مسلسل
اپنا سمجھیں، نہ پرایا سمجھیں
دل کو دنیا کی طرح کا سمجھیں
دل کی اپنی ہی سمجھ ہوتی ہے
جو فقط ذہن ہیں، وہ کیا سمجھیں
اتنے ناداں بھی نہیں ہیں ہم لوگ
دھوپ ہو اور اسے سایا سمجھیں
اتنے سادہ بھی نہیں ہیں ہم لوگ
کسی دیوار کو رستا سمجھیں
اتنے تشنہ بھی نہیں ہیں ہم لوگ
غیر کے جام کو اپنا سمجھیں
ہم تو وہ لوگ ہیں، انداز شناس
بات کم ہو تو زیادہ سمجھیں
ہم تو وہ لوگ ہیں، اے قریۂ حرف
جو ہر اک رمز و کنایہ سمجھیں
ہم تو وہ لوگ ہیں جن سے یہ لوگ
زیست کرنے کا طریقہ سمجھیں
پھر بھی کچھ ہے جو نہیں ہے بس میں
بس یہ تقدیر کا لکھا سمجھیں
یہ جو صحرا ہے تہ آب رواں
اب مری ذات کا حصہ سمجھیں
یہ جو زرناب پتاور ہے، اسے
سبز رہنے کا نتیجہ سمجھیں
یہ جو شب تاب دریچہ ہے مرا
سانس لینے کا وسیلہ سمجھیں
کچھ دھڑکنے کی صدا آتی ہے
خواب خفتہ تجھے زندہ سمجھیں ؟
کہہ رہے ہیں مرے بیتے موسم
اپنے ماضی کو بس آیا سمجھیں
دل پہ آتا ہے کسی ہاتھ کا لمس
جب بھی ہم خود کو اکیلا سمجھیں
آنکھیں ہر گل پہ ٹھٹک جاتی ہیں
ہر کسی کو ترا چہرا سمجھیں
شام اک نام پہ کھِل اٹھتی ہے
اسم سمجھیں کہ ستارہ سمجھیں
ایک آہٹ جو چلی آتی ہے
خود کو کس طرح سے تنہا سمجھیں
ایک بھولی ہوئی خوشبو مجھ سے
کہہ رہی ہے مجھے تازہ سمجھیں
بات کرتے ہوئے رک جاتا ہوں
آپ اس بات کو پورا سمجھیں
دل کو اک عمر سمجھتے رہے ہم
پھر بھی اک عمر میں کتنا سمجھیں
٭٭٭
کیسا طویل ہجر تھا پھر بھی گیا نہیں ہے تو
مجھ سے الگ سہی مگر مجھ سے جدا نہیں ہے تو
تو مری کائنات میں مجھ پہ گزرتا وقت ہے
چاہے مرے سوا بھی ہو میرے سوا نہیں ہے تو
یہ کوئی اور پیار تھا وہ کوئی اور عشق ہے
تو مری جان ہے مگر میرا خدا نہیں ہے تو
بھید کبھی نہ کھل سکے تجھ پہ قدیم شہر کے
ہو کے گزر گیا مگر مجھ میں رہا نہیں ہے تو
پھر وہی اک سوال ہے، میرا عجیب حال ہے
تو کبھی تھا بھی یا نہیں ? خواب ہے یا نہیں ہے تو
خون میں جو فشار ہے ‘ کیا کوئی پہلی بار ہے ؟
پاؤں پسار ! موج کر ! ‘ دل میں نیا نہیں ہے تو
سارے وصال یافتہ ہجر کنندگاں میں ہیں
جن کو بھی مل گیا یہاں ان کو ملا نہیں ہے تو
تو مرے اور عشق کے بیچ کہاں سے آگیا
ہے تو ضرور تُو یہاں پر بخدا نہیں ہے تو
نقش کھرچ کے رکھ دئیے وقت کی تیز دھار نے
بات تو دکھ کی ہے مگر مجھ میں بچا نہیں ہے تو
٭٭٭