اُردو افسانے میں مسعود مفتی کا ظہور نہ حادثہ تھا نہ اتفاق، بلکہ میری نظر میں یہ ایک سماجی ضرورت تھی۔ ہر دور میں جب اخلاق پر زوال آ جاتا ہے، دائم قدریں شکستہ ہو جاتی ہیں۔ انسانیت سر بگریبان نظر آنے لگتی ہے اور شخصیت کے ظاہر اور باطن الگ الگ دنیائیں تعمیر کرنے لگتے ہیں تو ایک سوچنے والے کا ظہور لا بدی ہو جاتا ہے۔ یہ سوچنے والا فلسفی بھی ہو سکتا ہے اور نکتہ در بھی۔ شاعر بھی ہو سکتا ہے اور افسانہ نگار بھی اور اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے تفکر کے محدب شیشے سے معاشرے کے ان داغوں کو نمایاں کرتا جائے جنہیں ہماری کھلی ہوئی مصلحت کوش آنکھیں دیکھنے سے گریز کرتی ہیں اور اگر دیکھتی ہیں تو اتنی جرات پیدا نہیں ہونے دیتیں کہ ہم ان کی نشان دہی کر سکیں، اس مقصد کے لیے ہمیں ہمیشہ اس مفکر کا انتظار ہوتا ہے جو حقائق کی کڑوی گولی شکر میں لپیٹ کر ہمارے گلے سے اتارے اور ہمیں اطراف و جوانب میں پھیلی ہوئی آلائشوں کا احساس دلائے۔ اس لحاظ سے مسعود مفتی کے لیے افسانہ لکھنا محض ایک شغل نہیں بلکہ ایک مقصد بھی ہے اور اسی مقصد کے حصول کے لیے اس نے ’’مرد ہو کر زچگی کا درد سہا ہے۔‘‘
(’’میرا مسئلہ‘‘ از مسعود مفتی، ادب لطیف)
یہاں آپ یہ سوال ضرور کر سکتے ہیں کہ جب مسعود مفتی مفکر کا فریضہ ہی سر انجام دینا چاہتا ہے تو وہ اظہار کی سیدھی راہ کیوں اختیار نہیں کرتا۔ معاف کیجیے مسعود مفتی نے ابھی تک اپنی شخصیت کا کوئی پرت بھی خود نوشت سوانح عمری کی صورت میں بے نقاب نہیں کیا۔ اس لیے اس کے قاری کو ابھی یہ سہولت حاصل نہیں ہوئی کہ تخلیقی عمل کے محرکات کی تلاش کے لیے اس کی زندگی کے عناصر سے معاونت حاصل کر سکے۔ اس لیے اس سوال کے جواب کے لیے اس کے افسانوں کی طرف ہی رجوع کرنا پڑتا ہے۔ مسعود مفتی کے افسانوں میں مثبت اور منفی قوتوں کا واضح تصادم قدم قدم پر ملتا ہے۔ انسان کی شخصیت ریزہ ریزہ ہو کر ہزار ٹکڑوں میں بٹ گئی ہے۔ ہر شخص نے اپنے اوپر ریا کاری کا خول چڑھا رکھا ہے جس کی تہہ کے نیچے چھپی ہوئی اصلیت کو دیکھنا ممکن ہی نہیں۔ پھر بدی کی قوتیں اس قدر غالب ہیں کہ وہ نیکی کو سطح پر آنے ہی نہیں دیتیں اور جب بھی خیر کے غالب آنے کا ’’خدشہ‘‘ لاحق ہوتا ہے، شر کی جملہ قوتیں مجتمع ہو کر اس کی کامیابی کے تمام راستے مسدود کر دیتی ہے۔ انسان کے اس ’’دوغلہ پن‘‘ نے سارے معاشرے کو متاثر کیا ہے۔ چنانچہ ہر وہ چیز جس کا ظاہر نظر سے فریب اور جس کی اصلیت آنکھوں سے اوجھل ہے اور جس پر رائے عامہ کا دبیز غلاف چڑھا ہوا ہے وہ بڑی آسانی سے قبول کر لی جاتی ہے۔ اس قعرِ دریا میں مسعود مفتی نے مقاومتِ کمترین (Least Resistance) کی راہ اختیار کی ہے اور وہ تمام باتیں جو کڑوی کسیلی ہیں ایک ایسے لباس میں پیش کر دی ہیں کہ کوئی بھی محتسب انہیں گردن زدنی قرار دینے کی جرات نہیں کر سکتا۔ مسعود مفتی ہی کا قول ہے ’’کہ ہمارے معاشرے میں طوائف کی بستی کو ناجائز اور برقعہ پوش طوائف کے گشت کو جائز سمجھا جاتا ہے‘‘ ۔ (’’میرا مسئلہ‘‘ از مسعود مفتی، ادب لطیف) ظاہر ہے کہ جب تمام منفی قوتیں مثبت ٹھہر جائیں تو تقریر و احتساب کے پیمانے بھی بدل جاتے ہیں اور مفکر بھی کسی ایسے پردے کو تلاش کرتا ہے جس کی اوٹ میں رہ کر وہ ’’بے راہروی‘‘ کے الزام سے بچ سکے، بارشِ سنگ سے بھی اور اپنی بات بھی برملا کہہ جائے۔ سالوں پہلے خدائے سخن میرتقی میر نے بھی گھٹن کے ایسے ہی ماحول میں دم کشی کی کیفیت محسوس کی تھی اور ریختہ کوسخن کا پردہ بنایا تھا۔ موجودہ دور میں مسعود مفتی نے کہانی کو اظہار کا ذریعہ بنایا ہے اور سخن کا یہی پردہ اب اس کا فن ٹھہرا ہے۔
مسعود مفتی کے افسانوں میں اس کے رجحانات کے بہت سے گوشے منور ہوتے ہیں لیکن ایک غالب رجحان جو اس کے ہاں قدرِ اوّل کی حیثیت رکھتا ہے کردار نگاری کا ہے۔ اس دور میں جب معاشرہ انتشار سے دوچار ہو، قدروں کی شکست و ریخت ہو رہی ہو اور تاریکی میں روشنی کی ایک کرن بھی دکھائی نہ دیتی ہو تو ایسے کردار جو زمانے کی مروجہ روش سے ذرّہ بھر امتیازی حیثیت رکھتے ہوں فوراً مرکز توجہ بن جاتے ہیں۔ تقسیم کے فوراً بعد مادیت کا فروغ، ملازمتوں کا حصول، مال و زر کا استحصال، الاٹمنٹوں کی دوڑ دھوپ، سیاسی لوٹ کھسوٹ، ایک ہی رات میں امیر بن جانے کی خواہش نے ایک ایسے معاشرے کو جنم دیا جس میں فرد کی شخصیت ہر قدم پر مجروح ہوئی۔ اس دور کے بیشتر افسانہ نگاروں کے ہاں غالب رجحان اسی گمشدہ فرد کی دریافت کرنا ہے۔ ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے مسعود مفتی کا ظہور ۱۹۵۸ء میں ہوا اور اس وقت تک سماجی برائیوں نے پھیل کر سارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ شاید اسی لیے مسعود مفتی فرد کی دریافتِ نو کی بجائے گمشدہ معاشرے کی تلاش میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے اور معاشرہ چونکہ افراد کے ایک وسیع کُل کا عنوان ہے، اس لیے وہ معاشرے کی اس دریافت میں فرد کے مطالعے کو اساسی حیثیت دیتا ہے۔ چنانچہ اس کا ایک کردار فرد اور معاشرہ کے مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے یوں کہتا ہے: ’’زندگی سے ٹریجڈی اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک سوسائٹی کے تقاضے فرد کی ذات کے تقاضوں پر مقدّم سمجھے جائیں گے‘‘ ۔ اس زاویے سے دیکھئے تو مسعود مفتی کی کردار نگاری اس غالب رجحان کا حصہ نہیں جو تقیسم کے بعد اردو افسانے میں شروع ہوا بلکہ اجتماعیت کے اس متروک رجحان کا حصہ ہے۔ جس کی صرف چند جھلکیاں تقسیم سے پہلے پریم چند، غلام عباس اور کرشن چندر کے ہاں ملتی ہیں۔
مسعود مفتی کی انفرادیت یہ ہے کہ اس نے معاشرے کے داغ نمایاں کرنے کے لیے محض یک رُخی کرداروں کا انتخاب نہیں کیا بلکہ اپنے نقطۂ نظر کو واضح کرنے کے لیے ایک ہی افسانے میں متعدد مثبت اور منفی کردار پیش کیے ہیں۔ پھر وہ کہانی کا منطقی نتیجہ قاری پر ٹھونستا نہیں بلکہ اس کے اندر چھپے ہوئے روشن ضمیر انسان کے ذوقِ تجسس کو ابھارتا ہے اور اسے بدی کے خلاف صف آراء ہونے پر مائل کرتا ہے۔ یہ تمام کردار ایک خاص اخلاقی تحریک کا اہم ترین حصہ تو ضرور ہیں لیکن فرد کو ایک بدیہی انجام سے آگاہ ہوئے بغیر اس تحریک کا معاون بننے کی جبری تلقین نہیں کرتے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کرداروں کے ابھار میں مسعود مفتی کے تخلیقی جوہر کی بہ نسبت ان واقعات و حادثات نے زیادہ حصہ لیا جن سے یہ کردار عملی زندگی میں متصادم ہوتے ہیں اور بالآخر ایک مخصوص انجام کو پہنچتے ہیں۔ اردو کے بیشتر افسانہ نگاروں کے کردار تخیلی مرقعے تو بن جاتے ہیں لیکن ان میں حقیقی زندگی کا تحرک نظر نہیں آتا۔ مسعود مفتی کے کردار حقیقی زندگی سے آشنا ہی نہیں بلکہ یہ اس ماحول کے بڑے عمدہ عکاس ہیں جس میں مسعود مفتی اور اس کے زمانے کے دس کروڑوں لوگ سانس لے رہے ہیں۔ ’’محدب شیشہ‘‘ کا ماسٹر برکت علی جو اپنی آخرت سنوارنے کے لیے ایک بیوہ کے آنسو پونچھنے لگتا ہے اور خود مجسم آنسو بن جاتا ہے۔ ’’گورکن‘‘ کا اللہ بخش جس کے لیے ہر میت زندگی کی نوید لے کر آتی ہے لیکن جس کا اپنا لڑکا مر جاتا ہے تو انسانی زندگی کی قدر و قیمت آشکار ہو جاتی ہے اور جو پدری شفقت سے مغلوب ہو کر قبر کھودنے سے ہی انکار کر دیتا ہے۔ ’’لمحہ‘‘ کا جانی جس کا بڑھاپا ٹھنڈے ہونٹوں کے صرف ایک گرم پیار کے لیے سسک سسک کر بیت رہا ہے۔ ’’لا علم‘‘ کا وکیل جو اپنی چرب زبانی سے ڈنڈے مار کر مولو حلوائی کو ملاوٹ کے جرم سے بری کراتا ہے لیکن جس کا اپنا لڑکا اسی حلوائی کی مٹھائی کھا کر ہیضے کا شکار ہو جاتا ہے سب ایسے کردار ہیں جو ہمارے لیے قطعاً اجنبی نہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کا اہم ترین حصہ ہیں۔ ہم ان سے روز ملاقات کرتے ہیں اور انہیں زندگی کے المیوں کا شکار ہوتے دیکھتے ہیں۔ مسعود مفتی کی خوبی یہ ہے کہ اس نے اپنے افسانے کے کردار، قاری اور فن کار، تینوں میں اجنبیت کی کوئی خلیج حائل نہیں ہونے دی اور بنیادی طور پر اس سچائی کو ابھارا ہے جو کردار سے الگ نہیں کی جا سکتی اور جو کبھی نہیں ہوتی۔ ایک اور بات یہ ہے کہ مسعود مفتی کے کردار زمین کے واسطے سے جذبے اور جبلت کے تقاضوں سے پوری طرح مغلوب ہیں اور نسل، رسوم اور رواجات سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کے ہاں دائمی اقدار اور بلند اخلاقی معیار کی بھی ایک خاص قدر و قیمت ہے اور اس کے تحفظ کے لیے وہ ہر ممکن قربانی سے گریز نہیں کرتے۔ ’’محدب شیشہ‘‘ کا ماسٹر برکت علی جو بیوہ کی مدد کرتے کرتے موت کے گھاٹ اتر جاتا ہے اور ’’نام‘‘ کی گمنام لڑکی جو ’’اخلاق‘‘ کا تحفظ کرتے کرتے کنواری رہ جاتی ہے اور بالآخر پاگل ہو جاتی ہے۔ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ آسمانی اور زمینی عناصر کے اس امتزاج نے در حقیقت اُس کردار کے نقوش روشن کیے ہیں جو ہمارے معاشرے کا صحیح نمائندہ ہے۔
افسانے کی تخلیق میں پلاٹ کو بہت نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ پلاٹ وہ خارجی ڈھانچہ ہے جس میں افسانہ نگار اپنے تاثر کو ڈھالنا چاہتا ہے۔ افسانہ نگار کا تاثر حقیقت کا ادراک بھی ہے اور اس کے فکری اور جذباتی رابطوں کا امین بھی۔ جب تک یہ دونوں ایک دوسرے میں پیوست نہ ہوں، اچھا افسانہ معرضِ وجود میں نہیں آ سکتا۔ پھر فن کا تقاضا بھی یہ ہی ہے کہ جس حقیقت کو افسانہ نگار پیش کرنا چاہتا ہے وہ درآمدی نظر نہ آئے بلکہ کرداروں کے عمل اور ردِ عمل سے ظہور میں آئے۔ موجودہ دور کے افسانے میں کردار کو نمایاں کرنے اور فضا کو گرفت میں لینے کے ساتھ ساتھ تجرید نگاری کے گونا گوں تجربات بھی کیے جا رہے ہیں اور پلاٹ کی طرف توجہ نسبتاً کم ہوتی جا رہی ہے۔ اب ایسے افسانے بھی لکھے جا رہے ہیں جن میں پلاٹ بالکل نہیں ہوتا۔ وحدتِ زمان و مکان نہیں ہوتی۔ متوازن طوالت نہیں ہوتی۔ مقام عروج کی طرف تدریجی ارتقا نہیں ہوتا۔ الگ الگ اکائیوں کا مرکزی تاثر سے الحاق بھی ضروری نہیں رہا۔ اس سے اردو افسانے میں وسعت اور تنوع تو ضرور آ گیا ہے۔ لیکن کہانی کہنے کا بنیادی مقصد مجروح ہوا ہے مسعود مفتی کے افسانوں کا ایک امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ اس نے اس مقصد کو فوت نہیں ہونے دیا۔ افسانے میں پلاٹ یعنی صورت واقعہ کو پوری اہمیت دی ہے اور اسے پوری طرح ابھارنے کے لیے تجزیہ و تحلیل کا طریق اختیار کیا ہے۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ نظر آتا ہے کہ مسعود مفتی اپنے قاری کو جس نقطۂ نظر سے متفق کرنا چاہتا ہے اس کے لیے زینہ بزینہ راہ ہموار ہو تی جاتی ہے اور انجام کار جب قاری کو زندگی کی ایک بیّن حقیقت سے دو چار ہونا پڑتا ہے تو ذہنی طور پر انتشار کا شکار ہوئے بغیر اس پر مثبت زاویے سے سوچنے اور اپنی قوت متخیّلہ کو کام میں لانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کہانی کی بیرونی ہیئت اور فن کار کے داخلی تناؤ میں مسعود مفتی نے بڑی شدت سے آہنگ پیدا کیا ہے اور جذباتیت کو نقطہ نظر کی مقصدیت پر غالب نہیں آنے دیا۔ مسعود مفتی کے افسانے ’’دعا‘‘ ، ’’مثبت منفی‘‘ ، ’’نئے پیمانے‘‘ اور ’’گناہگار‘‘ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ ان افسانوں کو پیش نظر رکھیے۔ نقطۂ نظر کی فوقیت تو نظر آتی ہی ہے لیکن اس نقطہ نظر کے اظہار کے لیے جو خارجی پیکر اختیار کیا گیا ہے اس میں افسانے کی صورت واقعہ کو اس کے ارتقا کو اور اس کی داخلی منطق کو بھی پوری اہمیت حاصل ہے۔ افسانہ قاری کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے اور اسے زندگی کی تہہ در تہہ پیچیدگیوں اور اس کے نشیب و فراز سے آگاہ بھی کرتا ہے اس طرح کہ افسانہ نگار اس پر براہ راست اثر انداز نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر مسعود مفتی کا مشہور افسانہ ’’کردار‘‘ لیجیے۔ اس میں ایک ایسے شخص کی ذہنی تبدیلی کو موضوع خیال بنایا گیا ہے جو فطری طور پر نیک ہے لیکن جو اپنی تمام تر نیکی کے باوجود بدی کی قوتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور بالآخر گناہ کے اس دھارے میں بہہ جاتا ہے جس کی ترغیب اسے ہر قدم پر ملتی ہے۔ اوّل الذکر قدر کا نمائندہ اسلم ہے۔ جس کا تقرر ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر ہوتا ہے۔ یہیں بدی کی قوت کا نمائندہ اللہ دتہ کانٹے والا بھی موجود ہے جو گاڑیاں شنٹ بھی کرواتا ہے اور صاحب لوگوں کی خدمت کے لیے مال گاڑیوں سے پھل اور دوسری چیزیں چرا کر بھی بیچتا ہے۔ اسلم جب اللہ دتہ کی بتائی ہوئی راہ پر چلنے سے انکار کر دیتا ہے تو بدی کی یہ قوت پہلے اس کے خلاف غلط افواہیں پھیلاتی ہے پھر اسے رشوت کے ایک مقدمے میں الجھا دیتی ہے۔ شبہات یہاں تک بڑھتے ہیں کہ اسلم کی بیوی ہی اس سے بد ظن ہو جاتی ہے اور آخر کار وہ قدم جو کبھی بد راہ نہیں ہوا تھا، صراط مستقیم سے ہٹ جاتا ہے اور استقبال کے لیے سب سے پہلے کانٹے والے کی بیوی آتی ہے جو اس سے پہلے اس اسٹیشن پر آنے والے ہر افسر کو دولتِ شب خوابی سے سرفراز کر چکی ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار جن ذہنی الجھنوں میں مبتلا ہے، وہ سب حالات کی پیدا کردہ ہیں۔ زندگی کے حادثے اور واقعے، شخصی مفاد اور ذاتی تعصّبات ایک گھمبیر تاثر کو ترتیب دینے میں مدد دیتے ہیں۔ اس طرح کے افسانہ نگار سرچ لائٹ کے بٹن اپنے انگوٹھے تلے دبائے دور فاصلے پر کھڑا نظر آتا ہے اور کہانی ذہن پر ایک انمٹ اور دیر پا نقش قائم کر تی جاتی ہے۔
طبقاتی لحاظ سے مسعود مفتی نے ہمارے معاشرے کے نچلے اور متوسط طبقے کی زندگی کے متعلق کہانیاں لکھی ہیں اس سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ وہ ان دونوں طبقوں کی زندگی کے کسی خاص پہلو سے متاثر ہے یا اس نے ان کی زندگی کے بعض چھپے ہوئے گوشوں کی پہلی مرتبہ نقاب کشائی کی ہے۔ اس کے افسانے ان طبقوں کی خارجی زندگی یا داخلی احساس کی بھر پور تصویریں بھی نہیں۔ مسعود مفتی چونکہ ایک مفکر ہے اور فرد کو ایک بہتر معاشرے کی تعمیر میں حصہ لینے پر آمادہ کرتا ہے اس لیے اس نے اپنے فکری موضوع کے اظہار کے لیے بھی صرف اس طبقے کو چنا ہے جو معاشرے کی تعمیر نو میں بھی سب سے بڑا معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ طبقہ ابد الآباد سے علم کی روشنی سے محروم ہے۔ تجزیہ و تحلیل کی اہلیت سے عاری ہے۔ رسوم پرستی نے اس کے ذہن کو سنگلاخ جمود سے آشنا کیا ہے۔ اس کی نظر مذہب کی کشادگی کو دیکھنے سے عاری ہے لیکن مذہب کے نام پر جو فسادات برپا کیے جاتے ہیں وہ ان کی ماہیت سمجھنے کی قوت بھی نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کے مقدس نام پر جب بھی قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوتا ہے تو یہی طبقہ سب سے زیادہ کشت و خون کا شکار ہوتا ہے۔ مسعود مفتی کا یہ فکری پہلو یوں تو کئی افسانوں پر بڑی عمدگی سے اجاگر ہوتا ہے لیکن اس کی سب سے ہولناک تصویر کشی ’’یا خدا‘‘ میں ہوئی ہے۔ اس افسانے میں وقت کی اکائی لامحدود ہے۔ قصّہ گو غار کے ایک دہانے پر پڑا ہے اور اس کے سامنے تاریخِ انسانی کے ہزاروں ورق بکھرے پڑے ہیں۔ ہر ورق مسافر کے سامنے ایک نئی خونریزی کی داستان پیش کر رہا ہے۔ یہ خوں ریزی مختلف وقتوں میں مختلف ملکوں میں عمل میں آئی ہے لیکن وہ جذبہ جو اس کا باعث بنتا ہے انسان کا اجتماعی عقیدہ ہے جس سے وہ سرِ مو انحراف نہیں کرتا اور جس کے تحفظ کے لیے وہ اپنی جان کی بازی تک لگا دیتا ہے۔ آرتھر کولئلر نے کہا ہے کہ تاریخ میں جتنی لڑائیاں اجتماعی طور پر سیاسی اور مذہبی عقیدے کے تحفظ کے لیے لڑی گئی ہیں ان کی تعداد تحفظِ ذات کی لڑائیوں سے بدرجہا زیادہ ہے۔ ’’یا خدا‘‘ میں یہی مرکزی خیال مسعود مفتی نے تاریخی حوالوں سے پیش کیا ہے۔ ہر خوں ریزی کے بعد سوچ کا صرف ایک زاویہ ابھرتا ہے اور وہ اس گمشدہ خدا کی تلاش کرتا ہے جس کی عظمت کو زندہ رکھنے کے لیے دنیا کے تمام مذاہب ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں۔ بالآخر افسانے کا راوی جب ماضی کے ورق الٹ چکتا ہے تو وہ بے اختیار چلاتا ہے۔
’’یا خدا تو کون ہے۔ تو کدھر ہے۔ تو کیوں نہیں ایک دفعہ اپنا اصل روپ ظاہر کر دے تاکہ یہ سب جھگڑے رُک جائیں یا خدا۔ یا خدا‘‘ ۔
مسعود مفتی کے تین اہم افسانے ’’محدب شیشہ‘‘ ، ’’کردار‘‘ ، ’’عورت‘‘ کو پیش نظر رکھیے تو احساس ہوتا ہے کہ اس کا اساسی موضوع شاید صرف منفی قوتوں کے مقابلے میں مثبت قدروں کی پسپائی ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ بنیا دی طور پر اس کا نقطہ نظر اقدار کا احیا ہی ہے لیکن اس ایک نقطے کا پورا انعکاس کرنے کے لیے اسے اتنے زاویوں کو دائرہ نور میں لانے کی ضرورت پڑتی ہے کہ زندگی کا کوئی پہلو بھی نظروں سے اوجھل نہیں رہتا۔ پھر اس کے افسانوں کا تاثر بھی زاویے تک محدود نہیں بلکہ یہ اکثر کثیر الاضلاع ہوتا ہے۔ زندگی کی زہر ناکی سامنے آتی ہے تو اس کی لطافت کی لہر نسبتاً مدھم ہے اور بیشتر صورتوں میں عام قاری اسے احساس کی سطح پر بھی قبول کرنے سے تامل کرتا ہے۔ بات در اصل یہ ہے کہ ہر بڑے فنکار کی طرح مسعود مفتی کے فن کے بھی کئی پرت ہیں اور اس کی سب سے نچلی پرت کا گیان حاصل کرنے کے لیے بڑے طویل ریاض کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر اس کی کہانی ’’لمحہ‘‘ لیجیے۔ یہ محبت کی کہانی ہے۔ لیکن اس میں انسانی مزاج کی دھوپ چھاؤں، اس کے لطیف اور کثیف جذبات کی بڑی دلدوز عکاسی کی گئی ہے۔ افسانے کا چڑچڑا بوڑھا جانؔ جس کی جوانی عیسائیت کے شکنجے میں گزری اور جو اپنی محبوبہ سے اس لیے شادی نہ کر سکا کہ وہ مذہب کی قیود کو قبول نہیں کرتا۔ اب عیسائیت سے تائب ہو چکا ہے اور جوانی کی محبت کو سینے سے لگائے محض اس لیے مصوری سیکھ رہا ہے کہ اپنی محبوبہ کی وہ تصویر مکمل کر سکے جو اس نے اپنی آنکھوں میں اس سے جدا ہوتے وقت سمولی تھی۔ جانؔ تصویر بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے لیکن ایلنؔ کے ہاں تصویر پیش کرنے کے لیے آتا ہے تو وہ بصارت سے محروم ہو چکی ہوتی ہے۔ زندگی کا المیہ ایک موڑ پر آ کر ایک بار پھر اسے محرومی سے ہم کنار کر دیتا ہے اور بوڑھا جانؔ بالکونی سے کود کر جان دے دیتا ہے۔ تاثر کی سرومستی دیکھئے کہ مصنف نے اس ایک افسانے میں ہی محبت، عقیدہ اور زندگی تینوں کی ناکامیاں پوری شدت سے نمایاں کر دی ہیں۔ ’’لاعلم‘‘ میں خوراک میں ملاوٹ اور ’’گور گن‘‘ میں انسانی احتیاج کی نچلی سطح کو افسانے کا موضوع بنایا گیا ہے لیکن یہ دونوں کہانیاں پدری شفقت کا اظہار بھی اسی گہرائی سے کرتی ہیں۔ ’’نام‘‘ کالج کے دل پھینک نوجوانوں کی لا ابالی محبت کی کہانی ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ یہ کہانی اخلاق کو محفوظ رکھنے اور سوسائٹی میں اپنا احترام برقرار رکھنے کے جذبے سے متعلق ہے۔ مسعود مفتی کے افسانوں پر سنجیدگی کی ایک دبیز تہہ چڑھی ہوتی ہے۔ ایک ایسے مصنف کے بارے میں جس کے اظہار کی اوّلیں صنف مزاح ہو یہ بات بڑی انوکھی معلوم ہوتی ہے مجھے بھی اس کے افسانوں کی یہ غالب سنجیدگی پہلی دفعہ بڑی عجیب لگی تھی لیکن جوں جوں اس کے افسانوں کی زیریں سطح پر دوڑنے والی فکری رَو سے واقفیت ہوتی گئی، مجھے احساس ہوتا گیا کہ یہ سنجیدگی اسلوب کی نہیں بلکہ موضوع کی ہے۔ میرا ایقان ہے کہ افسانوں میں مسعود مفتی جو نقطہ نظر پیش کرنا چاہتا ہے ثقاہت کا ایک اعلیٰ معیار کو بڑی خوبی سے برقرار رکھا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کہانی میں پیش کی جانے والی زندگی کی عمیق گہرائیاں، مشاہدے کا پھیلاؤ، ماحول کا عمدہ شعور، گہرا تفکر، معاشرے کا پختہ مطالعہ، انسان اور کائنات کا ربط باہم اور تنگ نظری کی شکست قاری کی توجہ سب سے پہلے کھینچتے ہیں اور دوسری سب سے چیزیں ثانوی درجہ اختیار کر جاتی ہیں۔ اس سب کے با وصف اس سنجیدہ افسانوں میں مزاح نگار مسعود مفتی نے اپنی فطری شگفتگی کے نادر نمونے بھی پیش کیے ہیں اور جہاں بھی تشبیہہ اور استعارے کا سہارا لیا ہے وہاں تخلیقی رعنائی کا بڑا اعلیٰ معیار قائم کیا ہے۔ امتثالِ امر کے لیے چند نمونے ملاحظہ ہوں:
’’اس قصبے میں سرکار کی تعلیمی سرگرمیاں چار جماعتوں کے بعد ختم ہو جاتی تھیں اور چیچک زدہ چہرے کی طرح اُپلا تھپا پرائمری سکول اپنی بوسیدہ چھتوں کے نیچے دن بھر پہاڑوں کے الاپ براڈ کاسٹ کیا کرتا‘‘ ۔ ۔۔۔’’محدب شیشہ‘‘
’’نیجے پہاڑی کی ڈھلان پر رنگ برنگے چوکور تکونے کھیت کسی فقیر کی رضائی کا نقشہ بنا رہے تھے‘‘ ۔
’’اب بابے گامو کی پگڑی کا شملہ بارش میں بھگتی ہوئی جھنڈی کی مانند ہو جائے گا‘‘ ۔۔۔۔’’ہیر کا مقبرہ‘‘
’’اری مردار تیری عمر ہے۔ اب رسّی کودنے کی۔ جا رکھ دے اُدھر لکڑیوں والی کوٹھری میں اور خبردار جو اب بھنتے چنے کی طرح اچھلی‘‘ ۔ ۔۔۔’’وقار‘‘
اور اب مزاح کے چند شگوفے:
’’وکیل صاحب نے اس کی رپورٹ ایسی راز داری سے سنی جیسے ایک ہمسائی دوسری ہمسائی سے تیسری ہمسائی کی بات کرتی ہے۔ اور رپورٹ سن کر ایسے مایوس ہوتی ہے جیسے دوسری ہمسائی کو اس بات کا پہلے ہی علم ہو۔ (’’لا علم‘‘ )
’’سرکاری وکیل نے مسل کے ورق بے دلی سے الٹے سیدھے کیے اور مشین کی طرح ایسی یکساں آواز میں بحث کرنے لگا جیسی یکساں تنخواہ اسے ہر ماہ ملتی تھی‘‘ ۔ (’’لا علم‘‘ )
’’ریلوے کی ڈائننگ کار بھی تجرباتی دور میں ہے جہاں تحقیق کی جا رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ دام میں خراب سے خراب کھانا مسافروں کی طبیعت پر کیا اثر ڈالے گا۔ اس لیے ایک کوفتے میں سے کالی مرچ کی بجائے ایک مکھی محوِ خواب برآمد ہوئی تو ان صاحب کے چیخنے کے باوجود بیرے اور منیجر نے پر اسرار خاموشی سادھے رکھی۔‘‘ (ادا کار‘‘ )
مسعود مفتی نے اپنے افسانوں میں بیانیہ تکنیک سے سب سے زیادہ کام لیا ہے۔ اس تکنیک کی اوّلین صورت وہ ہے جس میں روشنی اور آگہی کا منبع تو افسانہ نگار ہی ہوتا ہے لیکن وہ خود زیادہ تر پس منظر میں رہ کر صرف راوی کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ بظاہر یہ آسان ترین تکنیک ہے لیکن جہاں فن کار کی بصیرت کمزور اور تجزیئے کی قوت مدھم ہو یہ تکنیک اس کے لیے بڑی مشکل بھی پیش کر دیتی ہے۔ مسعود مفتی چونکہ معاشرے کا ادراک فرد کے واسطے سے کرتا ہے اس لیے اس کے ہاں خود آگہی اور خود شناسی کا جوہر بڑی وافر مقدار میں موجود ہے پھر اس نے ماحول کو فراز سے نہیں بلکہ خود انبوہ میں شامل ہو کر دیکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ کہانی کہنے کا فریضہ اپنے سر لیتا ہے تو بیانیہ کہیں بھی سپاٹ یا منجمد نہیں ہوتا۔ ایک اور بات یہ ہے کہ نظریاتی افسانہ نگار جب بھی اپنے نظریئے کو جبری طور پر افسانے میں ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے ہاں ایک مخصوص غیر فطری فضا ضرور پیدا ہو جاتی ہے جس پر قابو پانے کے لیے وہ اکثر نعرہ زنی کا شکار ہو جاتا ہے۔ مسعود مفتی کے ہاں زندگی کا بھر پور ادراک اور ماحول کا گہرا مشاہدہ واقعات کے تار و پود میں اس طرح گھُلا ملا ہوا ہے کہ افسانے کا بہاؤ ایک متوازن رفتار سے بہتی ہوئی ندی کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے اور نعرہ زنی کی کیفیت پیدا ہی نہیں ہوتی۔ اس کے دل گرفتہ بیانیہ کے ساتھ ساتھ مشاہدے کے عمق کی صرف ایک مثال ملاحظہ ہو۔ منظر ایک قصبے کی مسجد کا ہے۔ جہاں مولوی صاحب جمعہ کا وعظ فرما رہے ہیں:
’’سامنے نمازیوں کی قطاریں خاموشی میں غرق تھیں۔ کچھ دیوار یا کھمبے کے سہارے اونگھتے ہوئے کچھ پنکھے کی ڈنڈی یا کھڑے گھٹنے پر نیند بھرا سر ٹکائے ہوئے کچھ آنکھوں سے سوئے ہوئے۔ حافظ عمر دراز کی آنکھیں بند تھیں۔ دماغ سویا ہوا تھا ہونٹ باہم چپکے ہوئے تھے لیکن ہاتھ جاگ رہے تھے جو بڑی تیزی سے تسبیح کے دانے پھیر رہے تھے۔ مکمل جاگنے والوں میں بشیر سبزی فروش کے دماغ میں منڈی کے بھاؤ کھُدبُد مچا رہے تھے۔ ڈاک خانے کے بابو کے ذہن میں تنخواہ اور اخراجات باہم کشتی لڑ رہے تھے اور لاریوں کے اڈے والے منشی کے دماغ میں صبح آٹھ بجے کی لاری میں گزرنے والی عورت کا خوبصورت چہرہ گھوم رہا تھا۔‘‘
اس تکنیک میں ’’لا علم‘‘ ’’بھیڑئیے‘‘ ، ’’مثبت منفی‘‘ ، ’’راضی نامہ‘‘ اور ’’کردار‘‘ بڑی عمدہ کہانیاں ہیں۔
بیانیہ تکنیک کی دوسری صورت واحد متکلم کی ہے جس میں کہانی صرف اپنی ذات کے حوالے سے بیان ہوتی ہے۔ افسانہ نگار پر انکشافِ حقیقت کی دوسری تمام راہیں چونکہ بند ہوتی ہیں، اس لیے یہ تکنیک کسی دوسرے شخص کی کہانی بیان کرنے میں زیادہ معاونت نہیں کرتی اور اکثر افسانہ نگار کو بڑی شدت سے پٹخنیاں کھانی پڑتی ہیں۔ ’’دعا‘‘ میں مسعود مفتی نے یہ تجربہ بڑی کامیابی سے کیا ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار گرجے کی ایک راہبہ ہے جو داخلی سطح پر ایک بڑے خلفشار سے دوچار ہے۔ افسانے کا ’’میں‘‘ شہر کا ایک معمولی جنرل مرچنٹ ہے جس کا اس خلفشار سے دُور کا واسطہ بھی نہیں اور شاید اس کی ماہیت سمجھے سے بھی قاصر ہے۔ اس کے باوجود یہ دونوں کردار افسانے میں اس طرح باہم مربوط ہیں کہ الگ نہیں ہو سکتے۔ جنرل مرچنٹ وہ روزن ہے جس سے راہبہ کے کردار کے تمام چھپے ہوئے گوشوں پر روشنی پڑتی ہے۔ راہبہ ایک کم گو کردار ہے لیکن اس کی حرکات و سکنات پوری طرح گویا ہیں اور اس کے باطن میں چھڑی ہوئی جنگ کا پورا تاثر قاری کو منتقل کر دیتی ہیں۔
مسعود مفتی کے ہاں وقت کی اکائی کوئی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے کچھ افسانوں میں آنندی کی دائرہ نما تکنیک کو پوری فنی رعنائی سے استعمال کیا ہے۔ اس تکنیک میں وقت کسی ایک مقام پر نہیں رکتا۔ بلکہ دائرے کی طرح گردش کرتا رہتا ہے اور کہانی جس نقطے پر ختم ہوتی ہے اس نقطے سے دوبارہ شروع ہو جاتی ہے۔ محدب شیشہ میں کہانی مولوی صاحب کے وعظ سے شروع ہوتی ہے اور اسکول ماسٹر برکت علی گردن اٹھائے وعظ کا ایک ایک حرف غور سے سن رہا ہے۔
’’یتیم مسکین اور بیوائیں، عرش کا سہارا ہیں۔ ان کے آنسو پونچھو۔ ان کے سر پر ہاتھ دھرو۔‘‘
افسانے کے اختتام پر ماسٹر برکت علی ایک بیوہ کا سہارا بنتے بنتے قبر کی آغوش میں جا چکا ہے لیکن مولوی صاحب کا وعظ جاری ہے۔
’’دکھیا اور بے سہارا بیوہ کی آہ سات آسمانوں میں سوراخ کر دیتی ہے اگر دین اور دنیا کی عزت چاہتے ہو تو بیواؤں کی مدد کرو!‘‘
’’لاعلم‘‘ میں مولو حلوائی پر ملاوٹ کا مقدمہ چلتا ہے۔ وکیل صاحب صفائی کا بڑا عمدہ کیس پیش کرتے ہیں اور اسے بری کرا دیتے ہیں لیکن جب ان کا اپنا لڑکا مولو حلوائی کی مٹھائی کھا کر ہیضے کا شکار ہو جاتا ہے تو حلوائی کے خلاف سب سے زیادہ احتجاج وہی کرتے ہیں۔
’’ارے لوگو!مولو حلوائی کی مٹھائی کھا کر میرے بچے کو ہیضہ ہو گیا ہے۔ نہ معلوم حکومت ایسے بے ایمانوں کو سزاکیوں نہیں دیتی۔‘‘
وقت کی پرکار پھر اسی مرکز کے گرد اسی نصف قُطر پر گردش کر رہی ہے۔ اب پھر کوئی اور وکیل مولو حلوائی کی صفا ئی دینے کے لیے عدالت میں آ جائے گا اور قانون اسی طرح شکست کھاتا رہے گا۔
’’ہیر کا مقبرہ‘‘ بھی وقت کی اسی لامحدود وسعت کی کہانی ہے۔ اس افسانے میں ہیرؔ جو رانجھے کی محبوبہ تھی، مر جاتی ہے لیکن اس کا سماج نہیں مرتا۔ اسی لیے ہیر کی محبت جس دور میں بھی جنم لیتی ہے سماج اس کے خلاف اسی ردِ عمل کا اظہار کرتا ہے۔
افسانہ لکھنے کی رفتار مسعود مفتی کے ہاں کچھ زیادہ تیز نہیں۔ اس کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ صرف اس وقت لکھتا ہے جب اسے واقعی کچھ کہنا ہوتا ہے۔ مسعود مفتی کا افسانہ معاشرے کے خلاف اس کی اپنی ذات کا ردِ عمل ہے اور یہ ضروری نہیں کہ یہ رد عمل ایک متعین عرصے میں ہی تکمیل پا جائے۔ رد عمل جب تک شخصیت کے پیکر میں گھل مل کر ابال پیدا نہیں کرتا، اس وقت تک کامیابی سے افسانے کا موضوع نہیں بنتا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ مسعود مفتی نے فن کے اس اوّلین تقاضے کو پوری اہمیت دی ہے اور افسانہ لکھنے سے پہلے ابال کے اس لمحے کا شدت سے انتظار کیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس کے ہاں قدرِ اوّل کی تخلیقات کی تعداد زیادہ ہے۔ اس نے نقاد اور قاری دونوں کو مایوس نہیں کیا۔
ماخذ: چہار سو، راولپنڈی مسعود مفتہی نمبر