کورونا وائرس ۔۔۔ مصحف اقبال توصیفی

ہم کو لگتا تھا سب کچھ ٹھیک ہے۔ لیکن دل میں یہ کھٹکا بھی کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے
تبھی تو ننگے پاؤں ۔۔ آدھی رات کو اس کے در پر
اس سے ملنے جاتے تھے
(وہ کہتا تھا آؤ، بیٹھو
تھکے ہوئے سے لگتے ہو)
ہم خاموش کہ وہ کچھ بولے ۔۔۔ کچھ تو بولے
وہی بتائے
جنگل سے شہر اور شہر سے جنگل
پربت، بادل، پھولوں، پتوں
بازاروں۔ سڑکوں، گلیوں کی دھول میں اٹ کر
اتنی صدیوں … نوری سالوں
پیدل چل کر ہم نے
اتنی مسافت کیسے ظے کی
اُس سے ملنے، خود سے ملنے
ہم کب آئے
ہم کیوں آئے؟
****

وہ کیوں بولے ……
کیا وہ ’ووہان‘ اندھے لوگوں کی بستی تھی؟
یا ساری دنیا ہی اندھی تھی
بینائی سے محروم
اندھے لوگوں کا ہجوم
قید، آزادی، تنہائی
بھوک، ہوس، دہشت، خواہش
منہ اور ناک پہ پٹّی
سز، ابیض، زردی مائل، عنّابی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہماری یہ دو آنکھیں
دونوں اندھی……
٭٭٭
(احمد مشتاق کی ترجمہ کردہ پرتگالی ادیب حوزے ساراماگو (نوبل انعام یافتہ) کی کتاب ’اندھے لوگ‘ میں نے پڑھی ہے۔کورونا وائرس سے پیدا شدہ حالات سے گزرتے ہوئے مجھے لگا کہ کس طرح (جیسے ساراماگو نے دکھایا ہے) تعفن اور پاکیزگی، نیبد اور بیداری، آزادی اور تنہائی، بھوک اور شہوانیت، سب ایک دودھیا سفیدی (یا ایک وائرس) میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ ہماری کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے)
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے