وہ ایک شخص دو عالم کی سروری والا
شعور دے گیا شاہوں کو سادگی والا
ہزاروں چاند ستارے وہ کر گیا روشن
وہ اک چراغ تھا سورج کی روشنی والا
وہ مُہرِ ختمِ نبوت ، وہ حرفِ آخرِ حق
وہ اک رسول رسولوں میں آخری والا
قریبِ عرش خدا سے وہ محوِ راز و نیاز!
زمیں پہ نقشِ اطاعت وہ بندگی والا
نگار خانۂ سیرت کا شاہکار ہے وہ!
وہ نقشِ خاص خدا کی مصوری والا
کھڑا ہے راہِ خدا میں وہ خلق سے آگے
علَم اٹھائے ہوئے شانِ رہبری والا
ہر ایک چشمۂ عرفاں اُسی سے نکلا ہے
وہی ہے منبعِ اعجاز آگہی والا
شعار اُس کا ہے معراجِ خُلقِ نوعِ بشر
سلوک اُس کا ہے تکریمِ آدمی والا
شعاعِ نورِ ہدایت ہے اُس کی ہر تعلیم
دلوں سے داغ مٹاتی ہے تیرگی والا
وہ بد نصیب جو منکر ہیں اُس کی سنّت کے
مزاج رکھتے ہیں خواہش کی پیروی والا
کٹاؤ گردنِ پندار اُس کے لفظوں پر
پیامِ احمدِ مرسل ہے زندگی والا
مرا امام ہے لوگو وہ انبیاء کا امام
زمانے بھر میں نہیں جس کی ہمسری والا
۔ ق ۔
عدن بنا گیا مسجد کو اپنے سجدوں سے
مکینِ خاص مدینے کی اک گلی والا
بڑے ادب سے اُس اُمّی لقب کے قدموں میں
قلم بھی رکھتا ہے قرطاس عاجزی والا
سخن تو حسبِ مراتب نہیں ظہیرؔ کے پاس
درودِ سادہ ہے لیکن یہ شاعری والا
الہٰی جب بھی فرشتے پڑھیں صلوٰۃ و سلام
مرا سلام بھی پہنچے یہ بے بسی والا
بنا دے میرا ٹھکانا بھی اِس کی مٹی میں
نبی کے شہر میں آیا ہے بے گھری والا
٭٭٭