کسی فنکار کو بڑا بننے کے لئے صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ اس کے یہاں تخلیقی توانائی ہو یا تخلیق کرنے کا اپنا رنگ ڈھنگ اور اپنا اسلوب ہو۔ یہ سب باتیں تو ہر اس فنکار کے یہاں مل ہی جائیں گی جو فن کو ہنر مندی کے ساتھ استعمال کرنے کا گُر جانتا ہو۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں یہ تمام باتیں ممکن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آسانی سے کسی فنکار کی بڑائی تسلیم کر لینے میں پس و پیش سے کام لیتے ہیں لیکن اگر کسی فنکار کی تخلیقی توانائی کئی دہائیوں تک قائم رہتی ہے اور اس کا اثاثۂ کلام اسلوب کی رنگا رنگی کا نگار خانہ قائم کرنے لگے تو پھر پس و پیش سے بچنے کا جواز خود ہی پیدا ہو جاتا ہے۔ میں یہاں اس بات کو ذرا واضح کر دوں کہ اسلوب کی رنگا رنگی سے یہ مراد نہیں ہے کہ مختلف اسالیب آپس میں مدغم ہو کر خود اسلوب کی انفرادیت پر سوالیہ نشان لگا رہے ہوں بلکہ میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ فنکار کا کسی ایک Style کا اسیر ہونا بعض اوقات اپنے نکتۂ عروج کے بعد سپاٹ پن کی طرف لے جاتا ہے اور اس کی بڑائی حاشیے پر چلی جاتی ہے لیکن اگر کوئی فنکار اپنی تخلیقی توانائی کو تادیر بر قرار رکھنے کا ہنر جانتا ہو اور تخلیق کرنے کے طور طریقوں میں رنگا رنگی پیدا کرتا رہتا ہے، اس کے مختلف shades ابھارتا رہتا ہے ایسا فنکار جس کے اندر وقت پھیلتا جاتا ہے اس کی بڑائی تسلیم کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ میرے خیال میں مظفرؔ حنفی ایسے ہی فنکاروں کی ذیل میں آتے ہیں جن کا تخلیقی سفر کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ ان دہائیوں میں کئی پڑاؤ آئے، کتنے تخلیقی مسافر وقت کے غبار میں کھو گئے لیکن بقول گوپی چند نارنگ حنفی صاحب نے کسی پڑاؤ کو منزل بننے نہیں دیا۔ ان کے اندر کا تخلیق کار اگر اپنے تخلیقی کارناموں پر مطمئن ہو جاتا تو پھر ’یا اخی‘ جیسا شعری مجموعہ کلام اردو دنیا کو میسر نہ آتا جس کے لئے پوری اردو دنیا اور شعر و ادب کے شائقین ان کے شکر گزار ہیں۔
اس سے پہلے کہ میں مظفرؔ حنفی صاحب کی شاعری اور ان کے فن کے چند گوشوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کروں آئیے ذرا گزشتہ دہائیوں میں اردو شاعری اور خصوصاً ً اردو غزل کن راستوں سے گزر کر ارتقاء کے منازل طے کر رہی ہے اس کا مختصر جائزہ آپ کے سامنے پیش کروں۔
اردو شاعری بالخصوص غزل کے تعلق سے جدیدیت (آدھونکتا)، جدت پسندی، جدت جوئی اور پھر جدت طرازی کم و بیش آدھی صدی پر محیط ہے۔ فکری اور اسلوبیاتی مطمح نظر کی اس تبدیلی نے بلاشک و شبہ ہماری ادبی روایت میں ایک تابناک مقام محفوظ کر لیا ہے کہ نئے پن کی تلاش صرف ہمارے ہی عہد کا طرۂ امتیاز نہیں بلکہ یہ عمل انسانی ارتقا ء کی تاریخ میں بذاتِ خود ایک الگ تھلگ روایت کا درجہ بھی رکھتا ہے لیکن یہ بھی امر واقعہ ہے کہ اس دم توڑتی صدی میں فنونِ لطیفہ پر اثر انداز ہونے والی سماجی و ثقافتی تبدیلیاں اتنی تیزی کے ساتھ صورت گیر ہوتی چلی گئیں جن کے زیر اثر ہر نئی نسل اپنی قریب ترین پیش رو نسل کا بھی آموختہ بننے کے لئے خود کو تیار نہیں پاتی کہ انسانی ذہن پر پے در پے تغیرات کے اس یلغار نے اسے ارتکاز (Concentration) سے محروم کر دیا ہے اور اس کی کیفیت اس آبی پودے کی طرح ہو گئی ہے جو سطح دریا پر بہاؤ کے رخ پر تیرتا رہتا ہے۔ اس صورت حال میں یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ہر نئی نسل کے یہاں اپنے پیش روؤں سے کچھ مختلف اور کچھ منفرد ہونے کا رجحان اسے بے تکان صرف اور صرف ردِعمل کے طور پر فکر و اسلوب کا معکوس بننے کے لئے مہمیز کرتا رہا۔ شوالے گرائے جانے لگے، کج اساسی کی بنیاد پر نئے شوالوں کی تعمیر ہونے لگی، معبود ایک رہا، عبادت گاہیں بدلتی رہیں۔ ہر عابد بشارت دیتا رہا کہ صرف اسے ہی حقیقی عبادت کا شرف حاصل ہے کہ نئے معبد میں سجدہ ریزی کا لطف ہی کچھ اور ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ فطری طور پر شوالوں کا منہدم ہو جانا اور غیر فطری طور پر خیالی دانش مندی کے جبر سے انسانی افعال کے کاغذی ڈھانچے تعمیر کرنا بجائے خود ایک غیر فطری عمل ہے کہ روایت کے گہرے شعور کے بغیر کچھ نیا اور کچھ منفرد پیش کرنے کی سعی فنکار کی تخلیقی توانائی کو اس آنچ سے محروم کر دیتی ہے جو روایت کے گہرے عرفان اور صدیوں پر پھیلے تخلیقی تجربات سے منقلب ہونے سے حاصل ہوتی ہے۔ اردو غزل نے افراط و تفریط کے اس عہد کو جھیلنے کی صعوبت برداشت کی اور نکھر کر کندن ہو گئی۔ اس نازک صنف نے شمشیر و سناں، زنجیر و زنداں، دارورسن کی سخت گیریوں کو قاموسِ فکر کی گہرائی اور گیرائی عطا کی، رسمیات کے شکنجوں سے خود کو آزاد کیا اور تحیر کم ہونے لگا تو موجود کو ماورا کا ملبوس پہنا کر ان گنت خال و خد کو تخیل کے پردے پر اتارنا شروع کیا۔ ایسے لمحات میں بھی ڈاکٹر مظفر حنفی کی شاعری دیر تک ٹھہرتی ہے اور ہمیں بھی ٹھہر کر لطف اندوز ہونے کی دعوت دیتی ہے۔
’’یا اخی‘‘ ڈاکٹر مظفر حنفی کا دسواں شعری مجموعہ ہے۔ پہلا مجموعہ ’پانی کی زبان‘ ۱۹۶۷ میں شائع ہوا تھا، اس کے بعد ’تیکھی غزلیں‘ (۱۹۶۸) ’عکس ریز‘ طویل طنزیہ نظم ۱۹۶۹ء ’صریر نامہ‘ (۱۹۷۳)، دیپک راگ‘ ۱۹۷۴، ’یم بہ یم‘ ۱۹۷۹، ’طلسمِ حرف‘ ۱۹۸۰ ’کھل جا سم سم (۱۹۸۱)، پردہ سخن کا۱۹۸۶ منظر عام پر آئے۔ آخری دو مجموعوں میں ایک دہائی کا فاصلہ ہے۔ ظاہر ہے کہ مظفرؔ حنفی صاحب کتنے پُر گو ہیں اس کا اندازہ تو مجموعہائے کلام کی فہرست دیکھ کر ہوتا ہے۔ ساتھ ہی احتمال بھی ہوتا ہے کہ تخلیقی رو میں خاروخس بھی آ گئے ہوں گے لیکن ’’یا اخی‘‘ کے مطالعے سے حیرت ہوتی ہے کہ ان غزلوں کے معتدبہ اشعار کہیں خیال و فکر اورکہیں اسلوب و لہجے کی اثر انگیزی کے باعث دیر تک اپنی گرفت میں رکھتے ہیں۔
اس میں دو رائے نہیں کہ مظفر حنفی ہمارے عہد کے بے حد منتخب جدید شعرا ء میں شمار کیے جاتے ہیں۔ یہ کم بڑی بات نہیں کہ اپنے منفرد، کاٹ دار اور توانا لہجے کی وجہ سے ان کی غزلیں دور سے پہچانی جاتی ہیں۔ ہر چند غزل جیسی لطیف ترین صنفِ سخن میں طنزیہ پیرائے میں اظہار کا عمل بذاتِ خود ایک جوکھم بھرا راستہ ہے۔ ہمارے بیشتر شعراء کے یہاں اس نوع کی شاعری میں بعض اوقات فکر وجذبے کی سرکشی ایک براہ راست عمل بن جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شعر نے مکالمے کی شکل اختیار کر لی ہے لیکن مظفر حنفی صاحب کی اردو غزلیہ روایت پر گہری نظر اور رموزِ فن پر قابلِ رشک دسترس نے غزل کی فضا کو مجروح ہونے نہیں دیا ہے۔ بیشتر اہلِ نظر نے ان کے لہجے کی نشتریت کو شاد عارفی کا ترکہ ضرور کہا ہے لیکن اس اعتراف کے ساتھ کہ اس کی ’’بو قلمونی، طرحداری اور ابعاد‘‘ مختلف ہیں۔
مندرجہ ذیل اشعار دیکھیں:
ذرا سی روشنی مانگی تھی، رات کاٹنے کو
چراغ اتنے جلے گھر ہی پھونک ڈالا مرا
ہم تو خوشبو کی طرح خود ہی بکھر جاتے ہیں
تم وہ دیوار کہ مزدور اٹھاتا ہے جسے
سچ بولنے لگے ہیں کئی لوگ شہر میں
دیواریں اٹھ رہی ہیں نئی، قید خانے میں
بلا سے بجھے یا بڑھے تشنگی
سمندر کو آداب کرتے رہو
میرے گھر میں جو کچھ بھی ہے موجِ بلا ہے تیرا
لے جا جو چاہے، بے جا تفسیریں کیا کرتی ہے
ہم ستارے بنا کے نادم ہیں
آپ نازاں ہیں آبگینوں پر
طوفاں سے کیا باتیں کی ہیں پیارے ماجھی سچ بتلانا
دریا کو گروی رکھا ہے یا ساحل کو بیچ دیا ہے
جنوں تباہ نہ کر دے کہیں زمانے کو
یہ تیشہ دستِ ہنر میں رہے تو اچھا ہے
کیا دیر ہے، مجھ کو بھی اجازت ہو رجز کی
حرف آنے لگا نام و نسب تک مرے مولا
محولہ بالا اشعار جہاں مظفر حنفی صاحب کی تیکھی زبان اور کاٹ دار لہجے کی تمثیل پیش کرتے ہیں وہیں اس امر کا اثبات کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کی غزلیں بے پناہ تخلیقی بصیرت کے باعث اس چیخ دھاڑ سے پاک ہیں جو عموماً اس نوع کی شاعری کا طرۂ امتیاز بن جاتے ہیں۔ اک ذرا بدلے اور منفرد انداز کے ان اشعار کی فضا بندی غزل کی رسمیات سے قطعی مختلف ہے۔ لفظیات کے استعمال میں بھی آزادانہ روش اختیار کی گئی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تصورات کے سارے کلیسے ایک ہی آن میں زمین بوس ہو گئے، کہاں روشنی روشنی کی تکرار کرتے اشعار اور کہاں یہ آگہی کہ چراغ اتنے جلے گھر ہی جل گیا، ہمارے عہد کی ایک عجیب تصویر پیش کرتا ہے۔ نئے حقائق کا ادراک ہوتا ہے۔ ان حقائق کا جو ہمارے آس پاس خوابیدہ نظر آتے ہیں۔
ذرا ان اشعار کے تیور دیکھیں!
بس کہہ دیا کہ ہم نہ چلیں گے کسی کے ساتھ
پیچھے پلٹ کے دیکھ رہا ہے زمانہ کیوں
سفر کیسا کہ باہم بر سر پیکار ہیں سارے
ہمارے کارواں میں کارواں سالار ہیں سارے
بادی النظر ان اشعار پر محض تضادات کو جنم دینے کا گمان ہو گا لیکن عصری تقاضوں کا دروں بینی سے جائزہ لیا جائے تو ادراک ہو گا اس جبر کا جس نے اپنے آپ کو مختلف پردوں میں چھپا رکھا ہے۔ اس اختتام پذیر صدی میں دنیا سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ایک نئی جنگ سے نبرد آزما ہے جہاں ثقافت کے خوش رنگ کھلونے بطور ہتھیار استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ایک زمین ایک کلچر کے نام پر کس طرح دنیا کی رنگا رنگ تہذیب پر ایک مخصوص پاپولر کلچر غلبہ حاصل کرنے کی سعی کر رہا ہے، اہل نظر سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس کے مقابل اپنی تہذیبی بقا کی جد و جہد میں کمزور طاقتوں کا انحراف کرنے کا رویہ اور اس صورت حال سے پیدا ہونے والی کشمکش، بے اطمینانی اور قیادت کا بحران جیسے مسائل منظر نامے کو اور اجال دیتے ہیں۔ ایسے کئی حوالے ان اشعار کے تعلق سے پیدا کئے جا سکتے ہیں۔ ان اشعار کا قاری یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے کہ مظفر حنفی اپنے اردگرد کی دنیا کا کتنی باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں اور ان خامیوں کو اپنے اشعار میں اجاگر کرتے ہیں جو خامیاں ہمیں منزل تک پہنچنے سے روک دیتی ہیں اور ہم راستے کے پیچ و خم میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔
حنفیؔ صاحب کی شاعری کو محض طنزیت اور نشریت کے خانے میں محبوس کر دینا میری نگاہ میں ایک بڑی نا انصافی ہو گی۔ یہ ضرور ہے کہ ان کے اکثر اشعار میں پہاڑی جھرنے کی طرح تیز رو بہنے کا عمل جاری و ساری نظر آتا ہے لیکن ان اشعار پر کیا کہیں گے۔
آ گیا میں کسی جگنو کی نظر میں کیسے
بوند بھر نرم اجالا مرے گھر میں کیسے
وسعتیں مجھ کو خلاؤں سے صدا دیتی ہیں
یہ نشمین کی گرہ پڑ گئی پر میں کیسے
قریب آؤ کہ مہندی رچی ہتھیلی پر
ستارہ دیدۂ نمناک سے اتارا جائے
ساری بستی پہ نہ لے آئے وہ آفت کوئی
کون ہے، کوہِ ندا روز بلاتا ہے جسے
اے گلِ تر شگفتہ باد میں تو چراغِ صبح ہوں
میری نجات کے لئے دامنِ باد کم نہیں
سانس لیتی ہے زمیں سن تو سہی
بیج پھوٹا ہے کہیں سن تو سہی
کہاں ہے تیرا قبیلہ کہ راہ پانی دے
عصا نہیں ہے تو جادو گروں سے جنگ نہ کر
ان اشعار میں وہی تخلیقی رچاؤ ہے جو ہماری جدید تر غزل کا خاص وصف ہے۔ وہی پر اسرار دھند تہہ بہ تہہ نظروں کے سامنے حائل ہوتی ہوئی جو صدیوں سے انسانی نفسیات اور جبلت کا حصہ بنی ہوئی ہے جہاں سب کچھ ہویدا ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ انجانا محسوس ہوتا ہے جس سے ایک عجیب طرح کی سرشاری حاصل ہوتی ہے۔ یہ اشعار ایسے جہانِ معنی کی سیر کراتے ہیں جہاں عزم و حوصلہ ہے صدیوں کی روایت میں سانس لیتی دھرتی میں نئے بیج پھوٹنے کی دھڑکن ہے، نئی امید اور تمناؤں کے حصول کے لئے جاگتے ذہن کی ہوشیاری ہے۔ بوند بھر نرم اجالا نشیمن کی گرہ، ستارے کا دیدۂ نمناک سے اترنا، بیج پھوٹنے کو زمین کے سانس لینے سے عبارت کرنا، گلِ تر کو چراغِ صبح سے تعبیر کرنا نیز ہر دو کی رعایت سے دامنِ باد کا ذکر ایسی تمثیلیں ہیں جو نشاط انگیزبھی ہیں اور کربناک بھی۔ شاید بڑی غزل کے لئے راستہ کھل گیا ہے۔
جیساکہ میں نے عرض کیا کہ مظفر حنفی صاحب کے یہاں بیان کی رنگا رنگی اور دل کشی ان کی ہر غزل میں ایک وصف بن کر ابھرتی ہے۔ نئی نئی تراکیب تراشنا، پرانی تشبیہات کو نیا رنگ و آہنگ دینا اور سب سے بڑھ کر لفظیات کا وسیع تر اور خلاقانہ استعمال نئے نئے موضوعات خود بخود پیدا کر دیتا ہے۔ ہر غزل میں ایک نئی بات بالکل نئے پیرائے سے صرف تاریخی تلمیحات ہی نہیں روز مرہ کی بولیوں، محاورات اور ضرب المثل میں شعریت تلاش کر لینا اور انہیں تخلیقی دھارے سے گزار کر زندہ جاوید کر دینا مظفرؔ حنفی صاحب کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔
دشمن بن کر لکھتا ہوں میں خود اپنے اعمال
لاکھ فرشتہ آزو بازو بیٹھا رہتا ہے
کُل بُل کُل بُل امتحان کا کمرہ بچوں سے
برفیلا موسم پنچھی چٹیل میدان ہوا
حبس کی برف آخر پگھلنے لگی
کنمنائی ہوا دیکھتے دیکھتے
ہونے لگا ہے ماں کی دعا میں غلط اثر
بیٹی تو گھر میں بیٹھی ہے بیٹا نکل گیا
مسلسل یوں نہ پی آنسو مبادا
تری آنکھوں میں پارا بیٹھ جائے
کیسے کیسوں کو مٹی نے سیدھا کیا
اچھے اچھوں کی یاں رستمی رہ گئی
تونے بہتیرا سمجھایا، موٹی کھال گرہ میں مال
اے دنیا کیسے آ جاتے ہم تیرے بہکانے میں
ان سے دھیان لگائے رکھنا، اس حالت میں لازم ہے
فرصت ہی فرصت ہے ہم کو تیری تو چاندی ہے دل
گھوم رہا ہوں دیپک لے کر
قریہ قریہ سن سن کرتا
سناٹے اوڑھے بیٹھا ہوں
تن اکتارہ جھن جھن کرتا
سائے سائے میں چھپ کر وہ
جلوہ درپن درپن کرتا
ان اشعار پر اگر غور فرمائیں تو محسوس ہو گا کہ اردو کی شعری روایت میں فارسیت کا غلبہ کم ہو رہا ہے اور اردو ہندی میل جول سے پیدا ہونے والی خوشبو زبان میں مٹی کی خوشبو داخل ہو رہی ہے۔ یہ وہ ارضیت ہے جو ہماری سائیکی کا حصہ بن چکی ہے اور ہمارے صاحبِ نظر فنکار ان سے عرق کشید کر رہے ہیں۔ اس نوع کی شاعری میں ہماری آس پاس کی جیتی جاگتی دنیا ہے، ہمارے اپنے مسائل ہیں، اپنے دکھ سکھ کی باتیں ہیں۔ یہ شاعری اوڑھی ہوئی نہیں بلکہ زندہ و توانا لگتی ہے اور خود بھی ہمیں جاگنے اور زندہ رکھنے کے اسباب فراہم کراتی ہے۔ مظفر حنفی صاحب اس مقام پر سب سے الگ تھلگ نہیں بلکہ اس مٹی کی آواز معلوم ہوتے ہیں۔
منتخب اشعار
۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔
روتی ہوئی ایک بھیڑ مرے گرد کھڑی تھی
شاید یہ تماشہ مرے ہنسنے کے لیے تھا
—
سوائے میرے کسی کو جلنے کا ہوش کب تھا
چراغ کی لو بلند تھی اور رات کم تھی
—
شکست کھا چکے ہیں ہم مگر عزیز فاتحو
ہمارے قد سے کم نہ ہو فراز دار دیکھنا
—
کانٹوں میں رکھ کے پھول ہوا میں اڑا کے خاک
کرتا ہے سو طرح سے اشارے مجھے کوئی
—
کھلتے ہیں دل میں پھول تری یاد کے طفیل
آتش کدہ تو دیر ہوئی سرد ہو گیا
—
*آلامِ روزگار کا منہ زرد ہو گیا
*ہر زخم کا علاج ترا درد ہو گیا
—
جاں بہ لب ویسے ہی تھے اور ہمیں مار چلا
دھوپ کے ساتھ کہاں سایۂ دیوار چلا
—
کیا وصل کی ساعت کو ترسنے کے لیے تھا
دل شہر تمنا ترے بسنے کے لیے تھا
—
خبر کارواں کی نہ ہو رہزنوں کو
یہی سوچ کر میں نے مشعل بجھا دی
—
باب طلسم ہوش ربا مل گیا مجھے
میں خود کو ڈھونڈتا تھا خدا مل گیا مجھے
—
وجود غیب کا عرفان ٹوٹ جاتا ہے
صریر خامہ سے وجدان ٹوٹ جاتا ہے
٭٭٭