غزلیں ۔۔۔ مظفر حنفی

(کلیات ’چنیدہ‘ سے)

یہ چمک زخم سر سے آئی ہے
یا ترے سنگِ در سے آئی ہے

رنگ جتنے ہیں اس گلی کے ہیں
ساری خوشبُو ادھر سے آئی ہے

سانس لینے دو کچھ ہَوا کو بھی
تھکی ماندی سفر سے آئی ہے

دینا ہو گا خراجِ ظلمت کو
روشنی سب کے گھر سے آئی ہے

نیند کو لوٹ کر نہیں آنا
روٹھ کر چشمِ تر سے آئی ہے

آپ کو کیا خبر کہ شعروں میں
سادگی کس ہنر سے آئی ہے
٭٭٭

میں چراغِ سحر ٹمٹماتا ہوا
بجھ گیا تو زیادہ اُجالا ہوا

دوسرے لوگ گھر پھُونکنے آئے تھے
میرا دروازہ سیلاب پر وا ہوا

قدر فردا کی کم ہو گئی حال میں
حال ماضی بنا تو سنہرا ہوا

میری آنکھوں میں بھی امن کا خواب ہے
سوختہ باپ دادا کا دیکھا ہوا

بلبلاتے تھے بچے وہاں بھوک سے
بستیاں جل گئیں تو بُرا کیا ہوا

حال پُوچھا نہیں ورنہ کیا کہتے ہم
اُس نے دیکھا نہیں اور اچھا ہوا
٭٭٭

بادل ہو گا بِن موسم کا ، میں جو ہوں
آنکھوں سے برسات کروں گا میں جو ہوں

ریگستان میں کالی رات ، اکیلا مَیں
تارا جُگ جُگ کرتا بولا میں جو ہوں

نقشِ قدم سا کیا بیٹھا ہے آگے چل
سر دھُنتا ہے ایک بگولا ، میں جو ہوں

میرا خُون رَوا ہے تیرے نیزے کو
بھُول گیا کیا تیر چلانا ، میں جو ہوں

تیرا ہی گن گان کروں گا چاروں اور
قریہ قریہ ، دریا دریا میں جو ہوں

دَوڑا آیا لُو کا جھونکا ، میں ہُوں نا
اِک ڈالی پر سُوکھا ساکھا میں جو ہوں

اب کیا سوچوں تھم کر اپنے بارے میں
تیز ہَوا میں اُڑتا پتّا میں جو ہوں
٭٭٭

دروازے پر تھا پردہ
لیکن تم سے کیا پردہ

کرنیں پھوٹی پڑتی تھیں
جھلمل جھلمل سا پردہ

معنی لفظوں کو زنجیر
لفظ معانی کا پردہ

باغی تھے سارے کردار
پھر کیسے اُٹھتا پردہ

رنگوں اور لکیروں نے
مِل کر فاش کیا پردہ

یادیں پھر سرکاتی ہیں
راتوں کا کالا پردہ

دَر دَر آنکھ سوالی ہے
وہ چہرہ پردا پردہ
٭٭٭

مہیب جنگل میں رات کا دَم نکل رہا ہے
کہ دُوج کا چاند بھی مرے ساتھ چل رہا ہے

کسی نے غرقاب ہوکے دریا کی لاج رکھ لی
کوئی کنارے کھڑا ہوا ہاتھ مل رہا ہے

وہ آبدیدہ ہے حالت زار پر ہماری
کسے یقین آئے گا کہ پتھر پگھل رہا ہے

گھلی مِلی ہے ہَوا میں بارود کی مہک بھی
ہرن پیاسا ہے اور چشمہ اُبل رہا ہے

کھڑے نہ ہو جائیں ہم کہیں پینترا بدل کر
زمانہ ہم سے بہت نگاہیں بدل رہا ہے

اُڑو کہ اِک زلزلہ سا ہے بال و پر میں رقصاں
رکو کہ موسم خراب ہے دن بھی ڈھل رہا ہے

غزل کہو اور خوب جم کر کہو مظفرؔ
بہت دِنوں سے کوئی کلیجہ مسل رہا ہے
٭٭٭

اُفق تک دھُوپ کے خنجر برہنہ
مظفرؔ پا برہنہ ، سر برہنہ

بہت حسّاس ، بے حد نرم دل تھا
بھٹکتا ہے وہ سڑکوں پر برہنہ

نہیں ہیں ہاتھ فنکاروں کے محفوظ
یدِ بیضا ابھی مت کر برہنہ

ہر اِک آئینہ ہے حیران و ششدر
کھڑی ہے فکرِ شیشہ گر برہنہ

سرِ منبر جسے دیکھو پیمبر
سبھی حمّام کے اندر برہنہ

تری آنکھوں پہ پٹّی مصلحت کی
مرا لاشہ لہو میں تر برہنہ

کھنچا ہے بیچ میں حُرمت کا پردہ
نظر بے باک ، پس منظر برہنہ
٭٭٭

ہونٹوں ہونٹوں جڑی خموشی
گویائی سے بڑی خموشی

دیکھو میں بکھرا جاتا ہوں
یارو بس دو گھڑی خموشی

مصنوعی رونق کے دل میں
نیزے جیسی گڑی خموشی

آندھی جیسا کچھ سینے میں
اور گلے میں اَڑی خموشی

لاکھوں قیدی چیخیں اندر
دروازے پر کھڑی خموشی

بچّے کی کلکاری سن کر
منہ کے بل گر پڑی خموشی

دیکھ مظفرؔ توڑ نہ دینا
موتی کی سی لڑی خموشی
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے