میں ڈوبتے خورشید کے منظر کی طرح ہوں
زندہ ہوں مگر یاد کے پتھر کی طرح ہوں
آثار ہوں اب کہنہ روایاتِ وفا کا
اک گونج ہوں اور گنبد بے در کی طرح ہوں
اک عمر دلِ لالہ رُخاں پر رہا حاکم
اب یادِ مہ و سال کے پیکر کی طرح ہوں
کس کرب سے تخلیق کا در بند کیا ہے
مت پوچھ کہ صحرا میں بھرے گھر کی طرح ہوں
بپھرے تو کنارے نظر آتے نہیں جس کے
میں ضبط کے اُس ٹھہرے سمندر کی طرح ہوں
بجھ جائے گی صدیوں کی اگر پیاس بھی ہوگی
آغوش کشادہ ہوں میں کوثر کی طرح ہوں
اب کتنا نچوڑے گی لہو ساعتِ شفاف
تہذیب کے سینے پہ صنوبر کی طرح ہوں
بے مہر تعلق کی مسافت سے تھکا ہوں
میں صبح کی خوشبو کے مقدر کی طرح ہوں
خوابیدہ ہی اچھا ہوں کم و بیش سے احمد
بیدار جو ہو جاؤں تو محشر کی طرح ہوں
٭٭٭
بدن کو غسلِ گدازِ حیات دے دے گا
ترا خلوص مجھے اب کے مات دے دے گا
یہ جڑتے ٹوٹتے کاذب مراسموں کا دیار
مرے یقیں کی صداقت کا سات دے دے گا
میں تھک گیا ہوں کڑی دھوپ کی مسافت سے
کوئی سراب تبسم کی رات دے دے گا
دُعا کو ہاتھ اُٹھاؤں تو کس طرح معبود
جو میں کہوں تو مجھے کائنات دے دے گا؟
یقین جان کہ ہر دُکھ کو بھول جاؤں گا
تو میرے ہاتھ میں جب اپنا ہات دے دے گا
یہ مفلسی کا تسلسل، ضرورتوں کا محیط
مجھے سلیقۂ تزئین ذات دے دے گا
وہ ایک لفظ مرے دل پہ ثبت ہے احمد
مری غزل کو جو روحِ ثبات دے دے گا
مری نظر نے خلا میں دراڑ ڈالی ہے
سکوں کی گم شدہ تصویر پھر سے پا لی ہے
خود اپنی اَور بچھائے ہیں غم کے اَنگارے
سکوتِ رنج سے میں نے نجات پا لی ہے
کدھر کو جائیں، کہاں ہم کریں تلاش کہ اب
سکوں کی دھُن میں بہت خاک چھان ڈالی ہے
میں کس یقیں پہ تحمل کو پائیدار کروں
مرا مزاج ازل ہی سے لا ابالی ہے
مجھے یقیں نہ دلاؤ، میں جانتا ہوں، مگر
وفا کا لفظ تو عہدِ رواں میں گالی ہے
مِلا نہ جب تری قربت کی روشنی کا سُراغ
غموں کی لُو سے شبِ آرزو اُجالی ہے
کسی کے لب پہ چراغِ دُعا نہیں جلتا
ہر ایک شخص کی جیسے زبان کالی ہے
تھا سخت ہم پہ بھی شب خوں پہ آبرو کی قسم
متاعِ شیشہ و نقدِ ہُنر بچا لی ہے
(کتاب:‘میں اجنبی سہی‘ سے انتخاب
انتخاب: نوید صادقؔ)
٭٭٭