محرومِ تماشا ۔۔ محمد احمد

شام ڈھل چکی تھی۔  چائے کی ہوٹل پر حسبِ معمول رونق میں اضافہ ہو چکا تھا۔  لوگ مختلف ٹولیوں کی صورت میں بیٹھے ہلکی پھلکی گفتگو میں مصروف تھے اور دن بھر کی تھکن کے مارے دکھتے بدن پر ذائقہ اور تراوت کے پھائے رکھ رہے تھے۔ یہ شہر کا ایک متوسط علاقہ تھا اور سندھ کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں کے لوگ بھی چائے کے رسیا تھے۔ باہر والے لڑکے ادھر سے اُدھر کسی کو چائے اور کسی کو دلاسہ دیتے نظر آتے اور اپنے تئیں آرڈر اور چائے کی ترسیل میں توازن رکھنے کی کوشش کرتے۔

 

نیلی گاہے گاہے مختلف میزوں پر جا رہی تھی۔  اُسے ان میزوں کی ترتیب اور راستوں میں آنے والی تمام رکاوٹیں ازبر ہو گئی تھیں۔ نیلی کے شانوں پر دو چھوٹے چھوٹے ہاتھ بڑی مضبوطی سے جمے ہوئے تھے جو اُسے رُکنے اور چلنے کی ہدایات دے رہے تھے ، ہدایات کیا دے رہے تھے یہ ہاتھ کسی کہنہ مشق ڈرائیور کے ہاتھوں کی طرح تھے جو گاڑی کے اسٹیرنگ پر مضبوطی سے جمے گاڑی کو یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں موڑنے کا کام کرتے ہیں۔  نیلی کو روکتے ، بڑھاتے یہ ہاتھ پرویز کے تھے۔ پرویز نیلی سے بڑا تھا۔  بڑا بھی کیا تھا کہ پرویز اور نیلی کی عمروں میں سال دو سال کا ہی فرق ہوگا سو دونوں بہن بھائی تقریباً ہم عمر ہی نظر آتے تھے۔

 

نیلی دیکھ نہیں سکتی تھیں کہ اُس کی آنکھوں کی پُتلیاں پیدائش کے وقت سے ہی نہ جانے کس انجانے خوف سے گدلائی ہوئی سفید جھلیوں کے پیچھے جا چھپی تھیں۔ پرویز اور نیلی چائے کی ہوٹل پر موجود ہر میز پر جاتے اور اُن کی طرف آس بھری نظروں سے دیکھتے۔ پرویز کا کام نیلی کو میز کرسیوں پر براجمان لوگوں کے احاطہ ء نظر میں لا کر ختم ہو جاتا۔  لوگ نیلی کی بے نور آنکھوں کو دیکھتے اور دو روپے ، پانچ روپے اور دس روپے نیلی کے ہاتھ پر رکھ دیتے۔  جو لوگ کچھ نہ بھی دیتے وہ دل ہی دل میں ترس کھا کر رہ جاتے۔ ایک میز سے دوسری میز تک جاتے ہوئے ملنے والے سکے اور نوٹ پرویز کی جیب میں منتقل ہو جاتے۔

٭٭

 

باقی سب ملازموں کی طرح الیاس بھی فیکٹری کے مالک ارشاد نواز سے خوش نہیں تھا۔ لیکن فیکٹری مزدوروں کے خوش ہونے نہ ہونے سے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے اُنہیں پیسے چاہیے تو کام تو کرنا پڑے گا ،جب اور جس طرح بھی ملے۔ تیار شدہ ملبوسات کے اس ادارے میں بے شمار مزدور دن اور رات کی شفٹوں میں کام کرتے لیکن اُن کو اتنا ہی ملتا کہ وہ بمشکل گزارا کر لیں ، وہ جو بھی کماتے راشن کی نظر ہو جاتا۔ کبھی کھانے پینے یا پہنے اوڑھنے میں ہاتھ کی گرہ کھل جاتی تو قرض کی رسی زیبِ گلو ہو جاتی۔  مزدوری ہر ہفتے کے دن تقسیم ہوتی اور اُس دن مزدوروں کی کیفیت اُس گرسنہ بلی کی سی ہوتی جو ڈھونڈ ڈھانڈ کر کچرے سے ہڈی تو برامد کر لیتی لیکن اُس ہڈی سے غذائیت نچوڑنے کا عمل گلے اور تالوؤں کو اُدھیڑ کر رکھ دیتا۔ گو کہ مزدوری وقت پر ملتی لیکن کسی نہ کسی بہانے مزدوری میں کٹوتی ہو جاتی۔ کبھی کپڑا رنگنے کے عمل میں خرابی ہو جاتی تو اس کا خمیازہ مزدوروں کو بھی بھگتنا پڑتا اور کبھی کوئی برامدی ترسیل خریدار کی طرف سے رد کر دی جاتی تو بھی مزدوروں کی دھاڑی سے ہی نقصان پورا کرنے کی کوشش کی جاتی۔

"بھئی اپنی جیب سے تو نقصان پورا کرنے سے رہے، ایسے تو فیکٹری بند ہو جائے گی۔ پھر کہاں مزدوری ملے گی تم سب کو” ارشاد نواز خود کو حق بجانب سمجھتے۔

ہاں البتہ جب کبھی اُنہیں نسبتاً زیادہ منافع ہوتا تو اُنہیں کبھی وہ مزدور یاد نہ آتے جو خسارے میں اُن کے شریک ہوتے۔

٭٭

 

زندگی بڑی عجیب چیز ہے رو دھو کر بھی چلتی رہتی ہے۔ الیاس بھی جیسے تیسے دن کاٹ رہا تھا، چھوٹے سے گھر میں وہ اور اُس کی بیوی تبسم، تنگی ترشی کی دن گزار رہے تھے۔ اُن کی تمام تر خوشی ننھے منے پرویز تک ہی محدود تھی کہ جسے دیکھ کر وہ مسرور ہو جاتے لیکن غربت کے باعث وہ اُس کے لئے بھی کچھ نہیں کر پاتے اور یہ خیال اُن کے مسرور چہرے سے اُجالا نوچ کر پھینک دیتا۔ پھر جب نیلی کی پیدائش ہوئی تو جیسے اُن کی رہی سہی خوشیوں کو بھی نظر لگ گئی۔ الیاس کا دل اُس چراغ کی طرح بجھ گیا جو طاق سے پختہ فرش پر گر کر ٹوٹ گیا ہو۔ تبسم صرف نام کی تبسم رہ گئی اور اُس کے چہرے سے مسکراہٹ ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئی۔ نیلی پیدائشی طور پر نابینا تھی۔ اُس کا ناک نقشہ بہت خوب تھا لیکن اُس کی آنکھیں۔  اُس کی آنکھوں کو دیکھ دیکھ کر ماں باپ کے سینے پر سانپ لوٹنے لگتے۔ انہوں نے پہلے سے سوچ رکھا تھا کہ اگر لڑکی ہوئی تو اُس کا نام نیلم رکھیں گے لیکن یہ بات اُن کے وہم و خیال میں بھی نہیں تھی کہ اُن کی نیلی، نیلم کی طرح پیاری ہونے کے ساتھ ساتھ پتھر کی طرح اُن سے بیگانی بھی ہوگی۔ غربت کے آنگن میں پلنے والے بچوں کی قسمت میں پیار کہاں ہوتا ہے پھر بھی نیلم کو پیار سے نیلی کہا جانے لگا۔ شاید یہ نام پیار سے زیادہ بولنے والوں کی آسانی کا مظہر تھا۔

٭٭

 

"لگتا ہے تم مجھے بیمار کر کے ہی چھوڑو گے” عاصم نے متذبذب انداز میں ایک کرسی گھسیٹتے ہوئے اسماعیل سے کہا۔

"ارے سر! کچھ نہیں ہوتا! کبھی کبھی ہم غریبوں کے ساتھ بھی بیٹھ جایا کریں”۔ اسماعیل بھی ایک کرسی پر براجمان ہو چکا تھا۔

"سینکڑوں لوگ دن بھر میں یہاں سے چائے پیتے ہیں، سب بیمار تھوڑی ہوتے ہیں۔ یہ تو چند ایک نصیبوں جلے ہی آپ ڈاکٹروں کی روزی روٹی کا سبب بن جاتے ہیں” اسماعیل نے مسکراتے ہوئے عاصم پہ طنز کیا۔

"ہاں ! وہ تو ٹھیک ہے لیکن دیکھو نا۔ ۔۔۔ ! یہ لوگ صفائی کا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ ایسے میں ڈر تو لگتا ہے نا!” عاصم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

 

عاصم اُسی ہسپتال میں سینیر ڈاکٹر تھا جس میں اسماعیل بطور میل نرس کام کیا کرتا تھا۔ اسپتال کے عملے سے عاصم کا سلوک دوستانہ تھا۔  آج اتفاق سے وہ اسماعیل کو گھر تک چھوڑنے آ گیا تو اسماعیل اُسے ضد کر کے مشہورِ زمانہ کوئٹہ ہوٹل پر چائے پلانے لے آیا۔

عاصم بغور چائے بنانے والے اور برتن اُٹھانے رکھنے والے لڑکوں کو دیکھ رہا تھا۔  وہ لوگ اپنے طور پر صفائی کا خیال بھی رکھ رہے تھے لیکن عاصم کے خیال میں یہ نا کافی تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ تھوڑی سی کوشش کر کے ممکنات کی سرحدوں کو توسیع دی جا سکتی ہے۔

٭٭

 

غربت کے دن بھی انسان جیسے تیسے کاٹ ہی لیتا ہے لیکن کچھ دکھ ایسے ہوتے ہیں جو اُسے اندر سے کھانا شروع کردیتے ہیں۔ نیلی کا دُکھ الیاس کے لئے ایسا ہی تھا۔ وہ ہر وقت اس کے بارے میں سوچتا کبھی خدا سے بھی شکوہ کرتا کہ اُس نے ایسا کیوں کیا۔ کیوں اُس کی چاند سی پیاری بیٹی کی ساتھ ہی ایسا ہوا کہ دنیا اُسے دیکھ کر ترس کھاتی اور وہ دنیا کو دیکھ بھی نہ پاتی۔ اُس نے اپنے طور پر نیلی کا علاج کرانے کی بھی کوشش کی لیکن نہ تو اس پسماندہ علاقے میں علاج کی اچھی سہولتیں تھیں اور نہ ہی اُس کی جیب اجازت دیتی کہ وہ آگے بڑھ کر کچھ کر سکے۔ پھر زیادہ تر ڈاکٹر اُس کی غربت کو دیکھتے ہوئے کوئی مہنگی اُمید اُس کی جھولی میں ڈالنے سے کتراتے اور نتیجتاً اُس کی مایوسی دو چند ہو جاتی۔ سوائے کُڑھنے کے اُس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔

ہر وقت کی یہ تکلیف الیاس کے لئے دن بدن سوہانِ روح ہوتی جا رہی تھی۔ پھر فیکٹری کے کچھ ساتھیوں کے ساتھ اُسے نشے کی عادت نے آ لیا۔ وہ روزانہ رات نشہ کر کے خود کو ادھر اُدھر کی سوچوں سے آزاد کرنے کی کوشش کرتا۔ نشے سے جُز وقتی سکون تو اُسے مل گیا لیکن وہ جانتا تھا کہ وہ ایک مشکل سے نکل کر دوسری مشکل میں پھنس گیا ہے۔

پھر ایک روز جب وہ نشے کی حالت میں گھر جا رہا تھا تو ایک انجانی گاڑی نے اُس کی سب مشکلیں آسان کر دیں۔

جو گھرانہ الیاس کے دم قدم سے جیسے تیسے چل رہا تھا ، اُ س کے بعد تو جیسے وہاں برے وقت نے ڈیرے ہی ڈال لئے۔ مرنے والے کا کفن دفن تو کسی نہ کسی طرح ہو ہی جاتا ہے لیکن زندگی کہاں پیچھا چھوڑتی ہے ، زندہ لوگوں کو تو بہرکیف جینے کا تاوان دینا ہی پڑتا ہے۔ تنگی تُرشی فاقوں کی شکل اختیار کرنے لگی تو محلے پڑوس والے بھی کچھ زیادہ ہی مصروف ہو گئے۔ کہتے ہیں بھوک بڑی سفاک ہوتی ہے۔ اور واقعی بھوک نے اُنہیں اُس مقام تک پہنچا دیا جس کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ شاید الیاس بہت خود غرض تھا کہ قبر میں جا سویا۔ اب اُس کے لختِ جگر راہوں کی دھول ہوتے رہیں اُسے ہر گز پرواہ نہیں تھی۔

٭٭

 

نیلی اور پرویز آدھے ایک منٹ ہر میز پر رُکتے اور اگر کوئی اُنہیں کچھ دینے پر آمادہ نہ ہوتا تو وہ آگے چل دیتے۔ کبھی کبھی کچھ لوگ متوجہ ہونے یا جوابی ردِ عمل ظاہر کرنے میں زیادہ دیر لگاتے تو کچھ ثانیے اور رُک جاتے۔ ابھی مایوسی کے مہمیز کرنے پر وہ ایک میز سے مُڑے ہی تھے کہ کسی کی آواز سنائی دی۔

"بات سنو ! ادھر آؤ ذرا۔۔۔۔ ! ” یہ عاصم کی آواز تھی۔

٭٭

 

ڈاکٹر عاصم اُس کی زندگی میں فرشتہ بن کر آئے تھے۔ شروع شروع میں تو اُسے یقین ہی نہیں آیا کہ چائے کی ہوٹل پر بیٹھا کوئی شخص اُسے بھیک دینے کے بجائے ایک ایسی بات کہہ رہا ہے جو اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ اُس نے تو اندھیروں کو ہی اپنا مقدر سمجھ لیا تھا لیکن جب اُسے یقین آیا کہ اُس کی آنکھیں بھی دنیا دیکھ سکیں گی اُس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ عاصم ایک تجربہ کار ڈاکٹر تو تھا ہی ساتھ ساتھ اُس کی رسائی ایک ایسے ادارے تک بھی تھی جو راہِ خدا مستحق لوگوں کی آنکھوں کا علاج کرتا تھا۔ عاصم کی تجربہ کار آنکھیں پہلی نظر میں ہی بھانپ گئیں تھیں کہ نیلی کی مشکل کا حل ناممکن نہیں ہے۔

 

خوشی اور اُمید روز و شب کے حساب کو گھٹا دیتے ہیں۔ پتہ بھی نہ چلا کہ کب کاغذی کاروائیاں پوری ہوئیں اور کب وہ دن آ پہنچا کہ نیلی دن اور رات میں تمیز کرنے لگی۔ اب نیلی بے حد خوش تھی۔ وہ ایک ایک چیز کو دیکھتی اور حیران ہوتی۔ وہ اپنے تخیل کی دنیا کی ساری تصویریں حقیقی دنیا سے ملاتی اور مسکراتی۔  اُس کا تخیل کمزور نہیں تھا لیکن مکمل تصویر کاری کے لئے روشنی کتنی ضروری ہے اُسے اب اس بات کا احساس ہو رہا تھا۔

٭٭

 

پھر آہستہ آہستہ جب روشنی کی چکا چوند کچھ کم ہوئی اور زندگی معمولات کی طرف لوٹنے لگی تو اُس پر زندگی کے خد و خال آشکار ہونے لگے۔ زندگی کی رنگا رنگی رفتہ رفتہ عمومیت کی دھند میں اپنی جاذبیت کھو رہی تھی۔ نیلی کو اکثر زندگی کی بدصورتی کا احساس ہونے لگا۔ خیراتی ادارے "نورِ اُمید” سے آپریشن کے بعد جو رقم نیلی کے گھرانے کو دی گئی تھی وہ بھی اب ختم ہو رہی تھی، اُسے اور پرویز کو لامحالہ اپنے معمول پر لوٹنا تھا کہ اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔

٭٭

 

دوکانیں وہی تھیں، ہوٹلوں اور رہگزاروں پر موجود لوگ بھی کم و بیش وہی تھے لیکن اب پہلے والی بات نہیں رہی تھی۔ ایک دو دن میں ہی نیلی اور پرویز کو یہ احساس ہوگ یا کہ گھر لوٹتے ہوئے اب اتنے پیسے اُن کے پاس نہیں ہوتے کہ وہ ٹھیک سے اپنے پیٹ کی آگ بجھا سکیں۔ آج تیسرا دن تھا کہ وہ دونوں بہن بھائی شہر بھر میں مارے مارے پھر رہے تھے لیکن کوئی اُن کا پرسانِ حال نہیں تھا۔  کوئی نہیں تھا جو پوچھتا کہ دو وقت روٹی نہ ملے تو انسان کے دل پر کیا گزرتی ہے۔ زیادہ دکھ کی بات یہ تھی کہ اب نیلی اُن لوگوں کو دیکھ سکتی تھی جو اُنہیں دیکھ کر منہ بناتے تھے، نفرت اور کراہیت کا اظہار کرتے۔ شاید یہ لوگ پہلے بھی ایسے ہی کرتے ہوں لیکن تب نیلی کو یہ بدصورت مناظر نظر نہیں آتے تھے۔ پھر سب سے بڑی بات اب نیلی کے چہرے پر وہ بے نور آنکھیں نہیں تھیں کہ جنہیں دیکھ کر لوگوں کا دل پسیج جاتا اور نوٹ اور سکے ان کی جیبوں سے نکل کر نیلی کے ہاتھ میں پہنچ جاتے۔ نیلی کے لئے یہ کرب کسی طرح کم نہیں تھا اور ستم ظریفی یہ تھی کہ اب وہ یہ سب چیزیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔

 

نیلی نے ایک بار کہیں سنا تھا کہ خدا کسی سے ناانصافی نہیں کرتا، لیکن تب یہ بات اُس کی سمجھ نہیں آتی تھی۔  جب اُس کی آنکھوں میں بینائی نہیں تھی تو وہ سوچتی تھی کہ خدا نے سب کو آنکھیں دی تو مجھے کیوں نہیں دیں۔ لیکن اب اُسے احساس ہو رہا تھا کہ خدا نے جنہیں آنکھیں دی ہیں وہ صرف ظاہر کو ہی دیکھتے ہیں ، وہ آنکھوں پر ہی اعتبار کرتے ہیں اُنہیں شاید خدا نے دل نہیں دیے۔

٭٭٭

One thought on “محرومِ تماشا ۔۔ محمد احمد

  • سمت ویب سائٹ کا ایک اچھا میگزین تھا۔ یہ دیکھ کر بہت حوشی ہوئی کہ اب پھر سے نکلنے لگا ہے۔ بہت بہت مبارک ہو۔ نیا شمارہ پڑھا بہت پسند آیا۔
    نیاز مند
    عثمانہ اختر جمال

Usmana Akhtar Jamal کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے