ڈاکٹر صاحب نے گز بھر ہاتھ ہمارے پیٹ میں گھسیڑ ڈالا، دو گھونسے چھاتی پر دے مارے، ٹھوڑی پکڑ کر گردن جھٹکا ڈالی اور پھر پیشتر اس کے کہ ہمارا سانس درست ہو اور ہم مفصل حالات بتا سکیں وہ قلم لیے کاغذ پر پل پڑے۔ چشم زدن میں نسخہ گھسیٹا گیا۔ الفاظ ہمارے الجھے ہوئے سانسوں میں اٹکے ہی رہے اور حیرت سے کھلے ہوئے ہاتھوں میں نسخہ تھماتے ہوئے وہ تیزی سے بولے: ’’کسی کیمسٹ سے دوا بنوا لیجیے۔ تین تین گھنٹے بعد ایک خوراک۔۔۔۔ پانچ روز بعد پھر دکھائیے۔۔۔۔ اگلا مریض بھیجو بھئی۔’’ نظر اٹھائی تو چپڑاسی ایک اور ٹوٹے پھوٹے آدمی کو چک اٹھا کر اندر دھکیل رہا تھا اور جب تک ہم اس تبدیلی کو مکمل طور پر سمجھ سکتے ڈاکٹر صاحب اس کے گلے سے بکری کی آواز نکلوا رہے تھے جس کی تان ہمیں بھی کمرے سے باہر بہا کر لے گئی۔
باہر نکلتے ہی ہم نے اپنی لغت کی تمام گالیوں کا ورد کر ڈالا، گو ہمارا روئے دشنام عرفی بھیا کی طرف تھا جنہوں نے ہفتہ بھر سے ناک میں دم کر رکھا تھا کہ چوٹی کے ڈاکٹر کے پاس جاؤ۔ یہ ورد یقیناً عرفی بھیا کے قتل میں ختم ہوتا اگر ہمیں اچانک خیال نہ آ جاتا کہ ممکن ہے چوٹی کے ڈاکٹروں کے معائنہ کا انداز ہی یہی ہو۔ اس سے قدرے تسلی ہوئی تو ہم نے مٹھی میں مڑوڑے ہوئے نسخے کو کھولا تاکہ دیکھیں ڈاکٹر صاحب نے کیا تجویز کیا ہے۔
نسخہ کیا تھا کسی بھاگتی ہوئی فوج کی ابتری کا منظر تھا۔ کاغذ پر الفاظ کا تو دور دور بھی نشان نہ تھا۔ البتہ چند اکڑوں لکیریں، چند بیزار سی قوسیں اور چند مونچھ بردار نکتے ٹوٹے ہوئے جام کے ٹکڑوں کی طرح کچھ اس انداز میں بکھرے ہوئے تھے کہ ایک دوسرے سے بظاہر لا تعلقی کے باوجود آپس میں ٹہوکے دیتے نظر آتے تھے۔ الفاظ قسم کی چیز صرف ایک جگہ تھی جو اوپر والے کونے میں ڈاکٹر صاحب کے نام کی شکل میں چھپی ہوئی تھی اور اس کے ساتھ ڈگریوں کی ایک لمبی دم تھی، جس میں ڈگریاں کم اور شہروں کے نام زیادہ تھے۔ اس سے نیچے، جہاں ڈاکٹر صاحب کے قلم نے گھوڑ دوڑ کی تھی، جیومیٹری کے لحاظ سے بے قاعدہ خطوط کچھ اس طرح باہم دست بگریباں تھے کہ کسی سیدھے خط کی پسلی سے یک لخت کوئی قوس پیدا ہو جاتی اور اس کی بغل میں سے سیاہی کی کوئی اور رال ٹپک رہی ہوتی۔ آگے کاغذ کا وسیع، لق و دق صحرا تھا جس میں کوئی مجنوں صفت نکتہ اکیلا سر دھنتا نظر آتا۔ پھر ایک دم تین چار دندانے دار خطوط کسی پتنگ باز کی الجھی ہوئی ڈور کی طرح آپس میں ایسے گتھے ہوئے تھے کہ کوئی راکٹ کی طرح ایک دم اوپر کی طرف پرواز کر جاتا تھا اور کوئی سمندری آبدوز کی طرح نیچے سے غوطہ زن تھا۔ کسی جگہ کوئی نصف دائرہ پورے ہند سے کی نمائندگی کر رہا تھا تو کسی جگہ دو تین لڑکھڑاتی ہوئی لکیریں اپنی اٹھک بیٹھک سے کسی معرکہ آراء دوائی کا نام جپ رہی تھیں۔ کہیں سیدھے سپاٹ عمود جھنڈے گاڑے کھڑے تھے تو کہیں چھوٹی چھوٹی گھنڈیاں نئی دلہن کی طرح اندر ہی اندر سمٹی جاتی تھیں۔ اوپر نیچے، دائیں بائیں، ہر طرف ایک ہی حشر برپا تھا۔ پہلے تو ہم سمجھے کہ غلطی سے ڈاکٹر کی بجائے کسی عامل کے پاس آن پھنسے ہیں، جس نے آسمانی زبان میں کوئی تعویذ لکھ دیا ہے۔ لیکن کانوں نے شہادت دی کہ انہوں نے یہ کاغذ کسی دریا کے کنارے جلانے کو نہیں کہا تھا بلکہ کسی کیمسٹ کو دکھانے کی ہدایت کی تھی۔ پھر خیال آیا کہ ممکن ہے ہزاروں سال پہلے ڈاکٹر صاحب کے آباء و اجداد میں سے کوئی بزرگ کسی مصری یا یونانی مندر کے کاہن ہوں اور اس نسلی ورثے کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب اب بھی لاشعوری طور پر نسخہ کسی ایسی زبان میں لکھ رہے ہوں جو اہرام مصر کے تاریک ترین گوشوں میں کندہ ہے۔ لیکن جب ڈاکٹر صاحب کی حد سے زیادہ مصروفیت اور ان کا کاروباری رویہ یاد آیا تو یقین آ گیا کہ وہ کلیۃً موجودہ صدی کے ہی آدمی ہیں اور ہمارا خیال غلط ہے۔ بہر حال ہماری نگاہ کبھی ان خطوط کے کنگوروں میں اٹک جاتی، کبھی دندانے دار لکیروں میں پھدکنے لگتی اور کبھی سیدھی لکیروں سے پھسل پڑتی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہمیں اپنی بیماری اور دوا کا پتہ تو کیا چلتا البتہ پیٹ کی تکلیف کے ساتھ سر میں بھی درد شروع ہو گیا۔ آئے تھے ایک بیماری کا علاج کروانے اور جاتے وقت دو تکلیفیں جھنجھوڑ رہی تھیں۔ اپنی حالت پر ترس کھاتے ہوئے ہم مجبوراً کسی کیمسٹ کی تلاش میں چل نکلے۔
کیمسٹ کا ملازم جب نسخہ لے کر اندر گیا تو ہمارا خیال تھا کہ ڈسپنسر ابھی روتا، چیختا، کپڑے پھاڑتا باہر بھاگا آئے گا اور اپنی تعلیم و تجربے کا نوحہ کرتا ہوا دھائی دے گا کہ اس سے یہ پڑھا نہیں گیا۔ لیکن ہماری حیرت بے اختیار ابل پڑی جب تھوڑی دیر بعد ملازم لڑکا ایک نہایت صاف ستھری شیشی لے کر برآمد ہوا اور بڑی شائستگی سے ہمارے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولا: ’’کوئی اور حکم؟‘‘ شیشی میں گاڑھے نسواری رنگ کی دوائی تھی، ساتھ نسخہ تھا اوپر کارک مضبوطی سے بند تھا، کیمسٹ کا لیبل بھی چسپاں تھا۔ کہیں بھی کسی شے کے غیر معمولی ہونے کا احساس نہ ہوتا تھا۔ ہم نے خاموشی سے دوائی اٹھائی اور اپنی قابلیت میں ہزاروں کیڑے ڈالتے ہوئے گھر لوٹ آئے۔
دوائی کا استعمال کیا گیا۔ پیٹ کی تکلیف میں قدرے افاقہ محسوس ہوا لیکن ساتھ ہی سخت قبض کی شکایت لاحق ہو گئی۔ ہم نے سوچا ممکن ہے کوئی بد پرہیزی کی ہو گی۔ اگلے روز خوراک میں زیادہ احتیاط کا تہیہ کرتے ہوئے ہم پھر سے اسی کیمسٹ کی دکان پر پہنچ گئے۔
لڑکا حسب سابق اندر غوطہ لگا گیا؟ اور جب برآمد ہوا تو دوائی کی شیشی اس کے ہاتھ میں تھی لیکن بخدا۔۔۔۔ دوائی کا رنگ سرخ تھا، حالانکہ پہلے روز والی نسواری رنگ کی تھی!
’’ارے بھائی یہ کس کی دوا اٹھا لائے؟ اس نسخے کی دوا لائی ہوتی‘‘ ہم نے ڈانٹا۔
’’اسی کی ہے صاحب۔ یہ دیکھئے ٹوکن‘‘ اس نے گتے کا ایک ٹکڑا دکھایا جو ولادت کے وقت تو یقیناً چوکور ہو گا لیکن اب زمانے کی مار سے مائل بہ گولائی تھا۔
’’جاؤ جاؤ اندر لے جاؤ۔ اس سے کہو یہ دوائی ٹھیک نہیں‘‘ ہم نے سخت گاہک کے انداز میں رعب جمایا۔ لڑکا دوائی اور نسخہ لے کر اندر چلا گیا لیکن اس کے بجائے ایک مریل سی آدمی نما چیز ایپرن میں لپٹی ہوئی نکلی اور گھسی ہوئی آواز میں احتجاج نافذ ہونے لگا: ’’دیکھیے صاحب ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ دوائی بھی بنائیں اور پھر اس کی تشریحات بھی کرتے پھریں۔ ہمیں تو جو نسخے میں نظر آئے گا ہم وہی بنائیں گے‘‘
دیکھئے جناب! ’’ہم نے مصالحانہ سختی سے کہا ’’کل جو دوا آپ نے دی تھی، اس کا رنگ نسواری تھا اور یہ سرخ ہے۔۔۔۔‘‘
’’جی کل والی دوا کل والے نسخے کے مطابق ہو گی‘‘ وہ ہماری بات کاٹ کر بولے اور ’’آج کی دوا آج کے نسخے کے مطابق ہے‘‘
’’لیکن بھئی کل کا اور آج کا نسخہ ایک ہی ہے‘‘
’’ایں؟ ایک ہی ہے؟‘‘ انہیں ذرا بریک لگی، لیکن پیشہ وارانہ وقار ایک دم پھر سے ابل پڑا ’’جی نہیں ہمیں کچھ پتا نہیں، ہم تو جو نسخے میں دیکھیں گے وہی بنائیں گے‘‘ اور دھڑاک سے دروازہ بند کرتے ہوئے اور فضا میں اپنی بڑبڑاہٹ کی گونج چھوڑتے ہوئے چلے گئے۔
ہم مجبوراً مالک کے پاس پہنچ گئے جو ایک کاؤنٹر کے پیچھے پھنسے بیٹھے تھے۔ ان کے کپڑوں سے وٹامن بی کی بو آ رہی تھی اور وہ سامنے پڑی ہوئی انجکشن کے پانی کی چار شیشیوں کو انگلی سے بجا بجا کر جلترنگ کا سماں پیدا کر رہے تھے۔ انہوں نے بڑی ہمدردی سے ہماری شکایت کو سنا اور پھر اطمینان سے نسخہ ہاتھ میں لے کر کمال خود اعتمادی سے اس پر نظر دوڑائی لیکن ساتھ ہی ان کے چہرے پر پریشانی اور بے چارگی کی لہریں دوڑنے لگیں اور وہ نسخے کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے جیسے کسی شیر خوار بچے کو الارم بجنے کے بعد پہلی دفعہ ٹائم پیس گھڑی ہاتھ میں پکڑنے کا اتفاق ہوتا ہے۔
ایک دم ان کا ہاتھ اُچھلا اور گھنٹی بج اُٹھی۔ چند لمحے بعد ایپرن میں ملفوف مخلوق پھر سے آن موجود ہوئی۔
’’دیکھو بھئی یہ نسخہ پھر سے دیکھ لو تاکہ ان کی تسلی ہو جائے‘‘
’’عجب بات ہے جناب، ابھی ان کو نہایت شرافت سے بتایا ہے کہ دوائی نسخے کے عین مطابق بنائی گئی ہے لیکن اگر ان کی تسلی نہ ہو تو بنانے والے کا کیا قصور؟‘‘
’’جی بنانے والے کا قصور یہ ہے‘‘ اب تو ہم بھی سچ مچ غصے میں آ گئے ’’کہ وہ نسواری اور سرخ رنگ میں تمیز نہیں کر سکتا‘‘
بنانے والے نے ضبط کا گھونٹ بمشکل نگلتے ہوئے نسخہ ہاتھ میں پکڑا اور سب سے اوپر والی سطر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا ’’صاحب یہ تو ہے۔۔۔ (اس نے نہ معلوم کس دوائی کا نام لیا، جس کا نام لینا تو کجا محض اس کا خیال کرنے ہی سے ہمارے گلے کی رگیں پھول جاتی ہیں) اور یہ یہاں لکھی ہے پانچ ملی گرام۔ (وہ نسخے پر ایک گھنڈی پر ہاتھ رکھ کر بولا) دوسری یہ یہ۔۔۔۔ (اس نے ایک اور ڈکار نما نام لیا) یہ ہے ایک ڈرام، اور اتنی ہی میں نے ڈالی ہے۔ اور یہ ہے تیسری‘‘
اسی طرح اس نے چار پانچ نام لے ڈالے اور مالک صاحب ایسے سر ہلاتے گئے جیسے کلاس کا نالائق لڑکا کچھ سمجھے بغیر استاد کے ساتھ سر ہلاتا جائے۔ ہم نے بالآخر مالک کی طرف دیکھ کر بولا: ’’کیوں صاحب یہ ٹھیک ہے کیا؟‘‘ تو مظلومیت سے بولے: ’’جی نسخہ تو پڑھ نہیں سکتا لیکن ہمارے آدمی نہایت تجربہ کار ہیں اور بڑی احتیاط سے نسخہ بناتے ہیں‘‘ یہ کہہ کر نسخہ اور دوائی انہوں نے ہمارے ہاتھ میں تھما دی اور خود جلترنگ کی مشق فرمانے لگے۔ جب ہم وہاں سے نکلے تو سر درد پھر سے عود کر آیا تھا۔
ہمارا اگلا خیال قدرتی طور پر کسی چوٹی کے کیمسٹ کے پاس جانے کا تھا، چنانچہ جب وہاں پہنچے تو کاؤنٹر کے پیچھے کھڑے ہوئے ایک با وردی سیلز مین نے نسخہ ہاتھ میں لے کر ہمیں ایک پرچی دے دی اور نسخہ ایک لڑکے کے ہاتھ کسی نامعلوم تہ خانے کی طرف روانہ کر دیا۔ ہم ایک کاؤچ پر بیٹھے انتظار کی گھڑیاں اور دکان کی شیشیاں گنتے رہے۔ تھوڑی دیر بعد عدالت کی آواز کے انداز میں ہمارا نمبر پکارا گیا اور ہم ادھر لپکے، تو لفافے میں بند ایک شیشی ہمیں دی گئی۔ ہم نے بے صبری سے لفافہ اتار کر دوائی کا رنگ دیکھنا چاہا تو سخت نا امیدی ہوئی کیونکہ دوائی بالکل بے رنگ تھی۔ اب جو ہم نے بے چارگی سے دوائی، نسخے اور سیلز میں کو دیکھنا شروع کیا تو وہ ہمارے قریب منہ لا کر راز داری سے بولا: ’’جناب اگر کسی خاص چیز کی ضرورت ہو تو بلا تکلف کہیے، شرم کا ہے کی‘‘
ہم قدرے جھینپ سے گئے اور صفائی پیش کرنے کے طور پر جو بولنا پڑا تو صرف یہی کہہ سکے: ’’جی نہیں، چاہیے تو کچھ نہیں، لیکن کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ دوائی اسی نسخے کی ہے؟‘‘
’’ہی ہی ہی‘‘ وہ دانت نکالنے لگا ’’یہ کیا فرمایا جناب نے؟ جب آپ نسخہ دیتے ہیں تو دوائی اس کے مطابق ہی بنتی ہے‘‘
’’جی نہیں، ہم قدرے ترش ہو گئے میرا مطلب یہ ہے کہ کیا نسخے اور دوائی میں تبدیلی تو نہیں ہو گئی؟‘‘
’’استغفر اللہ، صاحب کیا بات کرتے ہیں؟ بھلا یہ بھی کبھی ممکن ہے؟ اتنا بہترین سٹاف ایسی غلطی کہاں کر سکتا ہے!‘‘
’’لیکن کل میں نے ایک کیمسٹ سے یہی دوائی بنوائی تھی تو وہ گاڑھے نسواری رنگ کی تھی اور یہ بالکل بے رنگ ہے‘‘
’’کون کیمسٹ تھا وہ؟‘‘
اور جب ہم نے نام بتایا تو وہ ہنس کر بولا: ’’غیبت اچھی نہیں ہوتی جناب، لیکن کیا کریں اگر کوئی آدمی اپنے سٹاف میں گھسیارے رکھے گا تو ویسی ہی دوائی بنے گی۔ ہمارے ہاں تو ہر احتیاط برتی جاتی ہے۔ شیشیاں جراثیم کش دوائیوں سے صاف کر کے ریفریجریٹر میں رکھی ہوتی ہیں۔ ایک آدمی دوائیاں بناتا ہے، دوسرا انھیں پرکھتا ہے، تیسرا نمبر لگاتا ہے۔ بھلا غلطی کیسے ممکن ہے!‘‘
اور پھر ہمارا کھلا ہوا منہ دیکھ کر بولا ’’آپ تو بس بالکل وہم نہ کریں اس معاملے میں۔ ہم ہر چیز کے ذمے دار ہیں، انشاء اللہ آپ کو کبھی شکایت کا موقع نہ ملے گا‘‘
’’کبھی‘‘ جائے بھاڑ میں، ہم نے بھنّا کر سوچا۔ آج کی شکایت کا تو علاج نہیں ان کے پاس اور آئے ہیں مستقبل کے سودے کرنے۔ چنانچہ وہاں سے جو شیشی چھین کر بھاگے تو خدا جھوٹ نہ کہلوائے تو کم از کم درجن بھر کیمسٹ گھوم ڈالے۔ لیکن قسم لے لیجئے جو ایک دکان کی دوائی دوسری دکان والی سے معمولی سی بھی ملتی ہو۔ کہیں سے گھلا ہوا چاک ملا تو کہیں سے تیل کی سی شفاف دوائی، کسی نے تیرتے ہوئے سفوف ڈال دیئے تو کسی نے لپالپ کرتی جھاگ بھر دی، کسی کی دوائی بند شیشی میں شوں شوں ابل رہی ہے تو کسی کی لئی کی طرح شیشی کی دیواروں کے ساتھ اس طرح چپکی ہوئی ہے کہ لاکھ ہلاؤ پر اس کے قطرے کروٹ تک نہیں بدلتے۔ اتنی دکانیں پھرتے پھرتے جیب تو خالی ہو گئی تھی، اب یقین بھی خالی ہونے لگا۔ بار بار وہم ہوتا کہ خدا معلوم کل بھی صحیح دوا پی یا نہیں۔ ممکن ہے کہ آج کی رنگا رنگ جھلکوں میں سے ہی کوئی اصل اکسیر ہو۔ لیکن فرق یہ تھا کہ کل والی دوا پینے کے بعد ابھی تک جسم چلنے پھرنے کے قابل تھا اور آج کی نا آزمودہ دوائیوں کے متعلق کوئی یقین نہ تھا کہ پینے کے بعد جسم کے کس حصے میں آتش فشاں پہاڑ پھوٹ پڑے۔ اسی فکر میں سرگرداں پھرتے رہے اور نہ معلوم کب تک پھرتے رہتے اگر ایک کیمسٹ سے قریباً قریباً اسی رنگ کی دوائی نہ مل جاتی جیسی ایک روز پہلے پی چکے تھے۔
گھر آ کر ہم نے اس کا استعمال شروع کیا، لیکن آج تک اپنے ستاروں کو کوس رہے تھے، ایک ہی خوراک پینے سے پیٹ میں گھوڑے دوڑنے لگے۔ کجا تو سخت قبض کی شکایت تھی اور کجا یہ عالم کہ دوسری خوراک پیتے ہی اتنی شدید پیچش نے آن گھیرا کہ گھنٹے بھر میں پیٹ کمان بنا کمر سے جا چپکا۔ اس نئی تکلیف نے اتنا مصروف رکھا کہ یہ سوچنے کی مہلت ہی نہ ملی کہ ایک ہی دوائی کی دو دنوں میں متضاد تاثیر کیسے پیدا ہو گئی، اور حیران کن بات یہ کہ دوسری اتنی زود اثر کہ شیشی کی طرف دیکھو تو پیٹ میں بھینسے لڑنے لگیں۔ خدا خدا کر کے وقت کاٹا اور جب یقین ہو گیا کہ ڈاکٹر صاحب اپنی کائنات میں بطور یزداں جم چکے ہوں گے تو فون اٹھایا:
’’ہلو! ہلو! ڈاکٹر صاحب ہیں؟‘‘
’’جی! بول رہا ہوں‘‘
’’ڈاکٹر صاحب میں کل حاضر خدمت ہوا تھا۔ نسخہ کا نمبر ۴۲۰ ہے۔ یاد آ گیا آپ کو‘‘
’’جی۔ جی بولتے جائیے آپ‘‘
’’تو وہ عرض ہے کہ پیٹ کی تکلیف تو کچھ زیادہ ہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے پیٹ اپنی تمام بیماریوں کا تجربہ کر رہا ہے۔ پہلے روز تو سخت قبض تھی، اب پیچش سے برا حال ہے۔۔۔۔‘‘
’’لیٹ جائیے‘‘ فون پر ڈاکٹر صاحب کی یہ آواز سن کر ہم حیران ہوئے کہ ڈاکٹر صاحب کا کیا مطلب ہے۔ پھر ایک دم ان کا مطلب سمجھ کر ہمیں اپنی ناسمجھی پر افسوس ہوا اور ہم کھسیانے ہو کر بولے:
’’جی سارا دن لیٹا رہا ہوں لیکن کسی کل چین نہیں پڑتا‘‘
منہ کھولیے ’’ٹیلیفون پر پھر آواز آئی اور ہم حیران کہ ڈاکٹر صاحب فون کو ٹیلی سکوپ سمجھے ہیں۔ نہ معلوم وہ فون سے کتنے کام لے سکتے ہیں۔
’’جی کیا فرمایا؟‘‘ ہم نے خواہ مخواہ اپنی سمجھ پر شک کرتے ہوئے دوبارہ تسلی چاہی۔
’’گلے سے آواز نکالیے‘‘ ڈاکٹر صاحب کی آواز پھر آئی اور یقین جانیے ہمیں اپنے یا ڈاکٹر صاحب کے آسیب زدہ ہونے کا یقین ہونے لگا۔ لیکن ساتھ ہی ٹیلیفون پر ایک بکری کی آواز سنائی دینے لگی تو عقدہ کھلا کہ ڈاکٹر صاحب رسیور کان سے لگائے کسی اور مریض کا معائنہ فرما رہے تھے۔ جی میں آیا کہ اپنا رسیور اتنے زور سے پٹکیں کہ اس کی آواز جا کر ڈاکٹر صاحب کے کان میں سوراخ کر دے لیکن بد قسمتی سے ایسے اوقات میں ہمارا ضبط غصے سے کچھ زیادہ ہی تیز ہو جاتا ہے، اس لیے چلا کر فقط اتنا کہا: ’’ڈاکٹر صاحب! آپ میری بات سن رہے ہیں یا نہیں؟‘‘
’’جی جی! سن رہا ہوں۔ آپ چاہتے کیا ہیں؟‘‘
ہم کباب ہو گئے۔ بمشکل زبان کو دانتوں تلے دبا کر ضبط کیا اور عرض کیا: ’’جی میری تکلیف نہ صرف بڑھ گئی ہے بلکہ اور بھی کئی تکلیفیں شروع ہو گئی ہیں۔ اس وقت حاضر ہو جاؤں تاکہ آپ پھر دیکھ سکیں‘‘
’’نہیں نہیں، آنے کی ضرورت نہیں،‘‘ ڈاکٹر صاحب جلدی سے بولے ’’میں نے خوب اچھی طرح دیکھ بھال کر نسخہ لکھا تھا۔ ممکن ہے کیمسٹ نے لاپروائی کی ہو۔ آپ کسی دوسرے سے دوا بنوا لیں۔ پانچ روز بعد دکھائیے‘‘
’’لیکن ڈاکٹر صاحب۔۔۔‘‘ مگر وہ فون بند کر چکے تھے ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ ہم چلّائے لیکن آواز اپنے ہی کانوں میں گونج کر رہ گئی اور ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔
اس کے بعد تین روز دوائی تو کیا پیتے البتہ پہلے روز کی کاوش سے کمائی ہوئی تمام رنگا رنگ شیشیوں کی قطار کو میز پر سجا کر سوچتے رہے کہ ان میں سے کون سی دوائی پئیں؟ لیکن خدا بھلا کرے اس غیر معروف محسن انسانیت کا جس کے ایک قول کے بار بار یاد آنے کی وجہ سے ہماری جان بچا دی۔ وہ قول یہ ہے کہ ’’جب تم بیمار پڑو تو ضرور ڈاکٹر کے پاس جاؤ کیونکہ ڈاکٹروں کو بھی زندہ رہنا ہے۔ جب تم ڈاکٹر سے نسخہ لکھوا لو تو کسی کیمسٹ سے دوائی ضرور بنوا لو کیونکہ کیمسٹوں کو بھی زندہ رہنا ہے اور جب دوائی بنوا چکو تو ہرگز نہ پیو کیونکہ تم کو بھی زندہ رہنا ہے‘‘
پانچویں روز جب ہم ڈاکٹر کے پاس دوبارہ گئے تو ہم اکیلے نہیں تھے بلکہ ہمارے ساتھ ایک اور آدمی بھی تھا جو ہم نے ایک گھنٹے کے لیے کرائے پر لیا تھا وہ ٹائپسٹ تھا۔ ٹائپ رائٹر اس کے کندھے پر تھا اور اس کے تن و توش کو مد نظر رکھتے ہوئے یقین تھا کہ اگر ڈاکٹر صاحب سے کہا جائے کہ وہ خود نسخہ لکھنے کی بجائے اسے ٹائپ کروا دیں تو وہ اپنی سلامتی کی خاطر فوراً راضی ہو جائیں گے۔
٭٭٭ (ماخذ: چہار سو، راولپنڈی)