ظفرؔ کمالی صاحب سے میری پہلی ملاقات میر گنج کی ایک شعری نشست میں تقریباً بیس برس پہلے ہوئی تھی۔ میں پہلی بار اپنے آبائی وطن میں کسی شعری محفل میں شریک ہوا تھا۔ موصوف نے مزاحیہ کلام سنا کر خوب داد و تحسین وصول کی تھی۔ آپ کی پختہ اور منفرد شاعری، ہمیشہ مسکراہٹ بکھیرتی خاموش طبیعت اور شگفتہ سنجیدگی سے مزیّن شخصیت کے رعب کے جو نقوش دل و دماغ پر ثبت ہوئے تا حال نہ صرف برقرار ہیں بلکہ ان کی تابانی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اُس محفل میں علاقے کے دیگر شعرا سے بھی تعارف ہوا اور مراسم بڑھے لیکن ظفرؔ کمالی کی شخصیت اپنے پورے وقار کے ساتھ دل میں گھر کرتی گئی۔ یہ بات میرے لیے خود کو باعثِ افتخار سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ موصوف نے متعدد بار اس ذرّے کو نوازتے ہوئے فرمایا کہ آپ ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں جن سے بات کر کے میرے دل کو سکون ملتا ہے۔
محفل میں جب تک آپ نے کلام نہیں سنایا تھا، آپ سے کوئی آشنائی نہیں تھی۔ اس کی بنیادی وجہ میری ناواقفیت اور علاقے سے باہر سکونت پذیری یا ادبی دنیا سے دوری تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ آپ مسلسل خاموشی کے ساتھ ہر چیز اور ہر شخص کی حرکات و سکنات پر نظر رکھتے ہوئے مسکراہٹ کے پھول لٹائے جا رہے تھے۔ ہمہ تن گوش ہو کر دوسروں کا کلام سنتے اور اچھے شعروں پر خوب داد بھی دیتے اور مصرع دہرا کر مکرّر ارشاد مکرّر ارشاد کی صدائیں بھی بلند کرتے۔
ایک سال بعد جب قطر سے چھٹی گزارنے وطن آیا تو ظفرؔ صاحب کی پر کشش شخصیت نے ملاقات کی خواہش پیدا کی اور میں نے فون کیا، سمجھ رہا تھا اُن کو کہاں یاد ہو گا۔ کون افتخار؟ کون راغب؟ لیکن ایک نا قابلِ شمار شاعر اور عام سے نوجوان کو یاد رکھنا اور ان کے والہانہ انداز کو دیکھ کر مجھے بہت حیران کن خوشی ہوئی۔ میں نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ آپ نے دو تین روز بعد آنے والے جمعے کو حاضری کی دعوت دی۔ آپ کے کالج (زیڈ۔ اے۔ اسلامیہ کالج، سیوان) میں جمعے ہی کو ہفتہ وار چھٹی ہوتی ہے۔ بصد شوق و اشتیاق میں ڈرتے سہمتے حاضر ہوا۔ آپ نے بڑی محبت اور خلوص سے استقبال کیا۔ اس وقت آپ نوَل پور محلے میں کراے کے مکان میں رہتے تھے۔ گھر کے سامنے ہی مسجد تھی۔ ہم لوگوں نے وہیں جمعے کی نماز ادا کی۔ واپس ہونے کے بعد ظہرانہ میں بہترین لذّتِ کام و دہن کا اہتمام تھا۔ گفتگو کے دوران آپ نے مسجد کے امام صاحب کے اردو خطبے میں کہی گئی باتوں اور اس میں استعمال کی گئی زبان کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ کچھ دیگر نمونوں کے ساتھ آپ نے اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ ستم ہمیں ہر ہفتے سہنا پڑتا ہے۔ کئی بار امام صاحب سے بات بھی کر چکا ہوں کہ ذرا خیال رکھیے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ آپ زبان و بیان کے تئیں کس قدر حسّاس ہیں۔ قوم و ملّت کی فلاح و بہبود کا نہ صرف درد اپنے سینے میں رکھتے ہیں بلکہ اصلاح کی فکر و سعی بھی کرتے ہیں اور اپنے آس پاس کی چیزوں کا گہرائی سے مشاہدہ بھی کرتے ہیں۔ اس کے بعد قطر سے جب بھی چھٹیاں گزارنے جاتا ہوں آپ سے ضرور ملاقات ہوتی ہے۔ اگر دو دن کے لیے بھی جاؤں تو یہ کوشش کرتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی آپ سے ضرور بالمشافہ سلام کلام ہو جائے۔ خوش بختی ہے کہ اس دوران کئی بار میری دعوت کو شرفِ قبولیت بخشتے ہوئے آپ میرے غریب خانے پر کبھی اکیلے اور کبھی مع اہل و عیال تشریف لائے۔ جب پہلی بار آپ آئے تھے تو ہم گھومتے ٹہلتے ہوئے اپنے آموں کے باغیچے کی طرف نکل گئے۔ اس کے بعد کھیتوں کی پگڈنڈیوں کا سفر کرتے ہوئے کافی دور تک نکل گئے۔ ہرے بھرے کھیتوں میں ہوا کی سرسراہٹ اور اس کی تھاپ پر جھومتے اور رقص کرتے پودے، پیڑوں پر چہچہاتے اور کھلی فضا میں بے پروائی کے ساتھ اڑتے پرندے، رنگ برنگی فصلوں کی خوش منظری کو دیکھ کر خوشی اور شادمانی کے اثرات بہت آسانی سے آپ کے چہرے پر محسوس کیے جا سکتے تھے۔ ایک بار گفتگو کے دوران میں فرمانے لگے کہ ’’مجھے شہر کی بھیڑ بھاڑ، بھاگ دوڑ اور تصنّع آمیز زندگی کے بجائے گانو کی پُر سکون، سادگی و صداقت سے لبریز زندگی زیادہ پسند ہے۔ مجھے قدرتی مناظر کو دیکھ کر خوشی محسوس ہوتی ہے‘‘ ۔ میرا بھی مشاہدہ ہے کہ کھانے پینے، رہنے سہنے، اوڑھنے بچھانے، چلنے پھرنے اور پہننے ہر چیز میں سادگی ہی کو آپ اپنا شعار سمجھتے ہیں۔ ایک ہاتھ میں چھوٹا سا بیگ جس میں کتابیں یا مسودے وغیرہ ہوتے ہیں اور دوسرے ہاتھ میں چھاتا لیے پیدل ہی کالج جاتے ہیں۔
میری پہلی کتاب جب 2004 میں شائع ہوئی تو میں کتاب کے ساتھ خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے جس محبت سے گلے لگا کر والہانہ انداز میں مبارک باد پیش کی اُسے بھول پانا میرے لیے مشکل ہے۔ جب تیسرا مجموعہ شائع ہوا تو کچھ دنوں بعد ایک ملاقات میں آپ نے فرمایا کہ تیسری کتاب کی اشاعت کا تجربہ کیسا رہا؟ میں نے عرض کیا آپ کی تو دس سے زیادہ کتابیں آ چکی ہیں آپ ہی بتائیے کیسا رہا ہو گا؟ کہنے لگے کہ جب پہلی کتاب شائع ہوتی ہے تو اس کا ہر شخص، خواہ حلیف ہو یا حریف، والہانہ استقبال کرتا ہے مبارک باد دیتا اور خوش ہوتا ہے۔ جب دوسری شائع ہوتی ہے تو لوگ اس طرح پیش آتے ہیں جیسے کوئی قابلِ ذکر بات نہ ہوئی ہو۔ تیسری کے وقت یہ سننے کو ملتا ہے کہ ارے ان کا تو کام ہی یہی ہے۔ کتاب شائع کرنے سے کوئی بڑا شاعر نہیں ہو جاتا وغیرہ وغیرہ۔ تجربے اور گہرے مشاہدے سے کہی گئی بات میں اختلاف کی کہاں گنجایش ہوتی ہے۔
عاجزی و انکساری، تہذیب و ادب کی پاسداری، اخلاق مندی و دیانت داری، خوش سلیقگی و خوش گفتاری، درد مندی و خود داری کی اگر کبھی شبیہ بنائی جائے تو مجھے لگتا ہے کہ وہ کافی حد تک ظفرؔ کمالی صاحب کے مشابہ ہو گی۔ میں نے آپ کو ظاہر و باطن سے سچّا اور پکّا مسلمان اور بلند کردار انسان پایا ہے۔ چہرے پر نور ہے تو آنکھوں میں صبر و شکر کا سرور۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں تو معاملات میں بھی بالکل کھرے اور صاف ستھرے۔ نام و نمود کے حربوں سے پاک، دنیا میں رہ کر آس پاس کی دنیا کی اچھائی اور برائی سے واقف ہوتے ہوئے دنیا سے بے زار رہنا، اس کی ہوا اور اس میں پھیلی وبا سے خود کو الگ رکھنا، آپ کے امتیازی اوصاف ہیں۔ جھوٹ اور منافقانہ رویوں سے آپ کو نفرت ہے۔ بچپن کے زمانے میں بھی آپ سچ بول کر والدین سے مار کھانا گوارا کر لیتے لیکن جھوٹ سے اپنی زبان و دل کو آلودہ نہیں کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ دیانت داری کے ساتھ اپنے کام پر توجہ دیتے ہیں۔ آپ نے اکثر مجھے اس بات کی تلقین کی کہ اخلاص اور لگن سے اپنا کام کرتے رہنا ہی کامیابی کا اصل زینہ ہے دوسری تمام چیزیں وقتی ہیں۔ اگر آپ کا کام اچھا ہے تو ایک نہ ایک دن لوگ خود ہی اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اس بات پر آپ کا ایمان بہت پختہ نظر آتا ہے کہ عزّت و ذلّت دینے والی صرف اور صرف اللہ رب العزّت ہی کی ذاتِ پاک ہے۔ انسان کے کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔
میں نے کبھی بھی آپ کے دل میں کسی شخص کے لیے بغض و کینہ نہیں دیکھا۔ ناراض ضرور ہوتے ہیں۔ کسی سے کوئی شکوہ ہو تو اس کا بھی کھل کر اظہار کرتے ہیں۔ شکوے سے آپ کی محبت، یگانگت اور پُر خلوص لگاؤ کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ عفو و درگزر سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ اپنا دل صاف رکھتے ہیں جس کی گواہی آپ کا پُر نور و پُر سکون چہرہ دیتا ہے۔ ایک دن باتوں ہی باتوں میں بتایا کہ بچپن میں جب یہ چوتھی پانچویں جماعت کے طا لبِ علم تھے اور کسی وجہ سے اسکول جانے میں تاخیر ہو جاتی تو بغل میں بستہ دبائے دوڑ کر جاتے تاکہ بر وقت اسکول پہنچ جائیں۔ اس دوڑنے کے دوران انھیں اس کا احساس ہوتا کہ میری وجہ سے زمین کو بہت چوٹ لگ رہی ہو گی۔ اس عمل پر نادم ہوتے ہوئے زمین سے بار بار معافی مانگتے اور کہتے کہ اگر دیر نہیں ہوئی ہوتی تو تمھیں ہرگز تکلیف نہیں دیتا۔ اس سے ظفر صاحب کی رحم دلی کے اس جذبے کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جو بچپن سے ان کے دل میں موجود تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا گیا۔
ہم عصر شعرا و ادبا کی قدردانی کے ساتھ ان کی خوبیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں۔ انتہائی اخلاص و دیانت داری کے ساتھ دوسروں کی مدد کا نہ صرف جذبہ رکھتے ہیں بلکہ کسی صلے کی پروا کیے بغیر بھرپور تعاون کرتے ہیں۔ آنکھیں یہ دیکھ کر حیران ہوتی ہیں کہ ایسے بے ضرر شجرِ سایادار و ثمربار شخصیت سے فیض یاب ہونے کے بجائے کچھ لوگ اُس پر بغض و حسد، کدورت و رقابت کی سنگ باری کے بارے میں کیسے سوچ لیتے ہیں۔ شاید اس دور میں ایسے ہی لوگوں پر حمایت و خوشنودی کی بارش ہوتی ہے جو موقع پرستی پر ہمیشہ آمادہ، مصلحت پسندی کے دلدادہ اور اصول پسندی سے عاری یعنی پیکرِ مکّاری اور ناواقفِ خود داری ہیں۔ بہ صورتِ دیگر یہ دنیا رفتہ رفتہ کسی کو گوشہ نشینی پر مجبور کر کے اس طرح خوش ہوتی ہے جیسے اس نے کوئی بڑا کارنامہ انجام دے دیا ہو۔ یہ بھول جاتی ہے کہ جہاں وہ ایسے درختوں کے سایہ و ثمر سے خود کو محروم کر رہی ہے وہیں ان کی موجودگی سے جو صاف ستھری ادبی آب و ہوا میسّر ہے اس کا بھی گلا گھونٹ کر تباہی و بربادی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ایک باکمال شاعر و ادیب سے اگر کوئی متشاعر تعصّب رکھے اور اس کے خلاف سازش و گروہ بندی کرے تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اچھی صلاحیت رکھنے والے لوگ بھی کم تر صلاحیت رکھنے والوں کی آواز میں آواز اور قدم سے قدم ملا کر چلتے ہوئے دکھائی دیں تو اس پر حیران ہونا فطری بات ہے۔
وہ مسلسل مردم گزیدگی کا شکار رہے جس کی وجہ سے ان کے اندر حد درجہ احتیاط پسندی کا رجحان پیدا ہوا۔ محتاط مزاجی کے علاوہ قلب کو صاف ستھرا رکھنے کی للک نے رفتہ رفتہ ظفرؔکمالی کو سیوان شہر میں گوشہ نشینی کو گوشۂ عافیت سمجھنے اور بھیڑ میں تنہا رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہ ظاہر خوش اور مطمئن رہنے والے ظفرؔکمالی کو ہمیشہ ایسے ہم زبان و ہم نشیں کی تلاش رہتی ہے جس سے وہ دل کھول کر باتیں کر سکیں۔ آپ کی دلی کیفیت کی ترجمانی مولانا الطاف حسین حالیؔ کے اس شعر سے ہوتی ہے ؎
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں
ویسے تو ہمیشہ ہنستے مسکراتے اور خوش و خرم نظر آتے ہیں لیکن ایک شاعر و ادیب کے لیے ایسی گوشہ نشینی و ہم زبانوں سے محرومی کس قدر اذیّت ناک ہو گی اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہے۔ لیکن اس میں خیر کا پہلو یہ نکل آیا ہے کہ آپ کو پوری یک سوئی اور انہماک کے ساتھ اپنا کام کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ آج بھی جو لوگ ان سے فیض اٹھانا چاہتے ہیں انھیں پورے خلوص کے ساتھ فیض یاب کرتے ہیں۔ دوسروں کی متعدد شعری و نثری کتابیں آپ نے انتہائی خلوص کے ساتھ ترتیب و تہذیب کے سارے مراحل سے گزار کر شائع کرائی ہیں۔ مختلف شہروں سے معروف و غیر معروف شاعروں ادیبوں کی کتابوں کے مسودے آپ کے یہاں قطار میں لگے رہتے ہیں۔ سارن کے نئے پرانے بے شمار شعرا کے کلام اور ان کے متعلق معلومات وغیرہ آپ کے پاس سب کے نام سے الگ الگ فائلوں میں محفوظ مل جائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ سیوان کے استاد شاعر کوثرؔ سیوانی مرحوم نے انتقال سے قبل اپنے اہلِ خانہ کو یہ وصیّت کی کہ میرے بعد میرا سارا ادبی سرمایہ ظفرؔ کمالی کے سپرد کر دیا جائے۔ جس اعتماد و یقین کے ساتھ مرحوم نے کلام دیا تھا اسی دیانت داری و اہتمام کے ساتھ موصوف نے ان کا مجموعۂ کلام شائع بھی کرایا۔ کبھی کبھی دوسروں کی کتابیں اپنے خرچ سے بھی شائع کراتے ہیں اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کتاب کی پوری تیاری یعنی کلام جمع کرنا کمپوز کرا کر پروف ریڈنگ اور ضروری اصلاح و ترمیم اور تدوین و ترتیب آپ نے کی اور شائع ہونے کے بعد مرتب کے طور پر کسی اور کا نام نظر آیا اور آپ کتاب ملنے کے بعد اسے دیکھ کر معنی خیز ہلکی سی مسکان بکھیر کر رہ گئے۔ مطلب اور موقع پرست لوگوں کی مدد سے نہ گریز کرتے ہیں نہ بعد میں ان کی توتا چشمی اور بدلے ہوئے رویّے کو دیکھ کر کڑھتے ہیں بلکہ پُر اسرار مسکراہٹ کے ساتھ محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ وہ دوبارہ سہ بارہ بھی آئیں تو آپ کی پیشانی پر کوئی شکن نظر نہیں آتی اور اُسی اخلاص کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ حیرانی ہوتی ہے کہ کوئی انسان دوسروں کے لیے بغیر کسی صلہ کے اتنا کچھ کیسے کر سکتا ہے! اپنے دو شعر آپ کے خلوص اور شخصیت کی نذر کرنے کو جی چاہ رہا ہے:
جتنا ہے ثمر جس پہ وہ اتنا ہے خمیدہ
پھل دار درختوں کی طبیعت ہی الگ ہے
ڈھونڈ کر لاؤں کوئی تجھ سا کہاں سے آخر
ایک ہی شخص ہے بس تیرا بدل یعنی توٗ
لوگوں کی انوکھی کرم فرمائیوں کے سبب نئے لوگوں سے تعلق استوار کرنے میں بہت محتاط نظر آتے ہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے یہ دیکھا گیا ہے کسی ادبی محفل یا مشاعرے میں جانے سے وہ حتی الامکان گریز کرتے ہیں اور شاذ و نادر ہی کہیں شریک ہوتے ہیں۔ خاموش مزاجی و کم گفتاری تو طبیعت میں شامل ہی ہے لیکن محفل میں اضافی چپ کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ حسبِ ضرورت نپے تلے انداز میں اپنی بات رکھتے ہیں۔ اپنی موجودگی کا احساس دلانے کا کوئی شائبہ بھی نظر نہیں آتا۔ آپ کا ماننا ہے کہ بے معنی گفتگو سے با معنی خاموشی ہزار درجہ بہتر ہوتی ہے۔ خاموشی کو شاید اس لیے بھی ترجیح دیتے ہیں کہ دوسروں کی باتیں سکون سے سن کر محظوظ ہو سکیں۔ بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بات سنی ہی نہیں لیکن برسوں بعد بھی جب مناسب موقع آتا ہے تو اس بات کا ذکر کر کے حیران کر دیتے ہیں۔ ویسے تو میری ان کے سامنے لب کشائی کی ہمت نہیں ہوتی لیکن ان کے خلوص نے ایسی ہمت افزائی کی ہے کہ کچھ عرض کر ہی دیا کرتا ہوں۔ ایک بار کچھ ان کے جیسے ہی حالات سے میں بھی دوچار ہوا تو کہنے لگے کہ آپ مجھ کو بہت سمجھاتے تھے اب آپ کو بھی بات سمجھ میں آ گئی ہو گی۔
چھوٹے بچوں سے آپ کو بہت لگاؤ ہے۔ طالب علمی کے زمانے ہی سے بلا تفریقِ مذہب و ملّت آس پاس کے بچوں کو اردو عربی وغیرہ پڑھانا آپ کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ آج بھی روزانہ عصر بعد آپ کے دولت کدے پر کئی بچے جھوم جھوم کر سبق یاد کرتے اور ان کے پاس سلیقے سے بیٹھ کر سبق سناتے نظر آتے ہیں۔ کئی غیر مسلم بچوں کو بھی آپ نے نہ صرف اردو پڑھائی بلکہ اس لائق بنا دیا کہ وہ اردو زبان کی تعلیم حاصل کر کے ملازمت کر رہے ہیں۔ بچوں کی معصومانہ گفتگو، شوخیاں اور شرارتیں وغیرہ آپ کو بہت پسند آتی ہیں۔ کالج میں آپ فارسی پڑھاتے ہیں لیکن نونہالوں کو اردو اور عربی کی تعلیم دینے کا یہ عمل اردو زبان کے فروغ اور دینی نقطۂ نظر سے انتہائی اہم کام ہے۔ بچوں میں اپنی مادری زبان کے تئیں محبت اور ادبی ذوق و شوق پیدا کرنے کے لیے ان کے درمیان اردو رسائل تقسیم کرنا، بعض شعرا کی ذہنی نشو و نما کے لیے ادبی رسائل خرید کر ان کو پیش کرنا بھی آپ کی دلچسپیوں اور قربانیوں میں شامل رہا ہے۔ آپ نے اپنے بچوں کو بھی خود ہی سب سے پہلے اردو پڑھنا سکھایا۔ جب بچے فرفر اردو پڑھنے لگے تو خود ہی قرآن مجید بھی پڑھایا اس کے بعد اسکول کی تعلیم شروع کرائی۔ آپ کا کہنا ہے کہ بچے اگر اردو ٹھیک سے سیکھ جائیں تو ان کے لیے قرآن پڑھنا بہت آسان ہو جاتا ہے اور جلدی ختم کر دیتے ہیں۔ کلامِ پاک کا ذکر آیا تو ایک بات اور عرض کر دوں۔ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ مجھے اپنی پوری زندگی میں ایک ہی ملال ہے کہ میں حافظِ قرآن نہ بن سکا اور عربی متن کا مفہوم اچھی طرح نہیں سمجھ پاتا۔
آپ کا تعلق ایک پڑھے لکھے تعلیم یافتہ گھرانے سے ہے۔ آپ گفتگو کے دوران اکثر اپنی مرحوم دادی کا ذکر کرتے ہیں کہ بچپن ہی میں انھوں نے بہت سارے اشعار یاد کرا دیے تھے۔ آپ کے گانو کے متعلق علاقے میں یہ بات مشہو رہے کہ رانی پور کی مرغیاں بھی فارسی بولتی ہیں۔
اپنی دوسری کتاب کا مسودہ دیکھنے کے لیے میں نے ان سے گزارش کی۔ آپ نے کچھ جگہوں پر نشاندہی کی، کچھ مشورے دیے اور فرمایا نظر ثانی کر کے مناسب تبدیلی کر لیجیے لیکن ایک شعر پر بڑی تاکید سے فرمایا کہ اس میں حاسدوں کی جگہ دوستوں کا لفظ رکھیے۔ شعر یہ تھا ؎
بالیقیں حاسدوں کے سینے میں
دل نہیں ہے کباب سا کچھ ہے
مشورہ مجھے کچھ اچھا نہیں لگا۔ میں نے کہا دوستوں کہنا مناسب نہیں لگ رہا ہے۔ میرا کوئی بھی دوست ایسا نہیں ہے۔ کہنے لگے کہ میں مشورہ نہیں دے رہا ہوں تاکید کر رہا ہوں کہ دوستوں ہی رکھیے۔ خیر میں نے حکم کی تعمیل کی۔ چند برسوں بعد جب شعر کی کچھ فہم ہوئی تو محسوس ہوا کہ حاسدوں کی وجہ سے تو وہ شعر نہیں بلکہ صرف ایک منظوم بات تھی۔ دوستوں نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ آگے چل کر بعض دوستوں کے عمل سے اس کی تصدیق بھی ہو گئی۔
ایک روز بیٹھے بیٹھے یکایک دل میں یہ بات آئی کہ کیوں نہ ان کے تعلق سے ایک مضمون لکھا جائے۔ اتفاق سے اسی روز ملاقات بھی ہو گئی۔ میں نے عرض کیا کہ میں آپ پر مضمون لکھنا چاہتا ہوں لیکن نثر لکھنے میں خود کو بہت کم زور پاتا ہوں۔ اس کم مایگی کی وجہ سے مجھے اندیشہ ہے کہ میں جو لکھنا چاہتا ہوں نہیں لکھ سکوں گا۔ آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ارے بھئی! اسکول کے زمانے میں گائے، گھوڑا اور اونٹ وغیرہ پر مضمون لکھتے تھے یا نہیں؟ میں نے جب ہاں کہا تو کہنے لگے کہ اسی طرح ظفرؔ کمالی پر بھی لکھ ڈالیے۔ اتنا سوچنے یا پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔
آپ کی مزاحیہ شاعری، سنجیدہ رباعیات اور ادبِ اطفال وغیرہ پر درجن بھر مجموعہ ہاے کلام شائع ہو چکے ہیں۔ شاعری پر گفتگو کرنے کے لیے الگ سے ہر قسم کی شاعری پر اظہارِ خیال کیا جائے تب کہیں اس کا کچھ حق ادا ہو سکے گا اس لیے اس تعلق سے یہاں خاموشی برتنا ہی مناسب ہے۔ شاعری کے علاوہ جو آپ کا بہت اہم اور نمایاں کار نامہ ہے وہ ہے تحقیق۔ آپ کی کتاب ’’تحقیقی تبصرے‘‘ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عہدِ رواں میں آپ اپنی مثال خود ہیں۔ شاعری میں آپ کی طویل طنزیہ و مزاحیہ نظمیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ آپ بظاہر گوشہ نشیں ہوتے ہوئے بھی کس قدر باریک بینی سے چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں اور آپ کے تخیّل کی پرواز کتنی بلند ہے۔ متشاعر سے متعلق آپ کی متعدد نظمیں، ماڈرن رخصتی اور حضرت قمرؔسیوانی کا منظوم خاکہ یا عرب کی کمائی وغیرہ نظمیں اس کی بھرپور شہادت دیتی ہیں۔
مشتاق احمد یوسفی نے بجا فرمایا ہے کہ ظرافت انسان کی چھٹی حس ہے۔ میرا خیال ہے کہ ظرافت ذہانت، حاضر دماغی اور وسیع الفکری کی بھی ترجمان ہے۔ ظرافت تخلیق کرنا تو دور اسے محسوس کر کے پوری طرح محظوظ ہو پانا بھی ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ظفرؔ کمالی کی باکمال شخصیت میں یہ ساری خوبیاں موجود ہیں۔ شاید مولانا حالیؔ نے آپ جیسے لوگوں کے لیے ہی یہ شعر کہا تھا ؎
بہت جی خوش ہوا حالیؔ سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
٭٭٭