مشروبات مثلاً خس، روح افزا اور کیوڑہ کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ کسی دکان پر اعلی قسم کی کھجوریں دل کو لبھا رہی تھیں۔ ایک کھجور کے پیڑ کے نیچے کمسن لڑکی دف بجا رہی تھی جس کا ساز صدیوں پرانی قبائلی تہذیب کی یاد تازہ کر رہا تھا۔ اس موسیقی میں ایک قسم کا سرور تھا۔ ہما کو اس کا دف بجانا اچھا لگ رہا تھا لیکن شمع اس کا ہاتھ پکڑ کر عورتوں کی مجلس کی طرف لے گئی جہاں انھیں معاشرے میں ان کی اہمیت اور وقعت پہچاننے، اپنے ہنر کو رائگاں نہ جانے دینے اور خود کفیل بننے پر زور دیا جا رہا تھا۔ ایک عورت جو یہ باتیں کسی واعظہ کی طرح بتا رہی تھی، اس نے مکمل پردہ کیا ہوا تھا۔ باقی عورتیں چہرہ کھولے ہوئے اس کی باتیں دھیان سے سن رہی تھیں اور ان کے سر کی جنبشوں، حرکات اور چہرے کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ وہ ان باتوں پر فوری عمل کرنے والی ہوں۔ ہما وہاں سے ہٹ کر اس کمسن لڑکی کا دف سننے لگی اور خوش ہو کر ایک نوٹ بھی اس کی طرف بڑھا دیا۔ پھر وہ ان عورتوں کے پاس جا کھڑی ہوئی جو کباب اور تکّے سینک رہی تھیں۔ خود کفیل بننے والا جملہ ایک بار پھر اس کے کانوں میں گونجا اور اس بار وہ اس کا اصل مطلب سمجھی تھی۔
’’جی بی بی‘‘ کباب والی خاتون نے کہا۔
ہما نے کچھ کہے بغیر بے خیالی میں ایک ٹوکن اس کی طرف بڑھا دیا۔ ٹوکن لینے کے بعد وہ خاتون تیزی سے اپنے کام میں مصروف ہو گئی اور ہما اس کے ہاتھوں کو بغور دیکھتی رہی۔
کچھ دیر بعد اسے احساس ہوا کہ مجلس میں وہ عورت بہت کار آمد باتیں بتا رہی تھی۔ وہ مجلس کی طرف بڑھی لیکن معلوم ہوا کہ وہ جا چکی ہے۔ ہما نے اس کا نام پتا اور فون نمبر جاننے کی کوشش کی لیکن کچھ بھی نہیں مل سکا۔ قہوہ خانے کے اسٹاف سے صرف اتنا معلوم ہو سکا کہ انھیں آپا کہتے ہیں۔ قہوہ خانہ اصل میں ایک قسم کا لیڈیز کلب تھا۔
’’… ہما آپ کو کام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے تو آپ مجھ سے کہیے۔ آپ میری شریک حیات ہیں اور آپ کی ضروریات کا خیال رکھنا میری ذمہ داری ہے۔‘‘
’’نہیں محسن… آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں بل کہ میں تو اپنے دم پر کچھ کرنا چاہتی ہوں، کچھ بننا چاہتی ہوں اور معاشرے میں اپنا مقام بنانا چاہتی ہوں۔ کوئی بھی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا پہلے میں کچھ چھوٹا ہی کروں گی بعد میں بڑا ہو جائے گا۔‘‘
محسن اپنی بیوی کی باتیں سن کر جز بز ہوا اور تمام طرح کے خدشات نے اسے گھیر لیا۔ اس لیے اس نے کام کی نوعیت نہیں پوچھی اور نہ ہی چہرے پر کوئی ایسا تاثر آنے دیا جس سے اس کی بیوی کے چہرے کی رونق میں کمی واقع ہوتی۔ آخر اسے ماننا تو تھا ہی۔
ٹیرس پر اس وقت دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ اندھیرا اور خنکی دونوں ہی بڑھ رہے تھے۔ شہر کی تمام عمارتوں کی کھڑکیاں روشن ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ پہاڑوں پر بنے ہوئے گھر بھی اندھیری رات کے تاروں کی مانند چھٹکے ہوئے نظر آنے لگے تھے۔ شاہراہوں پر دوڑتی ہوئی گاڑیاں روشنی کی لکیریں کھینچ رہی تھیں اور شہر کے باہر کی جھیل میں اب بھی کچھ اسٹیمر ٹمٹما رہے تھے۔
محسن نے ہما کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا، ’’جیسا آپ چاہیں۔‘‘
’’خوش… ؟‘‘ محسن مسکرایا۔
’’بہت… ‘‘ ہما خوش ہوئی اور محسن سے لپٹ گئی۔
کچھ دن بعد صبح کے وقت محسن پارکنگ میں پہنچا اسے اپنے دفتر جانا تھا۔ کار کا دروازہ کھول ہی رہا تھا کہ اسے ایک ہارن سنائی دیا۔ مڑ کر دیکھا تو ایک Cab اسی کی طرف چلی آ رہی تھی جسے کوئی پردہ نشین ڈرائیو کر رہی تھی۔ اس نے باہر نکل کر جلدی سے کار کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا، ’’بیٹھیے جناب، Quick Cab میں آپ کا خیر مقدم ہے۔‘‘
پہلے تو اس نے خاتون کو اوپر سے نیچے تک دیکھا جس نے سر تاپا خود کو برقعے میں ڈھکا ہوا تھا پھر جیسے اچانک سے اس کے ذہن میں آیا کہ یہ تو ہما ہے۔
’’یہ سب کیا ہے ہما … ؟‘‘ کار میں بیٹھتے ہوئے محسن نے پیار سے پوچھا۔
’’مجھے کار تو آپ نے سکھا ہی دی تھی … تو سوچا کیوں نہ Cab Driver ہی بن جاؤں۔ میں آسمان کی بلندیوں تک جانا چاہتی ہوں اور ایک دن بڑی کامیابی حاصل کروں گی کہ مجھے دیکھ کر آپ کو فخر محسوس ہو گا۔ میری خواہش تھی کہ سب سے پہلے آپ کے لیے Drive کروں اس لیے میں نے خود ہی بُک کر دی تھی اور کسی طرح مجھے میری من چاہی سواری لے جانے کی اجازت بھی مل گئی۔‘‘
اپنی بیوی کو کیب ڈرائیور کے روپ میں دیکھ کر محسن کے چہرے پر ناگواری تو آئی لیکن وہ کچھ کہہ نہ سکا بل کہ خود پر جبر کرتے ہوئے مبارکباد بھی دی۔ محسن کی غیر اطمینانی کو دیکھ کر ہما نے کہا…
’’محسن… آپ کا فکر کرنا مجھے اچھا لگتا ہے لیکن آپ بالکل بھی پریشان نہ ہوں میں اپنا خیال رکھوں گی اور ٹھیک سے ڈرائیو کروں گی۔‘‘
محسن اپنے دفتر پہنچنے کے بعد Cab سے باہر آیا اورہما کو سمجھانے لگا کہ ’’گاڑی تیز مت چلانا، اپنا خیال رکھنا اور اگر کوئی دقت… ‘‘ اتنے میں ہما کے موبائل فون پر پیغام موصول ہونے کی ٹون بجی جس میں اس کی گاڑی میں بیٹھنے والی اگلی سواری کا لوکیشن تھا۔ وہ محسن کی پوری بات سنے بغیر ہی خدا حافظ کہتے ہوئے تیز رفتار گاڑیوں کی بھیڑ میں گم ہو گئی۔
ایک دن ہما نے موبائل فون کی اسکرین پر برآمد ہونے والے پیغام کی لوکیشن دیکھی، اس کی نظر نام پر بھی پڑی۔ ’’شمع… ‘‘ کہتے ہوئے وہ مسکرائی پھر سوچا کہ شاید کوئی اور ہو۔ جب اس لوکیشن پر پہنچی تو ایک پردہ نشین خاتون کو دیکھ کر اس کی خوشی دوبالا ہو گئی۔ ’’شمع… !‘‘
’’ہما… تم! اچھا ہوا مل گئیں آج میں فون کرنے ہی والی تھی۔‘‘ شمع نے دروازہ کھولا اور ہما کے برابر آگے کی طرف ہی بیٹھ گئی اور Cab چل پڑی۔
’’Cab چلانے میں مزہ تو آ رہا ہے نا؟‘‘ شمع نے پوچھا۔
’’ہاں … گھر پر بیٹھ کر بور ہونے سے تو بہتر ہے۔ اچھا تم سناؤ کیا کر رہی ہو آج کل … ؟‘‘ ہما نے جواب دیتے ہوئے پوچھا۔
’’میں تو ایک بڑے کام میں مصروف ہوں۔ اپنے ہی شہر میں ایک Fashion Week ہونے والا ہے۔ اس میں ایک Event برقعے کی نمائش کے لیے بھی ہے جس میں Model برقع پہن کر Ramp پر چلیں گی۔ اس کی Themeہے ”Burqa on the ramp”۔ اسی کے لیے لڑکیاں چاہئے اور انھیں تیار بھی کرنا ہے۔ ویسے ہما تم کیوں نہیں Try کرتیں … ؟
’’میں … ‘‘
’’ہاں تم… شادی کے بعد بھی کتنی Fit ہو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ تمہاری شادی بھی ہوئی ہے۔‘‘
شمع کی تعریف پر ہما تشکر آمیز انداز میں مسکرائی۔
’’ہما تم کر سکتی ہو بس میرے پاس وقت نکال کر آنا، تمہیں اپنی Trainer سے ملواؤں گی۔ تم ایک ماڈرن زمانے کی تعلیم یافتہ لڑکی ہو۔ تمہارے اندر جذبہ اور ہمت ہے۔ دبئی، کویت اور پاکستان میں ہر سال Burqa Fashion Show کا اہتمام کیا جاتا ہے تو ہم کیوں نہیں کر سکتے۔ بس تم Jeans کے بجائے Stockings پہننا شروع کر دو‘‘ کہتے ہوئے شمع نے ہما کے کندھے پر ہاتھ مارا اور زور سے ہنسی لیکن ہما نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔
’’مجھے موقع ملے تو میں فلموں کے لیے بھی ماڈلنگ کر لوں۔‘‘ شمع نے پر جوش انداز میں کہا۔
اس بار ہما نے اسے اجنبیت سے دیکھا اور اپنی نظریں سڑک پر مرکوز کر دیں۔ کچھ دیر خاموشی رہی۔ شمع کی منزل بھی عنقریب تھی۔ گاڑی رکنے سے پہلے ہی ہما نے کہا:
’’کیا تم واقعی فلموں میں جانا چاہتی ہو؟ اور یہ برقع … یہ تو وہاں نہیں چلے گا۔‘‘
ہما کی یہ بات شمع کو اچھی نہیں لگی۔ گاڑی رک چکی تھی۔ وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اتری اور جانے ہی والی تھی پھر کچھ سوچ کر ہما کی طرف پلٹی اور بڑے سکون سے کہا:
”This is not abaya.
This is gown.
The black gown.”
اتنا کہہ کر اس نے Cab کا دروازہ زور سے بند کیا اور سامنے کی عمارت میں تیزی سے گھس گئی۔ ہما اسے جاتا ہوا دیکھتی رہی۔ اسے شمع کی کچھ باتیں ٹھیک بھی لگی تھیں۔ آنکھیں بند کر کے وہ کچھ سوچنا چاہتی تھی کہ تبھی اس کے موبائل فون میں پیغام موصول ہونے کی ٹون بج اٹھی۔
محسن اپنے دفتر میں کام تو کر رہا تھا لیکن اسے اپنی بیوی کی بھی فکر بھی لگی رہتی تھی۔ وہ کمپنی کے پر وقار عہدے پر فائز تھا۔ مالی حالت اچھی تھی اس کے باوجود بیوی کا کام پر جانا اور Cab Driver کا پیشہ اختیار کرنا اسے پسند نہیں آیا۔ لیکن وہ ایک ذمہ دار شہری اور عورتوں کی عزت کرنے والا شوہر تھا۔ کب کس بات پر اسے تنگ نظری کا تمغہ مل سکتا تھا، یہ اسے خود بھی نہیں معلوم تھا۔ ایسے میں روشن خیالی کا ثبوت فراہم کرتے رہنا تھا۔ وہ زندگی کو پر سکون طریقے سے گزارنا چاہتا تھا اس لیے اس نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ کچھ دنوں کے بعد سب معمول پر آنے لگا۔ گھر کا کام کرنے کے لیے پہلے بھی ملازمہ آتی تھی اور اب بھی۔ محسن جب دفتر سے لوٹتا تو ہما اسے گھر پر ہی ملتی کیوں کہ وہ صبح جلدی جاتی اور شام ہوتے ہی واپس آ جاتی تھی۔ ایک روز محسن بھی دفتر سے جلدی واپس آیا۔ اس کے چہرے پر خوشی جھلک رہی تھی اور ہاتھ میں پھول مہک رہے تھے۔ دروازہ ہمانے کھولا تھا دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش ہوئے۔ ہما نے محسن کے ہاتھ سے پھول لینے کے بعد کہا:
’’شکریہ محسن… لیکن آپ کو کیسے پتا چلا کہ میں نے اب Fem-Cab جوائن کر لی ہے۔‘‘
’’مطلب … ؟‘‘ محسن استعجاب سے ہما کو دیکھ رہا تھا۔
’’ہاں … میں نے Cab Quick چھوڑ دی ہے اور اب Fem-Cab میں ڈرائیور ہوں۔ آپ کو معلوم ہے اِس میں سیلری بھی زیادہ ملے گی۔‘‘
محسن کو اپنی اہمیت کم ہوتی ہوئی معلوم ہوئی اور وہ اداس سا ہونے لگا لیکن ہما Fem-Cab کے گن گان مسلسل کر رہی تھی۔ محسن نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پیکیٹ کو ایک طرف رکھ دیا جس میں ہما کی پسند کی مٹھائی تھی اور وہ اسے کمپنی سے مزید ترقی ملنے کی خوشی میں کھلانے والا تھا۔ پھر بھی اس نے ہما کو خوش ہو کر مبارکباد دی۔
’’محسن آپ بیٹھیے مجھے جانا ہو گا میری Night Shift ہے اور آج چوں کہ پہلا دن ہے تو کچھ Formalities بھی ہیں۔ آپ کھانا کھا لیجیے گا۔‘‘
محسن کے لیے یہ بڑا جھٹکا تھا۔ بالکونی میں بیٹھ کر ساتھ میں کافی پینا، ڈنر پر باہر جانا اور ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا، آج اس کے کئی منصوبے تھے لیکن سب پر پانی پھر چکا تھا۔ وہ چاہ کر بھی ہما کو روک نہیں سکا اور خود کو مجبور محسوس کر رہا تھا۔
ہما نے کار کا دروازہ کھولتے ہوئے ایک لمبی اور گوری لڑکی کا استقبال کیا۔ جو اسپورٹ ڈریس پہنے ہوئے تھی۔ وہ لڑکی اُس برقعے والی ڈرائیور کو دیکھ کر کچھ حیران ہوئی۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے کار میں بیٹھ گئی۔
’’میم آپ نے ہماری Fem-Cab کے متعلق بکنگ سے پہلے ہی معلومات حاصل کر لی ہوں گی لیکن ہم Fem-Cab کی جانب سے مہیا کی جانے والی سہولیات کے بارے میں مزید بتانا چاہتے ہیں۔
ہماری Fem-Cab صرف خواتین کے لیے ہے اور ان کو بحفاظت ان کی منزل تک پہنچاتی ہے۔ اگر کوئی شخص حملہ کرے یا زبردستی Cab میں گھسنے کی کوشش کرے تو نزدیکی پولیس اسٹیشن پر خود کار خبر رساں آلات کے ذریعے اطلاع پہنچ جائے گی۔ رات کی شفٹ میں ملازمت کرنے والی عورتوں اور لڑکیوں کے لیے خاص طور پر یہ سروس شروع کی گئی ہے۔ سب سے اہم بات Fem-Cab میں آپ کو Tissue Paper سے لے کر Sanitary Pad، Menstrual Cup اور Urination Device بھی مل جائے گی۔ اس کے علاوہ Vib…..۔‘‘ کہتے کہتے ہما رک گئی۔
’’ہاں … اس کے علاوہ … ؟‘‘ لڑکی نے تجسس اور مسکراہٹ کے ملے جلے تاثرات چہرے پر لاتے ہوئے پوچھا۔
’’جی Fem-Cab میں Vibrator کی سہولت بھی ہے۔‘‘ ہما نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا۔
’’اور ہاں، آپ ہماری Cab کو کئی گھنٹوں کے لیے بھی ہائر کر سکتی ہیں۔‘‘
محسن اور ہما اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ اب ان کے درمیان محبت کے لمحے ماضی کا حصہ بن چکے تھے چوں کہ محسن کا دفتر دن میں ہوتا تھا اور ہما اس کے بر عکس رات میں کام پر جاتی اس لیے دونوں کی ملاقات کم ہی ہو پاتی۔ ہما رات میں سواریوں کوان کی منزل تک پہنچاتی جب کہ محسن اپنے بستر پر کروٹیں بدلتا اور اس تنہائی کے مسئلے کو حل کرنے کے بارے میں سوچتا رہتا۔ سخت پردے میں رہ کر بھی ہما اپنی ڈیوٹی بخوبی نبھاتی یہی وجہ تھی کہ اس نے کچھ ہی وقت میں Fem-Cab میں اپنی شناخت بنا لی تھی۔
۔۔۔۔۔۔
شہر کے باہر، جھیل کے کنارے، پہاڑی کے دامن میں ایک نائٹ کلب کا افتتاح ہوا۔ لڑکیوں اور عورتوں کے وہاں پہنچنے کے لیے Fem-Cab ایک بہتر ذریعہ ثابت ہونے لگی۔ اکثر لڑکیاں ایک طرف کے لیے ہی Cab بک کرتیں اور کچھ انہیں واپسی کے لیے بھی پیشگی بک کر لیتیں کیوں کہ اتنی رات میں Cab مشکل اور دیر سے ملتی حالاں کہ اس سہولت کے لیے انہیں خاصا بل ادا کرنا پڑتا تھا۔ ہما بھی اس نائٹ کلب میں کئی بار سواریاں چھوڑ کر آ چکی تھی جس کی وجہ سے وہ وہاں جانے والی لڑکیوں سے مانوس ہو گئی تھی۔ بھلے ہی ہما کسی کو نہ بھی پہچانتی لیکن اس کے مخصوص لباس کی وجہ سے لڑکیاں اسے ضرور پہچان لیتیں۔ ایک رات وہ سواری چھوڑنے نائٹ کلب گئی جس نے اسے واپسی کے لیے بھی بک کیا ہوا تھا۔ وہ لڑکی چوں کہ پہلے بھی ہما کی Cab پر آ چکی تھی اس لیے اس نے بے تکلفی سے کہا:
’’مجھے واپس بھی تمہارے ساتھ ہی جانا ہے تو تم بھی اندر چلو، یہاں کیا کرو گی؟ وہاں لابی میں بیٹھ کر بھی میرا انتظار کر سکتی ہو۔‘‘
ہما نے دل ہی دل میں خود کو تسلی دی اور سوچا: ’’میں نائٹ کلب تو آئی نہیں ہوں، میں تو ڈیوٹی پر ہوں اور ویسے بھی میں اندر تھوڑے ہی جاؤں گی۔‘‘ اور ہوا بھی ایسا ہی۔
وقت گزاری کے لیے وہ لابی میں بیٹھ کر موبائل فون دیکھنے لگی، تبھی ایک لڑکا وہاں سے گزرا اورہما کو دیکھ کر اس نے "Wow” کہا۔ ہما کو اس کی آنکھوں کے تاثرات بے حد خراب لگ رہے تھے لیکن اس نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ کبھی وہ ادھر ادھر ٹہلنے لگتی، کبھی موبائل فون سے دل بہلاتی اور کبھی جمائیاں لیتی۔
کافی وقت ہو چکا تھا لیکن وہ لڑکی اب بھی نہیں لوٹی تھی اور ہما کو اب Restroom جانا تھا۔ آخر کار اس نے ایک محافظ سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ آگے جا کر دائیں اور پھر بائیں مڑ کر سیدھے جائیے گا، سامنے ہی ہے۔ وہاں پہنچ کر اس نے اوپر نظر ڈالی تاکہ یہ اطمینان کر لے کہ وہ He ہے یا She۔ اسے یہ دیکھ کر عجیب لگا کہ دروازے پر S+He لکھا ہوا تھا۔ وہ کچھ دیر تذبذب کی حالت میں وہیں کھڑی رہی۔ اب اسے Cab تک جانے میں بھی دشواری ہو رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں جب قوت برداشت ختم ہو گئی تو وہ مزید سوچنے کی حالت میں نہیں تھی۔ فطری جبلتوں کو روکنا انسان کے بس میں نہیں۔ اس نے دیوار پر آویزاں باکس سے ایک Urination Device نکالی۔ S+He میں گھسنے کا یہ اس کا پہلا موقع تھا۔
محسن Urinal پر کھڑا ہوا تھا، جانی پہچانی بھینی سی خوشبو اسے محسوس ہوئی، اس کے دائیں جانب کا Frosted Glass Devider سیاہی مائل نظر آ رہا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی خوشبو کے تعاقب میں اس کی نظریں سیاہی مائل گلاس ڈیوائڈر سے پھسلتے ہوئے سر پر جا پڑیں جو ایک برقع نشین خاتون کا سر تھا۔
محسن کی آنکھوں میں استعجاب صاف طور پر دیکھا جا سکتا تھا پھر بھی کسی طرح ضبط کر کے اس نے دھیمے لہجے میں کہا:
’’ہما … ؟‘‘ اس پر ہما نے بھی محسن کی طرف دیکھا۔
اتفاق سے اس وقت Restroom میں دونوں میاں بیوی کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ محسن کچھ اور کہتا اس سے پہلے ہی ہما نے سوال کر دیا، ’’میں تو یہاں اپنے کام سے آئی ہوں لیکن آپ یہاں کیا کر رہے ہو؟ آپ کو تو گھر پر ہونا چاہئے تھا۔‘‘ ہما کا لہجہ تیکھا اور آواز نڈر تھی۔ محسن ایک بار پھر لاجواب تھا۔ اس کے پاس کہنے سننے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ وہ اپنے اور ہما کے درمیان اُس فاصلے کو بخوبی محسوس کر رہا تھا جو قطبین کے درمیان رہتی دنیا تک رہے گا۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ دونوں کے جسموں سے خارج ہونے والا رقیق مادّہ الگ الگ Urinals سے ہوتے ہوئے ایک ہی پائپ میں بہہ رہا تھا۔
٭٭٭