حنیف ترین شہر غزل کا ایک ایسا خوش بیاں شاعر ہے جس کا لڑکپن سرائے ترین سنبھل میں گزرا، عنفوانِ شباب کا کچھ وقت کشمیر کی خوب صورت و حسین وادی میں بسر ہوا، شباب کا کچھ حصہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی جیسے عظیم ادارے میں تعلیم و تربیت کے دوران صرف ہوا اور جب نوجوانی کا دور آیا تو خود کو سر زمینِ عرب کے صحراؤں، وہاں کے فلک بوس پہاڑوں اور بلند و بالا عمارتوں، سعودی عرب کے کھجور کے پیڑوں اور ان سب سے بڑھ کر مقامِ مقدس جگہ کے پاکیزہ صحن میں پایا۔ اس طرح بے خودی کے عالم میں محو حنیف ترین کی جوانی کب اور کیسے ڈھل گئی، اس کا انھیں احساس ہی نہیں ہوا۔ سعودی عرب کی آب و ہوا اور ماحول نے ان کی روح، ان کے جذبۂ ایماں، طہارتِ قلب اور باطن کو اتنا صاف کیا کہ انھوں نے وقت کے نشیب و فراز کی کروٹوں کو بڑی بے باکی اوردلیری سے بیان کیا۔ ذاتِ ذوالجلال نے سخن وری جیسی عظیم صفت سے نوازا تو اس صفت کو اپنے اظہارِ خیال کا ساماں بنایا۔ مشاہدہ اور جذب کرنے کی ان میں بے شمار صلاحیت ہے، ساتھ ہی ساتھ وہ وقت اور حالات و واقعات کا گہرا مشاہدہ رکھتے ہیں۔ کمزوری ان کی علامت نہیں بلکہ صاف گوئی اور جرأت مندی ان کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ ان کا ذہن جامد و منجمد نہیں بلکہ وہ تجسس و تحیر، تحرک و فعالیت، فکر و گیرائی، دانش و بینش اورتاب و تواں کا روشن استعارہ ہے۔ حنیف ترین کی روشن ضمیری ان کی شاعری کی پہچان ہے۔
ڈاکٹر حنیف ترین کے اب تک ایک درجن سے زائد شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ’’پس منظر میں منظر بھیگا کرتے ہیں‘‘ شاعری میں ان کی شناخت قائم کرنے والا اہم شعری مجموعہ ثابت ہو چکا ہے۔ اس سے پہلے ان کے شعری مجموعے ’’ابابیلیں واپس نہیں آئیں‘‘ کی بھی ادبی حلقے میں اچھی خاصی پذیرائی ہوئی ہے۔ حنیف ترین ایک دل آفرین اور جہاں دیدہ شاعر واقع ہوئے ہیں۔ کائنات کی نیرنگی اور بوقلمونی کے احساس نے ان کی شاعری میں تنوع پیدا کر دیا ہے۔ انھوں نے شاعری کو رومان، ارمان، احساس، ماضی، حقیقت، ہجراور خوش گوار یادوں کی مالا سے پرو دیا ہے۔ حنیف ترین کی شاعری میں فطرت کے حسن کی خوشبو محسوس کی جا سکتی ہے۔ اس میں صحرا میں آندھی کے طوفان کی مانند اٹھتی ہوئی ریتیلی ہواؤں کی اور سمندر کی تیز و تند موجوں اور آتی جاتی لہروں کی سنسناہٹ معلوم ہوتی ہے۔ حنیف ترین کی شاعری پڑھ کر ایک قاری اپنے آپ کو کسی کھلے سبز جنگل یا سبزہ زار میں پاتا ہے، جہاں کی مہکتی، صاف و شفاف معطر و معنبر ہوائیں اور بھینی بھینی خوشبوئیں ہمارے جسم میں کثافتوں کی سینچائی کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ ان کی شاعری مختلف النوع رنگوں سے مزین نظر آتی ہے جس سے ان کی شخصیت اور ان کا قلب و جگر مہمیز ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اس میں عشق کی مہک ہے، یادوں کی رمق ہے، ہجرت کا کرب ہے، خواب آسیب رنگ ہے، دھنک رنگ سماں ہے، نیز غزل رنگ ہے اور غزل نما رنگ بھی۔ ان تمام جہتوں سے حنیف ترین کی شاعری اثر آفریں ثابت ہوئی ہے۔
زیر نظر شعری مجموعہ ’’پس منظر میں منظر بھیگا کرتے ہیں‘‘ کا آغازساہتیہ کادمی انعام یافتہ ناقد نظام صدیقی کے مضمون بعنوان ’’نئے عہد کی نظمیہ تخلیقیت کا سدا بہار دل افروز سخن ور‘‘ سے ہے۔ جس میں موصوف تنقید نگار نے اگر چہ حنیف ترین کی شاعری میں پنہاں مختلف معنی کی پرتیں کھولنے کی کوشش کی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ معنیاتی پرتیں اس مضمون کی لفظیاتی ساخت، دِقت آمیز اور نہ کے برابر مستعمل تراکیب کے استعمال کے سبب دب سی گئی ہیں۔ جس سے حنیف ترین کی شاعری میں وہ رومانی، جمالیاتی اور جذباتی حسن نمایاں ہونے سے قاصر رہا۔ مگر اس تحریر سے قاری کو ضرور اندازہ ہو جاتا ہے کہ موصوف کی شاعری میں گہرائی و گیرائی ہے جو مضمون نگار کو اس قدر لفظوں کے جال میں پھنسا گئی، بالفاظِ دیگر ان پر شاعر کے وجدانی اظہار و کیفیت کا اثر طاری ہوا۔
ابتدا میں شاعر نے روایت کے مطابق ’’حمد‘‘ اور ’’نعت‘‘ لکھ کر رب العالمین اور سرورکائناتﷺکے تئیں اپنی عقیدت ظاہر کی ہے۔ جو معنی آفرینی، سادگی و سلاست، صداقت آمیزی اور اخلاص و مروت سے معمور ہیں۔ اس کے بعد ایک نظم ’’پس منظر میں منظر بھیگا کرتے ہیں‘‘ تخلیق کی گئی ہے۔ جو اس شعری مجموعے کا نام بھی ہے۔ اس نظم کا ایک بند ملاحظہ فرمائیں:
قرمزی تانوں میں کھُل کھیل رہا ہے نشّہ
دل کے افلاک میں پھل پھول رہا ہے نشّہ
صدیاں اڑتی ہوئی لفظوں کی قبائیں پہنے
گیت کے پاؤں میں بجتے ہیں شہابی گہنے
میں ہی میں ہر جگہ ایک کیف کی پہنائی میں
پھر بھی اک محفل جولاں گہہِ تنہائی میں
درج بالا بند میں شاعر کے جذبہ و احساس کی شدت صاف ظاہر ہوتی ہے۔ وہ نہایت خوب صورتی سے اپنی زندگی کے تجربات بیان کر رہا ہے۔ جس میں رنگینی ہے اور فطری حسن کی دلکشی بھی موجود ہے۔ آزادی ہے اورماضی کی جکڑ بند روایتوں سے بغاوت بھی۔ شاعر وسعت افلاک کے مانند دل رکھتا ہے، احساس و شعور کا ادراک رکھتا ہے۔ وہ حرمتِ پاسداری، ایماں و ایقاں اور الفت و محبت چاہتا ہے۔ اسی لیے تو بقول شاعر ’’میں ہی میں ہر جگہ اک کیف کی پہنائی میں، پھر بھی اک محفل جولاں گہہِ تنہائی میں‘‘ کے مصداق خود کو پاتا ہے۔ جو تنہائی اور مایوسی کی دلنشین علامت ہے۔ نظام صدیقی نے اس نظم میں ان کی صبر شکن اور صبر آفریں پیکرات، استعارات، تمثالات وغیرہ کی خوب نشاندہی کی ہے۔ ڈاکٹر مشتاق صدف اس شعری مجموعے کے فلیپ پر حنیف ترین کی شاعری سے متعلق یوں رقمطراز ہیں:
’’پس منظر میں منظر بھیگا کرتے ہیں‘‘ ان کی نظموں اور غزلوں کا بہترین انتخاب ہے۔ ایسی غزلیں اور نظمیں جن میں زندگی کہیں دوڑتی نظر آتی ہے تو کہیں ’آگے چلیں گے دم لے کر‘ کی کیفیت سے ذہن و دل کو خوب متاثر کرتی ہیں۔ ان کے یہاں کہیں تشدد کی آگ سے زندگی جھلس رہی ہوتی ہے تو کہیں محبتوں کے مینار کے تلے حیاتِ انسانی روشن نظر آتی ہے۔‘‘
حنیف ترین نے ’’پس منظر میں منظر بھیگا کرتے ہیں‘‘ کو ’’عشق رنگ‘‘ ، ’’یاد رنگ‘‘ ، ’’ہجر رنگ‘‘ ، ’’خواب رنگ‘‘ ، ’’دھنک رنگ‘‘ ، ’’غزل نما رنگ‘‘ اور’’غزل رنگ‘‘ جیسے عنوانات دے کر مختلف شعری موضوعات میں تقسیم کیا ہے۔ اس طرح ہر رنگ قاری پر اپنا اثر قائم کرنے میں کامیاب بھی ہوتا ہے۔ پہلے قسم کے رنگ میں ’’وہ عشق و عاشقی میں مجھ کو پیچھے چھوڑ دیتی ہے‘‘ ، ’’میں عشق نشے میں رہتا ہوں‘‘ ، ’’پیار نے سب کچھ بدل دیا ہے‘‘ ، ’’محبت نے مجھ کو امر کر دیا ہے‘‘ ، ’’عمر جسموں میں نہیں دل میں پڑی رہتی ہے‘‘ وغیرہ نظمیں قابل ذکر ہیں۔ آخر الذکر نظم کا ایک بند ملاحظہ فرمائیے:
ہم میں پہلی سی کشش ہے اب بھی
وہی کل جیسی روش ہے اب بھی
عمر لمبی سہی، جذبات ہیں زندہ سارے
جسمِ لاغر میں چمکتے ہیں شہابی تارے
تیز رو اب بھی ہیں قالب سے نکلے دھارے
زندگی خواب ہے خوابوں کے مزے ہیں سارے
ظاہر ہے کہ عشق بھی زندگی کا ایک خاص جز ہے۔ بلکہ زمانہ قدیم کی شاعری تو عشق کی خامہ فرسائی کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ متقدمین شعرا کرام تو عشق کو پوجتے تھے۔ حنیف ترین سے بھی وقتاً فوقتاً عشقیہ اشعار رقم ہوئے ہیں۔ انھوں نے ’’عشق رنگ‘‘ دے کر اس کی معنویت کو مزید نمایاں کرنے کی سعی کی ہے۔ ان کے عشق رنگ کا تو ایک پہلو یہ بھی ہے کہ عشق کو وقت گزاری کا ساماں نہیں سمجھتے بلکہ ان کا عشق دو دلوں کے جاودانی ملن کے مترادف ٹھہرتا ہے۔ حنیف ترین کی ’’یاد رنگ‘‘ کے تحت کہی گئی نظموں میں ’’گنبدیں یاد آنے لگیں‘‘ ، ’’یادوں کی رسیلی تانوں میں‘‘ ، ’’ٹھٹھری یاد کی گرمی میں‘‘ ، ’’نظم اسے لکھنے بیٹھتی ہے‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ تخلیق میں ماضی کی خوش گوار اور ناخوش گوار یادوں کے بیچ منطقی ربط نہ ہو تو شاعری بے سود اور بے مطلب لگنے لگتی ہے۔ حقیقت سے منہ پھیرنا دانائی نہیں۔ اس لیے ماضی کی حقیقتوں کا اعتراف تخلیق کار کے تخلیقی حسن میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس طرح حنیف ترین نے بھی اپنی تخلیق کو یادِ ماضی کے نگار خانے میں سجا سنوار کر اسے مزید زندگی عطا کی ہے۔ ان کی ’’ ہجر رنگ‘‘ ، ’’خواب رنگ‘‘ اور ’’دھنک رنگ‘‘ کی نظمیں بھی اپنی مثالیں آپ ہیں۔ جن میں ’’ہرے موسم جدائی زرد کرتی ہے‘‘ ، ’’ہجر میں وصل کھلا جائے گا‘‘ ، ’’غمِ ہجراں کی صحرائی چٹانوں میں‘‘ ، ’’کوئی مجھ کو بلاتا ہے‘‘ ، ’ ’خواب میں خواہش جھول رہی ہے‘‘ ، ’’جیون کا ہر خواب حقیقت ہے تم سے‘‘ ، ’’بھیڑ ممیں ہوں تنہائی کی‘‘ ، ’’درد جو باہر آ جاتا ہے‘‘ ، ’’جو نہیں! اس کے انتظار میں ہوں‘‘، ’’لطف کی گرہیں کھول رہا ہوں‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ ’’غزل نما رنگ‘‘ میں حنیف ترین کی آزاد غزلیں ہیں جب کہ ایک حصے میں غزلیں بھی ملتی ہیں۔ غزل کے تین شعر ملاحظہ ہوں:
میں رہا خود ہی عمر بھر تنہا
گھر میں رہ کر بھی در بدر تنہا
جہاں بھی ٹوٹے ہے رشتوں کا ریشمی دھاگا
وہاں تو نوک بھی سوئی کی تیر لگتی ہے
اب سوچ کے صحرا سے سرابوں کو اُگالوں
تنہائی میں جینے کا یہ انداز بنا لوں
حنیف ترین کی غزلیہ شاعری اگرچہ شوخی سے معمور ہے تو فرقت سے ممیز بھی ہے۔ اگر اس میں جیون جیوتی ہے تو درد و غم اور یاس انگیزی بھی ہے۔ اگراس میں قربت اور خواہشِ وصل ہے تو ہجر اور دوئی کا کرب بھی ہے۔ اگراس میں خوف و دہشت، تاریکی اور ظلمت و جبرکی علامتیں موجود ہیں تو اس میں نگہبانوں، رَت جگوں اور انقلابیوں کی روشن ضمیری کا چراغ بھی روشن تر ہے۔ اگر اس میں ہماری سوچیں پابہ زنجیردکھائی گئی ہیں تو اس میں غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کی ہمت و شجاعت کا عکس بھی ملتا ہے۔ اگر اس میں صحرا کی تپش ہے تو وہیں اس کی جلن کا مداوا بھی ہے۔
حنیف ترین کی غزلوں میں درد و الم، یاس و تنہائی، ظلم و جبر، خوف اور ڈر، ہجرت و کرب، جنگ و جدل، نفرت و تباہی، سیاست و وحشت، مکر و فریبی، حیوانیت و درندگی کو نمایاں کرتے والے کئی اشعار ملتے ہیں۔ ان کا لہجہ کہیں دھیما اور کہیں نرم و ملائم جیسا ہے، کہیں وہ انقلابی رخ اختیار کرتا ہے تو کہیں کہیں اس میں ٹھہراؤ بھی ہے۔ حنیف ترین کی غزلیں حیاتِ انسانی کی سچائیوں کو منکشف کرتی ہیں، عصری معاملات و واقعات سے پردہ اٹھاتی ہیں اورزندگی کی رعنائیوں اور پراگندگیوں کا چہرہ دکھاتی ہیں۔ ان کی زبان بھی خاصی شستہ ہے۔ مزید لفظوں کا بھی لامحدود ذخیرہ ان کے پاس موجودہے۔ جن سے وہ اپنے قلبی واردات کو استحکام عطا کرتے ہیں۔ نئی نئی اصطلاحیں، علامتیں اور ترکیبیں و غیرہ وضع کر کے حنیف ترین شاعری کو ایک مخصوص سمت دیتے ہیں۔ حنیف ترین کی نظموں اور غزلوں پر کھل کر گفتگو کی جائے تو بات بہت دور تلک جائے گی۔ لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ان کی شاعری عہد نو کے شعرا سے بہت حد تک مختلف ہے۔ جو فرحت بخش ہے اور معیار و قد میں بھی کم نہیں۔ حنیف ترین کی شاعری قاری کو مطالعے کی دعوت دیتی ہے۔
٭٭٭ ماخذ: مصنف کی کتاب ’’اردو کی عصری صدائیں ‘‘
٭٭٭