وہ چھوٹے سے اس کمرے میں زمین پر پیر پسارے بیٹھا تھا۔ اس کا چہرہ بے تاثر مگر پرسکون اور آنکھوں میں بلا کا اطمینان دکھائی دیتا تھا۔ ان مانوس دیواروں پر نگاہ دوڑائی تو اپنے دن بھر کی مصروفیات اس کی نگاہوں میں گھوم گئیں۔۔۔
وہ معروف جسٹس صفدر علی کا گن میں تھا، لیکن جج صاحب عید منانے اپنے آبائی علاقے میں گئے ہوئے تھے تو منشی نے اس کی ڈیوٹی ایک جامع مسجد پر لگا دی تھی۔ آج ۲۹/رمضان کے ساتھ ساتھ جمعۃ الوداع بھی تھا لہذا سیکورٹی خدشات کے پیش نظر اہم مقامات پر پولیس کی اضافی نفری تعینات کی گئی تھی۔
‘‘سنیئے! آج ہو سکتا ہے چاند رات ہو جائے اس لیے جلدی گھر آ جائیے گا۔ آپ کی لاڈلی نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔۔۔ اچھی خاصی رمضان سے پہلے خریداری ہو جاتی مگر اس کی ایک ہی ضد، عید کی خریداری ابو کے ساتھ کروں گی۔۔۔ آپ کو تو فرصت ملتی نہیں اب چاند رات سر پہ آ گئی ہے۔۔۔‘‘ جماعت کھڑی ہی ہوئی تھی کہ بیوی کا فون آ گیا۔ صبح بھی ان کے درمیان تلخ کلامی ہو چکی تھی لہذا اس نے اسے تسلی دے کر جان چھڑانے میں ہی عافیت جانی۔
اسلحہ جمع کرانے ہیڈ کوارٹر پہنچا تو منشی نے ‘‘مژدہ‘‘ سنایا، ‘‘پی۔ سی۔ ارشد، 29965 تیری انتظام ڈیوٹی آئی ہے۔ سی۔ ایم ہاؤس پر افطار پارٹی ہے۔۔۔ نفری تیار ہے جا کے ٹرک میں بیٹھ جا۔۔۔‘‘
رات گئے افطار پارٹی ختم ہوئی۔۔۔ اس دوران بیسیوں مرتبہ گھر سے فون آ چکا تھا۔ تنگ آ کر اس نے بیوی کو جھڑک دیا۔۔۔ مگر اندر سے تڑپ کر رہ گیا، اگر وہ وقت پر نہ پہنچ سکا تو گڑیا عید پر کیا پہنے گی۔۔۔؟! وہ انہی سوچوں میں گم تھا کہ سرکاری ٹرک پولیس ہیڈ کوارٹر کے آہنی دروازے سے اندر داخل ہو رہا تھا۔۔۔
‘‘یار منشی میرا اسلحہ پہلے جمع کر لے پھر روزنامچہ بناتے رہنا۔‘‘ رات والے منشی کو سست روی کے ساتھ روزنامچہ پر جھکا دیکھ کر اسے کوفت ہو رہی تھی۔۔۔‘‘او تجھے بہت جلدی ہے۔۔۔ مجھے اور بھی کام ہیں چپ کر کے بیٹھ ادھر۔۔۔‘‘
انتظار کا ناگ اسے مسلسل ڈس رہا تھا۔۔۔
منشی کا اٹھتا، رکتا قلم۔۔۔، چائے اور سگریٹ کا دھواں۔۔۔ بلند ہوتے قہقہوں کی گونج۔۔۔۔ گڑیا کا اداس چہرہ۔۔۔۔ اس کے سینے میں الاؤ دہک رہا تھا۔۔۔
جی کرتا تھا پر لگا کر گھر پہنچ جائے، مگر یہ سرکاری اسلحہ اس کی جان کا عذاب بنا ہوا تھا۔ جب تک اسلحہ جمع نہیں ہو جاتا وہ کہیں نہیں جا سکتا تھا۔۔۔ اسلحہ۔۔!!! اپنے ہاتھ میں جکڑی ایس۔ ایم۔ جی کی نال کو محسوس کر کے اس کی گرفت اس پر مضبوط ہوتی گئی۔۔۔ وہ بجلی کی سی تیزی سے اٹھا اور نال کو منشی کے سینے پر سختی سے جما دیا۔۔۔ اس کا ہاتھ گھوڑے پر تھا، جب وہ دھاڑا:
‘‘تیار ہو جا منشی! اب ہم دونوں کے بچے عید نہیں منائیں گے۔۔۔‘‘
فضا بیک وقت کئی گولیوں کے چلنے کی آواز سے گونج اٹھی۔۔۔
‘‘لگتا ہے عید کا چاند بھی ہو گیا۔..‘‘ حوالات میں بیٹھے بیٹھے اس نے سوچا۔۔۔
٭٭٭