پیرہن گرد کا اشجار نے جب بھی پہنا
ابر کو طعنۂ بے مہری پڑا ہے سہنا
سب کی اس فکر نے اس گھر کی یہ حالت کی ہے !
’’ مجھ کو بھی کون سا اس گھر میں سدا ہے رہنا ؟‘‘
کتنی آساں ہے ترے شہر میں سچ کی تلقین
کتنا دشوار ہے اک حرف بھی سچ کا کہنا
میری آنکھوں سے بہو آنسوؤ، جتنا بھی بہو
پھر کسی اور کی آنکھوں سے نہ جا کر بہنا
جس جگہ رہن فضائیں بھی رکھی ہوں حیدر
اک غنیمت ہے وہاں سانس بھی لیتے رہنا
٭٭٭