ہمیشہ دل ہوس انتقام پر رکھا
خود اپنا نام بھی دشمن کے نام پر رکھا
وہ بادشاہ فراق و وصال ہے اس نے
جو بار سب پہ گراں تھا غلام پر رکھا
کیے ہیں سب کو عطا اس نے عہدہ و منصب
مجھے بھی سینہ خراشی کے کام پر رکھا
کوئی سوار اٹھا ہے پس غبار فنا
قضا نے ہاتھ کلاہ و نیام پر رکھا
کسی نے بے سر و پائی کے باوجود مجھے
زمین سجدہ و ارض قیام پر رکھا
٭٭٭
گئے تھے وہاں جی میں کیا ٹھان کر کے
چلے آئے ایران توران کر کے
اگر دل کا بالفرض گل نام پڑ جائے
تو پھر ہے یہ سینہ گلستان کر کے
دیا ہم نے دل ان پری چہرگاں کو
زروئے قیاس آدمی جان کر کے
یہ دنیا ہمیں خوش نہ آئے گی پھر بھی
رہیں خواہ خود کو سلیمان کر کے
ترے غم میں جس سے مژہ تر کروں ہوں
وہ اک قطرہ ہے قلزمستان کر کے
دکھا ہی دیا آخرش اہل دل نے
اسی دانے سے کھیت کھلیان کر کے
یہ کیا چیز تعمیر کرنے چلے ہو
بنائے محبت کو ویران کر کے
میاں ہم تو جاویدؔ کو لے گئے تھے
دیا ہی نہیں اس نے پہچان کر کے
٭٭٭