وہ نظم و ضبط کا اس طرح دھیان رکھے گا
کہیں پہ تیر کہیں پر کمان رکھے گا
وہ چھین کر مری ہر اک خوشی کہے مجھ سے
کہ میرے پاؤں میں سارا جہان رکھے گا
تعلقات میں خود بھی رہے گا مشکل میں
سدا عذاب میں مری بھی جان رکھے گا
مجھے بھروسہ ہے اپنے جمال پر لیکن
لگن کو اپنی وہ کب تک جوان رکھے گا
چلا گیا تو مٹا دے گا نقشِ پائے خیال
ہر ایک راستہ وہ بے نشان رکھے گا
فصیلِ ہجر وہ خود ہی نہیں گرائے گا
یہ تشنگی تو مرا مہربان رکھے گا
حصارِ ارض و سما ں سے نکل نہیں سکتا
وہ چاہے کتنی بھی اونچی اُڑان رکھے گا
ہزار فاصلوں سے بھی وہ زخم دے گا مجھے
کوئی تو رابطہ وہ درمیان رکھے گا
کبھی تو مجھ کو شبانہ پکارے گا آ خر
وہ کچھ تو میرے تعلق کا مان رکھے گا
٭٭٭