مشاہیر ادب کے خطوط ۔۔۔ ڈاکٹر غلام شبیر رانا

مطالعہ

کتاب: مشاہیر ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین

مصنفہ: حفیظ الرحمٰن احسن (مرتب)

مثال پبلشرز، فیصل آباد، اشاعت 2019

 

پہنچا جس وقت سے مکتوب

زندگی کا بندھاکچھ اسلوب

احباب کے مکاتیب زندگی کی حقیقی معنویت سے لبریز ہوتے ہیں۔ مکتوب نگار کی ذاتی پسند و نا پسند، شخصیت، مزاج اورعادات و اطوار کے بارے میں تمام حقائق کی گرہ کشائی مکاتیب ہی کی مرہون منت ہے۔ خطوط کا بے ساختہ انداز، خلوص و دردمندی سے مزّین پیرایۂ اظہار، ایک درد آشناکی غم گساری اور مسیحائی کی شان، اپنائیت اور مروّت کی زبان اور محرم راز کی باتوں کی نہاں خانۂ دِل پر دستک زنی کا سلسلہ مکاتیب کا ثمر ہے۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ہوس اور حرص نے نوع انساں کو ناقابلِ اندمال صدمات سے دو چار کر دیا ہے۔ بڑھتی ہوئی بے حسی، تکلف کی رواداری، خلوص کی اداکاری، سعادت مندی اور عقیدت کے دکھاوے، جعلی خلوص، وفا اور ایفائے عہد کے بہلاوے انسان کوسرابوں کے عذابوں کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ اس لرزہ خیز اور اعصاب شکن صورت حال میں خطوط ید بیضا کا معجزہ دکھاتے ہیں دروں بینی کا اوجِ کمال، تجربات و مشاہدات کا عکس اور اُمنگ کی ترنگ قاری کے سنگ سنگ چلتی محسوس ہوتی ہے۔ یہاں آ ہنگِ سازِ محفل کا پرلطف انداز اس حقیقت کا غماز ہے کہ خلوص کے بندوں کے خلاف ساز باز کرنے والے ہمیشہ منھ کی کھاتے ہیں۔ اس عالمِ آب و گِل میں انسانی زندگی کی سرگزشت کے جملہ پہلواِن مکاتیب میں حقیقت پسندانہ انداز میں جلوہ گر ہیں۔ مجلسی آداب کی افادیت اور طرزِ تخاطب کے طریقوں کی مظہریہ کتاب ایک بیش بہا ادبی مخزن اورعلمی معدن ہے۔ اس کتاب میں علم و ادب کے جو گنج ہائے گراں مایہ محفوظ کیے گئے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ان میں سے اکثر مکاتیب ان یگانۂ روزگار ادیبوں اور عبقری دانش وروں کے ہیں جن کی علمی، ادبی اورقومی خدمات کا ایک عالم معترف ہے۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جواُفقِ علم و ادب پر مثلِ آفتاب و ماہتاب ضوفشاں ہیں۔ ان کے افکار کی ضیاپاشیوں سے سفاک ظلمتیں کافور ہوئیں اور روشنی کاسفر جاری ہے۔ غازی علم الدین ایک وسیع المطالعہ ادیب، نقاد اور محقق ہیں ان کے ذاتی کتب خانے میں دس ہزار کے قریب نادر کتب کا ذخیرہ موجود ہے۔ اس کتب خانے سے سیکڑوں تشنگان علم سیراب ہو رہے ہیں۔ ایک رجحان سازادیب کی حیثیت سے غازی علم الدین نے جو انجمنِ خیال آراستہ کی ہے اس کی تابانیوں سے گلشنِ ادب کا گوشہ گوشہ بقعۂ نور ہو گیا ہے۔ عملی زندگی میں غازی علم الدین نے جن پائیدار، مستحکم اور مفید لسانی مباحث کو فروغ دیا وہ ابدآشناہیں اور ہر عہد کی ادبی تاریخ میں ان کے آ ثار ملیں گے۔ اس صنف ادب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے دیرینہ احباب سے راہ و رسم محض لمحاتی رفاقت اور باہم میل جول تک محدود نہیں رہتی بل کہ یہ ایکا یساروحانی اور قلبی تعلق ہے جو فناکے اندیشے سے بے نیازہے۔ ماہرین تعلیم نے اپنے ان خطوط میں جہاں پیچیدہ لسانی مسائل کی گتھیاں سلجھائی ہیں وہاں افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جانب سر گرمِ سفر رہنے کی تلقین بھی کی ہے۔ ان مشاہیر کی علم دوستی، ادب پروری اور جذبۂ انسانیت نوازی دنیاکے لیے سرچشۂ فیض ہے۔ ایک مخلص مکتوب نگاراپنی روحانی، قلبی، وجدانی اور جذباتی کیفیات کی لفظی مرقع نگاری کرتے وقت جس مہارت کا ثبوت دیتا ہے اس کے معجز نما اثر سے مکتوب کے ایک ایک لفظ سے زندگی سانس لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ان مکاتیب کا مطالعہ کرتے وقت قاری جب اپنی عملی زندگی کے حالات کا جائزہ لیتا ہے تو ان مکاتیب میں مشاہیر اَدب کی زندگی کی سر گزشت کے متعدد پہلو ایسے ہیں جن کاکرشمہ دامن دِل کھینچتا ہے۔ چار سو بانوے صفحات پر مشتمل یہ کتاب ایک ایسا جامِ جہاں نما ہے جس میں بیش بہا ادبی، تاریخی، تحقیقی، تنقیدی اور لسانی خزائن کی فراوانی ہے۔

جو لوگ ڈاک سے موصول ہونے والے مکاتیب کی اہمیت سے آگاہ نہیں وہ ان مکاتیب کا سرسری انداز میں مطالعہ کرنے کے بعد انھیں ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ اس کے بعد کبھی آنکھ اُٹھا کر بھی ان خطوط کی طرف نہیں دیکھتے۔ اپنے نام آنے والے خطوط کے ساتھ اُن کی یہ بے اعتنائی جہاں اُن کی بے حسی کی دلیل ہے وہاں اس امر کی جانب بھی اشارہ ہے کہ کارواں کے دِل سے احساسِ زیاں عنقا ہونے لگا ہے۔ اپنی عملی زندگی میں غازی علم الدین اپنے نام آنے والے مکاتیب کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنے صوابدیدی اختیار استعمال کر کے اُنھیں ایک طرف نہیں رکھ دیتے۔ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ احباب کے مکاتیب کو فوری سانس کے مانند زندگی کی ناگزیر ضرورت کی حیثیت حاصل ہے۔ اپنے نام آنے والے خطوط سے بے اعتنائی ایک ایسا غیر محتاط طرز عمل ہے جس کے نتیجے میں سب کچھ ابلق ایام کے سموں کی گردمیں اوجھل ہو جائے گا، تلخ و حسین یادوں اور دردناک فریادوں کے سب سلسلے تاریخ کے طوماروں میں دب جائیں گے۔ ممتاز ماہر تعلیم، ماہر لسانیات اور ماہر علم بشریات غازی علم الدین کے نام لکھے گئےا کیاسی مشاہیر کے چار سو پچپن (455) مکاتیب میں شگفتگی، انسانی ہمدردی، بے لوث محبت، بے باک صداقت، عجز و انکسار، علمی و ادبی وقار، حسن و جمال کا احوال، بصیرت کی مظہر جہاں بینی ان کا بہت بڑا اعزاز و امتیازسمجھا جاتا ہے۔ مکاتیب کے اس مجموعے میں شامل کچھ مکاتیب کی غیر معمولی طوالت کو دیکھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ مکتوب نگاروں کو اپنے مخاطب کے ساتھ درد کے نازک رشتے کا احساس ہے۔ اپنا حالِ دِل لکھتے وقت ان کی عدیم الفرصتی اس امر کی مانع رہی کہ وہ اپنے خیالات کے متلاطم دریا کومحض ایک کُوزے میں بند کر سکیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ کتاب ایسے ادبی نوادرات کا مجموعہ ہے جس میں ہر صنف ادب کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

’’مشاہیر ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین‘‘ کے آغاز میں جن ممتاز ادیبوں کے مضامین شامل ہیں ان کی تفصیل درج ذیل ہے:

حفیظ الرحمٰن احسن: پیش گفتار، پروفیسر ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی: پیش لفظ، پروفیسر ڈاکٹر عبدالستار دلوی: مقدمہ، پروفیسر ڈاکٹر رؤف پاریکھ: حرفے چند،

’’مشاہیر ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین‘‘ میں شامل خطوط کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مکتوب نگاروں نے اس امر کی مقدور بھر سعی کی ہے کہ معتبر ربط، خلوص و مروّت، رازداری، وفا، ایثاراور انسانی ہمدردی کے جذبات کو مہمیز کیا جائے۔ مکتوب نگاروں نے تمناؤں، توقعات اور عزائم کی امین اپنی داخلی کیفیات کو جس خلوص، دیانت اور جرأت سے زیبِ قرطاس کیا ہے وہ قاری کے لیے ایک منفرد تجربہ ہے۔ تخلیق ادب کے معائر اورمعاصر ادبی رُجحانات کے بارے میں اندیشہ ہائے دور دراز ان خطوط میں سمٹ آئے ہیں۔ ان مکاتیب میں ایسے دانائے راز متکلم نظر آ تے ہیں جنھوں نے سدا علم و ادب کے نگہبانی، حریتِ فکر و عمل اور جرأت اظہارکی روایات کی پاس داری کو اپنا شعار بنایا۔ بادی النظر میں یہ حقیقت روزِ روشن کے مانندواضح ہے کہ ان مکاتیب کا اہم ترین مقصد علم و ادب کی روشنی پھیلانا ہے۔ ان مکاتیب کے مطالعہ کے بعد قاری مکتوب نگاروں کی ادبی و لسانی مسائل پر گرفت کا قائل ہو جاتا ہے۔ ان مکاتیب کا نادر و نایاب اور غیر معمولی اسلوب قاری کے نہاں خانۂ دِل کو معطر کر دیتا ہے۔ مشاہیر ادب کے یہ گراں قدر مکاتیب مراسلے اور مکالمے کی حدود سے نکل کر مستقل اور بنیادی نوعیت کے حوالہ جاتی مضامین کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ منظراور پس منظر سے قطع نظر یہ مکاتیب عصری آ گہی پروان چڑھانے کی ایک سعی ہیں یوں ان مکاتیب کی اہمیت اور افادیت کو چار چاند لگ گئے ہیں۔ اس وقیع کتاب میں جن مشاہیر کے مکاتیب شامل ہیں، ذیل میں ان کے اسمائے گرامی درج ہیں:

آزادبن حیدر (ایڈووکیٹ) ، آصف ثاقب، احمد صغیر صدیقی، احمد سعید پروفیسر، ارشد خانم ڈاکٹر، ارشاد شاکر اعوان ڈاکٹر، اسلم انصاری ڈاکٹر، اصغر ندیم سیّد ڈاکٹر، افتخار الحسن میاں ڈاکٹر، الطاف انجم ڈاکٹر، امین جالندھری، امین راحت چغتائی، انجم جاوید، ایوب صابر ڈاکٹر، تسلیم الٰہی زلفی، جمیل احمد رضوی سیّد، حامد سعید اختر (بریگیڈئیر (ر) ، حفیظ الرحمٰن احسن، خورشید رضوی ڈاکٹر، رشید افروز، رشید امجد ڈاکٹر، رفیع الدین ہاشمی ڈاکٹر، رؤف پاریکھ ڈاکٹر، رؤف خیر، ڈاکٹر، سعادت سعید ڈاکٹر، سلطان سکون، سلمیٰ صدیقی محترمہ، سلیم آغا قزلباش ڈاکٹر، سلیم الرحمٰن پروفیسر، سیف اللہ خالد پروفیسر، شاہد شیدائی، شکیل عثمانی، شوکت حسین کاظمی سیّد، طارق جان، ظفر حجازی پروفیسر، ظہور احمد اظہر ڈاکٹر، ظہیر الحسن جاوید عبد الرزاق مغل پروفیسر، عبدالستار دلوی ڈاکٹر، عبد الستار ہاشمی، عتیق احمد خان سردار، عرفان شاہ ڈاکٹر، عطش درانی ڈاکٹر غالب عرفان، غفور شاہ قاسم پروفیسر ڈاکٹر، غلام شبیر رانا پروفیسر ڈاکٹر، غلام قادر آزاد، فیاض عادل فاروقی، کریم اللہ قریشی میاں کرناہی، محبوب حسن مقدم پروفیسر، محبوب عالم تھابل، محمد اسلم لودھی، محمد سہیل شفیق ڈاکٹر، محمد راشد شیخ، محمد عارف خواجہ، محمد کامران ڈاکٹر، محمد ریاض شاہد پروفیسر ڈاکٹر، محمد ظہیر بدر، محمد عالم نقوی، محمد یعقوب شاہق پروفیسر مسعود علی بیگ پروفیسر، مشتاق اعظمی ڈاکٹر، مظہر محمود شیرانی ڈاکٹر، معراج جامی سیّد، معین الدین جینا بڑے ڈاکٹر، معین الدین عقیل ڈاکٹر، معین نظامی ڈاکٹر، نبیل زبیری ڈاکٹر، نجیب عمر، نثار احمد ڈاکٹر، ندیم صدیقی، نذیر فتح پوری، نسیم سحر، نگار سجاد ظہیر ڈاکٹر، نصرت بخاری پروفیسر سید، ہارون الرشید تبسم ڈاکٹر، یاسمین گل محترمہ، یحییٰ نشیط ڈاکٹر سیّد، یونس جاوید ڈاکٹر۔

مکاتیب کی صورت میں علم و ادب کی اس کہکشاں کی ضیاپاشیاں دیکھ کر قاری اش اش کر اُٹھتا ہے۔ پیہم تنہائیوں کے جان لیواعذاب سہنابہت کٹھن مرحلہ ہے۔ ان حالات میں مکتوب نگاراپنے دیرینہ رفیق کو روح اورقلب کی رفاقتوں کے احساس سے متمتع کر کے سمے کے سم کے مسموم ثمر سے نجات دلاتا ہے۔ فطرت کے مظاہر سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حبس کے ماحول اورسناٹوں کی گرج میں بے سر و سامانی و درماندگی کاشکار ہو جانے والے پرافشاں طیور کے دِلِ زار کی کیفیت تڑپنے، پھڑکنے اور چہچہانے کی صورت میں فضاؤں میں پھیل جاتی ہے۔ اسی طرح مکتوب نگار بھی اپنے دِلِ حزیں پر گزرنے والے نشیب و فراز اور شادی و غم کے توام لمحات کے بارے میں مکتوب الیہ کو مطلع کرتارہتا ہے۔ ان مکاتیب میں مکتوب نگاروں نے پامال راہوں سے بچتے ہوئے تنوع اور جدت کو زادِ راہ بنایا ہے۔ روشنی کے اس سفر میں مکتوب نگاروں نے بالعموم افکارِ تازہ کی مشعل فروزاں کر کے اذہان کی تظہیر و تنویر کا اہتمام کرنے اور جہانِ تازہ کی جانب پیش رفت جاری رکھنا اپنا مطمح نظر ٹھہرایا۔ وہ سب احوال جس کے بارے میں مکتوب الیہ کو علم ہے اسے دانستہ نظر انداز کرتے ہوئے اپنی کتاب زیست کے ناخواندہ اوراق کی جانب متوجہ کر کے مکتوب نگاروں نے ید بیضا کا معجزہ دکھایا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں مکتوب آپ بیتی، خود نوشت، تاریخ نویسی، سوانح نگاری، معاصرانہ چشمک، تنقید، تحقیق اورلسانی مسائل کا اہم ترین حوالہ بن جاتا ہے۔ ماضی میں مکاتیب کی اہمیت اور افادیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے جن ادبی رسائل نے نابغۂ روزگار ہستیوں کی علمی فیاضی کے یہ بیش بہا جواہر محفوظ کرنے کے لیے خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کیا اس کی تفصیل درج ذیل ہے:

1۔ ادبی مجلہ ایشیا، مکاتیب نمبر، بمبئی، 1941

2۔ ادبی مجلہ آج کل، خطوط نمبر، دہلی، 1954

3۔ ادبی مجلہ نقوش، مکاتیب نمبر، لاہور، جلد اوّل 1957، خطوط کی تعداد: 694

4۔ ادبی مجلہ نقوش، مکاتیب نمبر، لاہور، جلد دوم، 1968، خطوط کی تعدا: 865

5۔ ادبی مجلہ نقوش، مکاتیب نمبر، لاہور، جلدسوم، 1968، خطوط کی تعداد: 694

ادبی مجلہ نقوش کے مکاتیب نمبر کی تین جلدوں میں مشاہیر کے خطوط کی مجموعی تعداد: 2253

غازی علم الدین علم و ادب اور معرفت کی اقلیم کا ایسا ابدال ہے جو اپنی ذات میں ایک انجمن اور دائرۃ المعارف ہے۔ ستائش و صلے کی تمناسے بے نیار رہتے ہوئے عجز و انکسار کا یہ پیکر اپنی دھن میں مگن پرورشِ لوح و قلم میں جس انہماک کا مظاہرہ کرتا ہے وہ اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں نمود و نمائش اور ذاتی تشہیر نے ایک وباکی صورت اختیار کر لی ہے۔ زندگی کی برق رفتاریوں کے نتیجے میں شہرِ خوگر کی یایا پلٹ گئی ہے اس کے نتیجے میں فکر و خیال کا محور اور حالات کا پورا منظر ہی یکسر بدل گیا ہے۔ اس کتاب کو دیکھ کر خوش گوار حیرت کا احساس ہوا کہ قارئین کی ضرورت کے مطابق اس کتاب کے آخر میں غازی علم الدین کی تصویر، سوانح، تصانیف اور معتبر ربط کے لیے گھر کا پتا اور ٹیلی فون نمبر بھی درج ہے۔ یہ منظر دیکھ کر پس منظر میں رہنے والے عصر حاضر کے اس درویش منش ادیب اور اس کے ممتاز رفقائے کار کی منکسر المزاجی اور شان استغنا قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ ابھی کچھ ایسے لوگ اس جہاں میں باقی ہیں جن کے بحرِ خیالات کا پانی بہت گہرا ہے اوروہ خود بھی یہ چاہتے ہیں کہ قارئین ان کی حقیقت کے شناسا ہو جائیں۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے زندگی ایک امتحاں در امتحان مرحلہ بن گئی ہے۔ زندگی کے سفر میں ملنے والے ایسے مکتوب نگار جن کی زندگی کا فسانہ لائق تقلید ہو وہ یادگارِ زمانہ ہواکرتے ہیں۔ ان کے طرزِ عمل کی مثالیں دی جاتی ہیں اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی تمنا کی جاتی ہے۔ اس کتاب کے آخر میں اردو ادب کے جن مشاہیر کے مکاتیب کی عکسی نقول شامل ہیں ان کے نام درج ذیل ہیں:

آصف ثاقب، اسلم انصاری ڈاکٹر، امین راحت چغتائی، رؤف پاریکھ ڈاکٹر، رفیع الدین ہاشمی پروفیسر ڈاکٹر، رؤف خیر ڈاکٹر، سلیم آغا قزلباش ڈاکٹر، سیف اللہ خالد پروفیسر، ظہور احمد اظہر ڈاکٹر، عطش درانی ڈاکٹر، مظہر محمود شیرانی ڈاکٹر، معین نظامی۔

’’مشاہیر ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین‘‘ کے اوراق پر قوسِ قزح کے رنگ بکھرے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ انصاف کا ترازو تھام کر ہر مکتوب پر اپنی رائے دے سکوں۔ ان ادب پاروں کے مطالعہ کے دوران میں مجھے جو کچھ محسوس ہوا وہ میں بلا تامل پیش کر دوں گا۔ آئیے دھنک کے اُس پار اِن دِل کش رنگوں کی بہار اور مشاہیر کی گل افشانی گفتار کا عالم دیکھیں۔

آزاد بن حیدر (ایڈووکیٹ) : (مکتوبات: ۱ صفحات: ۳، تاریخ: ۲۹؍ نومبر ۲۰۱۸ء)

مکتوب نگار نے چودہ برس سیال کوٹ میں گزارنے کے بعد کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ متعدد ادیبوں سے اپنی ملاقاتوں اور غازی علم الدین سے ربط کے احوال نے اس مکتوب کو یاد نگاری کا ایک قابل غور نمونہ بنا دیا ہے۔ اپنے خط میں انھوں نے اپنی تسبیح روزو شب کادانہ دانہ شمار کرتے ہوئے مکتوب الیہ کو لکھا ہے:

’’علامہ اقبال اور فیض احمد فیضؔ کے شہرمیں چودہ بار چودھویں کاچانددیکھنے کے بعد خاکسار کراچی منتقل ہو گیاجہاں مولانا عبدالحامد بدایونی القادری، مولانا احتشام الحق تھانوی اور مولانا ابن حسن جارچوی کی صحبتوں میں بیٹھ کر بہتر سال سے کراچوی ہو گیا۔‘‘ (صفحہ: ۴۵۵)

آصف ثاقب: (مکتوبات: ۱۱ صفحات: ۱۱، تواریخ: ۶؍ نومبر ۲۰۱۶ء، ۳۰؍ نومبر ۲۰۱۶ء، ۲۱؍ مئی ۲۰۱۷ء، ۲۷؍ اگست ۲۰۱۷ء، یکم فروری ۲۰۱۸ء، ۵؍ فروری ۲۰۱۸ء، ۲۵؍ جون ۲۰۱۸ء، ۷؍ اکتوبر ۲۰۱۸ء، ۱۸؍ اکتوبر ۲۰۱۸ء، ۱۹؍ دسمبر ۲۰۱۸ء، یکم جنوری ۲۰۱۹ء)

بوئی (ہزارہ) میں مقیم علمِ عروض کے ماہر اس یگانۂ روزگار ادیب نے اپنے مکاتیب میں علم عروض اور لسانیات کے حوالے سے جو باتیں لکھی ہیں ان کے اعجاز سے ان مکاتیب کا ایک ایک لفظ گنجینۂ معانی کا طلسم بن گیا ہے۔ مکتوب نگاری کو ایک حیات بخش اور حیات آفریں تخلیقی فعالیت سمجھنے والے اس جری تخلیق کار نے اپنے ایک مکتوب میں ان لوگوں پر گرفت کی ہے جنھیں علم کی ہوا چھُو کر بھی نہیں گزری۔

’’جیل خانہ جات، کمرہ جات، علاقہ جات۔۔ ۔۔ جات، جات کے کیا کہنے !!ایک تھانے والے نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا ’بد معاش ڈنڈا جات لے کرحملہ آور ہوئے۔‘‘ (صفحہ: ۱۶۳)

احمد صغیر صدیقی: (مکتوبات: ۱ صفحات: ۲، تاریخ: ۸؍ دسمبر ۲۰۱۶ء)

اپنے مکتوب میں احمد صغیر صدیقی نے اور طرح کا انداز اپنایا ہے لسانی اصلاح کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ کسی صورت یہ نکتہ چینیاں کچھ رنگ تو لائیں۔ دو صفحات پر مشتمل اپنے مکتوب میں ذوق سلیم اور تخلیق ادب کے بارے میں لکھا ہے: ’’اِن دِنوں صرف اچھی شاعری سے نام نہیں ہوتا۔ اِس کے لیے کچھ اور باتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ (صفحہ: ۱۸۴)

احمد صغیر صدیقی نے کیا خوب کہا تھا:

آنا ذرا تفریح رہے گی

اِک محفلِ صدمات کریں گے

احمد سعید پروفیسر: (مکتوبات: ۱ صفحات: ۱، تاریخ: ۱۸؍ جنوری ۲۰۱۷ء)

ہوائے جور و ستم میں رخِ وفا کو فروزاں رکھنا ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ آوازوں کے ازدحام اور شور شرابے میں اپنی رائے پر ڈٹ جانے والے اس جری تخلیق کار نے ہمیشہ اس جانب متوجہ کیا کہ ہوا کی حکمرانی کیا آئی کہ حریت فکر کے چراغ ہی ٹمٹمانے لگے۔ ممتاز مورخ اور تحریک پاکستان پر اہم کتابوں کے مصنف پروفیسر احمد سعید نے اپنے ایک مختصر خط میں انھوں نے اپنی تصنیف ’’چند تاریخی خطوط‘‘ کا ذکرکیا ہے۔ (صفحہ: ۲۰۲)

ارشد خانم پروفیسر ڈاکٹر: (مکتوبات: ۱ صفحات: ۳، تاریخ: ۵؍ فروری ۲۰۱۸ء)

اپنے اس مکتوب میں محترمہ پروفیسر ڈاکٹر ارشد خانم نے عصر حاضر میں تخلیق ادب کے موضوع پراپنی رائے دی ہے۔ غازی علم الدین کی تصانیف پر محترمہ پروفیسر ڈاکٹر ارشد خانم کے تاثرات قاری کے لیے بہت اہم ہیں۔ لسانیات کے حوالے سے غازی علم الدین کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے محترمہ پروفیسر ڈاکٹر ارشد خانم نے لکھا ہے:

’’زبان و ادب کے لسانی تقاضوں کو تو خیر آپ سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ آپ نے اُردو ادب کی خدمت کا جو بیڑہ اُٹھایا ہے وہ بے شک آپ کاطرۂ امتیازہے ورنہ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے بلند و بانگ دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن عملی قدم اُٹھانے سے گریز کرتے ہیں۔ اللہ ان صاحب اقتدار لوگوں کو ہدایت دے۔‘‘ (صفحہ: ۳۱۶)

ارشاد شاکر اعوان ڈاکٹر: (مکتوبات: ۲ صفحات: ۷، تواریخ: ۱۸؍ جون ۲۰۱۸ء، ۲۲؍ جون ۲۰۱۸ء)

اپنے دو خطوط میں پروفیسر ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان نے غازی علم الدین کی لسانی خدمات سراہتے ہوئے اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے۔

’’آپ کی تحریرصاف، اُلجھنوں سے پاک اور جامعیت و اختصار سے سرمایہ دار ہے البتہ آپ ’نقطۂ نظر‘ کوجس مفہوم میں استعمال کر رہے ہیں اُس مفہوم کا اطلاق ’زاویۂ نظر‘ پر ہوتا ہے اس لیے کہ ہر کسی کا اپنا مشاہدہ اپنے ’زاویۂ نظر‘ کامرہون ہوتا ہے۔ نقطہ نظر مسلمہ ہوتا ہے۔‘‘ (صفحہ: ۴۲۵)

اسلم انصاری ڈاکٹر: (مکتوبات: ۷ صفحات: ۲۴، تواریخ: ۲۶؍ جولائی ۲۰۱۶ء، ۱۵؍ فروری ۲۰۱۷ء، ۸؍ جولائی ۲۰۱۸ء، ۱۴؍ جولائی ۲۰۱۸ء، ۲۳؍ جولائی ۲۰۱۸ء، ۵؍ اکتوبر ۲۰۱۸، ۸؍ نومبر ۲۰۱۸ء)

اس کتاب میں شامل ڈاکٹر اسلم انصاری کے مکتوبات میں اپنی عملی زندگی کے مختلف واقعات بھی زیبِ قرطاس کیے گئے ہیں۔ ان مکاتیب میں غازی علم الدین کی ادارت میں شائع ہونے والے علمی و ادبی مجلات ’سیماب‘ اور ’سروش‘ کے معیار کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔

’’جہاں تک ’سیماب‘ کا تعلق ہے یہ ایک دنیائے احساس و معانی ہے جس کی ترتیب و تدوین میں معلوم نہیں آپ نے کتنی کاوش کی ہو گی۔۔ ۔۔ آپ کی زبان دانی میں کوئی شک نہیں۔ اردو زبان کی یہ خدمت ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ یہ سال نامہ ایک آئینہ خانہ ہے جس میں آزاد کشمیر کی تہذیبی اور ثقافتی زندگی کی جھلکیاں معنوی سطح پر دیکھی جا سکتی ہیں۔‘‘ (صفحہ: ۱۳۳)

اصغر ندیم سیّد ڈاکٹر: (مکتوبات: ۱ صفحات: ۲، تاریخ: ۱۷؍ اکتوبر ۲۰۱۱ء)

اپنے اس مکتوب میں پروفیسر ڈاکٹر اصغر ندیم سیّد نے غازی علم الدین کے اسلوب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ان کی تصنیف ’میثاقِ عمرانی‘ کے بارے میں لکھا ہے:

’’غازی صاحب!میں اعتراف کرتا ہوں کہ یہ سب میری آگہی کے لیے بھی بہت اہم کتاب ہے کہ میں نے اِسے پڑھ کے تاریخ اور فلسفے کے طالب علم کی حیثیت سے سے بہت سی اُلجھنوں سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ (صفحہ: ۳۴)

افتخار الحسن میاں ڈاکٹر: (مکتوبات: ۲ صفحات: ۴، تواریخ: ۲۶؍ مارچ ۲۰۱۸ء، ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۱۸ء)

غازی علم الدین کی علمی، ادبی اور قومی خدمات کو لائق تحسین قرار دیتے ہوئے نئی نسل میں ادبی ذوق پروان چڑھانے کے سلسلے میں مکتوب نگار نے ادبی مجلات ’سروش‘ اور ’سیماب‘ کے کردار کو لائق تقلید قرار دیا ہے۔ غازی علم الدین کی ادارتی کاوشوں نے ان مجلات کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر دیا ہے۔ تعلیمی اداروں سے شائع ہونے والے طلبا کے ادبی مجلات اُمید فردا ہیں۔ مکتوب نگار نے اپنے مکتوب میں ان رجحان ساز علمی و ادبی مجلات کے بارے میں رائے دیتے ہوئے لکھا ہے ؛

’’آپ نے اپنے کالج میگزین کے طور پر شائع کیے گئے دو اعلا ادبی مرقعے ’سروش‘ اور ’سیماب‘ مرتب کیے تھے۔ مجھے وہ دونوں بھی آپ کی تصنیف لطیف ’لسانی مطالعے‘ کی طرح اس قدر پسند آئے کہ میں نے احساسِ تفاخر کے ساتھ اُن کے تقریباً تین نسخے مختلف جامعات اور معروف دینی مدارس کے کتب خانوں کو آپ کی طرف سے بھیجے تھے۔‘‘ (صفحہ: ۳۴۶)

الطاف انجم ڈاکٹر: (مکتوبات: ۱ صفحات: ۱۲، تاریخ: ۳۱؍ مئی ۲۰۱۸ء)

سری نگر میں مقیم اس ادیب کا سفر نامے کے انداز میں لکھا گیا یہ مکتوب اس کتاب میں شامل ہے۔ مکتوب نگار نے پاکستان میں اپنی آمد، سیر وسیاحت، مختلف احباب سے ملاقات اور یہاں اپنی مصروفیات کا تفصیلی احوال اس خط میں تحریر کیا ہے۔ مکتوب نگار نے لکھا ہے:

’’غازی صاحب ! آپ تو جانتے ہیں کہ کشمیریوں کے لیے پاکستان مدینتہ الثانی کا درجہ رکھتا ہے اور کوئی بھی کشمیری وہاں جانے کے کسی بھی موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔‘‘ (صفحہ: ۳۹۴)

امین جالندھری: (مکتوبات: ۱ صفحات: ۴، تاریخ: ۳۱؍ دسمبر ۲۰۱۷ء)

غازی علم الدین کی تصانیف بالخصوص ’لسانی مطالعے‘ اور لسانی خدمات کو سراہتے ہوئے مکتوب نگار نے ان کے عجز و انکسار کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’غازی جی ! رحم دلی، فروتنی اورخلوص ’محبت‘ کے اٹوٹ انگ ہیں اور انسانیت کے اہم اجزا۔ یہ چاروں عناصرجب یک جا ہوتے ہیں تو محشرِخیال سر اُٹھاتا ہے اور زندگی، تہذیب و تمدن اور علم و ادب میں کشادگی لانے کاعمل ٹھہرتا ہے اور انسانی زندگی خوشی، مسرت، انبساط اور فرحت پاتی ہے۔‘‘ (صفحہ: ۲۹۰)

امین راحت چغتائی: (مکتوبات: ۱ صفحات: ۱، تاریخ: ۳؍ جولائی ۲۰۱۸ء)

شہر بے خبر میں خشک پتوں کے مانند صدائیں کرنا بہت کٹھن مرحلہ ہے۔ احباب اگر یک جان دو قالب بھی ہوں اس کے باوجود دِل تو الگ الگ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کا افسانہ بھی کہیں کہیں سے جدا جدا دکھائی دیتا ہے۔ ضعیفی میں قویٰ مضمحل ہو جاتے ہیں اور عناصر میں اعتدال عنقا ہونے لگتا ہے۔ ان حالات میں سلگتی ہوئی یادوں کے چراغ بھی گُل ہو جاتے ہیں۔ اپنے ایک ہی چار سطور پر مشتمل مختصر مکتوب میں امین راحت چغتائی اپنی ضعیفی اور یادداشت کے بارے میں لکھا ہے:

’’بھلکڑ پن کا شکار ہو چکا ہوں۔ آپ کے لیے خط لکھنے بیٹھا تو ذہن سے آپ کا نام محو ہو گیا۔ پھر کچھ دیر بعد ’’غازی‘‘ کالفظ ذہن میں آ یا۔ ڈائری دیکھی تو پورا نام نظر نواز ہوا۔‘‘ (صفحہ: ۴۲۷)

انجم جاوید: مکتوبات: ۱ صفحات: ۱۱، تاریخ: ۲۳؍ مارچ ۲۰۱۸ء)

اپنے گیارہ صفحات کے مکتوب میں انجم جاوید نے اپنی ذاتی زندگی کی دھوپ چھاؤں کا احوال نہایت خلوص اور دردمندی سے لکھا ہے۔ غازی علم الدین کی تصانیف پر بھی مکتوب نگار نے اپنے تاثرات قلم بند کیے ہیں۔ ادیبوں کی معاصرانہ چشمک پر مکتوب نگار نے اپنی رائے دی ہے۔ جامعات میں سندی تحقیق کی حا لتِ زار کے بارے میں مکتوب نگار کی تشویش پر متعلقہ اداروں کو توجہ دینی چاہیے۔ علم و ادب پر مکتبی تنقید کے مسموم اثرات پر وارث علوی نے بھی دلی رنج کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا:

’’مدرسہ کی فضا ہی ایسی ہوتی ہے کہ لسان العصر، بلبل شیراز اور طوطیِ ہند سب سُرمہ پھانک لیتے ہیں۔ صرف مدرس ہے جو ٹراتا رہتا ہے اور کلاس روم کے در دیوار ان معلومات سے گونجتے رہتے ہیں جن کا توانا تخلیقی تجربات سے دُور کا بھی سرو کار نہیں ہوتا۔ ہر ذی روح کی طرح مدرس بھی عمرِ دراز کے چار دن مانگ کر لاتا ہے۔۔ ۔۔ دو پی ایچ۔ ڈی کے موضوع کی تلاش میں اور دو موضوع پر ’’کام‘‘ کرنے میں صرف ہو جاتے ہیں۔ مدرس کے لیے پی ایچ۔ ڈی کے مقالے کی وہی اہمیت ہے جو داستانی عہد کے سورماؤں کے لیے ہفت خواں کی ہوا کرتی تھی کہ ہفت خواں نہ ہوں تو سورماؤں کے لیے کنویں میں جھانکنے کے سوا کوئی کام ہی نہ رہتا۔ مدرس ان عجوبۂ روزگار لوگوں کی اولادِ معنوی ہے جو اگلے زمانے میں چاول پر قل ہو اللہ لکھا کرتے تھے، کہ اُن ادیبوں پر بھی جن کا ادبی جثہ چاول کے دانہ سے کچھ ہی بڑا ہوتا ہے پانچ سو صفحہ کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھنا اس کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے‘‘

ماضی میں کراچی کی ایک جامعہ میں ادبی تحقیق کے نام پر جو گل کھلائے گئے مکتوب نگار نے اپنے مکتوب میں اس جانب اشارہ کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قحط الرجال کے موجودہ دور میں حرص و ہوس نے تمناؤں، چاہتوں، خلوص اور علمی فضیلت کا منظر نامہ گہنا دیا ہے۔

ایوب صابر ڈاکٹر: (مکتوبات: ۱ صفحات: ۱، تاریخ: ۹؍ اپریل ۲۰۱۸ء)

نجی نوعیت کے اس مکتوب میں غازی علم الدین کے بیٹے محمد خبیب غازی کی شادی کادعوت نامہ ملنے پر اظہار تشکر کیا گیا ہے۔ مکتوب نگار نے خوشی کے اس موقع پر دولھا کے والدین کو دلی مبارک دی ہے اور ان کے لیے دعا کی ہے۔

تسلیم الٰہی: (مکتوبات: ۱ صفحات: ۳، تاریخ: ۱۴؍ اپریل ۲۰۱۳ء)

اپنے اس اہم مکتوب میں تسلیم الٰہی زلفی نے غازی علم الدین کی تصنیف ’میثاقِ عمرانی‘ کے بارے میں اپنے تاثرات قلم بند کیے ہیں۔

’’آپ نے اپنی اِس مفکرانہ تصنیف میں فطرت کے اس اصول کو پیشِ نظر رکھا ہے جس کے تحت وہ عمرانی وجود کوسیراب کرتا اور انتہائے خیال تک اس کے اندرموجود رہتا ہے۔ دوسری طرف یہ بتانے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ معاہدۂ عمرانی کے تہذیبی سفر کے یہ معنی ہیں کہ وہ شعورِ ذات سے پیش قدمی کرتا ہوا اپنے عمل کے طویل دورانیوں میں ذاتی امتیازات کی وضاحت کرتا چلا جاتا ہے۔‘‘ (صفحہ: ۶۶)

جمیل احمد رضوی سیّد: (مکتوبات: ۱ صفحات: ۸، تاریخ: ۸؍ جنوری ۲۰۱۸ء)

یہ مکتوب یاد نگاری، شخصیات نگاری اور اہم تاریخی مقامات کی لفظی مرقع نگاری پر مبنی۔ اپنے اس خط میں سیّد جمیل احمد رضوی نے جن ممتازشخصیات کی یادوں کوشامل کیا ہے ان میں محمد عالم مختا رحق، پروفیسر سیف اللہ خالد، ڈاکٹر انور سدید، خواجہ محمد عارف، حفیظ جالندھری، مشفق خواجہ اور ڈاکٹر وحید قریشی کے نام شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جامعہ پنجاب، اسلامیہ کالج سول لائنز، لاہور، غالب کالونی، لاہوراور کتب خانہ جامعہ پنجاب کی حسین یادیں بھی اس مکتوب میں اپنا رنگ جما رہی ہیں۔ مکتوب نگار نے غازی علم الدین کی کتاب ’تخلیقی زاویے‘ کے بارے میں لکھا ہے:

’’محترم غازی صاحب !آپ کی یہ کتاب شخصی مطالعات کے شعبے میں گراں قدر اضافہ ہے۔ اس میدان میں علمی کتابوں پر تجزیاتی تبصرے لکھنے والوں کو بھی اس سے راہنمائی ملے گی۔ اس میں اردو زبان اور ’پاکستانیت‘ کی اہم حیثیت کو واضح کیا گیا ہے۔‘‘ (صفحہ: ۳۰۰)

حامد سعیداختر (بریگیڈئیر (ر) : (مکتوبات: ۱ صفحات: ۲، تاریخ: ۲۶؍ نومبر ۲۰۱۶ء)

اس خط کے اسلوب کی شگفتگی اور بے ساختگی قاری کو مسحور کر دیتی ہے اور ان کی عطر بیزی سے قریۂ جاں معطر ہو جاتا ہے۔ مکتوب نگار نے ’’مشاہیر کے خطوط‘‘ کی ترسیل پر بے تکلفانہ انداز میں غازی علم الدین کا شکریہ اد اکرتے ہوئے لکھا ہے:

’’اتنے دلچسپ خطوط کو سنبھال کر رکھنا اور طبع کرانابھی کارے دارد کی سی بات ہے۔۔ ۔۔ اتنی خوب صورت اور دل چسپ کتاب شائع کرنے پر راقم کی دِلی مبارک قبول فرمائیے۔‘‘

حفیظ الرحمٰن احسن: (مکتوبات: ۳ صفحات: ۷، تواریخ: ۱۸؍ اپریل ۲۰۱۳ء، ۱۴؍ جنوری ۲۰۱۸ء، ۲۲؍ فروری ۲۰۱۹ء)

اس کتاب کے مرتب حفیظ الرحمٰن احسن کے یہ مکاتیب مسرت و شادمانی، جہدِ مسلسل، عزم و استقلال اور خوب سے خوب تر کی جستجو کے جذبات کو مہمیز کرنے کا وسیلہ ہیں۔ تکلم کے سلسلے بھی خوب ہیں مگرانسانی زندگی میں بعض اوقات ایساوقت بھی آ تا ہے جب ہنستا بولتا چمن مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے اس وقت اس نوعیت کے مکاتیب خضر راہ ثابت ہوتے ہیں۔ تنقید و تحقیق کے نظریات بدل سکتے ہیں مگر زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کے امین ایسے خطوط کے مندرجات کبھی نہیں بدلتے۔ مکتوب نگار نے ان خطوط میں کئی یادگارِ زمانہ ہستیوں کا ذکر کیا ہے جن سے مِل کر زندگی سے والہانہ محبت کے جذبات پروان چڑھتے تھے۔ وہ پارس صفت انسان تھے جو مسِ خام کو کندن بنانے پر قادر تھے۔ یہ خورشید جمال با کمال جو ذرے کو ستارۂ سحر بنانے کی صلاحیت سے متمتع ہیں ان سے استفادہ نے مکتوبات کے قارئین کو فکر و خیال کی نئی جہات سے آشنا کیا ہے۔ ایسے خطوط پڑھ کر قارئین کی لوحِ دِل پر انمٹ نقوش مرتب ہوتے ہیں۔ اپنی علمی و ادبی زندگی میں حفیظ الرحمٰن احسن کو علم و ادب کے جن سرچشموں سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا ان میں مولانا شبلی نعمانی (1857- 1914) ، مولانا الطاف حسین حالیؔ (1837- 1914) ، مولانا عبدالحلیم شرر (1860- 1926) علامہ راشدالخیری (1868- 1936) ، مولانا ابو الکلام آزاد (1888- 1958) ، سیّدامتیاز علی تاج ( 1900- 1970) ، مولاناسیّد ابو الاعلیٰ مودودی ( 1903- 1979، ڈاکٹر سیّد عبداللہ ( 1906- 1986) ، مولانا صلاح الدین احمد ( 1902- 1964) ، نسیم حجازی ( 1914- 1995) اور نعیم صدیقی ( 1916-2002) شامل ہیں۔ (صفحہ: ۶۸)

خورشید رضوی ڈاکٹر: (مکتوبات: ۱ صفحات: ۱، تاریخ: ۲۰؍ دسمبر ۲۰۱۷ء)

ایک صفحے پر مشتمل اپنے اس ایک مکتوب میں ڈاکٹر خورشیدرضوی نے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، پروفیسر سیف اللہ خالد اورمعین الدین عقیل سے وابستہ یادوں کو قلم بند کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس مکتوب میں غازی علم الدین کی علمی، ادبی اور لسانی خدمات کی تحسین کی ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نے اپنے اِس مکتوب میں لکھا ہے:

’’آپ کے لطف پیہم کا شکریہ کیوں کراداکروں۔ ’سیماب‘ ، ’سروش‘ ’لسانی مطالعے‘ ، ’میثاق عمرانی‘ کے بعد اب تخلیقی زاویے موصول ہوئی۔ دعا ہے کہ زورِ قلم اور زیادہ ہو اور آپ اسی طرح مضامینِ نو کے انبار لگاتے رہیں۔ اس بار آپ نے ایک رنگا رنگ باغ لگایا ہے۔ آپ کا محبوب ترین موضوع لسانی تحقیق گویہاں بھی جا بہ جا جھلکتا ہے مگر اس سے ہٹ کر بھی بہت کچھ ہے‘‘ (صفحہ: ۲۸۶)

رشید افروز: (مکتوبات: ۱ صفحات: ۱، تاریخ: ۲۴؍ اپریل ۲۰۱۸ء)

اس مکتوب میں رشید افروز نے اپنی ادارت میں احمد آباد (بھارت) شائع ہونے والے ادبی مجلے ’’گلبن‘‘ کی اشاعت کا ذکر کیا ہے۔ اس کے ساتھ غازی علم الدین کی تصانیف کی اپنے نام ترسیل کے لیے اپنا نیا پتا جلد بھیجنے کی بات کی ہے۔

رشید امجد ڈاکٹر: (مکتوبات: ۱ صفحات: ۲، تاریخ: ۸؍ مئی ۲۰۱۴ء)

اپنے اس اہم مکتوب میں پروفیسر ڈاکٹر رشید امجد نے اپنے اس مکتوب میں غازی علم الدین کی تصنیف ’لسانی مطالعے‘ پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے:

’’اِس کتاب کو پڑھ کر میں نے بہت کچھ سیکھا ہے اور میری معلومات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اِس کتاب کی ایک خوبی اِس کا رواں دواں اسلوب ہے۔ لسانیات خشک موضوع ہے، آپ نے ایسی روانی سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے کہ قاری ایک خوش گوارمسرت کے احساس کے ساتھ پڑھتاھتا چلا جاتا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ آپ ایک دردمند پاکستانی کی حیثیت سے اپنی پہچان کراتے ہیں۔ لفظ و معنیٰ کے انسلاکات، لسانی اشتقاقات اور لہجوں کی تشکیلات آپ کی نگارشات کے غالب رجحانات ہیں۔‘‘ (صفحہ: ۹۳)

رفیع الدین ہاشمی ڈاکٹر: (مکتوبات: ۲ صفحات: ۲، تواریخ: یکم ستمبر ۲۰۱۸ء، ۲۶؍ اکتوبر۲۰۱۸ء)

اپنے ان مکاتیب میں پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے ادبی مجلہ ’سیماب‘ کے بارے میں مکتوب الیہ کو لکھا ہے:

’’ ’سیماب‘ مِل گیا۔ نہایت عمدگی سے مرتب کیا گیا ہے۔ کسی کالج میگزین کا ایسا شمارہ ایسے پائے کا اور ایسے معیار کاشاید ہی کہیں مرتب اور شائع کیا گیا ہو۔ مجلسِ ادارت کے جملہ اساتذہ اور طلبہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔‘‘ (صفحہ: ۴۴۰)

’’صحتِ زبان و اِملاکے بارے میں آپ نے جو جہاد شروع کر رکھا ہے، اُسے جاری رہناچاہیے۔ بڑا مبارک قومی فریضہ ہے۔ اللہ آپ کوبیش از بیش تو فیق بخشے، آمین۔‘‘ (صفحہ: ۴۳۹)

رؤف پاریکھ ڈاکٹر: (مکتوبات: ۲ صفحات: ۲، تواریخ: ۷؍ مئی ۲۰۱۸ء، ۱۰؍ نومبر۲۰۱۸ء)

’’مشاہیر ادب کے خطوط‘‘ میں ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے دو نہایت اہم خطوط شامل ہیں۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ادبی اخلاقیات اور ادبی سماجیات کی زبوں حالی پر گرفت کرتے ہوئے مکتوب نگار نے لکھا ہے کہ ایسی احمقانہ تراکیب وضع کی جا رہی ہیں جوذوق سلیم پر گراں گزرتی ہیں۔ حروف کاری کے بارے میں انھوں نے لکھا ہے:

’’اب حروف کاری بھی نِج کاری کی طرح قریب قریب بد کاری ہو گئی ہے، حروف کے معاملے میں زبان کے ساتھ اور نِج کے معاملے میں قوم کے ساتھ۔‘‘ (صفحہ: ۳۸۶)

مظہر محمود شیرانی کی علمی فضیلت کے بارے میں ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے لکھا ہے:

’’شیرانی صاحب جیسے عالم اور زبان داں اب ہمارے ہاں کتنے رہ گئے ہیں ؟زبان اور لغت پران کا علم کامل اورکمال ہے۔ خدا اُنھیں صحت اور زندگی دے، افسوس کہ ہمارے جاہل اور زر پرست معاشرے نے ان کی علمیت سے بہت کم فائدہ اُٹھایا۔ اُنھیں اُردو لغت بورڈ کا مدیر اعلیٰ ہونا چاہیے تھا یا مقتدرہ قومی زبان کا سربراہ۔ وہ صحیح معنوں میں اپنے داداکے جا نشین ہیں، لیکن۔۔ ۔ حیف صدحیف۔‘‘ (صفحہ: ۳۸۶)

سعادت سعید پروفیسر ڈاکٹر: (مکتوبات: ۱ صفحات: ۴ تاریخ: ۱۸؍ جولائی ۲۰۱۳ء)

غازی علم الدین کی کتاب ’’لسانی مطالعے‘‘ کے بارے میں اپنے چار صفحات پر مشتمل مکتوب میں پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید نے کتاب کے اسلوب کو قدرکی نگاہ سے دیکھا ہے۔ اپنے دلائل کو سمیٹتے ہوئے مکتوب نگار نے لکھا ہے:

’’مجھے آپ سے مکمل اتفاق ہے کہ زبان ایک ایسا وسیع میدان ہے جو اپنے اندرکسی قوم کی تہذیب و ثقافت کو سموئے ہوئے ہوتا ہے۔ اس کی حفاظت کسی قوم کی تہذیبی، اخلاقی، علمی، فکری اور تمدنی روایات کی حفاظت ہے۔ زبان اگر انجماد کا شکار ہو جائے تو جان لینا چاہیے کہ اس میں ابلاغ کرنے والے لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔‘‘ (صفحہ: ۸۶)

سلطان سکون: (مکتوبات: ۸ صفحات: ۱۳)

مکتوبات لکھنے کی تواریخ: ۳۱؍ دسمبر ۲۰۱۵ء، ۸؍ نومبر ۲۰۱۶ء، ۱۶؍ دسمبر ۲۰۱۶ء، ۱۹؍ جنوری ۲۰۱۷ء، ۲۳؍ جنوری ۲۰۱۷ء، ۳۰؍ جون ۲۰۱۸ء، یکم جولائی ۲۰۱۸ء، ۱۵؍ اکتوبر ۲۰۱۸ء)

اپنے ان مکاتیب میں سلطان سکون نے غازی علم الدین کی لسانی خدمات کی تحسین کی ہے۔ کالج کے علمی و ادبی مجلات اور غازی علم الدین کی وقیع تصانیف کے بارے میں سلطان سکون کی تجزیاتی تحریریں ان کے ذوق سلیم کی مظہر ہیں۔ سلطان سکون کے ہر مکتوب کی پیشانی پر لکھا دعائیہ جملہ ’’پاکستان سلامت رہے‘‘ پڑھ کر ممنونیت کے جذبات سے آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں اور دِل سے دعا نکلی اللہ کریم اس عظیم محبِ وطن کو طویل عمر عطا فرمائے۔ ارض وطن اور اہلِ وطن کی محبت میں پلک تلک آنے والے آنسو بھی گہری معنویت کے حامل الفاظ کے مانند ہوتے ہیں جنھیں مکتوب نگار زیبِ قرطاس کرتا چلا جاتا ہے۔ اپنی حیات بخش اور حیات آفریں مکتوب نویسی کے اعجاز سے سلطان سکون نے اپنی تحریر کو معاشرتی زندگی کے ہرزہر کاتریاق بنا دیا ہے۔ ان خطوط میں یاد نگاری کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے۔

سلمیٰ صدیقی محترمہ: (مکتوبات: ۱ صفحات: ۱۴، تاریخ: ۵؍ ستمبر ۲۰۱۸ء)

غازی علم الدین کے تقاضے پر محترمہ سلمیٰ صدیقی نے اپنے والد پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کی حیات اور علمی و ادبی خدمات کے بارے میں اپنے جذبات واحساسات کو جس خلوص اور دردمندی کے ساتھ پیرایۂ اظہار عطا کیا ہے وہ ان کی سعادت مندی کی دلیل ہے۔ محترمہ سلمیٰ صدیقی نے اپنے اس طویل مکتوب میں روشنی کے اس لازوال رشتے کی مرقع نگاری احسن طریقے سے کی ہے۔ اپنے والدین کو اچھے الفاظ میں یاد کرنا ایک نیکی ہے۔ ایسی سعادت مند بیٹیاں والدین کابیش بہا اثاثہ ہوتی ہیں۔ اللہ کریم محترمہ سلمیٰ صدیقی کو اس نیکی کا اجر عظیم عطا فرمائے۔

سلیم آغا قزلباش ڈاکٹر (1956-2018) : (مکتوبات: ۱ صفحات: ۲، تاریخ: ۲۹؍ جنوری ۲۰۱۸ء)

ڈاکٹر وزیر آغا کا یہ ذہین فرزندبزمِ ادب کو چھوڑ کر عدم کی بے کراں وادیوں کوسدھارگیا ہے۔ گوشہ نشینی اور عالم تنہائی میں دِلِ حزیں پر ہاتھ رکھ کر اس کتاب میں ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش کا یہ خط دیکھا تومیری آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگیں۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش نے مجھے کہا:

بات صرف دیکھنے کی ہے

زندگی کو مسئلہ کس نے بنایا

میں نے یا تم نے

مگر زندگی تو زندگی ہے

مُشکل نہ آسان

اچھی نہ بُری

اِسے مُشکل یا آسان

تو ہم تم بناتے ہیں

ذرا سوچو!

زندگی تو سِکّے کی طرح ہے

ایک طرف سے دیکھو

تو سزا

دوسری طرف سے دیکھو

تو جزا

بات صرف دیکھنے کی ہے!

مجھے یقین ہو گیا کہ واقعی بات صرف دیکھنے کی ہے۔ غازی علم الدین کی کتاب ’تخلیقی زاویے‘ کو ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش نے جس طرح دیکھا وہ درج ذیل ہے:

’’کچھ عرصہ قبل آپ کے ادبی اور شخصی مطالعوں پر مشتمل کتاب بہ عنوان ’تخلیقی زاویے‘ موصول ہوئی تھی۔ تدریسی اور انتظامی مصروفیات سے وقت نکال کر آپ علمی و تحقیقی نوعیت کا کام جس جانفشانی اور جذبۂ صادق سے انجام دے رہے ہیں، وہ آپ کی اُردو زبان و ادب سے گہری شیفتگی کابر ملا اظہار ہے۔‘‘ (صفحہ: ۳۰۳)

سلیم الرحمٰن پروفیسر: (مکتوبات: ۱ صفحات: ۱، تاریخ: ۲۷؍ مارچ ۲۰۱۸ء)

اپنے اس خط میں انھوں نے غازی علم الدین کی کتاب ’تخلیقی زاویے‘ ملنے کی رسید دی ہے اور ساتھ ہی اس کتاب کے بارے میں اپنے مختصر تاثرات بھی لکھے ہیں:

’’آپ کی محبتوں کا ممنون ہوں اور مقروض بھی۔ ممنون اس لیے کہ آپ میری تمام تر کوتاہیوں کے باوجود مجھے یاد رکھتے ہیں اور مقروض یوں کہ ’تخلیقی زاویے‘ مفصل جائزے کی حق دار ہے اوراس کا مطالعہ مجھ پر قرض ہے۔ جستہ جستہ اس کا مطالعہ کیا۔ حسب توفیق اس عمدہ اور خوب صورت تصنیف پر ایک نظر ڈالی۔ ماشا ء اللہ ! نظر بد دُور۔ آمین!‘‘ (صفحہ: ۳۴۹)

سیف اللہ خالد پروفیسر: (مکتوبات: ۱ صفحات: ۸، تاریخ: ۱۷؍ مارچ ۲۰۱۸ء)

لسانی مباحث، تخلیق ادب اور تنقید و تحقیق سے متعلق پروفیسر سیف اللہ خالد نے اپنے اس مکتوب میں خاکہ نگاری اور شخصیت نگاری کے اسلوب کے بارے میں اہم نکات کی جانب توجہ دلائی ہے۔ سخن سازوں اورسخن آراؤں کے رمز آشنا پروفیسر سیف اللہ خالد نے لکھا ہے:

’’یادش بخیر کم و بیش ایک عشرہ پیش ترآپ کی بصیرت افروزنوازشات کا ابرِ کرم برسنا شروع ہوا تھا۔۔ ۔ ’میثاقِ عمرانی‘ ، لسانی مطالعے‘ ، ’لسانی لغت‘ ، ’اُردو معیار اوراستعمال‘ ، ’تنقیدی و تجزیاتی زاویے‘ ، ’سروش اقبال کے نام‘ ، ’اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین‘ ، ’سروش و سیماب‘ جیسے مجلات اوراب ’تخلیقی زاویے‘ ، نے، یقین جانیے جتنا مجھے سنجیدگی کے ساتھ، ادب زار کے گُل گشت سے محظوظ کیا، نصف صدی کے دوران میں اتنا انہماک کبھی ارزاں نہیں ہوا تھا۔‘‘ صفحہ: ۳۲۱)

شاہد شیدائی: (مکتوبات: ۱ صفحات: ۵، تاریخ: ۲۹؍ مئی ۲۰۱۸ء)

اپنے مکتوب میں شاہدشیدائی نے لسانیات، ادب، فنون لطیفہ اور تہذیب و ثقافت کے اہم موضوعات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ادب میں کوئی جمود نہیں بل کہ تخلیق ادب میں کلیشے سے نجات حاصل کرنا ہی اصل مسئلہ ہے۔ مکتوب نگار نے واضح کیا ہے کہ تخلیق ادب کے لیے کسی تحریک کی موجودگی ضروری نہیں بل کہ ادب خود ایسی جان دار، زندہ اورمتحرک شے ہے جو تحریکوں کو جنم دیتی ہے۔ ثقافت، تہذیب اور تمدن کے موضوع پر مکتوب نگار کے فکر پرور خیالات بہت اہم ہیں۔ لمحۂ موجود میں اُردو زبان و ادب کی مجموعی صورت حال کے بارے میں انھوں نے لکھا ہے:

’’اصنافِ ادب کے اعتبار سے بھی نئے دور میں جو تیز ترقی ہوئی ہے، اُس کی مثال بھی ماضی میں کم کم ہی نظر آئے گی۔ موجودہ دور میں افسانے، انشائیے، جدیدنظم اور تنقیدنے اسلوب اور معیارکے باب میں جو اضافے کیے ہیں اور جن فنی قدروں کو پروان چڑھایا ہے، اُس کا مقابلہ گزشتہ کسی دور کا ادب نہیں کر سکتا۔‘‘ (صفحہ: ۳۹۰)

شکیل عثمانی: (مکتوبات: ۱ صفحات: ۱، تاریخ: یکم دسمبر ۲۰۱۶ء)

اپنے اس مکتوب میں شکیل عثمانی نے ’اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین‘ کی رسید دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی مکتوب نگار نے مجلہ ’سیماب‘ بھی طلب کیا ہے۔

شوکت حسین کاظمی سیّد: (مکتوبات: ۱ صفحات: ۴، تاریخ: ۱۵؍ اگست ۲۰۱۸ء) اپنے اس مکتوب میں سید شوکت حسین کاظمی نے اپنے والد گرامی سیّدصادق حسین (مرحوم) کا ذکر کیا ہے۔ سیّد صادق حسین کا یہ شعر تو زبان زدِ عام ہے:

تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے

ہر انگارۂ خاکی کے ساتھ تقدیر کا یہی المیہ ہے کہ خاکِ مہ وسال میں اس کا بیش بہا اثاثہ اس طرح وقت برد ہو جاتا ہے کہ کچھ ہاتھ ہی نہیں آتا۔ مکتوب نگار نے جس عقیدت و احترام کے ساتھ اپنے والد محترم کو یاد کیا ہے وہ ان کی سعادت مندی کی دلیل ہے۔ رفتگاں کی یاد واقعتاً قلبِ حزیں کو اُن کی دائمی مفارقت کے درد سے آباد رکھنے کی ایک کوشش ہے۔ قزاق اجل کے وار سے جو بچھڑتے ہیں، وہ پھر کبھی نہیں ملتے اور زندگی کی سب رعنائیاں اُن کے ساتھ ہی پیوندِ خاک ہو جاتی ہیں۔ اُن کے دنیاسے اُٹھ جانے کے بعد جس وقت سب موسم بدل جاتے ہیں اور سورج سوا نیزے پر آ جاتا ہے تو یہ منظر دیکھ کر دِل بیٹھ جاتا ہے۔ دائمی مفارقت دینے والوں کے پس ماندگان سانس گِن گِن کرزندگی کے دِن پورے کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے بعد الم نصیب جگر فگار پس ماندگان اپنی بقیہ زندگی کے دھُندلے نقوش میں پھیکے رنگ بھرنے کی جس سعیِ ناکام میں مصروف رہتے ہیں اسی کا نام یاد رفتگاں ہے۔ یہ وفا کی ایسی کٹھن مسافت ہے جس میں آبلہ پا مسافروں کو دردِمحبت اور غبارِ سفر کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود پس ماندگان یہ سمجھتے ہیں کہ کسی صورت میں اُن کی دیدۂ گریاں سے کچھ رنگ اور آ ہنگ تو پیدا ہوئے۔ یہ مکتوب ایک ایساعدسہ ہے جس میں مکتوب نگار کے ذہن و ذکاوت کی عکاسی قارئیں کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ اپنے والد محترم کی زندگی کے حالات اور تحریک پاکستان میں ان کی خدمات پر روشنی ڈالنے کے بعد مکتوب نگار نے لکھا ہے:

’’یہ خط کچھ طویل ہو گیا ہے لیکن والدین کاذکر لمبا ہوہی جاتا ہے۔ میں خط کے ساتھ والد صاحب کا مجموعہ ’برگِ سبز‘ بھیج رہا ہوں۔ آپ یقیناًمتاثر ہوں گے۔‘‘ (صفحہ: ۴۳۸)

طارق جان: اپنے دو صفحات پر مشتمل مکتوب میں طارق جان نے تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر روشنی ڈالتے ہوئے انسان اور تخلیق کائنات کے بارے میں اہم امور کی طرف توجہ دلائی ہے۔

ظفر حجازی پروفیسر: (مکتوبات: ۷، صفحات: ۴۱)

تواریخ: ۱۱؍ دسمبر ۲۰۱۷ء، ۱۵؍ جنوری ۲۰۱۸ء، ۱۹؍ جنوری ۲۰۱۸ء، ۲۵؍ جنوری ۲۰۱۸ء، ۲۰؍ ستمبر ۲۰۱۸ء، ۲۶؍ ستمبر ۲۰۱۸ء، ۲۲؍ اکتوبر ۲۰۱۸ء

اپنے ان مکتوبات میں پروفیسر ظفر حجازی نے غازی علم الدین کی لسانی، تنقیدی اور تحقیقی مساعی کو سراہتے ہوئے لکھا ہے:

’’آزاد کشمیرکے اہلِ قلم کے تعارف میں آپ نے مختلف جہتوں سے جو کام کیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اِتنا گراں قدر کام کسی ایک شخص کے بس کا کام نہیں۔ یہ اداروں کے کرنے کا کام ہے جسے آپ نے تن تنہا نبھایا ہے۔ ’سیماب‘ اور ’سروش‘ کوآپ کی کاوشوں نے جس مقام پر پہنچادیا ہے، شاید اس سے بلند مقام پر پہچانا کسی اور کے بس کا کام نہ ہو گا۔‘‘ (صفحہ: ۲۴۵)

ظہور احمد اظہر ڈاکٹر: (مکتوبات: ۱، صفحات: ۱) اپنے مکتوب میں انھوں نے عربی اور اردو زبان میں اپنی تصانیف کا ذکر کیا ہے۔ غازی علم الدین کی تحقیقی کامرانیوں پرمکتوب نگار نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’آپ کی علمی سرگرمیاں دیکھ کراور جان کر دِل بہت خوش ہوا۔ ’لسانی مطالعے‘ پر ایک بار پھر توجہ مرکوز کی اور آپ کی قابلِ قدر کوشش دیکھ کر بے حدخوشی اور اطمینان ہوا، یہ سلسلہ جاری رکھیے اس سے پاکستان کے ساتھ ساتھ کشمیر کا چہرہ خصوصی طور پر روشن ہوتا ہے۔‘‘ (صفحہ: ۲۱۰)

ظہیر الحسن جاوید ( 1937-2018) : (مکتوبات: ۴، صفحات: ۵، تواریخ: ۱۵؍ مئی ۲۰۱۷ء، ۱۳؍ جولائی ۲۰۱۷ء، ۲۱؍ جولائی ۲۰۱۷ء، ۱۶؍ جنوری ۲۰۱۸ء)

مولانا چراغ حسن حسرت ( 1904- 1955) کے فرزند ظہیر الحسن جاوید نے اپنے والد سے وابستہ یادیں تازہ کی ہیں۔ ظہیر الحسن جاوید نے غازی علم الدین کی علمی و ادبی خدمات پر انھیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ مکتوب نگار نے اپنے والد کی یادوں اور اپنی ذات کی خوابیدہ صلاحیتوں کی دریافت کی ایک سعی کی ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ خطوط ظہیر الحسن جاوید کے اسلوب کی عکاسی کرنے کے ساتھ ساتھ ان مقاصد کی جانب توجہ دلاتے ہیں جن کا اہم ترین پہلو اپنے رفتگاں کی یاد ہے۔ اردو شاعری میں صنف ’ماہیا‘ کے فروغ کے لیے مولانا چراغ حسن حسرت کی خدمات کا ایک عالم معترف ہے۔ مکتوب نگار نے اپنے والد (مرحوم) کے لکھے ہوئے ماہیے درج کرنے کے بعد سہ مصرعی صنف میں اپنی کاوش بھی لکھی ہے۔ ذیل میں قارئین کے استحسان کی خاطر ان دونوں شعرا کی تخلیقات کا موازنہ پیش کیا جاتا ہے:

باغوں میں پڑے جھُولے

تم بھول گئے ہم کو، ہم تم کو نہیں بھُولے (چراغ حسن حسرت)

’’باغوں میں پڑے جھُولے‘‘

کوئل بھی کہے تم سے

’’ہم تم کو نہیں بھُولے‘‘ (ظہیر الحسن جاوید)

اب اور نہ تڑپاؤ

یا ہم کو بُلا بھیجو، یا آپ چلے آؤ (چراغ حسن حسرت)

’’اب اور نہ تڑپاؤ‘‘

پھر پاس مرے آ کر

سینے سے لگا جاؤ (ظہیر الحسن جاوید)

عبد الرزاق مغل پروفیسر ( 1929-2012) : (مکتوبات: ۱، صفحات: ۶، تاریخ: ۲۷؍ اپریل ۲۰۱۰ء)

اس مکتوب میں پروفیسر عبد الرزاق مغل نے اپنے استاد ڈاکٹر مولوی محمدشفیع (1883- 1963) کی زندگی کے اہم واقعات پر روشنی ڈالی ہے۔ مشرق و مغرب کے علمی سرچشموں سے سیراب ہونے والے ڈاکٹر مولوی محمدشفیع کے بارے میں یہ معلومات بہت اہم ہیں۔ پنجاب کے شہرقصورسے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مولوی محمد شفیع نے کیمبرج یونیورسٹی سے ( 1915- 19 19) ڈاکٹریٹ کی۔ اردو اسلامی دائرۃ المعارف کے سربراہ کی حیثیت سے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ یادنگاری پر مبنی اپنے اس مکتوب میں پروفیسر عبد الرزاق مغل نے تہذیبی، ثقافتی اور عمرانی روایات کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور انھیں یادوں میں محفوظ رکھنے کی سعی کی ہے۔ اس خط میں پروفیسر عبد الرزاق مغل نے اپنی قلبی و روحانی کیفیت کو احاطۂ تحریرمیں لانے کی جو کوشش ہے وہ لائق تحسین ہے۔ اس خط کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مکتوب نگار نے مکتوب الیہ کی زندگی اور ذاتی دلچسپیوں کو بھی پیشِ نظر رکھا ہے۔ اس مکتوب کے واضح مقاصد نے اسے ارفع مقام عطا کیا ہے۔ یادگارِ زمانہ لوگوں کی باتوں پر مبنی ایسے خطوط جو قارئین کی روح اور قلب کی گہرائیوں میں اُتر جاتے ہیں وہ مکتوب الیہ کو جواز افتخار فراہم کرتے ہیں۔

عبدالستار دلوی ڈاکٹر: (مکتوبات: ۶، صفحات: ۷، تواریخ: ۲۹؍ جنوری ۲۰۱۸ء، ۲۹؍ مارچ ۲۰۱۸ء، یکم اپریل ۲۰۱۸ء، ۶؍ اکتوبر ۲۰۱۸ء، یکم نومبر ۲۰۱۸ء، ۷؍ نومبر ۲۰۱۸ء)

مکتوب نگار نے غازی علم الدین کی تصانیف اور مجلہ ’سیماب‘ کو پسند کیا ہے اور اپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:

’’آپ کی تصانیف سے میری معلومات میں بہت اضافہ ہوا۔ خدا کرے تصنیف و تالیف کا آپ کا یہ سلسلہ طویل عرصے تک جاری رہے۔ میں آپ کی اِن نوا زشوں کے لیے بے حد شکر گزارہوں اور جب کبھی آپ کی نئی کتاب آتی ہے اور آپ مجھے یاد رکھتے ہیں تو میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں اور کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ انسان ہمیشہ علم کے مقابلے میں چھوٹا ہی رہتا ہے۔‘‘ (صفحہ: ۳۰۵)

عبد الستار ہاشمی: (مکتوبات: ۱، صفحات: ۲، تاریخ: ۳؍ فروری ۲۰۱۸ء)

مکتوب نگار نے اردو زبان میں مروّج غلط الفاظ کی جانب متوجہ کیا ہے۔ مکتوب نگار نے علامہ اقبال کے شعری مجموعہ ’ضرب کلیم‘ میں ’تعلیم و تربیت‘ کے ذیل میں نظم ’مرگِ خودی‘ کے ایک شعر کا حوالہ دیا ہے کہ اس میں کتابت کی غلطی موجود ہے ’بالوں پر‘ کے بجائے ’بال وپر‘ درست ہے۔ شعر درج ذیل ہے:

خودی کی موت سے ہندی شکستہ بالوں پر

قفس ہوا ہے حلال اور آشیانہ حرام! (ضربِ کلیم، صفحہ، ۸۰)

عتیق احمد خان سردار: (مکتوبات: ۳، صفحات: ۹، تواریخ: ۱۴؍ دسمبر ۲۰۱۲ء، ۱۴؍ فروری ۲۰۱۳ء، ۲۶؍ اکتوبر ۲۰۱۷ء)

اپنے ان مفصل مکتوبات میں سردار عتیق احمد خان نے مکتوب الیہ (غازی علم الدین) کی تصانیف ’میثاق عمرانی‘ ، ’لسانی مطالعے‘ ، ’اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین‘ اور ادبی مجلات ’سیماب‘ اور ’سروش‘ پربے لاگ رائے دیتے ہوئے لکھا ہے:

’’محترم غازی صاحب!آپ کی اور میری شناسائی کی حدودکو عقلی پیمانے سے نہیں بل کہ قلبی اور روحانی پیمانے سے ماپا جا سکتا ہے اور مجھے یقین ہے وہ پیمانہ استعمال کرنا آپ بخوبی جانتے ہیں۔ لیکن یہاں اس بات کا اعتراف اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے کہ اگر آپ مجھے یہ تاریخی نوعیت کی شاہکار کتاب نہ بھیجتے تو اس قدر قربت اورمحبت کے باوجود راقم اصلی غازی علم الدین سے کبھی آشنا نہ ہو سکتا۔ لہٰذا میں آپ کا اس شفقت پر بے حد شکر گزار ہوں۔‘‘ (صفحہ: ۴۴)

عرفان شاہ ڈاکٹر: (مکتوبات: ۱، صفحات: ۲، تاریخ: ۳۰؍ جولائی ۲۰۱۸ء)

اس مکتوب میں پروفیسر ڈاکٹر عرفان شاہ نے اردو رسم الخط اور اظہار و ابلاغ کے مسائل پر اظہار خیال کیا ہے۔ مکتوب نگار نے غازی علم الدین کی تصانیف ’تنقیدی و تجزیاتی زاویے‘ ، ’لسانی مطالعے‘ ، اور ’تخلیقی زاویے‘ موصول ہونے پر اظہار تشکر کیا ہے۔

عطش درانی ڈاکٹر ( 1952-2018) : (مکتوبات: ۳، صفحات: ۲، تواریخ: ۲۱؍ مارچ ۲۰۱۷ء، ۲۲؍ جنوری۲۰۱۸ ء، ۲۲؍ اکتوبر ۲۰۱۸ء)

پروفیسر ڈاکٹرعطش درانی نے ’مشاہیر ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین‘ کو جواہر اندوختی کا ایسا نرالا انداز قرار دیا جو اس سے قبل نہ کبھی دیکھا نہ پڑھا۔ غازی علم الدین کے مجموعۂ مضامین ’تخلیقی زاویے‘ کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر عطش درانی نے اپنے تاثرات میں لکھا ہے:

’’آپ کا مجموعۂ مضامین ’تخلیقی زاویے‘ جہاں نہ صرف ایک بکھرے ہوؤں کی لڑی ہے وہیں یہ معاصر ادب کا مبسوط جائزہ بھی ہے اور مستقبل میں مورخِ ادب کے لیے ایک اہم ماخذ بھی ٹھہرتا ہے۔ بادی النظر میں میرا تاثر یہی ہے۔ قبول فرمائیے۔ (صفحہ: ۲۲۴)

غالب عرفان: (مکتوبات: ۱، صفحات: ۲، تاریخ: ۶؍ اکتوبر ۲۰۱۷ء)

اپنے مکتوب میں غالب عرفان نے ’مشاہیر ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین‘ کو ایک ایسی عظیم و ضخیم کتاب قرار دیا ہے جس کے مندرجات سے نہ صرف غازی علم الدین کی ہمہ جہت شخصیت اُبھر کر سامنے آتی ہے بل کہ ان کا علمی و ادبی مرکزیت سے لبریز وقار بھی سامنے آتا ہے۔ یہ مکاتیب پس نو آبادیاتی دور کی تاریخ ہیں جن میں پورا عہد سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس مفید کتاب کے بارے میں مکتوب نگار نے لکھا ہے:

’’بات یہ نہیں کہ اِس مخزن میں کس نے کیا لکھا بلکہ قابلِ غور و فکر امر یہ ہے یہ مکاتیب ایک تاریخ بھی ہیں جوآپ کے کام پر پی ایچ۔ ڈی کرنے والے طلبا کے لیے ایک اہم دستاویز ہے۔ بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اس کتاب پر ایک تفصیلی تجزیاتی محاکمہ بھی آج کی ضرورت بن کر میرے شعور پر چھا گیا ہے۔‘‘ (صفحہ: ۲۴۴)

غفور شاہ قاسم پروفیسر ڈاکٹر: (مکتوبات: ۱، صفحات: ۱، تاریخ: ۵؍ دسمبر ۲۰۱۶ء)

الحاج پروفیسر ڈاکٹر غفور شاہ قاسم جن کا شمار عالمی شہرت کے حامل مذہبی و روحانی بزرگوں، عبقری دانش وروں، ماہرین علم بشریات، مورخین، محققین اور ماہرین لسانیات میں ہوتا ہے ان کا ایک مختصر خط ’مشاہیر ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین‘ میں شامل ہے۔ اپنے اس گراں قدر مکتوب میں الحاج پروفیسر ڈاکٹر غفور شاہ قاسم نے قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل دکھا کر وسعتِ افلاک میں اپنی جولاں گاہ سے ادب کے مجھ جیسے خاک نشیں طالب علموں اور خاکسارانِ جہاں کو آئینہ دکھایا ہے کہ اختصار میں جامعیت اس طرح پیدا کی جاتی ہے۔ الحاج پروفیسر ڈاکٹر غفور شاہ قاسم نے اپنے اس مکتوب میں غازی علم الدین کی وقیع تصانیف ’لسانی مطالعے‘ ، ’مشاہیر ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین‘ ، ’مجلہ سیماب‘ اور ’مجلہ سروش‘ کو پسند کیا ہے۔ مجلہ سیماب‘ اور ’مجلہ سروش‘ کے بلند معیار کو سراہتے ہوئے مکتوب نگار نے غازی علم الدین سے یہ مجلات طلب کیے ہیں۔ غازی علم الدین کی بھیجی ہوئی کتابیں بل کہ سوغاتیں ملنے پر الحاج پروفیسر ڈاکٹر غفور شاہ قاسم نے اظہار تشکر کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’بہت ہی ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے میرے مطالعاتی مراقبے کے لیے بہت عمدہ کتابیں مرحمت فرمائیں۔ اب آپ سے تفصیلی ملاقات کا خواہش مند ہوں۔‘‘ (صفحہ: ۱۸۳)

حقیقت میں یہ مکتوب عطیۂ خدا وندی ہے جسے میں غازی علم الدین کی خوش قسمتی پر محمول کرتا ہوں۔ غازی علم الدین مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اقلیم معرفت کے سکندر نے ان سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ ان کے لیے یہ ملاقات مسیحا و خضر کی ملاقات سے بھی زیادہ فیض رساں ثابت ہو گی۔

غلام شبیر رانا پروفیسر ڈاکٹر: (مکتوبات: ۱، صفحات: ۷، تاریخ: ۱۷؍ مارچ ۲۰۱۷ء)

یہ مکتوب راقم السطور نے اپنی مرضی سے لکھا ہے۔ اس کے بارے میں یہی کہوں گا: صلاح کار کجا و من خراب کجا

غلام قادر آزاد: (مکتوبات: ۲، صفحات: ۹، تواریخ: ۲۱؍ اگست ۲۰۱۷ء، ۷؍ مارچ ۲۰۱۸ء)

اپنے ان مکتوبات میں غلام قادر آزاد نے امریکی ماہر نفسیات ابراہم مازلو (: 1908- 1970 Abraham Maslow) کی انسان کی اپنی حقیقت کو پہچاننے کے حوالے سے نہایت مفید معلومات فراہم کی ہیں۔ مکتوب نگار کا تبحر علمی ان خطوط کے ایک ایک جملے سے ظاہر ہو رہا ہے۔ غلام قادر آزاد نے جن ممتاز اہلِ قلم کی یادوں کوان خطوط میں شامل کیا ہے ان میں سے آوارہ سلطان پوری، ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال، جمیلہ شبنم، ڈاکٹر حسن الدین احمد، خالدقیوم تنولی، ڈاکٹر رؤف خیر، شمس الرحمٰن فاروقی، پروفیسر صابر لودھی، پروفیسر قاضی ظفر قبال، پروفیسر ڈاکٹر عاصی کرنالی، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ہاشمی، مرزا محمد اقبال، مظفر حسین، ندیم صدیقی اور واجدہ تبسم کا نام قابلِ ذکر ہے۔ مکتوب نگار نے غازی علم الدین کی تصانیف کو پسند کرتے ہوئے ان کے اسلوب کو سراہا ہے۔ کتاب ’اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین‘ پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے:

’’اہلِ علم و قلم کا اتنا بڑا اجتماع جہاں علم اور زندگی یک نفس ہو کر سانس لے رہے ہیں، اُس پر ایک نگار خانے ہی نہیں ایک آئینہ خانے کاگمان گزرتا ہے جن کے اندرون اُتریں تو جہاں اہلِ علم و قلم کی صورتیں نگاہوں میں پھرنے لگتی ہیں وہاں آپ کی علمی و ادبی کاوشوں پر اُن سب کے جداگانہ اور متنوع تاثرات کی رنگا رنگی نظر آتے ہوئے سنائی دینے لگتی ہے۔‘‘ (صفحہ: ۲۳۵)

فیاض عادل فاروقی: (مکتوبات: ۱، صفحات: ۳، تاریخ: ۲۵؍ مئی ۲۰۱۶ء)

غازی علم الدین کی وقیع تصنیف ’لسانی مطالعے‘ کی رسید دیتے ہوئے مکتوب نگار نے اپنے تاثرات میں لکھا ہے:

’’آپ کی یہ کتاب ایک دار العجائب ہے جس میں الفاظ و تراکیب کا ایک جہان آباد ہے۔ یہ ایک انسائکلو پیڈیا اور حوالے کی کتاب ہے۔ جس میں ہر پڑھنے والے کے لیے علم و فضل اور زبان کے بے شمار خزینے موجود ہیں۔ آپ نے یہ کتاب بھیج کر مجھے خوش قسمت لوگوں کی قطارمیں کھڑا کر دیا ہے۔‘‘ (صفحہ: ۱۳۲)

کریم اللہ قریشی میاں کرناہی: (مکتوبات: ۱، صفحات: ۱، تاریخ: ۱۲؍ جولائی ۲۰۱۸ء)

مکتوب نگار نے غازی علم الدین کی تصنیف ’تخلیقی زاویے‘ ملنے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے اردو زبان و ادب کے لیے مصنف کی خدمات کی تعریف کی ہے۔ اردو زبان اور ہندی زبان کے ایک ہی زبان ہونے کے متعلق بھارتی ادیب ’گیان چند جین‘ کے انتہا پسندانہ زاویۂ نگاہ پر مکتوب نگار نے گرفت کرتے ہوئے اسے لائق استرداد ٹھہرایا ہے۔ اپنے اس مکتوب میں میاں کریم اللہ قریشی کرناہی نے ’تخلیقی زاویے‘ پر اپنے ان خیالات کا اظہار کیا ہے:

’’تخلیقی زاویے‘ میں زبان و بیان کے بارے میں آپ کا مضمون ’ذرا سنبھال کے لفظوں کو جوڑئیے صاحب‘ بہت قابلِ قدر ہے۔ اس مضمون میں آپ نے بہت محنت سے لسانی نکات اور زبان کی موشگافیاں بیان کی ہیں۔‘‘ (صفحہ: ۴۲۸)

محبوب حسن مقدم پروفیسر: (مکتوبات: ۱، صفحات: ۳، تاریخ: ۴؍ مارچ ۲۰۱۵ء)

اس مکتوب کا موضوع غازی علم الدین کی تصنیف ’میثاقِ عمرانی‘ ہے۔ پروفیسر محبوب حسن مقدم نے اس کتاب کے بارے میں لکھا ہے:

’’آپ کی سب سے اہم کاوش کتاب کا آخری باب ہے۔ اس باب میں پاکستان کے زوال زدہ تباہ حال معاشرے کی کم زوریوں اور ان کے اسباب کی نشان دہی کی گئی ہے اور اس مہلک بیماری کا واحدعلاج بھی دریافت کیا گیا ہے جو بِلا شبہ ’نیا معاہدہ عمرانی‘ کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے کے ارباب حل و عقد اور عُمّالِ حکومت و ریاست اس سے کس حد تک استفادہ کرتے ہیں۔‘‘ (صفحہ: ۹۹)

محبوب عالم تھابل: (مکتوبات: ۲، صفحات: ۱۵، تواریخ: ۲۷؍ جولائی ۲۰۱۵ء، ۲۶؍ دسمبر ۲۰۱۷ء)

لسانیات کے موضوع پر غازی علم الدین کی تصنیف ’لسانی مطالعے‘ کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد محبوب عالم تھابل نے اپنے پہلے مکتوب میں پینتالیس (۴۵) ایسی اغلاط کی نشان دہی کی ہے جن کے باعث اس وقیع تصنیف کا حسن ماند پڑ گیا ہے۔

’’اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین‘ جسے ڈاکٹر آصف حمیدنے مرتب کیا ہے محبوب عالم تھابل نے اس پر اپنے تاثر ات قلم بند کیے ہیں۔ مکتوب نگار نے اپنے دوسرے مکتوب میں مصنف کے کوہِ افتخار پر تیشۂ حرف کی ضرب لگاتے ہوئے ڈاکٹر رؤف خیر کے حوالے سے یہ شعر لکھا ہے:

کر اس قدربھی فخر نہ اپنی کتاب پر

میری نگاہ میرے قلم سے پناہ مانگ

اس کے بعد غیر محتاط پروف ریڈنگ کے باعث اس کتاب میں موجود تیس (۳۰) ایسی اغلاط کی نشان دہی کی ہے جن کے باعث کتاب کا حسن گہنا گیا ہے۔

غازی علم الدین کی تصنیف ’لسانی مطالعے‘ کو مکتوب نگار نے علم کا ایک حیرت کدہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:

’’آپ نے جن موضوعات کے تحت لکھا ہے، سب اچھوتے اور نئے انداز میں معلومات سے بھر پور ہیں۔‘‘ (صفحہ: ۱۰۴)

محمد اسلم لودھی: (مکتوبات: ۱، صفحات: ۲، تاریخ: ۱۰؍ مارچ ۲۰۱۷ء)

اپنے اس مکتوب میں محمد اسلم لودھی نے پروفیسر حفیظ الرحمٰن احسن کی حیات و ادبی خدمات کے موضوع پر غازی علم الدین سے معلومات فراہم کرنے کی استدعاکی ہے۔

محمد سہیل شفیق ڈاکٹر: (مکتوبات: ۲، صفحات: ۳، تواریخ: ۴؍ جولائی ۲۰۱۳ء، ۱۹؍ فروری ۲۰۱۸ء)

غازی علم الدین کے اسلوب تحقیق کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ڈاکٹر محمد سہیل شفیق نے اُن کی تصنیف ’’تخلیقی زاویے‘‘ کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:

’’آپ کی کتاب ’تخلیقی زاویے‘ (ادبی اور شخصی مطالعے) موصول ہوئی۔ کتاب کیا موصول ہوئی گویا خزانہ ہاتھ آ گیا۔ جی ہاں !آپ کی تحریر یں میرے لیے بہت قیمتی ہیں۔ سوچنے، سمجھنے اور سیکھنے کا بہت سامان فراہم کرتی ہیں آپ کی تحریریں۔ اسلوب کی دل کشی و عمدگی اِس پر مستزاد۔‘‘

محمد راشد شیخ: (مکتوبات: ۲، صفحات: ۲۹، تواریخ: ۱۶؍ اپریل ۲۰۱۸ء، ۱۴؍ اگست ۲۰۱۸ء)

اپنے مکتوب میں محمد راشد شیخ نے وزیر الحسن عابدی کے بارے میں متعدد روایات کی روشنی میں ان واقعات کی طرف توجہ دلائی ہے جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وطن عزیز کے تعلیمی اداروں میں گروہ بندی نے ماضی میں کس قدر تکلیف دہ صورت اختیار کر لی تھی۔ مکتوب نگار نے سندی تحقیق کے گرتے ہوئے معیارپر تشویش کا اظہارکیا ہے اور لکھا ہے:

’’ماضی قریب کے بر صغیر پاک و ہند کے دو نامور محقق یعنی مشفق خواجہ اور رشید حسن خان اس قسم کی تحقیق کے سخت خلاف تھے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں نے تحقیق کے بلندمرتبے پر فائز ہونے کے باوجود پی ایچ۔ ڈی (Ph.D) کی سند حاصل نہیں کی۔ اس بارے میں مشفق خواجہ مرحوم کے ادبی کالموں میں بعض دلچسپ جملے ملتے ہیں جن میں سے دو جملے قارئین کے ضیافتِ ذوق کی خاطر لکھتا ہوں:

’’مہذب ملکوں میں جن کاموں پر سزا دی جاتی ہے ہمارے ہاں اُنھی کاموں پر پی ایچ۔ ڈی (Ph.D) کی ڈگری دی جاتی ہے۔‘‘

’’آئندہ اُنھی اساتذہ کو ترقی دی جائے جو پی ایچ۔ ڈی (Ph.D) کی تہمت سے محفوط ہوں۔‘‘

اردو ادب کے متعدد سنجیدہ نقادوں، اساتذہ، محققین اور ماہرین تعلیم نے بھی مکتبی تنقید کی تہی دامنی پر گرفت کی ہے۔ میں یہاں قارئین کی خدمت اس کی کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں:

محمد عارف خواجہ: (مکتوبات: ۱، صفحات: ۴، تاریخ: ۱۱ ؍ جون ۲۰۱۷ء)

اپنے مکتوب میں خواجہ محمد عارف نے غازی علم الدین کی کتاب ’اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین‘ ملنے کی رسید دی ہے اور اس کتاب کے بارے میں اپنے تاثرات قلم بند کیے ہیں۔ ذوقِ سلیم سے متمتع محتاط مکتوب نگار نے اصلاح زبان کے لیے کچھ تجاویز پیش کی ہیں اور اس کتاب میں پروف ریڈنگ کی چند اغلاط کی نشان دہی بھی کی ہے۔ انھوں نے اس کتاب کے بارے میں لکھا ہے:

’’اگرچہ سب مکتوب نگار اہلِ قلم ہیں لیکن ان کا اپنا اپنا اسلوبِ نگارش اور علمی مقام ہے۔ مکتوب نگاروں میں اردو ادب کے تقریباً تمام بڑے نام شامل ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بعض ایسے نابغۂ روزگار نام بھی ہیں جن کاخط کتاب میں شامل ہونا ہی کتاب کے مقام کو مزیدبلند کر دیتا ہے۔‘‘ (صفحہ: ۲۳۰)

محمد کامران ڈاکٹر: (مکتوبات: ۱، صفحات: ۱، تاریخ: ۸؍ دسمبر ۲۰۱۶ء)

مکتوب نگار نے غازی علم الدین کی کتاب ’اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین‘ کے بارے میں اپنے تاثرات میں لکھا ہے:

’’اس کتاب کے ذریعے نہ صرف مختلف علمی و ادبی شخصیات کے ساتھ آپ کے روابط سے آگہی حاصل ہوئی بل کہ آپ کی شخصیت اور زبان و ادب سے آپ کی گہری وابستگی بھی آشکار ہوئی۔‘‘ (صفحہ: ۱۸۶)

محمد ریاض شاہد پروفیسر ڈاکٹر: (مکتوبات: ۲، صفحات: ۲، تواریخ: ۴؍ جنوری ۲۰۱۷ء، ۲۰؍ اکتوبر ۲۰۱۸ء)

ان دو خطوط میں علی الترتیب کالج کے مجلہ ’سیماب‘ اور کتاب ’اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین‘ مرتبہ ڈاکٹر آصف حمید کی رسید دی گئی ہے۔ مشاہیر ادب کی مکتوب نگاری کی اہمیت کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر محمد ریاض شاہد کے خیالات ان کی وسعت نظر اور عالمی ادب پر خلاقانہ دسترس کی دلیل ہیں۔ اُن کا قیاس ہے کہ مکاتیب کے الفاظ مکتوب نگار کے ذہن وذکاوت کی مقیاس ہیں۔ مشاہیر کے خطوط سے ان کے افکار عالیہ سے ایسی بصیرت افروز آگاہی ملتی ہے جو زندگی کے ہر مرحلہ پر قارئین کے لیے خضرِ راہ ثابت ہوتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد ریاض شاہد کا خیال ہے کہ ممتاز ادیبوں کے خطوط میں علم و ادب اور تہذیب وثقافت کے بارے میں معلومات کا گنج گراں مایہ پنہاں ہوتا ہے اس تک رسائی کے لیے مطالعہ کے دوران میں ارتکاز توجہ نا گزیر ہے۔ فطرت کے مقاصد کے مانند مشاہیر کے خطوط کی تہہ میں متعدد راز پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جن میں سے نصف تو عیاں ہیں اور باقی نصف کو بصیرت سے متمتع صرف چشمِ بیناہی دیکھ سکتی ہے۔ اپنے ان دو گراں قدر مکتوبات میں ممتاز ماہر لسانیات پروفیسر ڈاکٹر محمد ریاض شاہد نے غازی علم الدین کی شخصیت اور اسلوب کو پسند کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’قصہ مختصر یہ کہ، غازی علم الدین کے چاہنے والے نہ صرف بر صغیر بل کہ دنیاکے کئی دوسرے ممالک میں بیٹھے ہوئے افرادبھی ان کی دسترس میں ہیں اور اِن تمام اصحاب کا ایک علمی اورادبی رشتہ مضبوط سے مضبوط ترہوتا نظر آ رہا ہے۔‘‘ (صفحہ ۱۹۲)

محمد ظہیر بدر: (مکتوبات: ۱، صفحات: ۲، تاریخ: ۲۲؍ مارچ ۲۰۱۸ء)

’لسانی مطالعے‘ کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد غازی علم الدین کی اس کتاب کی اہمیت و افادیت کے بارے میں مکتوب نگار نے لکھا ہے:

’’ایسی کتابیں ثواب جاریہ کا درجہ رکھتی ہیں۔ جب جب، جہاں جہاں، جو جو اس سے استفادہ کرے گا اپنی زبان کی اصلاح کرے گا۔ اس کا ثواب آپ کے حساب میں جمع ہوتا جائے گا اور مجھ پر آپ کی یہ عنایت کہ اِدھر سے خواہشِ طلب ہوئی اُدھر سے عطا ہو گئی۔ ایسے علم نواز لوگ اِس قحط الرجال میں کہاں ملتے ہیں؟ آپ کا استغنائی روّیہ بہت خوش آیا۔‘‘ (صفحہ ٍ: ۳۳۳)

محمد عالم نقوی: (مکتوبات: ۱، صفحات: ۳، تاریخ: ۲؍ مئی ۲۰۱۸ء)

اپنے اس مکتوب میں محمد عالم نقوی نے فضیل جعفری (پیدائش: 1936، وفات: ۳۰؍ اپریل ۲۰۱۸ء) کی رحلت پر اپنے جذبات حزیں کا اظہار کرتے ہوئے ممتاز امریکی دانش ور اور مدبر بنجامن فرینکلن (1706-1790: Benjamin Franklin) کا چشم کشا صداقتوں کا مظہر ایک قول درج کیا ہے:

’’بیش تر لوگ پچیس سال کی عمر ہی میں مر جاتے ہیں لیکن اس وقت تک دفن نہیں ہو پاتے (اور خود اپنے کاندھوں پر اپنی لاش لیے پھرتے رہتے ہیں) جب تک وہ پچھتر یا پچاسی سال کے نہیں ہو جاتے۔‘‘ (صفحہ: ۳۸۲)

مکتوب نگار نے اپنی پسند کا ایک شعر درج کیا ہے جو میرے حسبِ حال ہے۔ ضعفِ پیری اورعالمِ تنہائی میں زندگی کی حقیقی معنویت کا عکاس یہ پڑھ کر میری آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔

جی میں آتا ہے کہ اِک دِن مر کے ہم

ہمّت دوشِ عزیزاں دیکھ لیں!

غازی علم الدین کے اسلوب، ان کی تصانیف اور شخصیت کے بارے میں مکتوب نگار نے لکھا ہے:

’’ ’لسانی مطالعے‘ اور ’لسانی لغت‘ کی اشاعت کے بعد حقیقی اہلِ زبان ہونے کی آپ کی حیثیت توپہلے ہی دائرہ اختلاف سے باہر تھی لیکن تازہ ترین تصنیف ’تخلیقی زاویے‘ (۲۰۱۷ء) نے ثابت کر دیا کہ قحط الرجال کے اِس عہد میں اُردو ادب کے ہر شعبے میں آپ ایک رَجُلِ مجاہد ہیں۔‘‘ (صفحہ: ۳۸۲)

مسعود علی بیگ پروفیسر: (مکتوبات: ۱، صفحات: ۲، تاریخ: ۲۵؍ ستمبر ۲۰۱۳ء)

پروفیسر مسعود علی بیگ نے اپنے اس مکتوب میں غازی علم الدین کی تصنیف ’لسانی مطالعے‘ کے بارے میں لکھا ہے:

’’اُردو کی عظیم الشان تہذیبی روایت سے دِل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ مضامین کسی نعمت سے کم نہیں۔ تحقیقی مواد، تجزیے، موضوعات اور تدریسی راہ نمائی کے لحاظ سے اِن مضامین میں ایک خوش گوار امتزاج و توازن بھی بخوبی موجود ہے۔‘‘ (صفحہ: ۹۲)

مشتاق اعظمی ڈاکٹر: (مکتوبات: ۲، صفحات: ۲، تواریخ: ۲۷؍ دسمبر ۲۰۱۷ ء، ۲۴؍ مارچ ۲۰۱۸ء)

اپنے دو مختصر مکاتیب میں ڈاکٹر مشتاق اعظمی نے ڈاکٹر رؤف خیر کے فکر و فن پر لکھے گئے غازی علم الدین کے مضمون کو پسند کیا۔ غازی علم الدین کی لسانی خدمات کو سراہتے ہوئے ڈاکٹر مشتاق اعظمی نے لکھا ہے:

’’آپ کی کتاب ’تخلیقی زاویے‘ آج مِل گئی، بے حد شکریہ۔۔ ۔ آپ کے دِل کش اسلوب اور شگفتہ تر نثر کا میں پہلے ہی سے قائل تھا، آج اِس خیال کو مزید تقویت مِلی۔‘‘ (صفحہ: ۲۸۷)

مظہر محمود شیرانی ڈاکٹر: (مکتوبات: ۷، صفحات: ۱۰، تواریخ: ۲۳؍ مارچ ۲۰۱۳ء، ۲۱؍ اکتوبر ۲۰۱۷ء، ۱۹؍ جنوری ۲۰۱۸ء، ۱۱؍ مارچ ۲۰۱۸ء، ۳؍ اپریل ۲۰۱۸ء، ۱۱؍ جولائی ۲۰۱۸ء، ۷؍ اکتوبر ۲۰۱۸ء)

اپنے ان مکاتیب میں ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی نے غازی علم الدین کی عدیم النظیر لسانی خدمات پر انھیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ کالج کے مجلہ ’سیماب‘ کے معیار کو انھوں نے پسند کیا اور کہا کہ یہ ضخیم، بھرپور اور متنوع مجلہ غازی علم الدین کی سیمابی طبیعت کا آئینہ دار ہے۔ پیری و صد عیب کی کیفیت بیان کرتے ہوئے انھوں نے میر تقی میرؔ کا یہ شعر لکھا ہے:

تم واقف طریق نا طاقتی نہیں ہو

یاں راہ دو قدم بھی اب دُور کا سفر ہے

معراج جامی سیّد: (مکتوبات: ۱، صفحات: ۱۴، تاریخ: ۸؍ جون ۲۰۱۸ء)

اس طویل مکتوب میں سیّد معراج جامی نے غازی علم الدین کی ان مساعی کو سراہا ہے جو انھوں نے اردو زبان کی اصلاح کے لیے کی ہیں۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے کے بارے میں انھوں نے نہایت دردمندی سے لکھا ہے:

’’نہ پڑھانے والے وہ اُستاد رہے جو پہلے خود پڑھتے تھے پھر پڑھاتے تھے نہ پڑھنے والے وہ رہے جو اُستاد کی عزت کریں اور علم کو علم سمجھ کر حاصل کریں۔ جب بآسانی نقل کر کے ڈگری مل رہی ہو توپھر کون رٹا لگائے۔ ادارے مفلوج ہو گئے ہیں۔ تمام اداروں کے سر براہ حاکم وقت کے آگے دُم ہِلارہے ہیں۔ اب کسی کو بھی احساسِ زیاں نہیں رہا۔‘‘ (صفحہ: ۴۱۹)

سیّد معراج جامی نے بھارت کے ممتازشاعر اختر الایمان (6 1915- 199) کے ایک مصرع کا حوالہ دیا ہے:

اُٹھاؤ ہاتھ کہ دست دعا بلند کریں

ہماری عمر کا ایک اور دِن تمام ہوا

خدا کا شکر بجا لائیں آج کے دِن بھی

نہ کوئی واقعہ گزرا نہ ایسا کام ہوا

سیّد معراج جامی نے لکھا ہے:

’’اُٹھاؤ ہاتھ کہ دستِ دعا بلند کریں‘ دستِ دعا کے معنی دعا کے لیے ہاتھ بلند کرنا ہے مزید ہاتھ کس کے لیے اُٹھایا جا رہا ہے۔‘‘ صفحہ: ۴۱۲)

اپنے مکتوب میں سیّد معراج جامی نے کچھ ایسے اشعار کی نشان دہی کی ہے جنھیں کور ذوق متشاعروں نے تختۂ مشق بنا کر ان کی شکل ہی بدل ڈالی:

خط اُن کا بہت خوب عبارت بہت اچھی

اللہ کرے ’حسنِ رقم‘ اور زیادہ (مرزا داغ)

خط اُن کا بہت خوب عبارت بہت اچھی

اللہ کرے ’زورِ قلم‘ اور زیادہ (متشاعر)

شہ زور اپنے زور پہ گرتا ہے مثلِ برق

وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے (مرزا عظیم بیگ عظیم)

گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں

وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے (متشاعر)

ڈاکٹر رؤف خیر نے اسی طرح کے ایک شعر کا حوالہ اس کتاب پر اپنے تبصرے میں دیا ہے:

اچھے گُن دیکھ اچھی شکل نہ دیکھ

سنکھیا بھی سفید ہوتی ہے (صفی اورنگ آبادی)

اچھی صورت نہ دیکھ سیرت دیکھ (متشاعر)

سنکھیا بھی سفید ہوتی ہے

معین الدین جینا بڑے ڈاکٹر: (مکتوبات: ۱، صفحات: ۱، تاریخ: ۱۲؍ اپریل ۲۰۱۸ء)

مکتوب نگار نے کتاب ’تخلیقی زاویے‘ کے حوالے سے غازی علم الدین کی عمدہ نثر اور لسانی نکتہ دانی کی داددی ہے۔ مکتوب نگار نے اس امر پر مسرت کا اظہار کیا ہے کہ ممتاز ادیب ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر اسلم انصاری اور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی بھی غازی علم الدین کے قدر دانوں میں شامل ہیں ڈاکٹر معین الدین جینابڑے نے غازی علم الدین سے اپنی قربت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’آپ سے ایک جذباتی تعلق استوار ہوا ہے جو مجھے تا عمر عزیز رہے گا۔ آپ ’جرگۂ ندیم صدیقی‘ کے رکن ہیں اور میں بھی۔ اب اور کیا لکھوں؟‘‘

معین الدین عقیل ڈاکٹر: (مکتوبات: ۴، صفحات: ۶، تواریخ: ۲۵؍ نومبر ۲۰۱۶ء، ۲۹؍ مارچ ۲۰۱۸ء، ۱۶؍ جولائی ۲۰۱۸ء، ۲۵؍ ستمبر ۲۰۱۸ء)

ان مکاتیب میں پہلے مکتوب میں ’اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین‘ مرتبہ ڈاکٹر آصف حمید میں مکاتیب کے مضامین و موضوعات اور مکتوب نگاروں کے تنوع کو پسند کرتے ہوئے مکتوب نگار نے لکھا ہے:

’’ایک عرصے سے اس قدر خوب صورت اُردو کی کتاب نظر سے نہیں گزری۔‘‘

(مکتوب نمبر ۴) میں کالج کے ادبی مجلہ ’سیماب‘ کے معیار کی تحسین کی گئی ہے۔ نوآبادیاتی دور اور پس نو آبادیاتی دور میں اس خطے قومی اور تہذیبی مسائل کے بارے میں مکتوب نمبر ۴ میں تمام حقائق نہایت صراحت کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔

معین نظامی ڈاکٹر: (مکتوبات: ۲، صفحات: ۲، تواریخ: ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۶ء، ۱۸؍ دسمبر ۲۰۱۷ء)

’اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین‘ مرتبہ ڈاکٹر آصف حمید اور ’تخلیقی زاویے‘ کی رسید ارسال کرتے ہوئے مکتوب نگار نے لکھا ہے:

’’آپ کی ہر نئی کتاب ایک نئی مسرت کا باعث بنتی ہے اور بہت سی نئی جہتوں سے روشناس کراتی ہے۔‘‘ (صفحہ: ۱۸۸)

نبیل زبیری ڈاکٹر: (مکتوبات: ۱، صفحات: ۱، تاریخ: ۱۷؍ مارچ ۲۰۱۵ء)

غازی علم الدین کی تصنیف ’میثاقِ عمرانی‘ کے تحقیقی اور علمی انداز کو سراہتے ہوئے مکتوب نگار نے لکھا ہے:

’’میں ذاتی طور پر آپ کی اس علمی اور تحقیقی کوشش پر مبارک باد پیش کرتا ہوں جس میں آپ نے بیک وقت مغربی اور اسلامی نقطۂ نظر کو سمیٹا ہے اور دعا کرتا ہوں کہ اِس علمی کاوش سے اور بھی چراغ جلیں۔‘‘ (صفحہ: ۱۰۱)

نجیب عمر: (مکتوبات: ۱، صفحات: ۲، تاریخ: ۱۷؍ جنوری ۲۰۱۸ء)

کتاب ’تخلیقی زاویے‘ ملنے پر مکتوب نگار نے غازی علم الدین کا شکریہ ادا کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی شعری مجموعہ ’’رودِ خیال‘‘ کے خالق پروفیسر خیال آفاقی اور ڈاکٹر ماجد دیوبندی (پ: ۷؍ جولائی ۱۹۶۴) کے ساتھ اپنے مراسم کا بھی ذکر کیا ہے۔ ممتاز ماہر نفسیات پروفیسر حاجی حافظ محمد حیات (مصنف: نور حیات) بھی غازی علم الدین کے اسلوب کے بہت بڑے مداح تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ خیال آفاقی کے افسانوں اور شاعری کے اسلوب میں پائی جانے والی جدت کے سوتے روایت سے پھوٹتے ہیں۔ انسانیت سے والہانہ محبت کے آفاقی لہجے کے حامل شاعر پروفیسر خیال آفاقی کا یہ شعر وہ اکثر دہراتے تھے:

میں آئینہ ہوں مجھے اپنے رو برو رکھنا

مرا بھرم نہ سہی اپنی آبرو رکھنا

اپنے اس خط میں مکتوب نگار نے ڈاکٹر ماجد دیو بندی کی ایک نظم ’ہم بھی تم بھی‘ درج کی ہے:

ظاہری طور سے ذیشان ہیں ہم بھی تم بھی

ہاں مگر بے سر و سامان ہیں ہم بھی تم بھی (صفحہ: ۳۰۰)

میں نے ڈاکٹر ماجد دیوبندی کے شعری مجموعے ’شاخِ دِل‘ اور ’لہو لہو آنکھیں‘ پروفیسر گدا حسین افضل اور پروفیسر احمد بخش ناصر کے پاس دیکھے۔ ان کا کلام سب نے پسند کیا:

شاخ دِل پر دیکھ کر چاہت کی تازہ کونپلیں

آرزوؤں کے پرندے چہچہانے آ گئے

ترا فراق، تری جستجو، تری حسرت

یہ زخم زخم تبسم، لہو لہو آنکھیں

نثار احمد ڈاکٹر: (مکتوبات: ۱، صفحات: ۳، تاریخ: ۱۱؍ فروری ۲۰۱۵ء)

’’میثاق عمرانی‘‘ موصول ہونے کے بعد اس مکتوب میں ڈاکٹر نثار احمد نے غازی علم الدین کی محنت، لگن، وسعتِ نظر، روشن خیالی اور دقت نظری کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’غازی صاحب !مجموعی طور پر آپ کی کتاب سنجیدہ علم و تحقیق کانمونہ ہے۔ بحث و نظر کے تمام مواقع پر پوری محنت اور ایمان داری سے کام لیا گیا ہے۔‘‘ (صفحہ: ۹۷)

ندیم صدیقی: (مکتوبات: ۴، صفحات: ۱۰، تواریخ: ۲۰؍ فروری ۲۰۱۳ء، ۳؍ جون ۲۰۱۷ء، ۷؍ جون ۲۰۱۷ء، ۱۵؍ مئی ۲۰۱۸ء)

یاد رفتگان پر مبنی ’’پُرسہ‘‘ جیسی یادگار کتاب کے مصنف اور صاحب طرز ادیب ندیم صدیقی نے اپنے ان خطوط میں غازی علم الدین کی تصانیف کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ مکتوب نگار کی تحریر کا ایک ایک لفظ ان کی وسعت نظر اور لسانی مہارت کی دلیل ہے۔ مکتوب نگارنے ’’لسانی مطالعے‘‘ کے بارے میں لکھا ہے:

’’خوب کام کیا ہے آپ نے۔ یقین ہے لوگ اس سے مستفید ہوں گے اور اللہ سے آپ کو اجر ملے گا۔‘‘ (صفحہ: ۴۵)

جزیرۂ جہلامیں گھرے حساس تخلیق کار جب لسانی اغلاط کو دیکھتے ہیں تو اُن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے۔ اصلاح زبان کی خاطر جد و جہد کرنے والے ادیب سمجھتے ہیں کہ تحریر و تقریر کی اغلاط دیکھنے کے بعد حقائق کی جستجو کی مظہر اصلاح کی کوششیں اپنی نوعیت کے اعتبار سے آموزش کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔ زبان میں بے ہنگم تجربات پر گرفت کرتے ہوئے ندیم صدیقی نے لکھا ہے:

’’آج ایک اچھے خاصے پڑھے لکھے شخص کا ’گو مگوئیوں‘‘ لکھنا اس خط کے لکھنے کا سبب بن گیا ہے۔ موصوف نے گومگو کی جمع بنانے کے چکر میں نجانے کیا لکھ ڈالا۔۔ ۔ ہمارے ہاں ہر لفظ کی جمع بنانے کی نجانے کیا ضرورت آپڑتی ہے۔ اسی طرح ایک حضرت نے ’بے سکونیوں‘ لکھ کر ہمارے سکون کی جھیل میں کنکر نہیں پتھر دے مارا۔‘‘ (صفحہ: ۴۹)

عادات و اطوار اور مجلسی شائستگی کے مانند اظہار و ابلاغ کا دل کش اور موثر انداز پتھروں کو بھی موم کر دیتا ہے۔ زبان و بیان پر اس وقت جو سخت مقام آیا ہے اس میں جو سبق پوشیدہ ہے وہ یہ ہے کہ تکلم کے سلسلوں پر اثر انداز ہونے والوں کو اس بات کا قائل کیا جائے کیا جائے کہ اغلاط کے ارتکاب کے بعد اصلاح پر مائل ہونا زبان کو زوال سے نکال کر اوجِ کمال تک پہچانے کا انتہائی موثر ترین وسیلہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اپنے ایک مکتوب کے آخر میں ندیم صدیقی نے لکھا ہے:

’’خموشی بھی بسا اوقات ایسا لفظ بن جاتی ہے کہ ’آواز‘ بے معنی محسوس ہوتی ہے۔ ذرا سنیے سیفی امروہوی کایہ شعر جس میں خموشی نے کتنی سفاکی سے اپنے معنی و مطلب برپا کیے ہیں:

تری نگاہ نے محفل میں دفعتاً اُٹھ کر

کسی کا حال بِگاڑا کسی کا مستقبل‘‘ (صفحہ: ۵۴)

نذیر فتح پوری: (مکتوبات: ۱، صفحات: ۳، تاریخ: ۱۷؍ اگست ۲۰۱۳ء)

آزاد غزل کے حامی نذیر فتح پوری کا شمار ان ماہرین لسانیات میں ہوتا ہے آنے والی نسلیں جن کے اسلوب کی تقلید کریں گی۔ جو کچھ ان کے دِل میں ہوتا ہے وہی ان کے چہرے پر عیاں ہوتا ہے۔

نذیرؔ چہرے بدلنا نہیں مری فطرت

میں ایک دِل ہوں میرا ایک ہے چہرہ

نذیر فتح پوری نے اپنے مکتوب میں واضح کیا ہے کہ تحریر اورتقریر میں استعمال ہونے والے الفاظ کی حفاظت، حرمت اور تقدس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ غازی علم الدین کی تصنیف ’لسانی مطالعے‘ کے بارے میں نذیر فتح پوری نے لکھا ہے:

’’آپ کی کتاب ’لسانی مطالعے‘ کا پہلاباب ان معنوں میں اہم ہے کہ اس موضوع پر اتنی تفصیل سے پہلی بار قلم اُٹھایا گیا ہے۔‘‘ (صفحہ: ۸۹)

نسیم سحر: (مکتوبات: ۲، صفحات: ۳، تواریخ: ۱۹؍ مارچ ۲۰۱۸ء، ۳؍ جولائی ۲۰۱۸ء)

غازی علم الدین کی کتاب ’اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین‘ کے بارے میں نسیم سحر نے لکھا کہ اس کتاب میں شامل ان مکاتیب کامجموعہ ادبی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ ان مکاتیب کے مطالعہ سے مکتوب نگاروں کے ادبی اور علمی ذوق سے بھی کامل آگہی حاصل ہوتی ہے۔ غازی علم الدین نے آزادیِ اظہار کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ان کے بارے میں نسیم سحر نے اپنے مکتوب میں لکھا ہے:

’’گزشتہ بیس برسوں میں مختلف ایسے مشاہیر کے مکاتیب بھی اس مجموعے میں شامل کیے ہیں جوآپ کے نقطۂ نظر سے متفق نہیں ہیں۔ بل کہ انھوں نے آپ کے نظریات پر کھلی اور وا شگاف الفاظ میں تنقید کی ہے۔‘‘ (صفحہ: ۳۲۹)

نگار سجاد ظہیر ڈاکٹر: (مکتوبات: ۳، صفحات: ۲، تواریخ: ۲۵؍ دسمبر ۲۰۱۶ء، ۸؍ مئی ۲۰۱۷ء، یکم فروری ۲۰۱۸ء)

اپنے ان مکاتیب میں محترمہ نگار سجاد ظہیر نے غازی علم الدین کی کتاب ’تخلیقی زاویے‘ کو پسند کیا ہے اور اپنے بارے میں ایک مضمون کی اشاعت پر اظہار تشکر کیا ہے۔ اپنے مکاتیب میں انھوں نے لسانی حوالے سے مصنف کی خدمات کو سراہا ہے۔ (صفحہ: ۱۹۰)

نصرت بخاری پروفیسر سید: (مکتوبات: ۱، صفحات: ۳)

قد آور شخصیات کے خطوط پر مشتمل کتاب ’اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین‘ ملنے پر مکتوب نگار نے غازی علم الدین کا شکریہ ادا کیا ہے۔ پروفیسر سیّد نصرت بخاری نے اس کتاب کو مزید نکھارنے کے سلسلے میں پانچ تجاویز دی ہیں جو مناسب ہیں۔ مختلف علوم کے اس مخزن کی اشاعت پر اپنے خط میں انھوں نے لکھا ہے:

’’میں کتاب کی اشاعت پر خوش ہوں کیوں کہ اس کی خوبیاں اس کی خامیوں سے بہت زیادہ ہیں۔ میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے ایک نہایت ہی قیمتی کتاب مجھے بھیجی۔‘‘ (صفحہ: ۲۱۳)

ہارون الرشید تبسم ڈاکٹر: (مکتوبات: ۱، صفحات: ۲، تاریخ: ۱۷؍ مئی ۲۰۱۸ء)

مکتوب نگارنے غازی علم الدین کے ساتھ معتبر ربط پرخوشی کا اظہارکیا ہے۔ غازی علم الدین کی تصانیف بالخصوص ان کی نگرانی میں شائع ہونے والے کالجزکے مجلات کے بلند معیار کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے لکھا ہے:

’’درس گاہوں کے ادبی مجلے ’سیماب‘ اور ’سروش‘ آپ کی تخلیقی صلاحیتوں، ادب شناسی، اقبال فہمی اور ادب برائے زندگی کے آئینہ دار ہیں۔‘‘ (صفحہ: ۳۸۸)

یاسمین گل محترمہ: (مکتوبات: ۲، صفحات: ۷، تاریخ: ۷؍ فروری ۲۰۱۷ء، ۱۸؍ جنوری ۲۰۱۸ء)

پہلے مکتوب میں محترمہ یاسمین گل نے غازی علم الدین کی کتاب ’اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین‘ کو بہ نظر تحسین دیکھا ہے۔ مکتوب نگاری کی روایت پر روشنی ڈالتے ہوئے محترمہ یاسمین گل نے کلاسیکی ادب سے مرزا اسداللہ خان غالبؔ کے خطوط کا ذکر کیا ہے۔ دوسرے مکتوب میں محترمہ یاسمین گل ’تخلیقی زاویے‘ پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

یحییٰ نشیط ڈاکٹر سیّد: (مکتوبات: ۲، صفحات: ۷، تواریخ: ۵؍ مئی ۲۰۱۳ء، ۲۱؍ اگست ۲۰۱۸ء)

اپنے پہلے مکتوب میں ڈاکٹر سیّد یحییٰ نشیط نے غازی علم الدین کی تصانیف ’لسانی مطالعے‘ اور دوسرے مکتوب میں ’تخلیقی زاویے‘ پر اپنی بے لاگ رائے دی ہے۔ اپنے مکتوب میں ڈاکٹر سیّد یحییٰ نشیط نے لکھا ہے:

’لسانی مطالعے‘ نے اردو ادب میں جو مقام حاصل کر لیا ہے ’تخلیقی زاویے‘ اس معیار کی نہیں ہے۔‘‘ (صفحہ: ۸۰)

’تخلیقی زاویے کے بیش تر مضامین کتابوں پر تبصرے ہیں جو ایک پختہ کار ادیب کے دائرہ عمل سے بڑی حد تک خارج ہوتے ہیں۔‘‘ صفحہ: ۸۰)

یونس جاوید ڈاکٹر: (مکتوبات: ۱، صفحات: ۱، تاریخ: ۳۱؍ مارچ ۲۰۱۰ء)

اپنی کتاب ’میثاق عمرانی‘ میں غازی علم الدین نے فارابی، ابن خلدون اور شاہ ولی اللہ جیسے روشنی کے عظیم میناروں کے خیالات سے جس طرح استفادہ کیا ہے اسے یونس جاوید نے قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ عمرانیات کے موضوع پر غازی علم الدین کی کتاب ’میثاقِ عمرانی‘ پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر یونس جاویدنے لکھا ہے:

’’میثاق عمرانی‘‘ آپ کی عرق ریزی سے کی گئی تحقیق کا منھ بولتا ثبوت ہی نہیں بلکہ قاری کوبھی علوم سے آراستہ کرنے کا نسخہ ہے۔‘‘ (صفحہ: ۲۷)

غازی علم الدین کی کتاب ’مشاہیر ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین‘ مرتبہ حفیظ الرحمٰن احسن (مدیر سیارہ، لاہور) کے بارے میں ڈاکٹر رؤف خیر نے لکھا ہے:

’’مختصر یہ کہ پروفیسر غازی علم الدین نے یہ ضخیم کتاب بغیر ایڈٹ کیے بہ زرِ کثیرشائع فرمائی ہے اور کتاب کی قیمت سے زیادہ ڈاک خرچ برداشت کر کے ہند و پاک کے قلم کاروں تک پہنچائی بھی ہے۔ لکھنے والوں نے جو کچھ قلم برداشتہ لکھا ہے اُس کی غازی صاحب نے بڑی کشادہ دلی سے پذیرائی کی ہے اورقارئین سے وسعت نظر کے متمنی ہیں جس کی توقع کم ہے۔

فون، facebook, whats app, sms کے دور میں اِتنے لمبے لمبے خطوط مذاق سے کم نہیں لگتے۔ قاری کی عدیم الفرصتی کے پیشِ نظر ناول کی جگہ افسانے، افسانے کی جگہ افسانچے، مختصر غزلیں اور نظموں کی جگہ یک مصرعی نظمیں، لکھی جانے لگی ہیں۔ sms بھی لمبا ہو تو بغیر پڑھے مٹا دیا جاتا ہے۔ ایک پرانا مقولہ ہے:

درخواست دو حرفی: بحالی یا برطرفی۔‘‘ (1)

اس عہدِ ناپرساں میں ضعفِ بصارت نے اس قدر گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے کہ انسان شناسی ممکن ہی نہیں۔ قحط الرجال کے موجودہ اعصاب شکن دور میں خلوص و مروّت بھی احتیاج کے اور دعا سلام بھی مفادات کے مدار میں گھومتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی دھُن میں مگن اور اپنی فضا میں مست پھرتا دکھائی دیتا ہے، بے حسی اور خود غرضی کا عفریت ہر طرف منڈلا رہا ہے۔ ان حالات میں حساس تخلیق کار کی چشمِ تر کی جانب کون دیکھے گا؟ حرص و ہوس کے بڑھتے ہوئے رجحان نے معاشرتی زندگی کا نقشہ ہی بدل کرر کھ دیا ہے۔ عام آدمی کے شہرِ آرزو پر آلامِ روزگار اور حسرت و یاس کے کالے بادل چھا گئے ہیں۔ اس صورت حال میں تخلیقِ ادب کا محور بدل جانے سے فکر و خیال کا پورا منظر یکسر بدل گیا ہے۔ ناقدری کی ایسی بادِ حوادث چلی ہے کہ کچھ سُجھائی نہیں دیتا۔ ہونی چپکے چپکے اپنا کام کر جاتی ہے اور وقت کے رخسار پر دِلِ پُر خوں سے نکلنے والے ایسے آنسو چھوڑ جاتی ہے جو نوشتۂ تقدیر کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ نوحہ گرانِ شام غم صر صرِ اجل کے شور میں پنہاں درد کو محسوس کر لیتے ہیں۔ غازی علم الدین ذرا دھیان سے سنیں کہ خلقِ خدا کیا کہتی ہے۔ محمد راشد شیخ نے اپنے مکتوب کے آخر میں لکھا ہے:

’’آپ اس مہنگائی کے دور میں کثیر مصارف برداشت کر کے مہنگے ولایتی کاغذ پر کتابیں چھپواتے ہیں اور پھر یہ کتب انتہائی مہنگے ذریعۂ ترسیل یعنی TCS کے ذریعے بڑی تعداد میں لوگوں کو بھجواتے ہیں اور اس طرح کثیر مصارف کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اُٹھاتے ہیں۔ از راہ کرم اِس طرزِ عمل پر نظر ثانی فرمائیں۔ ہم میں سے کسی کے گھر کے صحن میں ایسا درخت نہیں ہے جس پر پتوں کے بجائے نوٹ اُگتے ہوں اور نہ ہی ہمارے پاس قارون کا خزانہ ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ اپنی خون پسینے کی کمائی کو اس طرح صرف کرنا کہیں ’’اسراف‘‘ میں داخل نہ ہو جائے۔۔ ۔۔ مشفق خواجہ نے جب اپنا مجموعۂ کلام ’ابیات‘ مہنگے ولایتی کاغذ پرشائع کرایا تو ایک نسخہ ہدیتہً پیر حسام الدین راشدی کو پیش کیا۔ پیر صاحب نے کتاب کھول کر دیکھی اور خواجہ صاحب سے فرمایا: ’’خواجہ صاحب! آپ نے اِس کاغذ پر اپنی شاعری چھاپ کر کاغذ کو ضائع کیا، اس سے کہیں بہتر ہوتا کہ آپ کاغذ مجھے دے دیتے اور میں اِس پر اپنے مضامین چھپوا لیتا۔‘‘

خواجہ صاحب نے جواب دیا: ’’کاغذ تو پھر بھی ضائع ہی ہو جاتا۔‘‘

غازی علم الدین ان تمام حقائق سے آگاہ ہیں لیکن وہ علم و ادب کے ایسے عاشق ہیں کہ کسی اندیشۂ سود و زیاں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ یہ ایسا جذبہ ہے جسے روح سے محسوس کیا جا سکتا ہے اور اِسے کسی میزان میں تولنا ممکن ہی نہیں۔ ان کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل ہی فروغ علم و ادب کی تمنا اور انسانیت نوازی کی اساس پر ہوئی ہے۔ علم دوستی، ادب پروری اور انسانی ہمدردی کی تمازت اور عطر بیزی ان کی زندگی کا نمایاں وصف ہے۔ دنیا بھر کے دانش وروں سے انھیں قلبی لگاؤ ہے یہی وجہ ہے کہ مشاہیرِ ادب بھی اُنھیں ٹُوٹ کر چاہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں مصلحت اندیشی کے اعجاز سے ذہن و ذکاوت کو پختگی نصیب ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اگر عشق میں مصلحت اندیشی کو شعار بنانے کی مہلک غلطی کا ارتکاب کیا جائے تو روشن مستقبل سے وابستہ اُمیدوں کے تاج محل مسمار ہو جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں علم و ادب، تہذیب و ثقافت اور اہل علم و دانش سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کے بغیر زندگی ایک نخلِ بے ثمر ہے۔ ہر غم گسار ناصح، محرم راز اور معتمد رفیق کی تلخ باتیں سننے کے بعد بھی انھیں کوئی ملال نہیں ہوتا۔ اپنے دِل میں قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کرنے کی تمنا لیے غازی علم الدین مسکرا کر یہی کہتے ہیں:

تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے

دِل کے بازارمیں بیٹھے ہیں خسارا کر کے

پس نوآبادیاتی دور میں قلعۂ فراموشی میں گونجتے سناٹوں سے دِل دہل جاتا ہے۔ اس کٹھن ماحول میں بے حس ستم گروں کو سنگِ ملامت لیے اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر بھی خواہشوں کے طلسم سے نجات حاصل کرنے کی تمنا کرنے والے جری تخلیق کار کی حیثیت سے غازی علم الدین نے سدا ایک شانِ استغنا کے ساتھ پرورشِ لوح و قلم کو اپنا شعار بنایا ہے۔ ان کی تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی فعالیت زندگی کی حقیقی معنویت کواُجاگر کرنے کی ایک سعی ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ ماضی میں خفاش منش جہلا کی وجہ سے دھیرے دھیرے معاشرتی زندگی کو ایسا روگ لگا ہے کہ دروغ کو فروغ ملا، جاہل کو اس کی جہالت کا انعام ملنے لگا اور مصلحت اندیشی و موقع پرستی کو وتیرہ بنانے والوں کی پانچوں گھی میں تھیں۔ سُونی سُونی سی آبادیوں میں درندوں کے جورو ستم نے سہمے سہمے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی۔ آرزوؤں کے گھنے جنگل میں جب پر اسرار خاموشی لفظ لفظ پھیلنے لگتی ہے تو اِسے معاشرتی زندگی کے لیے انتہائی بُرا شگون سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں بے زبانی بھی کئی رازوں سے پردہ اُٹھاتی ہے اور اپنا احوال سناتی ہے۔ ایسے میں غازی علم الدین جیسے کسی مرہم بہ دست مسیحا کا سندیسہ طلوعِ صبحِ بہاراں کی نوید ثابت ہوتا ہے۔ غازی علم الدین نے فروغِ علم و ادب کا جو تاج محل تعمیر کرنے کا قصد کیا ہے اُسے اندیشۂ زوال نہیں۔ تاریخ کے ہر دور میں اس ابد آشنا تصور کے آثار ملیں گے۔

٭٭

ماخذ:

1۔ رؤف خیر ڈاکٹر: ’مشاہیر ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین‘ ماہنامہ سب رس، حیدرآباد، جلد۸۱، شمارہ ۷، جولائی ۲۰۱۹، صفحہ 79۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے