خواب جینے نہیں دیں گے تجھے خوابوں سے نکل
وقت برباد نہ کر رائے گاں سوچوں سے نکل
دشت امکان میں دریا بھی ہے بادل بھی ہیں
شرط بس اتنی ہے تو اپنے سرابوں سے نکل
ایک بے رنگ سی تصویر بنا لے خود کو
رنگ یکساں نہیں رہتے کبھی رنگوں سے نکل
ورنہ تو اپنے ہی اندر کہیں بجھ جائے گا
کھل کے اب سامنے آ اپنے اندھیروں سے نکل
شب نے سورج سے کہا یہ تو نہیں تیرا مقام
چل بلندی کی طرح لوٹ نشیبوں سے نکل
ترے ہونے کا تجھے بھی تو ہو احساس کوئی
ایک کونپل کی طرح اپنی ہی شاخوں سے نکل
اب وہ گرداب کی کشتی کی کہانی نہ سنا
تجھ کو ساحل پہ پہنچنا ہے تو موجوں سے نکل
اک نہ اک روز سمندر کا سفر کرنا ہے
اپنے احساس کے محدود جزیروں سے نکل
٭٭٭
پھر سے کوئی منظر پسِ منظر سے نکالو
ڈوبے ہوئے سورج کو سمندر سے نکالو
لفظوں کا تماشا تو بہت دیکھ چکے ہم
اب شعر کوئی فکر کے محور سے نکالو
گر عشق سمجھتے ہو تو رکھ لو مجھے دل میں
سودا ہوں اگر میں تو مجھے سر سے نکالو
میں کب سے صدا بن کے یہاں گونج رہا ہوں
اب تو مجھے اس گنبدِ بے در سے نکالو
وہ درد بھری چیخ میں بھولا نہیں اب تک
کہتا تھا کوئی بت مجھے پتھر سے نکالو
یہ شخص ہمیں چین سے رہنے نہیں دے گا
تنہائیاں کہتی ہیں اسے گھر سے نکالو
٭٭٭