لمحہ ۔۔۔ شبانہ یوسف

 

اَنا کے حصار سے

کبھی نکلو تو مُڑ کے اک بار تم دیکھنا

نفرتوں سے پرے، درد کے ریگ زار میں

جُدائی کی تپتی ہوئی رُت میں

یادوں کے گرداب کی ناچتی ان تہوں میں

کہیں راکھ سا کوئی لمحہ

کسی دیپ کے داغ سا کوئی لمحہ

نظر آئے تو تم سمجھنا ابھی زندہ ہوں مَیں

تمھاری رفاقت کا لمحہ سنبھا لے ہوئے

جو ٹھہرسا گیا ہے

مری آنکھ کے صحرا میں دکھ کی اک جھیل بن کر

شبِ یخ کے آنچل میں قندیل بن کر

دنو ں کی ہتھیلی پہ رکّھا ہوا ہے سلگتا شرار سا

جو دل کے نگر میں بھٹکتا ہے کچھ بے قرار سا

وہ دل کہ جہاں آج بھی خواہشیں بین کرتی ہیں

فرصت ملے تو کبھی مُڑ کے تم دیکھنا

جو مہکتا تھا دل میں کسی ادھ کھُلے سے گلاب ایسا لمحہ

وہی بن گیا ہے عذاب ایسا لمحہ

جو ہر شب مری آنکھ میں دھُل کے ڈھلتا ہے اور

جس کی آغوش میں آج بھی جسم میرا پگھلتا ہے !!!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے