سیدھا پہن لیا کبھی اُلٹا پہن لیا
اُترا جو اک نقاب تو دُوجا پہن لیا
پھِرتا رہا ہُجوم کی رعنائیوں سے دور
تَن پر اُداسیوں کا لبادہ پہن لیا
صحرا بنا تو پیاس کی چادر لپیٹ لی
گرمی لگی تو اَبر کا سایہ پہن لیا
جینے کی راہ چھوڑ کر آگے نکل گیا
مرنے لگا تو موت کا رستہ پہن لیا
مجھ کو پکارتی رہیں رستے کی گردشیں
پیروں میں گردباد کا جوتا پہن لیا
بیٹھا تمام شب میں یہی سوچتا رہا
کیونکر لباس زیست کو الٹا پہن لیا
اپنی بیاضِ زندگی پڑھنے لگا مگر
لفظوں نے اضطراب کا چولا پہن لیا
امبر نے آفتاب کا گہنا اتار کر
اپنے گلے میں چاند کا ہالہ پہن لیا
حیرت سے آئینہ بھی عمر پوچھنے لگا
تُو نے یہ آج کون سا چہرہ پہن لیا؟
٭٭٭
جب سے سیکھا ہے گفتگو کرنا
شعر کہنا، زباں لہو کرنا
یہ ہنر تیرے ہجر میں سیکھا
کس طرح پیرہن رفو کرنا
یہ بھی تو زندگی کا حصہ ہے
ہر گھڑی ان کی آرزو کرنا
اُن کی محفل میں با وضو ہو کر
بیٹھنا اور جستجو کرنا
ہم کو حیرت میں ڈال دیتا ہے
اُن کا آنکھوں سے گفتگو کرنا
ہم نے دیکھا ہے دیکھنا اُن کا
پھر بھلا کیوں یہ جستجو کرنا؟
اب ترا ذکر ہو بہاروں سے
اب ترا ذکر کو بہ کو کرنا
وہ بھی نکلے نئی مسافت پر
تم بھی رستہ لہو لہو کرنا
جب وہ نکلے افق پہ شام ڈھلے
تو مجھے اس کے رو برو کرنا
٭٭٭