غنچوں سے، کہکشاں سے، صدف سے پکارنا
اس کا مجھے چہار طرف سے پکارنا
اچھا تو آپ دیکھنا چاہیں گے اصلیت
قاتل کو جاں نثاروں کی صف سے پکارنا
گھر جل رہا ہے اور بجھاتا نہیں کوئی
سیلاب کو ہماری طرف سے پکارنا
پھر ملکۂ بہار کا مجھ گرد باد کو
لہرا کے شاخ جام بہ کف سے پکارنا
ہمت بڑھا رہا ہے مظفرؔ وہ معجزہ
سچائی کا وہ مشتِ خزف سے پکارنا
٭٭٭
دوب جاتا ہے یہاں، تیرنا آتا ہے جسے
وہ کبھی ناؤ تھی، دریا لیے جاتا ہے جسے
تیرا سایہ ہے لرزتا ہے جسے دیکھ کے تو
اور آئینہ ہے تو آنکھ دکھاتا ہے جسے
باغباں بھی ہے یہی وقت، یہی گلچیں بھی
توڑ لیتا ہے وہی پھول، اگاتا ہے جسے
ساری بستی پہ نہ لے آئے وہ آفت کوئی
کون ہے کوہِ ندا، روز بلاتا ہے جسے
ہم تو خوشبو کی طرح خود ہی بکھر جاتے ہیں
تم وہ دیوار کہ مزدور اٹھاتا ہے جسے
یہ چمکتی ہوئی آنکھیں، یہ دمکتے ہوئے لب
ہے کوئی بات، ستم گر سے چھپاتا ہے جسے
٭٭٭