غزلیں ۔۔۔ ڈاکٹر فریاد آزرؔ

نہ ہو گر خوفِ دوزخ اور نہ لالچ بھی ہو جنت کا
بھرم کھل جائے پھر ہم جیسے لوگوں کی عبادت کا

ملا تھا کل جسے رتبہ جہاں کی بادشاہت کا
تماشا بن چکا ہے آج وہ خود اپنی عبرت کا

خدا کو اتنے چہروں میں کیا تقسیم بندوں نے
بڑی مشکل سے آتا ہے نظر امکان وحدت کا

جہاں روحانیت اپنی حدوں کو ختم کرتی ہے
وہیں آغاز ہوتا ہے بدن کی لازمیت کا

تو کیا جذبے تھے بس ایوانِ بالا تک پہنچنے کے
خلافت مل گئی تو پھر نہ پوچھا حال امت کا

تو پھر اقوامِ متحدہ میں بھی جمہوریت لائے
اگر سچ مچ ہی دشمن ہے وہ ظالم آمریت کا

بڑا خود دار تھا کچھ مانگنے میں شرم آتی تھی
لہٰذا وہ چرا لاتا تھا ہر ساماں ضرورت کا

مرے اشعارِ بے معیار جیسے بھی ہیں اچھے ہیں
نہیں محتاج میں آزرؔ فصاحت کا، بلاغت کا
٭٭٭
اس تماشے کا سبب ورنہ کہاں باقی ہے
اب بھی کچھ لوگ ہیں زندہ کہ جہاں باقی ہے

اہلِ صحرا بھی بڑھے آتے ہیں شہروں کی طرف
سانس لینے کو جہاں صرف دھواں باقی ہے

زندگی عمر کے اس موڑ پہ ٹھہری ہے جہاں
سود ناپید ہے، احساسِ زیاں باقی ہے

ڈھونڈتی رہتی ہے ہر لمحہ نگاہِ دہشت
اور کس شہرِ محبت میں اماں باقی ہے

میں کبھی سود کا قائل بھی نہیں تھا لیکن
زندگی اور بتا کتنا زیاں باقی ہے

مار کر بھی مرے قاتل کو تسلی نہ ہوئی
میں ہوا ختم تو کیوں نام و نشاں باقی ہے

ایسی خوشیاں تو کتابوں میں ملیں گی شاید
ختم اب گھر کا تصور ہے، مکاں باقی ہے

لاکھ آزرؔ رہیں تجدید غزل سے لپٹے
آج بھی میرؔ کا اندازِ بیاں باقی ہے
٭٭٭
دل نے اچھائی، برائی کو بس اتنا سمجھا
یعنی گر خود کو برا سمجھا تو اچھا سمجھا

ہم سمجھنے لگے مجرم ہے ہمیں میں کوئی
حادثہ ایسا رچایا گیا سوچا سمجھا

اور چارہ بھی نہ تھا اس کے علاوہ کوئی
ہم نے اس دور میں قاتل کو مسیحا سمجھا

اب سمندر پہ وہ چلتا ہے تو حیرت کیسی
عمر بھر اس نے سرابوں کو ہی دریا سمجھا

مجھ کو سیلاب نے سمجھایا زمیں پیاسی تھی
زلزلہ آیا، تو میں نے ترا غصہ سمجھا

اب تو وہ آگ ہیولوں سے بھی آگے ہے بہت
تو نے انساں کو فقط خاک کا پتلا سمجھا

قصۂ درد سنا سب نے مرا، سچ ہے مگر
یہ بھی سچ ہے کہ سبھی نے اسے قصہ سمجھا

مات دی میں نے جو شیطاں کو بھی عیاری میں
پھر مجھے سارے زمانے نے فرشتہ سمجھا

عمر بھر خامۂ تنقید نے مانا مردہ
بعد از مرگ مجھے اس نے بھی زندہ سمجھا

جب مرے خواب حقیقت میں نہ بدلے آزرؔ
میں نے دنیا کی حقیقت کو بھی سپنا سمجھا
٭٭٭

جہاں کے واسطے سامانِ عبرت کر رہے ہیں
ہم اپنے نفس کی ایسی اطاعت کر رہے ہیں

کسی کو ایک ہی سجدہ میں جنت مل گئی ہے
مگر کچھ لوگ صدیوں سے عبادت کر رہے ہیں

ابھی فرصت نہیں مرنے کی ہم لوگوں کو شاید
ابھی ہم لوگ جینے کی حماقت کر رہے ہیں

حقیقت اس قدر سنگین ہوتی جا رہی ہے
نگاہوں سے سنہرے خواب ہجرت کر رہے ہیں

نہیں مرغوب مردہ بھائیوں کا گوشت کھانا
تو ہم پھر کس لئے غیبت پہ غیبت کر رہے ہیں

بھروسا اٹھ گیا جنت سے کیا اہلِ زمیں کا
اسی دنیا میں ہی تعمیر جنت کر رہے ہیں

ہمارے صبر کا انداز بدلا جا رہا ہے
تو کیا ہم اپنے قاتل کی حمایت کر رہے ہیں؟

بزرگوں کی کبھی خدمت نہ کر پائے تھے آزرؔ
سو اپنے آپ کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے