ان سے واقفیت بہت پرانی ہے اتنی پرانی کہ بیسیوں دفعہ ذہن پر زور دینے کے باوجود یاد نہیں آ سکا کہ تعارف کب اور کہاں ہوا؟ البتہ انہیں پہلی دفعہ دیکھا تو وہ سکول میں جلسے کی صدارت کر رہے تھے۔ یہ کل کی بات ہے اور ذہن میں اس کی تفصیلات نقش ہیں۔ ’ آتش اُن دنوں جوان بھی تھا اور ڈپٹی کمشنر بھی‘ ضلع ملتان میں ان کی تعیناتی کا پہلا سال تھا اور سکول میں طالب علمی کا میرا آخری سال۔ ۱۹۵۸ ء میں صوبہ مغربی پاکستان کی حدود موجودہ پاکستان کی حدود پر مشتمل تھیں اور ضلع ملتان موجودہ چار اضلاع ملتان، خانے وال، وہاڑی اور لودھراں کے اضلاع کی حدود پر مشتمل تھا۔ ضلع کا انتظامی سربراہ ڈپٹی کمشنر تھا اور اس پر فائز شخص صاحبِ آن بان ہوتا۔ اختیارات کی حدود اس وقت کی ضلعی حدود کے مانند وسیع تر تھیں اور ان اختیارات کا شہرہ لامحدود تھا۔ صاحبِ ضلع ہونے کی رعایت سے تقریبات میں وہ صدر کی حیثیت سے شرکت کرتے لیکن سچ پوچھیئے تو ان تقریبات کے روح رواں تھے۔ ان کی زیر صدارت آغا شیر احمد خاموشؔ نے پاک و ہند کا وہ عظیم الشان مشاعرہ کرایا جس کی یاد آج بھی اہل ملتان کے دلوں کو گرماتی ہے۔ منشی عبدالرحمن خان نے پاکستان میں پہلی بار مقابلۂ حسنِ قرأت کی تقریب کا اہتمام کیا۔ انہی کی روایت ہے کہ یہ فکرِ سعید در اصل ’ خیال مسعود‘ تھا!
سکول میں ان کی تقریر سنی تو اردو زبان کی خوش قسمتی پہ پیار آیا کہ ان جیسا مقرر اسے نصیب ہوا ہے۔ پیر و مرشد (حضرت علامہ اقبالؒ) کے اشعار پڑھیں تو ترشے ہوئے جواہرات کا احساس ہوتا ہے۔ صاحب آواز دوست اپنی تقریر میں موتی پروتے اور پیر و مرشد کے اشعار کے حوالوں کے جواہرات ٹانکتے چلے جاتے ہیں۔ پہلی نظر میں وہ سٹیج پر بیٹھے نظر آئے دوسری نظر ڈالی تو وہ دل میں بیٹھے تھے۔ پھر ان سے ملاقاتیں رہیں اور ہر ملاقات میں وہ دل کی مزید گہرائی میں اترتے چلے گئے۔ انہوں نے آوازِ دوست میں لکھا ہے کہ ’کعبۂ دل میں ایک روز جھانکا تو دیکھا کہ ایک صنم نے وہاں گھر کر لیا ہے … میں نے آگے بڑھ کر نظر ڈالی تو یہ بت ایک دیوی کا نکلا‘ اسے قسمت کی خوبی کہیں یا ذوق کی خرابی کہ کچھ لوگوں کو اپنے دل میں کسی صنم کا نہیں جن کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے، جسے وہ اپنی تسلی کی خاطر فطین کا نام دے ڈالتے ہیں۔
٭٭
مارچ ۱۹۶۲ء میں، میں ملت ہائی سکول ملتان کے کے۔ جی سیکشن میں کام کر رہا تھا۔ رمضان پراجیکٹ کے سلسلے میں بچوں کا جلسہ تھا۔ بی اے قریشی ملتان کے کمشنر تھے، ان کی اہلیہ اس جلسے کی صدارت کے لیے تشریف لا رہی تھیں۔ مجھے سکول کے بچوں جاوید مرزا، روبینہ مسرت وغیرہ کے ہمراہ کمشنر ہاؤس ملتان بھیجا گیا کہ افسرِمہمانداری کے خوشگوار فرائض سرانجام دیتے ہوئے مہمان معزز کو اپنے ہمراہ لاؤں۔ کمشنر ہاؤس پہنچے تو بچوں کو بیگم قریشی کے پاس اندر بھیج دیا، خود لان میں روش پر ٹہل رہا تھا۔ اسی وقت قریشی صاحب باہر سے تشریف لائے۔ ان کے ساتھ مہمان تھے۔ قریشی صاحب تو اندر چلے گئے، مہمان برابر میں آ کھڑے ہوئے۔ میں نے انہیں دیکھا تو حیرت نے مجھے آ لیا… یہ مختار مسعود تھے !
اِن سے گپ رہی۔ تھوڑی دیر بعد میں نے آٹو گراف کی فرمایش کی۔ انہوں نے نصیحت کی’ ’آٹو گراف تو بڑے آدمیوں سے لیے جاتے ہیں …!‘‘ میں نے عرض کیا’ ’کوئی آدمی بڑا ہے یا چھوٹا، اس کا فیصلہ کرنا اس کا کام نہیں ہے۔ میری نظر میں آپ بڑے آدمی ہیں۔ ‘‘ یہ سطریں لکھتے ہوئے احساس تفاخر کا شکار ہوں کہ ہم نے زندگی میں ڈھنگ کی ایک پیش گوئی کی۔ انہوں نے خوبصورت اور پیاری سی مسکراہٹ سے مجھے دیکھا اور آٹو گراف البم میرے ہاتھ سے لے لی!آوازِدوست میں بہت سی شخصیات کا ذکر ملتا ہے۔ جن سے آٹو گراف لیے گئے اور صرف ایک آٹو گراف البم کا ذکر ہے جس پر انہیں دستخط کرنا پڑے۔ اس آٹو گراف البم پر انہوں نے نصیحت لکھی ’’فتوحات انہی کے حصے میں آتی ہیں جو شکست نا آشنا ہوں۔ ‘‘ میں نے یہ پڑھا تو مجھے اپنی آٹو گراف البم میں انہی کے ہاتھ سے لکھا ہوا فقرہ یاد آیا They conquer who think they can. اس مماثلت پر خوشگوار حیرت تو ضرور ہوئی لیکن یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ ’ اقوام ہوں یا اشخاص، وہ واقعات سے اپنی مرضی کے مطابق سبق لیتے ہیں۔ ‘ مجھے اپنے رجحانات کے مطابق اس فقرے کے مطالب تلاش کرنے چاہئیں۔ انہوں نے تو صرف واقعات کا ذکر کیا ہے، ہماری تنوع پسندی کے باعث ایک ہی نکتۂ ایماں کی مختلف تفسیروں سے لائبریریاں پٹی پڑی ہیں۔
قریشی صاحب نے انہیں اندر بلا لیا۔ میں باہر روش پر ٹہل رہا تھا۔ ہاتھ میں ڈائری تھی۔ عید قریب تھی یوں ڈائری میں چند عید کارڈ بھی تھے۔ خیال آیا کہ انہیں عید کارڈ ہی پیش کر دوں۔ چنانچہ عید کارڈ پر چند الفاظ گھسیٹے، لفافے پر ان کا نام لکھا اور کار کی نشست پر رکھ دیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ باہر تشریف لائے، مجھ سے ہاتھ ملایا۔ کار کا دروازہ کھولا، بیٹھنے لگے تو لفافے پر نظر پڑی۔ اٹھایا، پڑھا میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور پوچھا ’’بھئی! اتنی سی دیر میں یہ کیا ہو گیا ؟‘‘ عرض کیا’ ’اتنی سی دیر میں یہی کچھ ہو سکا۔ ‘‘ انہوں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا، لیکن گردن ہلانے کے انداز سے پتا چلتا تھا کہ جواب پسند آیا ہے۔ وہ کار میں بیٹھے اور چل دیے۔ کار گیٹ پر پہنچی تو سڑک کا رُخ کرنے کے بجائے دائرے میں گھومتی ہوئی میرے برابر آ رکی۔ وہ باہر نکلے ’’بھئی خورشید ! کچھ آٹوگراف میں نے بھی لے رکھے ہیں، اگر کبھی فرصت ملے تو بہاولپور آئیے، آپ کو دِکھاؤں گا۔ ‘‘ میری حالت عجیب سی تھی۔ سرِراہ ملاقات کے حسنِ اتفاق سے نہ سنبھلا تھا کہ مہمانی کی دعوت ملی۔ میرے الفاظ خیالات کا اور خیالات احساسات کا ساتھ دینے سے قاصر تھے۔ یہی کہہ سکا ’’ضرور حاضر ہوں گا۔ ‘‘
٭٭٭
اتوار ۱۵؍اپریل ۱۹۶۲ء کو بہاولپور کے ڈپٹی کمشنر ہاؤس میں مہمان کا حقِ آسایش استعمال کرتے ہوئے وہ ننھی سی نیلی البم دیکھی جو ۱۹۳۸ء میں ورما فوٹو گرافر کے ہاں سے خریدی گئی تھی۔ ان دنوں بھی میرا خیال یہ تھا کہ جو شخص پیر و مرشد علامہ اقبالؒ کا معتقد نہیں، وہ کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن سچا پاکستانی اور اردو نواز نہیں۔ ان کے بارے میں میری رائے تھی کہ وہ علامہ اقبال سے متاثر ہیں اور ان کے معتقد۔ لیکن کس حد تک ؟ یہ جاننے کے لیے ڈرتے ڈرتے سوال کیا ’’علامہ اقبالؒ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟‘‘ ’’وہی جو مولانا گرامی کی تھی’’ پیغمبری کرد ونتواں گفت‘‘ (اس نے پیغمبری کی لیکن دعویٰ نہ کیا) دل جھوم اٹھا اور اس نے انہیں اٹھا کر آئیڈیل کے مقام پر بٹھا دیا۔ اس ملاقات میں آٹو گراف البم سے متعلق بہت سے واقعات ان کی زبانی سنے۔ سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ سے مجھے بھی عقیدت ہے کہ والدِ محترم ان سے بیعت تھے۔ اپنے ہاں شاہ صاحب کی آمد کا حال سناتے ہوئے انہوں نے پیغامبر سے اپنے پیام کا ذکر ’’ڈپٹی کمشنر ملتان نے سلام نہیں بھیجا تھا۔ مختار مسعود نے حاضری کی اجازت چاہی تھی‘‘ کے الفاظ سے کیا تھا ! میں نے یہ سنا تو جانا کہ انہوں نے اپنی ذات کو دو حصوں میں بانٹ رکھا ہے۔ یوں جب وہ ملتان میں تعینات تھے تو ڈپٹی کمشنر ملتان کسی کی سیاست سے کوئی واسطہ نہ رکھتا اور سلام بھیجنے کا روادار نہ تھا۔ لیکن مختار مسعود دورِ حاضر کے عظیم خطیب سے ملنے کے خواہشمند تھے اور حاضری کی اجازت کے طلبگار۔ اپنے اس خیال کی روشنی میں مَیں نے ان کی سرکاری حیثیت کو بھلا دیا۔ البتہ اپنی نیاز مندی نہ چھپا سکا۔
۱۰؍ سال بعد آواز دوست پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس میں یہ پیغام ’میں نے پہلے ہی شاہ جی سے حاضری کی اجازت چاہی تھی سلام نہیں بھیجا تھا‘ کے الفاظ میں ملا۔ میں نے حافظے میں موجود فقرے کا اس فقرے سے تقابل کیا۔ الجھن سی تھی۔ دو صفحے پلٹے تو ’’حافظہ بھی خواہشات کے تابع ہوتا ہے اور بسا اوقات خواب و خیال کو واقعات و واردات میں تبدیل کر دیتا ہے ‘‘ کے الفاظ ملے۔ اُلجھن دور ہو گئی۔ ان کا کہنا ہے ’’ ایسے میں اس کا کہا مانیں تو نفس اور تاریخ دونوں کا زیاں ہوتا ہے۔ ‘‘ رہا اس سے اختلاف تو یہ تاب یہ مجال یہ طاقت نہیں مجھے۔ جناب نفس اور تاریخ کا زیاں ہوتا ہو گا۔ لیکن تجربہ بتلاتا ہے کہ تعلقات میں استواری آ جاتی ہے۔
٭٭
میرے علم میں نہیں کہ انہوں نے اس آٹو گراف البم سے متعلق کہانیاں کسی اور کو بھی سنائی ہوں۔ لیکن وجدان کہتا ہے کہ ایسے اشخاص کی تعداد ( اگر ہوں بھی تو ) بہت کم رہی ہو گی۔ یوں میں ان چند اشخاص میں شامل ہوں جنھیں اس نیلی کتاب سے متعلق کہانیاں ان کی زبانی سننے کا اتفاق ہوا۔ انہوں نے حفیظ جالندھری سے شاہنامۂ اسلام ان کی جوانی میں سنا جب وہ اسے سناتے ہوئے نہ تھکتے تھے۔ بہاولپور کی اس ملاقات میں وہ سنانے پر مائل نظر آتے تھے اور میں تو ملتان سے ہمہ تن گوش ہو کر چلا تھا۔ اس دن میں نے وہ تصویر بھی دیکھی جس کا ذکر آوازِ دوست میں ملتا ہے ’’میں گیارہ بارہ برس کا تھا تو شہر میں پاسپورٹ سائز کی تصویر کھینچنے کی ایک خودکار مشین نصب ہوئی۔ میں نے شوق سے تصویر اُتروائی اور دوسرے دن اسکول لے گیا۔ سبق ہو رہا تھا مگر جو لڑکا میرے ساتھ بیٹھا تھا، اس نے تصویر لے کر پہلے دیکھی اور پھر چپکے سے آگے بڑھا دی۔ وہ تصویر ہاتھوں ہاتھ کلاس میں بہت دُور نکل گئی۔ بالآخر مولانا عقیل الرحمٰن نے دیکھ لیا۔ پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ جس کے ہاتھ میں تصویر تھی، اُس نے ڈر کر اِسے اُستاد کی میز پر رکھ دیا۔ سب اس انتظار میں تھے کہ اب ڈانٹ پڑے اور سزاملے گی مگر ایسا نہ ہوا۔ مولانا نے تصویر غور سے دیکھی پھر اس پر سعدی شیرازی کا ایک دُعائیہ شعر اپنے خوبصورت خط میں لکھ کر مجھے تصویر واپس کر دی۔ یہ تحریر اور تصویر اب بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ ‘‘
ان کے استاد محترم نے سعدی کا یہ شعر لکھا تھا ؎
بالائے سرش زہوشمندی
مے تافت ستارۂ بلندی
ایک عرصے بعد پیر و مرشد کے بارے میں پڑھا کہ ۶ ؍ نومبر ۱۹۳۱ء کو اقبال لٹریری ایسو سی ایشن کا سر عبدالقادر مرحوم کی زیرِ صدارت لندن میں اجتماع ہوا۔ ابتدائی تقریر ڈاکٹر نکلسن نے کی اور فرمایا ’’۲۵ ؍ برس پیشتر کسی طالب علم کے متعلق پیشگوئی کرنا مشکل تھا کہ وہ آگے چل کر عظمت کی بلندیوں پر پہنچے گا‘‘ لیکن ۱۹۰۵ء میں اقبال کو دیکھ کر سعدی کا یہ شعر ذہن میں تازہ ہو جاتا تھا ؎
بالائے سرش زہوشمندی
مے تافت ستارۂ بلندی
اسے حسنِ اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ دونوں اساتذہ کو بعد مکانی اور بعد زمانی کے باوجود اپنے اپنے شاگرد کے لیے ایک ہی شعر ملا۔ اسے آپ فیضانِ نظر کہیں یا مکتب کی کرامت لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایک شاگرد کی شخصیت میں قوم کا اقبال نظر آتا ہے۔ تو دوسرا قوم کے لیے مسعود ہے۔ بعض دعائیں پیش گوئی کا درجہ بھی تو حاصل کر لیتی ہیں۔
بہاولپور سے لوٹا تو مشکل آ پڑی کہ اب کس کے آٹو گراف حاصل کیے جائیں۔ ہر شخص اتنا خوش نصیب نہیں ہوتا کہ تربیت اور راہ نمائی کے لیے اللہ تعالیٰ اسے والد کی شکل میں استاد بھی عطا فرمائے جو شیخ ہی نہیں شَیخ بھی ہو! (ان کے والد محترم کا اسم گرامی شیخ عطا اللہ تھا، وہی اقبال نامے والے۔ ) میں نے انہیں لکھا ’’ میں آپ کے حالات جاننا چاہتا ہوں اور ان عوامل کو بھی جنھوں نے آپ کو یہاں تک پہنچایا۔ ‘‘ جواب میں انہوں نے لکھا ’عزیزم ! آپ واقعات کے تسلسل کو جاننا چاہتے ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ ابھی ان کے ساتھ انصاف کر سکوں گا۔ اس کے لیے مزید دس پندرہ برس درکار ہیں۔ ‘ میں یہ خط بار بار پڑھے جا رہا تھا۔ تین فقرات پر مشتمل یہ ذاتی خط جس میں انصاف نہ کر سکنے کا ذکر تھا۔ بہاولپور کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے لکھا تھا۔ اس کے ۱۰؍ سال بعد دو مضامین پر مشتمل آواز دوست میرے ہاتھوں میں تھی اور مصنف نے جو حکومتِ پاکستان کے معتمد کے فرائض سر انجام دے رہے تھے، بڑے اعتماد سے ان واقعات کا تجزیہ کر ڈالا تھا۔
٭٭
میں نے ان سے سوال کیا تھا ’’اگر آپ سول سروس میں نہ آتے تو آپ کا کیا پروگرام تھا ؟‘‘ جواب مختصر سا تھا ’’درس و تدریس اور میں اس کے لیے تیار تھا۔ ‘‘ اس دلچسپی کو میں نے قیامِ ملتان کے دوران تعلیمی اداروں کی تقریبات میں شرکت کے موقع پر ان کے چہرے پر نمایاں دیکھا۔ اسلامیہ کالج ملتان میں جلسہ تقسیمِ انعامات کی تقریب تھی۔ حاکم ضلع ہونے کی رعایت سے وہ تقریب کے صدر تھے۔ پرنسپل صاحب نے بتلایا کہ کالج کی نئی عمارت کی تعمیر کے لیے رقوم تو موجود ہیں لیکن سنگ بنیاد کا پروگرام لٹکتا جا رہا ہے۔ اُنہوں نے مزید بتلایا کہ صدر ایوب خان سے درخواست کی گئی اور انہیں کراچی سے بذریعہ ٹرین اسلام آباد جاتے ہوئے ملتان رُکنا تھا۔ لیکن سوئے اتفاق کہ اسی روز ڈاکٹر خان صاحب قتل ہو گئے اور وہ سیدھے نکل گئے۔ ‘‘ صاحب آواز دوست نے صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے انہیں مشورہ دیا ’’ درسگاہ کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے سربراہ مملکت کی موجودگی ضروری نہیں، آپ اس نیک کام کو جتنی جلدی کر لیتے اچھا ہوتا۔ اور اگر شخصیت کا چناؤ مشکل تھا تو کسی ایسے طالب علم کو جس نے رمضان کے پورے روزے رکھے ہوں، تکلیف دے سکتے تھے اور اگر ایسے طالب علم زیادہ تھے تو قرعہ اندازی کی جا سکتی تھی۔ ‘‘ اس مشورے کے چند سال بعد مجھے ملتان میں ایک تقریب میں شمولیت کا موقع ملا۔ ایک مختصر اور پُر وقار تقریب میں سکول کی عمارت کے ایک نئے حصے کا سنگِ بنیاد رکھنے کی درخواست کرتے ہوئے چودھری عبدالرحمن صاحب نے ایک طالب علم کا تعارف کرایا کہ یہ بچہ حافظِ قرآن اور کئی سالوں سے اپنا تعلیمی اعزاز برقرار رکھے ہوئے ہے۔ پابند صوم و صلوٰۃ اور سب سے بڑھ کر اس مرتبہ رمضان المبارک میں تراویح کی امامت کی ہے۔ پورا قرآنِ کریم سنایا ہے۔ یہ درسگاہ بچوں کی اور بچوں کے لیے ہے۔ میرے خیال میں یہ بچہ کسی بھی صاحبِ اختیار کی نسبت اس نیک کام کا زیادہ حق دار ہے۔
ملتان جاؤں تو مسلم ہائی سکول ضرور جاتا ہوں اور عمارت کے اس حصے کو دیکھتے ہی جس کی پیشانی آبروئے مازنامِ مصطفیٰ کی تعلیم سے دمک رہی ہے، مجھے وہ مختصر اورسادہ تقریب یاد آتی اور اس کے ساتھ ہی ذہن میں ایک سوال سر اُبھارتا ہے ؟ سنگِ بنیاد رکھنے کے لیے اس بچے کے انتخاب کی بنیاد اسلامیہ کالج ملتان میں دیے گئے مشورے کی بازگشت تھی یا ایک ہی انداز میں سوچنے والے دو نابغوں کی فکری مماثلت و مطابقت کا حسنِ اتفاق ؟ یہ سوال پہلی مرتبہ اس تقریب کے دوران ذہن میں آیا۔ بعد میں جب کبھی چودھری صاحب سے ملاقات ہوتی (اور یہ ملاقات ہوتی رہتی تھی کہ ان سے نیاز مندی بے تکلفی کی حد کو چھو گئی تھی ) تو یہ سوال ذہن میں کلبلاتا۔ کچھ خواہشات کا نا آسودہ رہنا مزہ دیتا ہے میں نے اس سوال کا جواب حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔
٭٭
آواز دوست کے شائع ہونے کے چند سال بعد میں نے انہیں خط لکھا، کئی مرتبہ آپ کو خط لکھنے اور ملنے پر مائل ہوا لیکن ’’میں نے انہیں ( آرنلڈ ٹائن۔ بی کو ) اس دن کے بعد ایک روز واشنگٹن میں دیکھا۔ وہ عالمی خوراک کانگریس میں قحط اور انسان کی تاریخ کے موضوع پر تقریر کر رہے تھے۔ میرے اور ان کے درمیان ایک ہزار کا اجتماع حائل تھا۔ میں نے اُن تک پہنچنے کی کوشش ہی نہ کی۔ جب بھی جی چاہتا ہے کہ ان سے ملاقات کروں تو میں مطالعہ تاریخ اُٹھا لیتا ہوں یا اپنی آٹو گراف البم۔ ‘‘
ایسی خوبصورت تلقین کے ہوتے ہوئے کہ میرے پاس آپ کے آٹو گراف بھی موجود ہوں اور آواز دوست بھی، آپ کو خط لکھنا ذرا حوصلے کا کام تھا۔ آپ آٹو گراف البم لیے ایک شخص کا تعاقب اور ہر ۵ ؍ سال بعد ملنے کی کوشش کرتے رہے اور جب وہ شخص ملا تو جوئیندہ پائندہ والی بات غلط نکلی۔ اس لحاظ سے (اور صرف اسی لحاظ سے ) میں آپ سے خوش قسمت ٹھہرا۔ میں آٹو گراف لے چکنے کے بعد تین چار سال کے وقفے سے ایک شخص سے ملتا رہا ( عرصے کی کمی بیشی میری طبیعت کی بے قاعدگی کی غماز ہے ) اور میں نے اپنے ممدوح کو تابندہ تر پایا۔ آپ کی ملاقات رہی تو انہوں نے درخواست بڑھا دی۔ میری غیر حاضری کو دیر ہوئی تو آواز دوست میرے ہاتھوں میں پہنچ گئی۔ آواز دوست پر تبصرہ نہیں کروں گا کہ یہ کام پڑھے لکھوں کا ہے اور میں اپنے آپ کو ابھی اتنا پڑھا لکھا نہیں پاتا۔ البتہ جب میں نے کتاب ختم کی تو مجھے ایک عبارت یاد آئی’ ’حشر کے دن بہت سے لوگ اعمال نامے ہی نہیں کتابیں بھی لیے کھڑے ہوں گے۔ سرسیّد کے ہاتھوں میں مسدس حالی کا نسخہ ہو گا۔ سلطان جہاں بیگم نے سیرۃ النبویﷺ کی جلدیں اُٹھائی ہوں گی، حمید اللہ کے ہاتھ میں ضرب کلیم ہو گی۔ مغفرت کے بھی خدا نے کیا کیا سامان پیدا کیے ہیں۔ ‘‘ اس فہرست میں چند ناموں کا اضافہ آپ کی وجہ سے ہوا بلکہ میرا خیال کچھ یوں ہے کہ آپ کے والد محترم اور والدہ محترمہ آوازِ دوست کا نسخہ اٹھائے ہوں گے۔ حافظ سدیدی اعزاز تزئین لیے ہوں گے۔ خورشید عالم صاحب اعزازِ کتابت تو کوئی اعزازِ اشاعت … واقعی مغفرت کے بھی خدا نے کیا کیا سامان پیدا کیے ہیں۔ سیدقاسم محمود نے ۱۹۷۵ء میں جب شاہکار کتب پیش کیں تو جی بہت خوش ہوا کہ اُردو ادب میں مثبت اور فعال تحریک تھی۔ جی چاہا ان سے ملوں اور جب شاہکار نے آواز دوست شائع کی تو مجھے ان کی دوستی ناگزیر محسوس ہوئی۔ میں نے ملاقات پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ’’مختار مسعود نے آواز دوست لکھ کر اُردو ادب پر احسان کیا تھا تو آپ نے شاہکار ایڈیشن شائع کر کے اُردو قارئین کو زیر بار کر دیا۔ ‘‘
آپ نے لکھا ہے ’’اہلِ جمال کی پہچان یہ ہے کہ یہ لوگ مسجدِ قرطبہ تعمیر بھی کرتے ہیں اور تحریر بھی، یہ الحکم کی طرح بادشاہ بھی ہو سکتےہیں اور اقبال کی طرح درویش بھی۔ ‘‘میں اس پر صرف اتنا اضافہ کروں گا ’ اہلِ جمال اگر مختار ہوں تو الحکم نام پاتے اور مسجدِ قرطبہ تعمیر کرتے ہیں۔ مسعود ہوں تو اقبال نام پاتے اور مسجدِ قرطبہ تحریر کرتے ہیں اور قوم کی خوش قسمتی سے اگر کوئی مختار مسعود بھی ہو تو وہ منارِ پاکستان تعمیر بھی کرتا ہے اور تحریر بھی! آواز دوست آپ نے لکھی تو میری رائے یہی ہے کہ آپ نے اُردو ادب پر احسان کیا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ اس سلسلے میں آپ کو مبارک باد دوں لیکن مبارکباد کا لفظ اتنا گھسا پٹا ہے کہ استعمال کرنے کو جی نہیں چاہتا البتہ آوازِ دوست کی مدد سے اتنا ضرور کہوں گا کہ ’’اردو زبان کو ہمیشہ اِس پر فخر رہے گا کہ وہ آپ کی زبان سے بولی اور آپ کے قلم سے لکھی گئی۔ اُردو نے جب بھی اپنے سرمایہ افتخار پہ ناز کیا، اِسے بہت سے لوگ یاد آئیں گے۔ ‘‘
اس پر اِتنا سا اضافہ ضرور کروں گا کہ ان لوگوں میں ایک نام اگر سرِ فہرست نہیں تو ممتاز ترین ناموں میں سے ایک ضرور ہو گا …مختار مسعود … بات کہاں سے چلی اور کہاں جا نکلی۔ اب بس کرتا ہوں۔ والسلام
٭٭
پیر و مرشد نے آخری دنوں میں تمام کتابیں الماریوں میں رکھوا دی تھیں۔ قرآنِ کریم کی جلد ان کے سرہانے موجود رہتی اور اکثر و بیشتر اسی کا مطالعہ فرماتے رہتے۔ پہلی مرتبہ یہ بات پڑھی تو حیرت ہوئی کہ مطالعے کے لیے عام طور پر ہلکے پھلکے ادب سے تعلق رکھنے والی کوئی دلچسپ کتاب اٹھائی جاتی ہے۔ قرآن کریم کی عظمت اپنی جگہ مسلم لیکن مطالعے کو جی چاہے تو اسے نکال کر پڑھنا آسانی سے سمجھ میں آنے والی بات نہ تھی۔ اسے ’ضعیف روایت ‘ کے کھاتے میں ڈالنا چاہا لیکن اقبالیات میں اس کا ذکر تواتر سے ملتا ہے۔ یوں جب بھی یہ بات پڑھنے کا موقع ملتا، مزید حیرت ہوتی۔ آواز دوست آئی تو اس کا مطالعہ ہوتا رہتا۔ یہ مطالعہ دنوں اور ہفتوں سے پھیل کر سالوں اور عشروں پر چلا گیا۔ عروبہ(ہماری بیگم نورین طلعت عروبہ) کئی مرتبہ کہہ چکی ہیں کہ کوئی اور کتاب بھی پڑھ لیجئے کہ یہ تو آپ کو حفظ ہو چکی۔ ‘‘ میں جواب میں صرف مسکراتا اور سوچتا ہوں کہ اچھی کتاب کا حسن یاد ہو جانے سے کم تو نہیں ہوتا۔ اقبالیات میں بہت سے اشعار ایسے ہیں جنھیں ہم بیسیوں مرتبہ دہر اچکے لیکن ان کی تازگی قائم و دائم ہے۔ در اصل جب انتخاب ایک کتاب تک محدود ہو کر رہ جائے تو کتاب کے نفسِ مضمون اور قاری کی سوچ کے درمیان بدرجہ اتم ہم آہنگی موجود ہوتی ہے یا مصنف کی ذات سے قاری کی دلچسپی عقیدت تک پہنچ جاتی ہے۔
پیر و مرشد کا کہنا ہے کہ جن کی طبیعت قابل نہ ہو وہ تربیت سے نہیں سنورتے۔ عکس سروِکنارِجو کی مثال دیتے ہیں۔ جو پانی میں رہ کر سر سبز نہیں ہوتا۔ آوازِ دوست کا کہنا ہے ’’اگر خداداد صلاحیت موجود ہو اور اس کی تربیت اَرسطو اور لیونی ڈس جیسے اساتذہ کے ہاتھوں ہو جائے تو دُنیاوی معاملات کے بارے میں سوچنے کا انداز بالکل بدل جاتا ہے۔ ‘‘ سفر نصیب میں لکھا ہے دریا اور زندگی دونوں پر بند باندھنا چاہیئے کہ ضائع ہونے سے بچ جائیں۔ ‘‘گویا مزاج اور کردار کی بناوٹ میں مبادیات خدا کی دین ہیں۔ تربیت اور ماحول کا اثر اس کی کانٹ چھانٹ کرتا ہے اور انسان کی اپنی کوشش اسے حتمی شکل دیتی ہے۔ یوں جب انتخاب کا موقع آتا ہے تو کوئی اپنا رزق خاکِ راہ میں ڈھونڈتا ہے تو دوسرا نہ سپہر کو نگاہ میں نہیں لاتا۔ کسی کو آواز دوست اُردو ادب میں ملتی ہے تو کوئی اسے صرف قرآن کریم میں پاتا ہے۔ سچ ہے ’’رزق ہی نہیں کتابیں بھی ایسی ہوتی ہیں جن کے پڑھنے سے پرواز میں کوتاہی آ جاتی ہے۔ ‘‘ کوئی سوال کرتا ہے ’ از کجا می آید ایں آواز دوست ‘ (مولانا رومیؒ ) دوسرا اس کا حوالہ دیتا ہے اور جواب بھی(علامہ اقبالؒ )۔ تیسرا آوازِ دوست کے نام سے اس کی تشریح کر ڈالتا ہے۔ مختصراً انسان کے اندر کوئی چیز دوست کی آواز کی منتظر رہتی ہے۔ جہاں اِسے یہ آواز سنائی دیتی ہے، وہ لپکتا اور اِس میں کھو جاتا ہے۔
٭٭٭
جدہ رہتے ہوئے ایک مرتبہ حج کی چھٹیاں مصر میں منانے کا پروگرام بنا۔ سوچا اس کے بارے میں کچھ پڑھ لیا جائے۔ عبد بھائی(بڑے بھائی پروفیسرچوہدری عبدالرحمن عبد مرحوم) کی مصر اور مصریات سے دلچسپی بہت پرانی ہے اور اس موضوع پر ان کے پاس بہت سی کتابیں بھی ہیں۔ مجھے ریڈرز ڈائجسٹ والوں کی شائع شدہ ایک کتاب یاد آئی۔ اُنہیں لکھا کہ یہ کتاب، ملتان کتاب گھر، گھنٹہ گھر ملتان بھجوا دیں، وہاں سے شیخ جاوید انور مجھے پہنچا دیں گے۔ ‘ ایک حاجی کے سامان میں وہ کتاب رکھ دی گئی۔ وہ کتاب بڑی مشکل سے جدہ ہوائی اڈے سے باہر نکل سکی کہ کتاب میں قدیم مصری تہذیب کے حوالے سے پتھر کی مورتوں کے جہازی سائز فوٹو وغیرہ وغیرہ لٹک رہے تھے اور وہاں متعین شرطے (پولیس آفیسر ) کتاب کو نہیں اس حاجی کو واپس بھیجنا چاہتے تھے جو ایسی خطر ناک بلکہ خوفناک کتاب اٹھائے حج کرنے چلا آیا تھا۔ کتاب ملی، دیکھی تو اُردو ادب کی ۲؍ شخصیات یاد آئیں اور کتابوں کی ۳؍ اقسام۔
غالب کو ایک خط موصول ہوا۔ مکتوب نگار کا خط اتنا ’پاکیزہ ‘ تھا کہ غالب ایک لفظ نہ پڑھ پائے۔ انہوں نے جواب میں لکھا ’پیر و مرشد ! خط ملا، چوما چاٹا آنکھوں سے لگایا۔ آنکھیں پھوٹیں جو ایک لفظ بھی پڑھا ہو۔ تعویذ بنا کر تکیے میں رکھ لیا ہے، نجات کا طالب غالب !‘ دوسرے صاحبِ آوازِ دوست تھے یہ کہانی ان کے قلم کی زبانی سنئیے ’مجھے رہ رہ کر ایک انگریز افسر کا طنزیہ جملہ یاد آتا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ ’’ ٹائن بی کے مطالعہ تاریخ کے خلاصے کی پہلی جلد تم نے ناحق خریدی۔ ایسی کتاب کے مطالعے کے لیے جو فرصت، رغبت اور اہلیت چاہیئے وہ سرکاری ملازم کے حصے میں نہیں آتی۔ ‘‘ میں نے اس جملے کا طنز ایک عرصے تک برداشت کیا مگر اس رائے سے اتفاق نہ کیا۔ ایک بار فرصت ملی تو میں نے بڑی رغبت سے اس مصنف کو پڑھ ڈالا۔ ‘‘ کتاب کی ۳؍ قسمیں جو یاد آئیں یہ تھیں کہ کچھ کتابیں چکھنے کے قابل ہوتی ہیں۔ بہت سی نگلے جانے اور ایک آدھ کتاب چبانے اور ہضم کرنے کے زمرے میں آتی ہے۔ یوں عبد بھائی کو رسید دی۔ اس کی تصویریں پڑھ لی ہیں۔ عبارت صرف دیکھی ہے چکھی تک نہیں۔ وہ اور لوگ ہوتے ہیں جو چھوٹاساطنزیہ جملہ برداشت نہ کر سکیں۔ اسے تعویذ بنا کر تکیے میں نہیں رکھ سکتا کہ اس کا سائز مانع ہے۔ یوں تکیے کے نیچے رکھ دی ہے۔ امید ہے کتاب سے نکلنے والی ریڈیائی شعاعیں دماغ تک پہنچ کر مصر کی تاریخ سے آشنا کر دیں گی !‘
٭٭
میری معلومات کے مطابق ورما کے ہاں سے خریدی گئی نیلے رنگ کی بیش قیمت آٹو گراف البم پر سب سے پہلا مضمون ایک طالب علم نے لکھا اور وہ بھی اتفاقاً۔ وہ بی اے کا امتحان دے رہا تھا۔ انگریزی کا پرچہ تھا۔ مضمون لکھنے کے لیے دیے گئے عنوانات کا جائزہ لے رہا تھا۔ مشاغل کا عنوان دیکھ کر اضطراری طور پر خیال گزرا کہ بہاولپور میں دیکھی ہوئی اس چھوٹی سی نیلی کتاب پر ایک خوبصورت مضمون لکھا جا سکتا ہے۔ قدرت بعض اوقات انصاف کا اہتمام بھی کر ڈالتی ہے۔ اس مضمون کے معیار کے پیش نظر اسے ایک ہی قاری نصیب ہوا۔ ’ ممتحن ‘۔
شادی کے چند روز بعد عروبہ نے پوچھا؟ ’آپ کی زندگی میں کوئی کلاسک قسم کا ڈراما گزرا ہے ؟‘ میں نے بتلایا ’ڈراما تو نہیں البتہ ہم نے ایک مرتبہ ایک پیشکش کی تھی جو بذات خود کلاسک تھی۔ جون ۱۹۶۷ء میں لاہور کے کمشنر ہاؤس میں مختار مسعود صاحب سے ملاقات رہی۔ میرے ذہن میں یہ خیال تھا کہ اس آٹوگراف البم پر ایک خوبصورت مضمون لکھا جا سکتا ہے ‘۔ میں نے اس خیال کا اظہار کیا۔ کہنے لگے ’بھئی سوچتا تو ہوں لیکن مصروفیت آڑے آتی ہے۔ ‘ ’جوانی اور نادانی کے بہت سے فائدے ہیں۔ ‘ اور ہم اس وقت یقیناً جوان بھی تھے۔ یوں پیشکش کی۔ ’آپ واقعات کی تفصیل دے دیجئے، میں مضمون لکھ دوں گا۔ ‘ انہوں نے کمال متانت سے کہا ’بھئی خورشید ! آپ سے اچھا تو میں لکھ سکتا ہوں۔ ‘ میں نے بحث کرنا مناسب نہ جانا کہ جو شخص اتنی پیاری اُردو تقریر کرتا ہو، اس کی تحریر بھی خاصے کی چیز ہو گی۔ ویسے بھی میرا مقصد اور مقصود صرف ان واقعات کو تحریر میں لانے کی تحریک تھا۔
د سمبر ۱۹۷۲ء میں آواز دوست کے بارے میں پڑھا کہ یکم جنوری ۱۹۷۳ء کو شائع ہو رہی ہے۔ ملتان کتاب گھر والے شیخ جاوید انور سے کہا، یکم جنوری کو لاہور پہنچو، فیروز سنز سے یہ کتاب خریدو، اِسے باقی مال کے ساتھ نہ بندھوانا بلکہ اپنے بیگ میں لے آنا۔ ‘۲؍ جنوری کی صبح ناشتے کے وقت کتاب میرے ہاتھ میں تھی۔ اسے پڑھتے ہوئے اپنی پیشکش یاد آئی۔ ایک کیفیت تھی جسے بیاں کرنے کے لیے الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ یہ مشکل بھی آواز دوست نے ہی حل کی’اس (آرنلڈ نائن بی ) کا رویّہ دیکھ کر ندامت سے مجھے پسینہ آ گیا۔ پسینہ آتا اور خشک ہوتا رہا۔ ‘ معاً قاری اور ادیب کا فرق بھی واضح ہو گیا کہ جو فقط محسوس کر کے رہ گیا وہ قاری اور جو اس کیفیت کو لفظوں میں ڈھال گیا وہ ادیب ہے۔ کتاب کے بارے میں میری مختصر رائے ویسی تھی جو ان کی اہرام مصر کے بارے میں اب جو یہ مکان بنا تو لوگوں نے دیکھا کہ عجائب عالم کی فہرست میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اُردو ادب میں آوازِ دوست کا اضافہ تاریخی بھی ہے اور تعمیری بھی۔ مجھے اُمید ہے کہ تاریخ یہ فیصلہ کرے گی کہ اس کتاب نے اشاعت کے روز سے ہی اُردو دان طبقے کی طرز فکر اور طرزِ تحریر پر مثبت اثر ڈالا ہے۔
انہوں نے آٹو گراف البم کا ایک صفحہ ۳۱ ؍ سال تک خالی رکھا کہ قائد اعظم کی ہمشیر محترمہ فاطمہ جناح ہی اس پر دستخط کریں گی۔ میں نے پڑھا تو مجھے ایک آٹو گراف البم یاد آئی۔ اس میں بھی ایک صفحہ ۱۹، اُنیس سال خالی رکھا گیا تھا۔ طویل انتظار کے بعد جب آٹو گراف کے لیے درخواست کی گئی تو آٹو گراف دینے والے نے کچھ لکھنے سے پہلے صفحات پلٹ کر دیکھنا چاہے۔ یہ موقع بہت نازک تھا۔ درخواست دہرائی گئی کہ آٹو گراف دے دیجئے، پھر اس کا مطالعہ کیجئے گا۔ آٹو گراف دینے کے بعد انہوں نے ورق کی پشت پر صاحبِ دستخط کو پہچانا تو آزردہ ہوئے۔ ان کی آزردگی بجا تھی۔ وہ دونوں اپنے زمانے کی معروف شخصیات تھیں لیکن ان کے درمیان فرق کو شرفا زمین آسمان کا فرق کہہ سکتے ہیں اور پنجابی اِٹّ کتے دا ویر۔ ان صاحب نے بڑی شوخی سے بتلایا تھا کہ اس ورق کے علاوہ دنیا میں کسی کاغذ پر ان دونوں کے دستخط اکٹھے نہیں مل سکتے۔ ہمیں ان کی بات کا اعتبار آیا۔ خیال آتا ہے کہ موقع ملے تو ان سے کہوں صاحب! آج کے دور میں اصحابِ ذوق کے اثاثوں میں تصویرِ بتاں اور خطوط کے علاوہ ایک آٹو گراف البم بھی ہوتی ہے جو اتفاق سے آپ کے پاس موجود ہے۔ آپ بھی ایک مضمون لکھیئے۔ پرانے زمانے میں بعض ’معقول‘ قسم کے بادشاہوں کو زیادہ سے زیادہ نیند کرنے کا مشورہ دیا جاتا تھا۔ غایت یہ کہ وہ کچھ کرنے سے باز رہیں کہ اسی میں ان کی بھلائی اور دُنیا کا سکون تھا۔ اِسی پر قیاس کرتے ہوئے ہم نے کچھ نہ لکھنے کا سوچ رکھا ہے اور بعض کا احسان نہ کرنا ہی سب سے بڑا احسان ہوتا ہے کہ پہلے میں نے ایک آٹو گراف البم پر مضمون نہ لکھا تو اُردو ادب کو آوازِ دوست نصیب ہوئی۔
٭٭
درسی کتاب میں ’علامہ اقبال مسجد قُرطبہ میں ‘ پڑھتے ہوئے آٹھویں جماعت کے ایک طالب علم نے سوچا کبھی موقع ملا تو مسجدِ قُرطبہ دیکھوں گا۔ اس کے چند سال بعد مسجدِ قُرطبہ نظم پڑھنے کا اتفاق ہوا تو اس کی خواہش تھی کہ مسجدِ قُرطبہ جانے کا اتفاق ہو تو مسجد میں بیٹھ کر یہ نظم پڑھی جائے۔ منارِ پاکستان کا مضمون پڑھنے کا اتفاق کئی مرتبہ ہوا اور کئی مرتبہ منارِ پاکستان کی بالائی منزل پر بھی پہنچا۔ ایک مرتبہ خیال آیا کہ کبھی منا رِ پاکستان کی بالائی منزل پہ بیٹھ کر اس مضمون کو پڑھا جائے۔ خواہش جائز تھی لیکن پرانی خواہش یاد آئی، مسجد قرطبہ میں بیٹھ کر مسجد قرطبہ کی نظم پڑھی جائے۔ صاحبِ آوازِ دوست ایک مرتبہ آٹو گراف نہیں لے پائے تھے کہ وہ حفظِ مراتب کے قائل ہیں۔ مجھے ان کی یہ ادا اچھی لگی۔ سو اس کے تتبع میں منارِ پاکستان پر چڑھ کر مضمون پڑھنے کی خواہش کو موخر کیا۔ اِس دوران میں یہ خیال بھی آیا کہ نظم اور مضمون کے پڑھنے کے پروگرام تو بن رہے ہیں، کتاب کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں۔ یوں ترتیب یہ رکھی کہ اگر قدرت مہربان ہو تو حرم نبویﷺ میں بیٹھ کر قرآنِ پاک ختم کیا جائے۔ پھر مسجدِ قرطبہ جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں یہ نظم پڑھ لی جائے اس کے بعد منارِ پاکستان کی باری آئے گی۔ حج پر جانے کا موقع ملا اور پھر حرمِ نبویؐ میں ۴۰؍ نمازیں ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اسی دوران میں نے وہاں بیٹھ کر قرآنِ کریم ختم کیا اور اس سعادت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔
مسجدِ قُرطبہ کی نظم کو میں امت مسلمہ کی طرف سے ایک حساس دل کی اجتماعی دعا جانتا ہوں۔ یہ دعا کارِ جہاں بے ثبات کے فلسفے سے شروع ہوتی ہے اور واحداستثنائی صورتِ حال عشق ہے اصل حیات، موت ہے اس پر حرام کا درس دے کر ’معجز ۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود‘ تک پہنچتی ہے۔ یہاں پہنچ کر عشق کی مزید تشریح ہے کہ یہ نہ تو صرف جمال ہے اور نہ ہی فقط جلال۔ بلکہ ان دونوں کا خوبصورت امتزاج اور مرقع ہے اور اس کا فلسفۂ زندگی قلیل امیدوں اور جلیل مقاصد سے عبارت ہے۔ اس کی سلطنت فقر ہے شاہی نہیں۔ پھر تجاہل عارفانہ کے انداز میں سوال ہوتا ہے عشق بلا خیز کا قافلۂ سخت جان کون سی وادی کون سی منزل میں ہے ؟ سوال کا یہ انداز واضح کرتا ہے کہ عشق بلا خیز کے قافلے (اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے دور)کو یہاں پہنچ جانا چاہیے تھا، اِسے دیر ہو رہی ہے۔ پھر وہیں مسجد کے نواح میں کھڑے کھڑے تیرے کنارے کوئی کسی اور زمانے کے خواب دیکھ رہا ہے کی نوید سنائی گئی ہے۔ دُعا یہاں ختم ہو جاتی تو بات تشنہ رہ جاتی وہ حکیم الامت تھے۔ مرض کی تشخیص اور بیماری کی تفصیل کے بعد مریض کے ہاتھ میں نسخہ تھما دیا۔ وہ قوم جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب کرتی ہے، دستِ قضا میں شمشیر کی صورت ہے۔ رہے عمل تو ان کے بارے میں جاتے جاتے دوبارہ یاد دلاتے ہیں کہ خون جگر کے بغیر سب نقش ناتمام ہیں اور نغمہ سودائے خام ہے۔
جب کبھی اور جہاں کہیں موقع ملا ہے، میں نے اِسے بار بار پڑھا ہے۔ حرم مکہ، حرم نبوی، میدان عرفات، منیٰ وغیرہ میں پڑھ چکا ہوں۔ مسجد قُرطبہ میں داخل ہوا تو اس عمارت پر کسی خوبصورت غزل کا گمان گزرا ’ایک شاعرانہ تخیل جسے چابکدستی سے اینٹ اور گچ میں مجسم کر دیا گیا ہو۔ ‘ پیر و مرشد نے اس عمارت کے جلال و جمال کو مرد خدا کی دلیل ٹھہرایا کہ وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل و جمیل صاحب آواز دوست نے اہل جمال کا حوالہ دینا چاہا تو اینٹوں کی عمارت اور لفظوں کی امارت کا یہی مرقع یاد آیا۔ مسجد میں بیٹھ کر نظم پڑھی۔ یہ دو آتشہ سرور تھا۔ ’ سوچ رہا تھا کہ وہ مقام جہاں خواہشِ قلبی اور فرضِ منصبی کی حدیں مل جائیں، اسے خوش بختی کہتے ہیں ‘ جس آن دو خوبصورت خواہشوں کو پورا ہوتا دیکھیں، اس کے لیے کون سا لفظ مناسب ہے ؟ افسوس اپنا تبحر علمی اس سوال کا جواب نہ دے سکا۔ پھر ایک دن منارِ پاکستان کی فوقانی منزل پر کھڑے کھڑے منارِ پاکستان کا مضمون پڑھ ڈالا۔ خوش تھا کہ قدرت نے اس مقام پر اس مضمون کو پڑھنے کا موقع دیا۔ یوں ایک فہرست تمام ہوئی۔ افسوس ہو رہا تھا کہ مختلف مقامات اور ان سے متعلق ادب کے شہ پاروں سے اپنی شناسائی بڑی سطحی ہے۔ مطالعہ وسیع ہوتا تو صورتحال مختلف ہوتی۔
٭٭
چاند سے ان کے تعلقات بہت پرانے ہیں۔ ان تعلقات کا آغاز طالب علمی دور کے اختتام پر ہوا۔ سفر نصیب تھے سو ملکوں ملکوں گھومے۔ خوش نصیب تھے سو چاند ساتھ ساتھ رہا۔ یہ تعلقات محرمانہ بھی ہیں اور آبرومندانہ بھی۔ بارہا ایسا ہوا کہ لکھنے بیٹھے ورق سادہ کا سادہ رہا۔ فغاں پختہ نظر آئی تو چاند سیاھی کی سطح پر تیر گیا اور اس نے سادہ کاری کی اجازت دے دی۔ آتش نے شاعری کو مرصع سازی کہا اور انہیں نثر میں سادہ کاری (سونے کی زمین پر سونے کا نفیس کام ) کی اجازت ملی۔ مرصع سازی داغ کے محبوب کی یاد دلاتی ہے۔ بھنویں تنی ہیں، خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں۔ سادہ کاری غالب کے محبوب کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ سادگی و پرکاری کا مرقع، جو تغافل میں بھی جرأت آزما ہے۔ یوں بھی سادہ کاری، سادگی کی ابتدا سے شروع ہوتی ہے اور پرکاری کی انتہا پر ختم۔ ( کہ سادہ کاری کا لفظ لکھتے ہوئے شروع میں سادگی کے ابتدائی حروفس اد لکھے جاتے ہیں اور آخر میں پرکاری کے آخری حروف ’ک ار ی‘ ) میں مضمون لکھنے بیٹھا ہوں کون قلم تراشے، دوات بنائے اور پھر انتظار کرے کہ چاند سیاھی کی سطح پر تیرتا نظر آئے ؟ یوں بال پوائنٹ ہاتھ میں اور بجلی کی روشنی میں اندھیر مچ رہا ہے۔
انہیں پلو ٹارک کی بدولت ایک فقرہ ہاتھ لگا جسے وہ تقسیم کرنا چاہتے تھے۔ ہم خوش قسمت نکلے کہ ان کی تحریر میں بہت سے ایسے فقرے ملتے ہیں جو حاجت مندوں میں تقسیم ہو سکتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ وہ انہیں وصول نہ کر پائیں ایک واقعہ آپ بھی سنئیے۔ یورپ کی سیاحت کے دوران لندن جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک صاحب ملے اپنی داستان غریب حمزہ لے کر بیٹھ گئے لبِ لباب ’ مدت ہوئی ہم نے پاکستانی بود و باش کو خدا حافظ کہہ ڈالا‘ لیکن یہ پڑھا لکھا مہذب معاشرہ ہمیں اپنانے کے لیے تیار نہیں۔ بچے عجیب عجیب نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو گئے ہیں … داستان خاصی طویل تھی میں چپکے سنتا رہا اور اس دوران ایک فقرہ میرے ذہن میں گونجتا رہا۔ وہ تنک کر بولے ’آپ بھی تو کچھ کہیئے۔ ‘ میں نے بے دھیانی میں وہی فقرہ لڑھکا دیا ’ہوائی جہاز کا سفر بھی خوب ہے۔ زمین سے فاصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور آسمان سے دوری کم ہونے میں نہیں آتی۔ ‘ وہ ناراض ہو گئے ’کمال ہے میں اپنا رونا رو رہا ہوں اور آپ اپنی سیاحت میں مست ہیں۔ ‘
٭٭
اقبال ارشد بے تکلف دوست اور اچھے شاعر ہیں۔ شاعری کے ناتے کبھی کبھار ان کی خود اعتمادی کے غبارے میں بہت زیادہ ہوا بھر جاتی تو میں صاحب آوازِ دوست سے ملاقات کے ذکر کی سوئی چبھو دیتا۔ حالات اور بندے ٹھیک ہو جاتے۔ اس ملاقات کے ذکر میں شاہ کی تعریف تو یقیناً کم ہوتی لیکن شہ کا مصاحب ہونے کے ناتے اِترانے کا سلسلہ خاصا دراز ہوتا ! عوامی دور میں وہ پاپولیشن پلاننگ میں میرے رفیقِ کار تھے۔ ایک دن کہنے لگے ’خورشید ! بھئی وہ مختار مسعود صاحب صحت کے سیکرٹری ہو گئے ہیں، اپنا محکمہ بھی انہی کے پاس ہے، تمہیں ان سے ملنا چاہیے۔ ممکن ہے تمہاری ترقی کی کوئی بات بن جائے۔ ‘
سیڑھیاں چڑھنے کا وہ طریقہ جس کا ذکر آواز دوست میں ملتا ہے۔ ان دنوں وطن عزیز میں عام تھا۔ سیڑھیوں کی آرایش کے سلسلے میں محکمہ ’خود کفیل ‘ تھا۔ یوں اس کا چلن ذرا زیادہ ہی تھا۔ ہم نے بعض ’باصلاحیت افسران ‘ کو سیڑھیاں چڑھتے نہیں، پھلانگتے دیکھا۔ ان کی قابلیت ان سیڑھیوں کو سجانے تک محدود تھی جس کے لیے یہ لوگ بڑے التزام سے چند تاریخیں یاد رکھتے اور بڑے اہتمام سے بھول جاتے کہ تاریخ ایسے لوگوں کو کس انداز میں یاد رکھتی ہے۔
میرے دوست کی سوچ صحیح تھی اور مشورہ درست لیکن مخاطب غلط۔ میں نے عرض کیا ’مختار مسعود صاحب سے ملنے کو جی چاہتا ہے لیکن سیکرٹری ہیلتھ کی خدمت میں حاضری دینا اپنے بس کی بات نہیں۔ ‘ انہوں نے جواب سنا تو ہمیں سودائی جانا۔ شاعر تھے یوں ان پر آمد طاری ہوئی جسے بے تکلف دوستی نے رفت کا رخ دے ڈالا۔ غنچہ اور قلمدان موجود نہ تھے۔ لہٰذا اس سودائی کی شان میں سودا کے انداز میں نثری قصیدے گھڑے اور گرما گرم سنا ڈالے۔ شریفانہ الفاظ میں ان کا مطلب کچھ یوں تھا ’نالائق ! تم شرافت کو گود میں لیے بیٹھے رہو جبکہ احمق طبقہ اپنے مخصوص انداز میں ترقی کی سیڑھیاں فر فر پھلانگتا چلا جا رہا ہے۔ دیکھتے نہیں کیسے کیسے نالائق ہمارے افسر بن رہے ہیں ؟ یہ کس اہلیت کی بِنا پر ہے ؟ اپنا یہ حال کہ طبیعت کسی بندے سے اس کی خدائی کی زکوٰۃ قبول کرنے پر تیار نہ تھی۔ ویسے بھی حصولِ جاہ مذاقِ تلاش سے وابستہ ہے۔ ادھر ان کا نادر مشورہ بلکہ نادری حکم تھا کہ میں اٹھوں اور اس تگ و تاز میں شریک ہو جاؤں۔
ایک عرصے بعد محمد نقوش مرحوم کا مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس میں گلہ بھی تھا کہ جن دنوں یہ پی آئی ڈی سی کے چیر میں تھے۔ ان کا محکمہ نمک کے پرمٹ بانٹتا تھا۔ وہ اپنے کسی عزیز کی دال روٹی کے لیے نمک کا پرمٹ چاہتے تھے۔ ذکر کیا تو انتظار کرنے کو کہا گیا کہ ان دنوں کچھ لوگ عام نمک سے نمک سلیمانی بنائے بغیر گنجِ سلیمان اور کالا نمک بنائے بغیر کالا دھن بنا رہے تھے۔ صاحب محکمہ جانتے تھے کہ ’کوئلوں کی دلالی میں صرف منہ کالا ہوتا ہے اور ڈرتے تھے کہ قیمتی پتھروں کی کان کنی میں جان کنی کا بھی خطرہ تھا‘سو انہوں نے محکمہ کی کانوں کو ناحق کے معاملات کے لیے بند رکھا البتہ اپنے کانوں کو حق بات سننے کے لیے کھلا چھوڑ دیا۔ فرہادانِ وقت نے دُنیاداری اور دُکانداری کے تیشوں سے زور آزمائی شروع کی تو یارانِ نکتہ دان کو صلائے عام دے ڈالی اور سرِ بازار نیلام لگا دیا۔ اسے پڑھ کر اطمینان ہوا کہ دست سوال دراز کر کے خفیف نہ ہوئے تھے۔ دستِ سوال کے بارے میں خیال تھا کہ دستِ طمع کا بھائی ہے اور سرھانے دھرے دھرے سو گیا ہے۔ ایک دن یہ غلط فہمی بھی دور ہو گئی۔
تلاشِ معاش کے سلسلے میں چند سال جدہ میں گزارنے کا موقع ملا۔ تصویر یار دیکھنے کے لیے گردن کا جھکانا کافی ہے اور جدہ میں رہتے ہوئے عمرے کی ادائیگی کے لیے گاڑی کی چابی گھمانا۔ یوں وہاں رہتے ہوئے عمرے کی ادائیگی کے بے شمار مواقع ملے۔ ایک مرتبہ ذہن میں اس خیال نے سر ابھارا کہ قدرت مہربان ہو تو ایک عمرہ صاحبِ آوازِ دوست کی معیت میں کیا جائے۔ پھر اس خیال نے آہستہ آہستہ خواہش کی شکل اختیار کر لی جو ایک دِن نوکِ قلم سے پھسلی اور کاغذ پر آ رہی۔ میں نے انہیں لکھا ؎
میر جی چاہتا ہے کیا کیا کچھ
اوراس کیا کیا کچھ میں ایک دبی دبی خواہش آپ کی معیت میں عمرہ ادا کرنے کی ہے۔ اگر آپ کبھی جدہ تشریف لائیں تو… نسیم سحر جدہ کے ادبی حلقوں میں بڑا معتبر نام ہے۔ غزل، آزاد نظم، ہائیکو، تنقید، مزاحیہ شاعری، غرض سبھی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کرتے اور نام کماتے ہیں۔ رابطہ عالمِ اسلامی بینک جدہ کے چیئرمین کے ساتھ نتھی ہیں۔ ان سے بے تکلفی ہے، ایک دن عرض کیا ’مختار مسعود صاحب جدہ آئیں تو آپ کے بینک میں بھی ان کا آنا ہوتا ہے۔ اگر آپ ان کی آمد سے مطلع فرما سکیں تو عنایت ہو گی۔ ‘ انہوں نے وعدہ کر لیا۔ ایک دن دفتر سے گھر آیا۔ عروبہ نے دروازہ کھولتے ہی کہا ’اتنی پیاری خبر ہے کہ آپ خوشی سے جھوم اٹھیں گے۔ ‘ الٰہی خیر کیا خبر ہو سکتی ہے ؟ ہم نے سوچا اور اندھیرے میں تیر پھینکا ’معلوم ہے مختار مسعود صاحب جدہ میں ہیں۔ ‘ تو آپ کو ان کا پیغام مل گیا تھا ؟‘ اب حیران ہونے کی باری میری تھی۔ صاف اقرار کیا کہ پیغام وغیرہ تو نہیں ملا۔ عروبہ نے بتلایا کہ پانچ بجے ان کا فون آیا تھا۔ ہوٹل میں ہیں۔ آپ انہیں فون کر لیجئے ! فون کیا تو بڑی شفقت سے بولے ’تھوڑا سا آرام کر لوں، آپ مغرب کے بعد آ جائیے ‘ فون بند کر کے نسیم سحر کا نمبر گھمایا اور گلہ کیا کہ ایک کام آپ سے کہا تھا، آپ بھول گئے۔ کہنے لگے ’ آپ یقین کریں کہ مجھے بھی شام ساڑھے چار بجے علم ہوا کہ وہ آئے ہوئے ہیں۔ ابھی ابھی دفتر سے لوٹا ہوں۔ سوچ رہا تھا کہ کپڑے بدل کر آپ کو فون کروں گا کہ اتنی دیر میں آپ کا فون آ گیا۔ ‘
مغرب کے بعد میں اور عروبہ ان کے کمرے میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے بتلایا ’ بینک والوں کا کوئی کام تھا۔ مجھے بلایا۔ حرم میں حاضری کا موقع نظر آیا۔ سو چلا آیا۔ تین دن سے کام میں مصروف تھا۔ شام ساڑھے چار بجے کام سے فارغ ہوا تو سوچا احباب سے گپ شپ ہو جائے۔ آپ کے دفتر فون کیا تو آپ دفتر سے نکل چکے تھے۔ گھر فون کیا تو عزیزہ سے بات ہوئی‘۔ مجھے آوازِ دوست کی چندسطریں یاد آئیں ’بڑے آدمی وہی اچھے ہوتے ہیں جو کام میں مصروف ہوں تو سو پردوں میں پوشیدہ رہیں اور جب فارغ ہوں تو سارے حجابات دُور ہو اور یارانِ نکتہ داں کے لیے صلائے عام بن جائیں۔ ‘ شاعر نے عید کے حوالے سے رسم دنیا، موقع اور دستور کا ذکر کیا ہے۔ جدہ کی رعایت سے میں حرم پاک، عمرے اور معیت کا سوچ رہا تھا۔ سو پوچھ لیا ’عمرے کا کیا پروگرام ہے ؟‘ بتلانے لگے ’’صبح ان شا ء اللہ جاؤں گا۔ آج دفتر میں ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ صبح اکٹھے چلتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ بھئی عمرہ تو بندے اور مولا کے درمیان تعلق کا سلسلہ ہے۔ اس میں رفاقت نہیں چلے گی۔ ‘‘ یہ سنا تو جانا کہ غالب ادائے خاص سے نکتہ سرا ہونا چاہتا ہے۔ قدرت مہربان ہوئی تھی تو چشمۂ حیواں چل کر گدائے میکدہ تک پہنچ گیا تھا۔ دل و دماغ میں جنگ جاری تھی۔ دماغ کا کہنا تھا، لب بام دو چار ہاتھ نہیں ایک اظہارِ خواہش پر موقوف ہے۔ ہمت سے کام لو، اظہار تو کر ڈالو ‘ یہ موقع پھر نہ جانے کب ملے ؟ دل نے حوالہ دیا ؎
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں پیر و مرشد کا حوالہ آیا تو گدائے میکدہ نے بے نیازی سے سبو توڑ دیا نیاز مندی کا سکوت نہ توڑا۔ جدہ چھوڑ کر لاہور آبسے۔ ایک دن ان کے ہاں ملنے کے لیے گئے تو مغرب کا وقت ہو گیا۔ ایڈمنسٹریٹو سٹاف کالج کی پیاری سی مسجد کی پہلی صف میں محمود و ایاز اکٹھے کھڑے تھے۔ سلام پھیرا تو محسوس ہوا کہ قدرت نے اس خلش کی تلافی کر دی ہے اور پھر یوں ہوا کہ روزگار کی چیل نے پنجوں میں دبوچا اور دوبارہ جدہ لا پھینکا۔ ایک دن ان کا فون آیا وہ مکہ میں تھے۔ مکہ پہنچا انہیں فون کیا پوچھنے لگے ’آپ اس وقت کہاں ہیں ؟‘ عرض کیا ’مکہ المکرمہ میں، حرم پاک کے سامنے ہلٹن ہوٹل کے استقبالیہ پر۔ ‘ ’ٹھیک ہے میں نیچے آ رہا ہوں۔ ‘ ’جی نہیں میں صرف یہ جاننا چاہتا تھا کہ آپ کمرے میں موجود ہیں، حاضر ہوتا ہوں !‘ ملاقات ہوئی۔ گپ رہی۔ مغرب کا وقت ہو رہا تھا۔ حرم پاک میں آئے مغرب ادا کی۔ اس کے بعد انہوں نے دعوت دی ’آئیے طواف کریں۔ ‘ دورانِ طواف اُردو ادب کی چند سطریں یاد آئیں ’’ جب میں نے اُردو کے ممتاز ادیب اور دیرینہ کرم فرما ممتاز مفتی کا سفرنامہ حج پڑھنا شروع کیا تو اپنا داھنا ھاتھ ان کی طرف اس طرح بڑھایا کہ وہ اپنی اصل لمبائی سے کہیں زیادہ لمبا ہو کر دُور تک مصنف کے پیچھے چلا گیا۔ یہ اضافی اور عارضی لمبائی اسے شدتِ شوق نے عطا کی تھی۔ خیال تھا کہ مصنف ایک اُنگلی میری طرف بڑھائیں اور کہیں گے لو، اِسے پکڑ لو اور پھر سفر میں مجھے ساتھ ساتھ رکھیں گے لیکن مصنف نے میری طرف قطعاً کوئی توجّہ نہ کی۔ ایک بار اچٹتی نظر بھی نہ ڈالی اتنا کہنہ مشق ادیب اور میرے جیسے دوست اور قاری سے یہ بے اعتنائی۔ لبیک ختم ھوئی بات میری سمجھ میں آ گئی۔ مصنف کے ھاتھ خالی نہ تھے۔ وہ مجھے کیا دیتے۔ انہوں نے خود دونوں ھاتھوں سے قدرت اللہ شہاب صاحب کا احرام تھاما ھوا تھا اور وہ بھی اتنی مضبوطی سے کہ شہاب صاحب کا احرام کھل کھل جاتا تھا۔ ‘‘ صورت حال پر غور کیا تو ہزار شکر سلامت رہا ترا احرام گنگنانے کو جی چاہا کہ دلیلِ حجاب شدتِ شوق کے ہاتھ کو وہ اضافی اور عارضی لمبائی عطا کرتی ہے کہ وہ لمبا ہو کر مصنف تک جا پہنچے۔ لیکن حضور کی لذت میں کندھے سے کندھا جڑا ہو تو مٹا دیا میرے ساقی نے دفترِ من و تو کا سماں بندھ جاتا ہے ! اور پھر یوں بھی ہوا کہ وہ اُردو نثر کا عالمی اردو ایوارڈ وصول کرنے دوحہ پہنچے۔ بھابھی ساتھ تھیں۔ ( وہاں ملاقات رہی )۔ دوحہ سے وہ ریاض آئے کہ سہیل مسعود وہیں تھے۔ پھر حرمِ پاک میں حاضری۔ واپسی پر جدہ میں چند گھنٹوں کے لیے ٹھہرے۔ میں عروبہ اور بچیاں انہیں ملنے گئے۔ انہوں نے اپنا احرام مجھے دیتے ہوئے کہا ’’ بھئی! سامان زیادہ ہے اسے کہاں اٹھاتا پھروں گا۔ کسی مستحق کو دے دیجئے گا۔ ‘‘ عروبہ بول اٹھیں ’’ یہ کسی کو نہیں دیں گے، خود رکھیں گے۔ ‘‘ تردید کی مجال نہ تھی فوراً تائید کی ’بندہ خود بھی تو مستحق ہو سکتا ہے۔ ‘
شعر اقبال سے عشق کی بنا پر علامہ اقبالؒ کو پیر و مرشد کہتا اور لکھتا ہوں۔ نسیمِ سحر بے تکلف دوست ہیں۔ نثر مسعود (آواز دوست اور سفر نصیب ) میں میری دلچسپی کے حوالے سے انہیں میرے اسسٹنٹ نے پیر و مرشد کہا تھا۔ احرام ملنے پر خیال آیا کہ اگلے وقتوں میں مرید اپنی ذات کی نفی کر کے پیر سے عقیدت کے دھاگے سے سلا ہوتا تھا۔ یوں اسے خرقہ عطا ہوتا تھا۔ آج مرید کو عقیدت کی وہ شدت کہاں نصیب کہ وہ اپنی شخصیت کو پیر کی شخصیت میں گم کر ڈالے۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی شخصیت کو الگ رکھتا ہے۔ لہٰذا اس کے حصے میں الگ الگ دو چادریں آتی ہیں۔ یہ الگ بات کہ دنیا بھر کے گوشے گوشے میں بسنے والے مسلمان دعا مانگتے رہتے ہیں کہ انہیں حج یا عمرے کی سعادت نصیب ہو اور وہ احرام کی انہی چادروں کا استعمال کر سکیں۔
٭٭
http: //urdudigest.pk/2012/01/mukhtar-masood-sahib-e-awaz-dost/#
٭٭٭