سو تم دیوار پر لکھا ہوا پڑھنے کے ماہر ہو !
سُنو میں بھی کسی دیوار پر لکھا ہوا ایسا نوشتہ ہوں
جسے پڑھنے بڑی مدت سے کوئی بھی نہیں آیا
مجھے بھی یاد ہے میں بھی حسیں لمحوں میں کھیلا تھا
مری آنکھوں کے خالی پن نے وہ موسم بھی دیکھے تھے کہ جس موسم میں غنچے کھلکھلا کر بات کرتے تھے
یہ میرے کھردرے ہاتھوں میں اک ایسا ہنر بھی تھا کہ میں بس ہاتھ رکھتا تھا تو کوزے خود بخود تجسیم ہوتے تھے
مگر دیوار کے اُس پار جو کچھ رہ گیا سو رہ گیا، کچھ بھی نہیں باقی
مُجھے دیکھو ! میں اپنے عہد کی ردی میں اک مدت سے زندہ ہوں
مرا چہرہ کسی ویران قبرستان کی اُجڑی ہوئی قبروں کا وہ بے نام کتبہ ہے کہ جس پر وحشتوں کے بین چسپاں ہیں
عجب اک دائرہ ہے زندگی اور دائرہ بھی نامکمل ہے
مجھے اب دائرے کی اس مسافت سے نکلنا ہے
وہ ہو جائے جو ہونا ہے
مجھے اب کھُل کے سونا ہے
٭٭٭