یونی کوڈ اور اردو کے مسائل ۔۔۔ اعجاز عبید

یونی کوڈ، جس کا تازہ ترین ورژن 12.1 ہے (جسے 12 جون 2019ء کو جاری کیا گیا) کے پہلے ورژن سے ہی (جو اکتوبر 1991 میں جاری ہوا) عربی زبان کا شمول کیا گیا ہے۔ اور عربی کے علاوہ فارسی اردو زبانیں بھی شامل تھیں۔ بعد کے ورژنوں میں دوسری ان سے ملتی جلتی زبانوں کے اضافی حروف و علامات شامل کی جاتی رہیں۔ اور اس طرح اردو فارسی اور عربی کے علاوہ سندھی، کشمیری، شاہ مکھی، سرائیکی، کُردی، ہندکو، بلوچی، پشتو، کلامی، خوارزمی، قزاق، اوئغور وغیرہ وغیرہ دوسری کئی زبانیں شامل کی گئیں۔ اور ان کے حروف و علامات یعنی کیریکٹرس کی تعداد بہت بڑھ گئی۔ اب عربی کے ذیل میں کل کیریکٹرس کی تعداد 1532 ہے۔ ان کو نو عدد بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے، لیکن بنیادی حروف صرف پہلے عربی بنیادی بلاک میں ہی ہیں، جس میں 2655 کیریکٹرس ہیں۔ ان کی تفصیل اس وقت نہیں، ابھی تو آئیے اردو زبام سے جڑے مخصوص مسائل کی طرف۔

پہلے ان کیریکٹرس کا ذکر جو عربی اور اردو میں مختلف قدریں رکھتے ہیں، یعنی جن کے کوڈ پائنٹ مختلف ہیں۔ کوڈ پائنٹ قوسین میں دیے گئے ہیں۔

پہلے اعداد کا جائزہ لیں:

۰ سے ۹ تک، یعنی

۰۱۲۳۴۵۶۷۸۹

یا نسخ فانٹ میں

۰۱۲۳۴۵۶۷۸۹

یہ اعداد اردو کے لیے عام طور پر مستعمل ہیں جنہیں

Extended Arabic-Indic digit

کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک دوسرا گروہ ہے جس کا نام Arabic-Indic digit دیا گیا ہے، یہ 0660 سے 0669 کوڈ پائنٹس کے درمیان ہیں

٠١٢٣٤٥٦٧٨٩

یہ مؤخر الذکر اعداد زیادہ تر عربی متون میں استعمال کیے جاتے ہیں۔اس بلاک کا نام محض Arabic-Indic digit ہے

اب آئیے حروف کی طرف:

اردو میں جو ’ک‘ استعمال ہوتا ہے جو عربی کے کاف سے مختلف ہے۔ بلکہ اسے، یونی کوڈ کی اصطلاح میں، ’کہے‘ کا نام دیا گیا ہے، یا کاف مشکولہ

اردو کا ’ک‘ ۔۔۔ (06A9) Arabic letter keheh = kaf mashkula

اور

عربی کا ’ك‘ ۔۔۔ (0643) Arabic letter kaf

اکثر عربی فانٹس میں عربی حرف ك میں کاف کا مرکز نہیں ہوتا، ورنہ یہ شکل میں اردو کے کاف سے ملتا جلتا ہی ہے۔

لیکن کچھ حضرات ایسے کی بورڈس میں اردو میں ٹائپ کر دیتے ہیں جو عربی کے لئے بنایا گیا ہے اور جس میں کاف کے لئے صرف ك دیا گیا ہے۔ یاس طرح اس کیریکٹر کو استعمال کرنا اردو میں غلطی مانی جائے گی۔

اردو کی ’ہ‘ ۔۔۔ (06C1) Arabic letter heh goal

عربی کی ’ه‘ ۔۔۔ (Arabic letter heh (0647

اردو کی گول ہ کو گول ہ کا ہی نام دیا گیا ہے، اگرچہ ’ہ‘ کی عربی اور اردو حروف کی ابتدائی اور مفرد شکلیں یکساں ہیں لیکن آخری شکلیں مختلف ہیں، جیسے لفظ ’کاملہ‘ کو عربی ہ سے لکھا جائے تو شکل یوں بنتی ہے ’کامله‘ جو نسخ فانٹ میں واضح طور پر مختلف نظر آتا ہے۔

کاملہ

کامله

اردو کی ’ۃ‘ ۔۔ (06C3) Arabic letter teh marbuta goal

عربی کی ’ة‘ ۔۔۔ (0629) Arabic letter teh marbuta

اس کی صورت بھی ’ہ‘ کی طرح ہی ہے کہ نسخ فانٹ میں دونوں زبانوں کی مربوطہ ۃ مختلف نظر آتی ہے، لفظ آیۃ کو دیکھیں نسخ فانٹ میں:

آیة (عربی ة)

آیۃ (اردو ۃ)

اگر اس غلطی کے ازالے کے طور پر عربی اور اردو کے یکساں حروف یعنی ک، ہ، ۃ اور ی کو یکساں کوڈ پائنٹس دینے کی کوشش بھی کی جائے تو اب تک کا ٹائپ کیا ہوا اردو (یا ان پیج سے تبدیل شدہ) متن نا قابل مطالعہ ہو جائے گا۔یعنی جن کوڈ پائنٹس کو ہٹانے کی کوشش کی جائے تو ان کوڈ پائنٹس کے کیریکٹرس کی جگہ خالی ڈبے نظر آئیں گے اگر اردو والے کوشش کر کے اپنے حروف کو ہی عربی کے لئے استعمال کرنے پر مجبور کر دیں تو عربی کا متن (اور عربی کا متن بہ نسبت اردو کے متن کے کمیت میں زیادہ ہی ہو گا) پڑھا نہیں جا سکے گا!

ہمزہ ،ء، (0621) کا مسئلہ بڑا ٹیڑھا ہے۔عربی میں تو اسے اردو کے الف کا مماثل ہی قرار دیا جاتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ الف کو عربی میں ہمزہ کی ہی ایک شکل سمجھا جاتا ہے جس سے لفظ کی ابتدا کی گئی ہو۔ درمیان میں آنے پر اسے با قاعدہ ’ا‘ لکھنے کی صورت میں الف مقصورہ کہا جاتا ہے۔ اس کے کوڈ پائنٹ یا قدریں اردو عربی میں الگ الگ نہیں ہیں۔

ء ۔۔۔ (0621) Arabic letter hamza

یہ مفرد صورت میں ء کی قدر ہے، جیسے شعراء کی آخری ہمزہ

لیکن ہمزہ کی دو صورتیں اور بھی ہیں۔

ٔ ۔۔۔ (0654) Arabic hamza above

ٴ۔۔۔ (0674) Arabic letter high hamza

ان دونوں شکلوں کو ہمزۂ اضافت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے، جیسے نالۂ دل کو

0654 سے لکھنے پر نسخ اور نستعلیق صورتیں،

نالہؐ دل

نالہؐ دل

اور 0674 استعمال کر کے لکھنے پر

نالۂ دل

نالۂ دل

لیکن یہ دونوں صورتیں غلط ہیں، جن کا آگے ذکر کیا گیا ہے۔

درمیانی ہمزہ ئ ۔۔۔ 0626 Arabic letter yeh with hamza above ≡ 0654 (ٔ) + (Arabic letter yeh) A064

درمیانی ہمزہ کے استعمال میں بہت فرق ہے۔ یہ درمیانی ہمزہ جس طرح لکھی جاتی ہے، اس کے لئے ’ئ‘ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ہیئت لکھنے کے لئے ہ، ی، ئ، اور ت ٹائپ کرنا پڑتا ہے۔ کسی اور حرف کے ساتھ استعمال کرنے میں فرق محسوس نہیں ہوتا، لیکن اگر واو کے ساتھ استعمال کیا جائے تو اس کی شکل یوں بنتی ہے:

’جائو‘ ، بجائے ’جاؤ‘ کے۔ اسی طرح الفاظ جرأت اور قرأت کو اس درمیانی ہمزہ سے لکھنے پر شکل بنتی ہے:

جرئات، قرئات، نسخ فانٹ میں

جرئات، قرئات

ان کو لکھنے کی درست صورتیں بھی بعد میں۔

ان آئیے ء کا ہی مخلوط استعمال دیکھیں۔

واو کے ساتھ

ؤ ۔۔۔ 0624 Arabic letter waw with hamza above

ؤ ۔۔۔ ≡ و (0648) + ٔ 0654

یعنی ’جاؤ‘ وغیرہ لکھنے کی درست صورت ہے ج، ا اور ؤ، یعنی تین کیریکٹرس سے درست لکھا جاتا ہے، جب کہ چار کیریکٹرس ٹائپ کرنے پر غلط۔ لیکن کسی کسی کی بورڈ میں یہ ’ؤ‘ ٹائپ کرنے کی سہولت ہی نہیں اور مجبوراً لوگ غلط ٹائپ کر دیتے ہیں، ؤ یعنی و 0648)) کے ساتھ ٔ(0654)، یا اگر کی بورڈ اور فانٹ میں موجود ہو تو و اور (0674) یعنی وٴ!!

اب ۂ کا ذکر پھر لیا جائے، جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں کہ نالۂ دل لکھنے کی درست صورت ہے

نالۂ دل، یعنی ن ا ل ۂ اور یہ ۂ ایک الگ ہی کیریکٹر ہے جو

شاید پہلی بار یونی کوڈ میں ایک نئے کیریکٹر کے طور پر آیا ہے۔

یہ ۂ (06C2) ہے جیسا کہ نیچے دیا گیا ہے:

ۂ ۔۔۔ 06C2 Arabic letter heh goal with hamza above

ۂ ۔۔۔۔ ہ (06C1) + ٔ 0654

اگر یہ کیریکٹر کی بورڈ میں موجود ہو تو آسانی سے ٹائپ کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ پھر وہی دو کیریکٹرس یعنی ہ اور اوپر والا ہمزہ استعمال کرنا پڑے گا، جس میں کچھ فانٹس میں تو ہمزہ اتنی اوپر لگ جاتی ہے کہ پچھلی سطر کا کوئی حرف نظر آنے لگتی ہے۔

اردو کی گول ۃ کے سلسلے کی ایک عام غلطی کا ذکر بھی یہاں ہی کر دیا جائے۔ لفظ کے آخر میں آنے پر اس کی شکل نستعلیق فانٹ میں ’تہ‘ یعنی ت،ہ جیسی لگتی ہے۔ مثال کے طور پر آیۃ (آ، ی ۃ) اور آیتہ (آ، ی، ت، ہ) تقریباً یکساں نظر آتے ہیں، اور اس یکساں نظر آنے کی وجہ سے اسے ت،ہ سے غلط لکھا جاتا ہے۔ رحمتہ اللہ علیہ (درست: رحمۃ اللہ علیہ)، مدینتہ العلوم (درست مدینۃ العلوم) یہاں تک کہ قرآنی آیات میں بھی ۃ کو ’تہ‘ کے طور پر ٹائپ کیا جاتا ہے۔ لیکن یکساں نظر آنے والی سب سے مزے دار غلطی مجھے تو یہ محسوس ہوتی ہے کہ ’ڈاکٹر‘ کو ’ڈاکڑ‘ یا ’پکڑ‘ کو ’پکٹر‘ ٹائپ کیا جائے۔ یقین جانیے، ایسا بھی عام طور پر دیکھا گیا ہے!!!

اردو کی ’ی‘ دراصل فارسی ’ی‘ ہے

ی ۔۔۔06CC Arabic letter farsi yeh

اور عربی کی

ي ۔۔064A Arabic letter yeh

لیکن اس کے علاوہ بھی دو عدد ی اور مذکور ہیں

ى ۔۔۔ 0649 Arabic letter alef maksura

ٰ ۔۔۔ Arabic letter superscript alef 0670

ان کو اگرچہ یونی کوڈ نے ’ی‘ کے طور پر شمار نہیں کیا ہے، لیکن اردو والے اسے (0649) یائے مکسورہ بھی کہتے ہیں۔ ان میں اردو میں 0670 کو کھڑے زبر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اگرچہ یہ صرف عربی حروف بلکہ صرف ی اور کبھی کبھی ل اور ہ کے اوپر آتا ہے، جیسے ادنیٰ، اعلیٰ، الٰہی اور لہٰذا، اور اسے یائے مقصورہ کہا جاتا ہے۔

بڑی ’ے‘ ۔۔۔ (06D2) Arabic letter yeh barree

ہوتی ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں، لیکن یہ اردو میں ایک بالکل ہی الگ حرف مانا گیا ہے جب کہ عربی میں صرف ’ی‘ کی ہی ایک کتابت کی شکل ہے۔ عربی میں آپ نے ’موسیٰ‘ بھی لکھا دیکھا ہو گا اور ’موسےٰ‘ نھی۔

اس سلسلے میں ایک مسئلے کا اور ذکر کر دوں۔ یہ یائے لین کا ہے، یعنی مثال کے طور پر ہم کھیل لکھیں تو یہ درمیانی ی، در اصل ’ے‘ ہے۔ یعنی زیادہ درست تلفظ کے اعتبار سے اسے ’کھےل‘ لکھا جانا چاہیے۔ اگر اس طرح لکھنے کا نظم کیا جائے تو ’میل‘ کے دو مختلف معانی اور تلفظ کے ساتھ اسے دو طریقے سے لکھا جانا چاہیے، ُمیل‘ اور ’مےل‘ ۔

عربی اور اردو کے مختلف پہلوؤں پر بات چل نکلی ہے تو ’ھ‘ (ّ06BE) کا ذکر بھی کیا جائے جو کہ عربی میں محض ’ہ‘ لکھنے کی ایک مزید شکل ہے۔ اردو میں بھی یہہ مایسا حرف نہیں جس ست کوئی لفظ شروع ہو سکے۔ آپ نے جو کبھی کبھی ’ھوتا ھے‘ لکھا دیکھا ہو گا تو یہ ٹائپ کرنے والے کی غلطی ہے۔ یا تو اسے کی بورڈ میں ہ اور ھ کا فرق سمجھ میں نہیں آیا۔ یا ممکن ہے کہ بصری (آن سکرین) کی بورڈ میں جس فانٹ میں یہ کیرکٹرس دکھائے گئے ہوں، اس میں دونوں ’ہ‘ کی طرح ہی نظر آتے ہوں۔ اردو میں ’ھ‘ محض ’ہکاری‘ آوازوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو در اصل ہندی سے مستعار ہیں: بھ، پھ، تھ، ٹھ وغیرہ میں۔ اور میرا مشورہ ہے کہ دو حروف کے اس پورے مجموعے کو ایک ہی حرف مانا جائے۔ اعراب بھی اسی طرح لگانے چاہئیں۔ مثلاً ’پھول‘ پیش کے ساتھ لکھنا ہو، تو ’پ‘ کے بعد ہی ’پیش‘ نہ لگائیں، بلکہ ’پھ‘ کے بعد لگائیں۔ یعنی درست طریقہ ہو گا ’پھُول‘ ۔ پ ھ ُ و ل۔ پُھول (پ ُ ھ و ل) غلط ہو گا۔ اور کچھ احباب تو پیش واو یا ل کے بعد بھی لگا دیتے ہیں، تو یہ سب دوسری شکلیں غلط ہوں گی۔ اب آپ غور کریں کہ اگر ان سب کو درست مانا جائے تو ان ساری شکلوں کو اس لغت میں دینا ہو گا جسے آپ املا کی جانچ پڑتال کے لئے استعمال کریں۔

1۔ پھول بغیر اعراب، درست

2۔ پھُول پھ پر پیش، درست

3۔ پُھول پ پر پیش، غلط

4۔ پھوُل واؤ پر پیس، غلط

5۔ پھولُ ل پر پیش۔ غلط

بڑی ے کو ہی ہمزہ کے ساتھ استعمال کرنے پر ایک مسئلہ اور پیدا ہو جاتا ہے۔ یونی کوڈ میں ایک علیحدہ کیریکٹر اس کے لئے مختص کیا گیا ہے

ۓ (06D3) Arabic letter yeh barree with hamza above

اور یونی کوڈ کنزورشیم نے بھی یہ مانا ہے کہ

Actually it is a ligature and not an independent letter

اور ان پیج میں یہ کیریکٹر ہے ہی نہیں، اور اردو والے کیونکہ اسی سافٹ وئر کے عادی ہو چکے ہیں، اس لئے کمپیوٹر میں اس لگیچر یا ’حرف مخلوط‘ کو ’ئ‘ +‘ ے‘ کے طور پر لکھیں گے یا ’ے‘ اور ’ٔ‘ ہمزہ اوپر کے طور پر۔ مثلاً ’جائے‘ کی درست شکل ہونی چاہیے

ج + ا + ۓ ۔۔جاۓ

لیکن لکھا جاتا ہے جائے یا جاۓ۔ یعنی ’جاۓ‘ لکھنے کے لیے تین کی جگہ چار کنجیوں کا استعمال، ج، ا، ہمزہ اور ے۔ (ج، ا، ے اور ہمزہ لکھنے پر جو شکل بنتی ہے وہ یہ ہے: جاؐے جو غلط نظر بھی آتی ہے)۔ اس لئے میرا مشورہ یہی ہے کہ ایک کنجی کی حرکت بچانے کی عادت ڈالیں اور اس کے لئے ’ۓ‘ (06D3) ہی استعمال کریں۔

اب الف کی مختلف صورتوں کو دیکھیں:

سادہ ’ا‘ لے علاوہ ’آ‘ ، ’أ‘ اور ٓ‘ ۔ ممدودہ الف کو ٹائپ کرنے کے دو طریقے دیکھے گئے ہیں۔

پہلا اور درست تو واحد کیریکٹر یعنی ایک ہی کنجی سے ’آ‘ (0622) ٹائپ کرنا

اور دوسرا ’ی‘ لگا کر اس کے بعد ’ ٓ‘ (0653) لگانا

لیکن یہی کیریکٹر یعنی 0653 دوسرے حروف پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے

ا لٓ مٓ

اگرچہ ان پیج میں بھی ’آ‘ ایک ہی کنجی پر دستیاب بھی ہے لیکن پھر بھی کبھی کبھی اسے الگ الگ دو کیریکٹرس ٹائپ کر کے بنایا جاتا ہے۔ بلکہ غلطی سے الف سے پہلے بھی مد لگا دیا جاتا ہے جو شاید ان پیج میں درست نظر آتا ہو لیکن یونی کوڈ متن میں نہیں!

جب بات اغلاط کی چل ہی نکلی ہے تو یہ بھی بتا دوں کہ تنوین اور اعراب کو بھی جس حرف پر وہ ہوں، اس کے فوراً بعد ہی لگانا درست ہے۔ لیکن کچھ حضرات اس میں بھی تقدیم و تاخیر کا لحاظ نہیں رکھتے۔ جیسے ’پُر‘ لکھنا ہو تو درست طریقہ یہ ہے

پ ُ ر

مگر اسے بھی

ُ پ ر

یا

پ ر ُ

ٹائپ کیا جاتا ہے۔ ہاتھ سے لکھنے کی صورت میں تو ظاہر ہے کہ ’پر‘ لکھنے کے بعد ہی پیش لگایا جاتا ہے، اب وہ پیش جہاں بھی لگا ہوا دکھائی دے، لیکن کمپیوٹر میں ٹائپ کرنے پر یہ غلط ہی ہو گا۔

بات الف کی مختلف شکلوں کی کی جا رہی تھی تو اسے جاری رکھتے ہوئے اب ’جرأت‘ جیسے الفاظ ٹائپ کرنے کی بات کی جائجیسے الفاظ ٹائپ کرنے کی بات کی جائجیسے الفاظ ٹائپ کرنے کی بات کی جائے۔ اس کے لئے بھی یونی کوڈ میں ایک حرف أ(0623) مقرر کیا گیا ہے اس لئے اسی کو استعمال کرنے میں جرأت درست ٹائپ ہو گا۔ لوگ الف ٹائپ کر کے اس پر ٔ 0654 لگا کر بھی ویسی ہی دکھائی دینے والی شکل بنا دیتے ہیں، یعنی أ، لیکن یہ غلط طریقہ ہے۔

الف تنوین، جیسے ’فوراً‘ (بلکہ دوسرے حروف پر بھی تنوین جو اردو میں شاذ ہی استعمال ہوتی ہے) کے لئے کوئی علیحدہ کیریکٹر تو یونی کوڈ میں موجود نہیں، لیکن اسے ٹائپ کرنے کے بھی دو طریقے دیکھے گئے ہیں۔ حرف سے پہلے تنوین، اور حرف کے بعد تنوین۔ ایک طریقہ عربی کے لئے درست ہے تو دوسرا طریقہ اردو کے لئے۔ یعنی عربی میں ’فورًا‘ لکھا جائے (ف + و + ر + ً + ا) گا، یعنی تنوین الف سے قبل، جب کہ اردو میں درست طریقہ بعد میں تنوین ٹائپ کرنے کا ہے یعنی ’فوراً‘ (ف + و + ر + ا + ً)درست ہے۔ عربی بلکہ دینی کتب اور بطور خاص قرآن کو ٹائپ کرنے والے شاید پہلے تنوین لگانے کے عادی ہو گئے ہیں جو حرف کے پہلے ہی لگا دیتے ہیں۔

مندرجہ بالا مسائل کے علاوہ بلکہ مستزاد ایسے کیریکٹر سیٹ بھی موجود ہیں جن میں ہر حرف کے مفرد، ابتدائی، درمیانی، اور اختتامی اشکال الگ الگ یونی کوڈ کیریکٹر کی شکل میں الگ الگ کوڈ پائنٹس کے ساتھ دی گئی ہیں۔

جیسے

مفرد ب ۔۔ ﭒ

ب کی ابتدائی شکل ۔۔ ﭔ

ب کی درمیانی شکل ۔۔ ﭕ

ب کی اختتامی شکل ۔۔ ﭓ

اور مزے کی بات یہ ہے کہ میری نظر سے ایسے متون بھی گزرے ہیں جن میں یہ حروف استعمال کیے گئے ہیں اور ایسے کی بورڈ بھی دیکھے ہیں جن میں یہ ٹائپ کرنا ممکن ہے!! یہاں ایسے کیریکٹرس نسخ میں خاص طور پر اس وجہ سے دکھائے گئے ہیں کہ زیادہ تر نستعلیق فانٹس میں یہ شامل ہی نہیں۔

ونڈوز میں جو اردو کے مستعمل کی بورڈس موجود ہیں، ان میں ضروری تھا کہ یہ سارے کیریکٹرس بھی موجود ہوتے، لیکن ایسا محض کچھ ہی کی بورڈس میں دیکھا گیا ہے۔ کسی میں ؤ تو موجود ہے، لیکن ۓ نہیں۔ کسی میں دونوں موجود نہیں۔ سمارٹ فونس میں گوگل کا اردو جی بورڈ اور سوئفٹ کی کا اردو کی بورڈس وغیرہ میں بھی ’ۓ‘ کہیں موجود نہیں، بلکہ کسی انڈرائیڈ کی بورڈ میں یہ کیریکٹر موجود نہیں۔ البتہ ’ؤ‘ اکثر میں موجود ہے۔ ’ۂ‘ اسوئفٹ کی بورڈ اور گوگل میں موجود ہے لیکن دوسرے کی بورڈس میں نہیں۔ موبائل کے لئے انڈرائڈ کی بورڈس میں یوں بھی سارے ممکن کیریکٹرس شامل کیا جانا مشکل ہی ہے کہ اس میں وقوف اور علامات کی انٹر نیشنل علامات رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ آپ آسانی سے @ اور * بھی اسی کی بورڈ میں ٹائپ کر سکیں۔

اس کے علاوہ موجودہ دور میں جہاں بھی اردو یونی کوڈ اردو دیکھی جاتی ہے، زیادہ تر مقدار میں ان پیج سے کنورٹ کی ہوئی ہوتی ہے۔ اس لئے کنورٹ کرنے پر بھی جس طرح اصل ان پیج میں ٹائپ کیا گیا ہو گا، انہیں کیریکٹرس کو کنورٹ کر کے یونی کوڈ متن برامد کیا گیا ہو گا۔ اگر ان پیج میں ہی ؤ یا ۂ کی جگہ کچھ اور کیریکٹرس ٹائپ کیے گئے ہوں گے تو کنورٹ کرنے پر بھی وہی غلطی جاری رہے گی۔ بلکہ کنورٹر درست کنورٹ نہیں کر سکے تو خالی ڈبے یا سوالیہ نشان کے ساتھ کنورٹ کرتا ہے، جو ویب پر بھی اکثر دیکھے گئے ہیں۔ اور ان کی درستی کی بھی کوئی سبیل نہیں کی جاتی کہ انہیں بعد میں پڑھ کر درست کر لیا جائے۔

اس کے علاوہ دینی کتابیں ٹائپ کرنے والے شاید عربی حروف سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں کہ اردو بھی انہیں حروف میں عربی کی بورڈ سے ہی ٹائپ کر دیتے ہیں۔ جس کے نتیجے کے طور پر ہ، ۃ، ی وغیرہ درست ٹائپ نہیں ہوتے حالانکہ دیکھنے میں ممکن ہے کہ درست لگیں۔

اور ان مسائل کی وجہ سے ہی اردو کے لئے بہترین املا کی پڑتال کرنے والا سافٹ وئر یا سپیل چیکر نہیں بن سکا ہے۔ کہ اگر ’جاؤ‘ کو درست لفظ مان کر لغت میں دیا جائے، تو ’جائو‘ ’جاؤ‘ کو غلط دکھایا جائے گا، یا پھر ان غلط دئے ہوئے الفاظ کو بھی درست مان کر اس سافٹ وئر کی لغت میں دینا پڑے گا۔

ٹائپ کرنے والوں کی اس عادت کا، کہ وہ درمیانی سپیس کا خیال نہیں رکھتے، میں ہر فورم میں اظہار کرتا رہتا ہوں۔ لیکن اب بھی یا تو ہمارے کمپوزرس حروف ’’ملاکر‘‘ ٹائپ کرتے ہیں، یا ’ا لگ ا لگ‘ الگ الگ ٹائپ کرنے میں ایک لفظ دو الفاظ میں تبدیل ہو جاتا ہے، اور اگر آپ کو دیکھنے میں یہ غلطی نہ محسوس ہو، اور اسے آپ ’لغت میں شامل کریں‘ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے شامل کر دیں تو آئندہ بھی یہی غلطی ہو گی تب بھی آپ کا ورڈ سافٹ وئر غلطی نہیں دکھائے گا۔

اس کی ایک مثال کے طور پر میں اسی شمارے کے ایک مضمون کے اصل مسودے کی سطریں اور تصحیح کردہ متن نیچے پوسٹ کر رہا ہوں۔ فرعق آپ خود دیکھ سکتے ہیں۔

اصل مسودہ

جو لوگ ڈاک سے موصول ہونے والے مکاتیب کی اہمیت سے آگاہ نہیں وہ ان مکاتیب کاسرسری انداز میں مطالعہ کرنے کے بعد انھیں ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ا س کے بعدکبھی آ نکھ اُٹھاکر بھی ان خطوط کی طر ف نہیںدیکھتے ۔ اپنے نام آنے والے خطوط کے ساتھ اُن کی یہ بے اعتنائی جہاں اُن کی بے حسی کی دلیل ہے وہاں اس امر کی جانب بھی اشارہ ہے کہ کارواں کے دِل سے احساسِ زیاں عنقا ہونے لگاہے ۔ اپنی عملی زندگی میںغاز ی علم الدین اپنے نام آنے والے مکاتیب کامالعہ کرنے کے بعد اپنے صوابدیدی اختیار استعمال کر کے اُنھیں ایک طرف نہیں رکھ دیتے۔

تصحیح شدہ:

جو لوگ ڈاک سے موصول ہونے والے مکاتیب کی اہمیت سے آگاہ نہیں وہ ان مکاتیب کا سرسری انداز میں مطالعہ کرنے کے بعد انھیں ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ اس کے بعد کبھی آنکھ اُٹھا کر بھی ان خطوط کی طرف نہیں دیکھتے۔ اپنے نام آنے والے خطوط کے ساتھ اُن کی یہ بے اعتنائی جہاں اُن کی بے حسی کی دلیل ہے وہاں اس امر کی جانب بھی اشارہ ہے کہ کارواں کے دِل سے احساسِ زیاں عنقا ہونے لگا ہے۔ اپنی عملی زندگی میں غازی علم الدین اپنے نام آنے والے مکاتیب کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنے صوابدیدی اختیار استعمال کر کے اُنھیں ایک طرف نہیں رکھ دیتے۔

٭٭٭

 

3 thoughts on “یونی کوڈ اور اردو کے مسائل ۔۔۔ اعجاز عبید

عمار نعیمی کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے