’’مجھے بچا لو، مجھے بچا لو، اِس سے پہلے کہ میری سانسیں رُک جائیں اور میں مر جاؤں، مجھے ہسپتال لے جاؤ‘‘ ۔ آدھی رات کو اُس کے سینے میں درد کی لہر اُٹھی تو وہ چِلانے لگا، اُس کے بچے اپنے اپنے کمروں سے دوڑتے ہوئے اُس کے پاس آ گئے۔
’’کیا ہوا ابا؟‘‘ اُس کے بڑے بیٹے نے کہا
’’ہسپتال لے چلو مجھے‘‘ اُس نے مشکل سے جملہ مکمل کیا تھا۔
پھر اُس کے بچے اُسے سرکاری ہسپتال لے آئے تھے، جہاں ایمرجنسی وارڈ میں ڈاکٹروں کی فوری طبی امداد کے بعد اُس کا درد کچھ تھم سا گیا تھا، اُس کی حالت یوں تھی جیسے آگ پر پانی پھینک دینے سے ہلکا ہلکا دھواں دیر تک نکلتا رہتا ہے، وہ اب آکسیجن ماسک لگائے، بیڈ پر سیدھا لیٹا، چھت کو گھُورے جا رہا تھا۔
دو سال پہلے ڈاکٹروں نے اُسے دل کا آپریشن کروانے کے لیے کہا تھا لیکن اُسے آپریشن سے خوف آتا تھا، سینہ چاک ہو گیا تو سینہ بند کیسے ہو گا اور اگر ایسے میں وہ ہوش میں نہ آیا تو بے ہوشی ہی میں مر جائے گا، اگر ہوش آ گیا اور ڈاکٹروں نے اُس کا سینہ ابھی نہ سیا ہوا ہو تو وہ چاک سینے کے ساتھ کیسا محسوس کرے گا؟ عجیب سے وَہم تھے جو اُسے گھیرے رکھتے تھے اور وہ آپریشن کے نام سے بھاگتا رہتا لیکن بیماریوں کو اِس بات کی چنداں پروا نہیں ہوتی کہ آپ کس وقت کس طرح کے خوف اور وہم کا شکار ہیں، وہ آپ کا پیچھا کرتی رہتی ہیں تاکہ وہ اِس جسم کے قلعے پر فتح کا جھنڈا نصب کر سکیں۔ آدمی یہ مٹی کا بنا پتلا آخر کب تک بیماریوں کا مقابلہ کر سکتا ہے خاص کر جب آپ کے پاس بیماریوں کے خلاف لڑنے کے لیے رقم کم ہو توایسے میں فتح بیماری ہی کی ہوتی ہے۔۔۔
’’ڈاکٹر صاحب مجھے بچا لیجیے، آپریشن کے بغیرہی کچھ علاج کر دیجیے ورنہ میں اِس درد سے مر جاؤں گا؟‘‘ اُس نے ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوتے ہی وہاں موجود ڈاکٹر سے یہ کہا تھا، ڈاکٹر نے اُس ہڈیوں کے پنجر، شکل و صورت سے خستہ حال بوڑھے کی جانب یوں دیکھا تھا جیسے پوچھنا چاہ رہا ہو
’’اِس خستہ حالی میں تم آخر جی کر کرنا کیا چاہتے ہو؟‘‘
اُس نے ڈاکٹر کی نظروں میں موجود سوال کو پڑھ لیا تھا، ایسا ہی سوال بہت سال پہلے اُس نے خود سے بھی کیا تھا جب اُس کا سب سے چھوٹا بیٹا وسیم غائب ہو گیا تھا اور جس کی یادیں اب سالوں بعد اُسے بے چین کیے رکھتی تھیں۔
وسیم جب اغوا ہوا تو اُس کی عمر دس سال تھی اور وہ پانچویں جماعت میں زیرِ تعلیم تھا۔ ایک دن وہ سکول گیا اور پھر اگلے تین روز تک نہ ملا۔ مسجدوں میں اعلان ہوا، اخبار میں اشتہار دیا لیکن تین روز تک اُس کا کوئی سُراغ نہ ملا۔
اُن تین دنوں کے دوران اَن گنت افواہیں پھیل چکی تھیں، کچھ لوگ کہتے کہ انہوں نے وسیم کو ریلوے اسٹیشن کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تھا، کچھ نے اُسے دوپہر کو نہر کنارے بیٹھے دیکھا تھا اور کچھ لوگوں نے اُسے رشید کمہار کے گھر کے سامنے کھیلتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں تھیں اور ہر بات سُن کر سلیم الیکٹریشن مزید پریشان ہو جاتا اور اُسے عجیب و غریب وہم گھیر لیتے وہ سوچتا کہ
’’کہیں وہ غلطی سے ٹرین میں تو نہیں بیٹھ گیا تھا؟‘‘
’’کہیں وہ نہر میں تو نہیں ڈوب گیا؟‘‘
یہ باتیں اُسے پریشان رکھتیں وہ اِن خیالات میں گھِر کر رہ گیا تھا اُسے اپنے سب بچوں سے محبت تھی لیکن اِس چھوٹے وسیم سے تو کچھ خاص اُنسیت تھی، اِسے جنم دینے کے دو سال بعد اُس کی بیوی فوت ہو گئی تھی سو سلیم نے اپنے اِس بچے کو ماں بن کر بھی پالا تھا، اور وہ بھی اپنے باپ پہ جان چھڑکتا تھا۔ سلیم الیکٹریشن کے پاس ایک سائیکل تھی جس پر وہ اپنے بیٹے وسیم کو بٹھا کر سارے گاؤں کی سیر کراتا، جب کبھی دوسرے گاؤں میں میلہ لگتا تو وہ اِسی سائیکل پر جاتے، سائیکل میلی ہو جاتی تو وسیم کہتا۔
’’ابا دیکھیں ہماری سائیکل کس قدر میلی ہو گئی ہے، آج ہم اِس کی صفائی کریں گے‘‘ وہ پانی کی بوتل اور بُرش اٹھا کر لے آتا پھر باپ بیٹا سائیکل کو خوب رگڑ رگڑ کر صاف کرتے، جب صفائی ہو جاتی تو وہ ہمیشہ اپنے ابا سے پوچھتا
’’ابا ایسی صاف سائیکل کیا گاؤں میں کسی اور کی ہو گی‘‘
’’نہیں نہیں ایسی چمکدار سائیکل بھلا کس کے پاس ہو سکتی ہے کہ اِسے ہمارے شہزادے نے صاف کیا ہے‘‘
وسیم کو اپنے ابا کی جرابیں، ٹوپی، رو مال غرض ہر شے کا علم ہوتا کہ کہاں رکھی ہیں۔ جب سلیم اپنی کوئی چیز ڈھونڈ رہا ہوتا تو وسیم کہیں سے وہ چیز ڈھونڈ لاتا۔
’’ابا آپ کی جرابیں یہ چارپائی کے نیچے پڑی تھیں‘‘
’’ابا آپ کا رو مال باورچی خانے میں رہ گیا تھا‘‘
سلیم الیکٹریشن کو اپنے اِس بیٹے سے بے پناہ محبت تھی لیکن وہ گُم ہو گیا تھا۔
اغوا ہونے کے تین دن بعد وسیم ملا لیکن ایک لاش کی صورت جو کُوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر پڑی تھی، جسے دیکھنے کے لیے اُس کے دل اور آنکھوں میں تاب نہیں تھی لیکن زندگی کبھی کبھار انسان کو ایسے دوراہے پر بھی لا کھڑا کرتی ہے جہاں وہ منظر بھی دیکھنے پڑتے ہیں جن کے بارے سوچا بھی نہیں جا سکتا سو اُسے دیکھنا پڑا، ہنستے مسکراتے معصوم وسیم کو زخموں سے چُور ایک جسم کی صورت میں۔ اُس منظر کے بعد اُس کا دل اور آنکھیں پہلی سی نہیں رہی تھیں۔
اِس حادثے کی خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں تو صحافیوں اور میڈیا کے لوگوں نے اُس کے گھر پر دھاوا بول دیا۔ سلیم جو غم کے گہرے سمندر میں ڈوب چلا تھا، وہ چاہتا تھا کہ گریبان چاک کرے اور روتے روتے کسی ویرانے میں نکل جائے جہاں اُس سے کوئی کسی قسم کی بات نہ کرے لیکن دنیا کے پاس ان گنت سوالات تھے۔
’’تو سلیم صاحب آپ ہمیں یہ بتائیں کہ قاتل آپ کا پڑوسی تاجی تھا؟‘‘
’’کیا آپ کو تاجی پر پہلے کبھی شک پڑا تھا؟‘‘
’’کیا تاجی سے آپ کی کوئی خاص دشمنی تھی؟‘‘
’’تاجی کو لاش پھینکتے ہوئے کیا آپ نے خود دیکھا تھا؟‘‘
’’آپ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کیا اپیل کرنا چاہیں گے؟‘‘
وہ دکھ کی حالت میں کچھ سمجھتے ہوئے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے جواب دیتا رہا اور اُنہی دنوں وہ خود سے یہ سوال پوچھتا تھا جو آج ایمرجنسی وارڈ کے ڈاکٹر کی آنکھوں میں تھا۔
’’سلیم الیکٹریشن اب اور جی کر کیا کرنا ہے؟‘‘
لیکن وہ جیتا رہا، آہستہ آہستہ وقت گُزرتا گیا، بات پرانی ہوتی گئی۔ تاجی کو پولیس پکڑ کر لے گئی تھی، اُس پر مقدمہ چل رہا تھا۔ سلیم ہر پیشی پر عدالت ضرور جاتا لیکن فیصلہ اگلی پیشی تک کے لیے موخر کر دیا جاتا۔
فیصلہ نہیں آ رہا تھا اور مقدمے کو سات سال گُزر چکے تھے، اُس کے دن غربت میں کٹ رہے تھے، آمدن کم اور اخراجات زیادہ تھے، وکیل کی فیس اب اضافی بوجھ بنتی جا رہی تھی لیکن وہ انصاف کے لیے قرضہ لے کر بھی فیس ضرور ادا کرتا۔ اُس کا بڑا بیٹا جو بارہ جماعتیں پاس کر کے کئی سال سے بیروزگار پھر رہا تھا وہ ہر روز کہتا ’’ابا مجھے ٹیکسی خرید دو، میں شہر میں چلاؤں گا‘‘
بیٹی کے رشتے کے لیے لوگ آئے تو انہوں نے جہیز میں موٹر سائیکل کا مطالبہ کر دیا تھا۔
جن لوگوں سے قرض لے رکھا تھا وہ دن رات واپسی کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔
الیکٹریشن کا حوصلہ جواب دینے لگا وہ سات سال بعد پہلی بار عدالت میں پیش نہ ہو سکا۔ اخراجات کا ایک طوفان تھا جسے اُس کی ہر ماہ کی تنخواہ پورا کرنے سے قاصر تھی۔ جن سے قرض لے رکھا تھا وہ اب اِس کے خلاف مقدمہ کرنے لگے تھے کہ وہ جب بھی گھر پر آتے تو یہ بچوں سے کہتا ’’کہہ دو میں گھر پر نہیں ہوں‘‘
نوکری پر جانا اُس کے لیے تقریباً نا ممکن ہو چکا تھا۔
پھر ایک رات اُس کے دروازے پہ دستک ہوئی۔
اُس نے سوچا اِس وقت آدھی رات کو بھلا کون آ سکتا ہے، یقیناً کوئی قرض واپس لینے ہی آیا ہو گاسو دروازہ نہیں کھولتا لیکن لگاتار دستک ہوتی رہی تو وہ اُٹھا اور آہستگی سے چلتا ہوئے دروازے تک آیا
’’کو کو کو کون ہے۔۔۔۔‘‘ اُس کی آواز لرز گئی تھی
’’میں ہوں سراج۔۔‘‘ دوسری طرف تاجی کا باپ تھا۔۔۔
’’تم۔۔۔ تمہاری جرات کیسے ہوئی میرے دروازے پہ دستک دینے کی‘‘ اُس نے دروازہ کھولا اور زور سے چلایا
’’دیکھو سلیم میری بات غور سے سنو، مجھے معلوم ہے تم آج کل بہت پریشان ہو، میرے پاس اِن پریشانیوں کا حل ہے، باہر آؤ اور میری بات غور سے سنو‘‘ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی سراج کے ساتھ چل پڑا تھا۔
اِس بات کو تیس سال گُزر چکے تھے اور اب وہ عمر کے اُس حصے میں تھا جہاں راتوں کو نیند کم آتی ہے، وہ ساری رات چھت کو گھُورتا رہتا لیکن اُسے نیند نہ آتی اور اگر نیند آتی بھی تو خوابوں میں اُس کا بیٹا وسیم ہاتھوں میں نوٹوں کی گڈیاں اُٹھائے ہوئے آ جاتا اور اُس سے کہتا
’’ابا تُو نے گھاٹے کا سودا کیا تھا نا؟‘‘
وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھتا پھر ساری رات چھت کو گھورتے ہوئے گُزر جاتی لیکن اب کئی روز سے اُسے جاگتے ہوئے بھی وسیم دکھائی دینے لگا تھا، اُسی خون آلود سکول یونیفارم میں جو کوڑے کے ڈھیر پر اُس کی لاش کے ساتھ ملی تھی۔
’’وسیم تم یہاں کیسے، تم تو فوت ہو گئے تھے؟‘‘ وہ جب اپنے کمرے کی کرسی پر وسیم کو بیٹھے دیکھتا تو اُس سے پوچھتا
وسیم چلتا ہوا اُس کے قریب آتا اور اُس کے سامنے نوٹ لہرا کر کہتا۔
’’ابا اِن نوٹوں کی خوشبو کیسی ہے؟‘‘
وہ گھبرا کر منہ دیوار کی جانب کر لیتا جہاں وسیم اپنی خون آلود شرٹ تھامے کھڑا ہوتا۔۔۔
’’میرے بچے مجھے معاف کر دو۔۔۔۔ یہ حالات کا فیصلہ تھا، اِس میں میرا کوئی قصور نہیں‘‘
کئی بار جب وہ وسیم سے باتیں کر رہا ہوتا تھا تو آواز بہت اونچی ہو جاتی اور اُس کے بچے اُس سے پوچھتے کہ وہ خالی کمرے میں کس سے باتیں کر رہا ہے۔ ایک روز اُس نے اپنے بڑے بیٹے سے کہا
’’بیٹے تمہارا چھوٹا بھائی وسیم جو کئی سال پہلے فوت ہو گیا تھا، اب ہر روز اِس کمرے میں آ جاتا ہے اور وہ سامنے رکھی کرسی پہ بیٹھ جاتا ہے، میں منہ دوسرے طرف پھیر لوں تو پلنگ پر چڑھ آتا ہے، ہاتھ میں وہی خون آلود یونیفارم ہوتا ہے جو ڈھیر پر ملا تھا‘‘
’’ابا دوا وقت پر لیا کریں اور جلدی سو جایا کریں یہ سب وہم ہے آپ کا‘‘ اُس کے بیٹے نے کہا تھا۔
اُس کے دن رات اِسی طرح روتے دھوتے گُزر رہتے تھے اور آج رات اُس کے سینے میں درد کی ایک لہر اُٹھی تھی اور وہ چلا اُٹھا تھا۔۔۔
ایمرجنسی وارڈ کے ڈاکٹر کی آنکھوں میں وہی سوال تھا جو تیس برس پہلے وسیم کی گمشدگی کے تین روز میں اُس نے خود سے کئی بار پوچھا تھا لیکن وہ جیتا رہا تھا۔
’’ڈاکٹر صاحب کیا فوت ہوئے لوگ بھی نظر آ سکتے ہیں؟‘‘ اُس نے آکسیجن ماسک ہٹا کر ڈاکٹر سے پوچھا تھا
’’چاچا جی خواب میں نظر آ سکتے ہیں‘‘ ڈاکٹر نے کہا
’’نہیں نہیں بالکل ایسے سامنے جیسے آپ کھڑے ہیں، جیسے یہ میرا بیٹا نسیم کھڑا ہے بالکل ایسے ہی اور آپ ہی کی طرح باتیں بھی کر سکتے ہیں، یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کیا میں نے گھاٹے کا سودا کیا تھا؟‘‘
’’آپ نے کون سا فیصلہ گھاٹے کا کیا تھا؟‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا
’’میں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا، نہیں بالکل نہیں کیا تھا۔ میں حالات کے ہاتھوں مجبور ہو گیا تھا یہ فیصلہ حالات نے کیا تھا، یہ فیصلہ اِس بوسیدہ عدالتی نظام نے کیا تھا‘‘ وہ چیخنے چلانے لگا
سلیم الیکٹریشن کے سینے میں پھر ایک بار درد کی لہر اُٹھی تو اُس نے سینے پر ہاتھ رکھ لیا۔
ڈاکٹر نے فوری طور پر ماسک اُس کی ناک پر چڑھایا۔
اُس کی آنکھیں درد کی شدت سے بند ہونے لگی تھیں۔۔۔۔ اُس کا بڑا بیٹا نسیم، ڈاکٹر اور وارڈ کے دوسرے مریض منظر سے غائب ہونے لگ گئے تھے۔۔۔
’’رکو مجھے اکیلا مت چھوڑ کے جاؤ‘‘ یہ بات وہ کہنا چاہ رہا تھا لیکن زبان لفظوں کی ادائیگی سے محروم تھی۔۔۔
مکمل اندھیرا ہونے سے پہلے اُس نے جو آخری منظر دیکھا تھا اُس میں ایک لڑکا خون آلود سکول یونیفارم پہنے ہسپتال کے بیڈ کے کونے پر بیٹھا رو رہا تھا۔۔۔
٭٭٭