(ہندو دھرم کی وہ رسم جس کے ذریعہ دھرم سے پھر جانے والے شخص کو دوبارہ ہندو بنایا جاتا ہے شدھی کہلاتی ہے )
_______________________________________________
پنڈت سدانندؔ شاستری جی نے مونڈھے پر بیٹھے بیٹھے کچھ سوچ کر جو زور سے ’’ہوں ں ں ‘‘، کی تو ان کی وقت سے پہلے سفید ہوئی بڑی سی لہریا مونچھ تھر تھرا کر رہ گئی اور رام چند پانڈے بھی اس ’’ہوں ں ں ‘‘، کی گمبھیرتا پر چونک پڑے۔ ویسے یہ مونچھ پنڈت جی کے سرخ و سفید گول چہرہ پر سیاہ چمکدار آنکھوں کے درمیان خوب سجتی تھی۔ پنڈت سدا نندؔ شاستری جی نکلتے قد، دہرے بدن اور چوڑی ہاڑ کے وجیہ آدمی تھے۔ کھلتا ہوا رنگ، گھٹے سر پر اصلی چنبیلی کے تیل کی چمک، آنکھوں پر سنہری کمان کا گول شیشوں کا چشمہ اور ماتھے پر انگلی بھر موٹاترسولدار چندن کا تلک ان کی شخصیت کو دلچسپ اور رعب دار بناتے تھے۔ بدن پر ہمیشہ گیروے رنگ کا گھٹنوں تک کا کرتا اور اس پر کھدر کی خالص بنارسی ڈھنگ کی دھوتی پہنے رہتے تھے۔ پیروں میں کھونٹی دار کھڑاؤں اور گلے میں بڑے بڑے کالے منکوں کی مالا پہن کر جب وہ کھٹ کھٹ کرتے راہ سے گذرتے لوگ دور سے آواز سن کر نمسکار کرنے اور آشیرواد لینے کو کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔
پنڈت جی سائیں بابا مندر کے پجاری تھے۔ رامائن کا پاٹھ اور ستیہ نارائن کی کتھا کے لئے دور دور تک مشہور تھے۔ گیانی آدمی تھے مگر غرور چھو کر بھی پاس سے نہیں گذرا تھا۔ ہر ایک سے پریم اور خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔ زیادہ وقت پوجا پاٹھ اور لوگوں کی سیوا میں گذارتے تھے۔ دل کے بہت نرم اور زبان کے اتنے ہی میٹھے تھے۔ چنانچہ کیا چھوٹا کیا بڑا ان سے عزت اور پیار کا سلوک کرتا تھا۔ پنڈت جی اس علاقہ کی دھارمک سنستھا کے پرمکھ چالک بھی تھے اور اس وقت وہ دو اور ممبروں کے ساتھ رام چند پانڈے کے برآمدہ میں بیٹھے اس گمبھیر مسئلہ پر سوچ بچار کر رہے تھے جس نے پچھلے چند مہینوں سے محلہ کی بہت سی بے لگام زبانوں کو آزادی سے دوسروں پر الزام لگانے اور دھرم کی سخت خطرہ میں گرفتاری کا اعلان کرنے کا موقع فراہم کر رکھا تھا۔
ان کے دوسرے ساتھی لالہ سری پتؔرام تھے جو چوک میں بھوسے اور جلونی لکڑی کی آڑھت کا کام کرتے کرتے سٹھیا سے گئے تھے۔ سیاہ رنگ، چھوٹے قد اور گول مٹول بدن کے لالہ جی ہر وقت کھوئے کھوئے سے رہتے تھے۔ لڑکے انہیں سرپٹؔرام کہہ کر چڑاتے تھے۔ شروع شروع میں تو وہ برا مان کر غصہ میں گالی دے لیا کرتے تھے مگر اب وہ اس قدر عادی ہو چکے تھے کہ چھوٹے بڑے سب انہیں سرپٹؔکاکا کے نام سے پکارتے تھے اور وہ ذرا بھی برا نہیں مانتے تھے۔ اس وقت وہ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پیالی میں چونا اوردیسی تمباکو کی چینوٹی دائیں انگوٹھے سے کھسر کھسر گھس رہے تھے اور پنڈت سدا نندؔ کا منھ چندھی چندھی آنکھوں سے دیکھ کر یوں گردن ہلائے جا رہے تھے جیسے تمام مقدمہ ان کی سمجھ میں آ رہا ہو۔ اور واقعہ یہ تھا کہ لکڑی اور بھوسہ کی آڑھت کے علاوہ بیشتر باتیں ان کے کھچڑی سر کے اوپر سے یونہی گذر جاتی تھیں۔
مول چند سریواستو اس تکون کا تیسرا کونا تھے۔ وہ قریب کی کاٹن مل میں کلرک تھے۔ پوجا پاٹھ اور ساتھ ہی لیڈری کا بہت شوق تھا۔ چنانچہ مندر کے کام میں ہمیشہ پیش پیش رہا کرتے تھے۔ ہولی، دیوالی اور رام نومی سے لے کر رام لیلا اور دسہر ہ تک مندر سجانے، پوجا کرانے اور پرساد بانٹنے اور کھانے میں نہایت چوکس تھے۔ انہیں لیڈری کے شوق کی بدولت دوسروں کے پھٹے میں پاؤں اڑانے کا لپکا ہو گیا تھا۔ خود چونکہ دھرم گیا ن سے کورے تھے اس لئے پنڈت سدا نند جی کی چھتر چھایا میں ڈیرہ ڈالے رہتے تھے اور ان کے مضبوط کندھے پر اپنی کمزور سی بندوق چلانے کی فکر میں رہا کرتے تھے۔ پنڈت جی بھی اپنی سادہ دلی اور ان کی طلب کے تقاضہ پر انہیں اکثرساتھ لے لیا کرتے تھے۔
سرپٹکاکا نے دائیں ہاتھ سے بائیں ہتھیلی پر دو چار تھپکی دے کر فاضل چونا اُڑایا اور پھر تمباکو نچلے ہونٹ کے پیچھے رکھ کر بولے : ’’پانڈے جی ! ای ماملہ بہوت گمبھیر ہے بھائی۔ سارا محلہ تِہار کھلاپ ہوئی گوا ہے۔ بائیکاٹ پر اُتارو ہیں لوگ بائیکاٹ پر، ہاں ں ! پنڈت جی مہاراج بھی کا کریں۔ کوؤ بات سننے کو تیار ناہیں ہے۔ دھرم شاستر سے کون جوکھم لے سکت ہے بھیا؟‘‘
سرپٹ کاکا نے یہاں پہنچ کر دونوں کانوں پر ہاتھ دھر کر دونوں چندھی آنکھیں ٹھنڈی سانس بھر کر آسمان کی طرف اٹھا دیں۔
پانڈے جی بائیکاٹ کا سن کر گھبرا گئے۔ ویسے بھی وہ ان لوگوں کی مسلسل جرح سے بے حال ہو رہے تھے۔ اب بائیکاٹ کی دھمکی سنی تو دل اور پریشان ہو گیا۔ کمرہ میں کھلنے والے کواڑ کے پیچھے سے اچانک آنے والی چوڑیوں کی کھنک نے انہیں چونکا دیا۔ بسنتی آڑ میں بیٹھی چندا کو دودھ پلا رہی تھی اور اس نئی مصیبت نے شاید اس کو کروٹ بدلنے پر مجبور کر دیا تھا۔ پانڈے جی ابھی جواب سوچ ہی رہے تھے جی سریواستو جی نے وار کیا:
’’سنا ہے آپ کی بیٹی کا نام چاند سلطانہ ہے ؟ یہ کیسا مسلمانی نام رکھ ا ہے اس کا آپ نے ؟‘‘
پانڈے جی سنبھل کر بولے : ’’ہماری بیٹی کا نام چندرما دیوی ہے۔ رمجانی بابو کی پتنی سلمہ اس کو چاند سلطانہ کہتی ہیں۔ ویسے سب لوگ اس کو پیار سے چندا بلاتے ہیں۔ اس میں ایسی کون سی بری بات ہے ؟‘‘ ان کا لہجہ کچھ گرم ہو چلا تھا۔ انہیں سماج کے ان ٹھیکیداروں پر اب غصہ آ رہا تھا جو کسی کو خوش نہیں دیکھ سکتے تھے۔
سری واستو جی نے پنڈت سدانند جی کی طرف مسکر ا کر دیکھا مگر وہاں سے جوابی مسکراہٹ نہ ملنے پر کچھ کھسیا سے گئے۔ اپنی ٹھوڑی پر بڑی سنجیدگی سے ہاتھ پھیر کر انہوں نے فاتحانہ انداز میں پوچھا:’، چلیں بیٹی کا نام چندرما دیوی ہی مان لیتے ہیں۔ پرنتو ہم نے تو یہ بھی سنا ہے کہ وہ رمجانی بابو کی پتنی کا دودھ بھی پیتی ہے۔ ہے رام! یہ تو بالکل دھرم بھرشٹ کرنے والی بات ہوئی!‘‘
سری واستوجی کے اس سوال پر پانڈے جی بکھر ہی تو گئے۔ ان کے سیدھے سادے انسان دوست ذہن میں دھرم، ادھرم، نشٹ، بھرشٹ کی الجھنیں کب تھیں جو اس نا معقول جرح کی باریکیوں کو وہ سمجھتے اور اگر سمجھ بھی لیتے تو وہ انہیں ماننے کو کب تیار تھے ؟
انہوں نے ذرا تیوری چڑھا کر کہا: ’’ سری واستو جی ! آپ سب کو معلوم ہے کہ چندا رمجانی بھائی کے گھر میں پل رہی ہے اور ان کی بیٹی انجم ہمارے گھر کیسے رہتی ہے۔ یہ بھگوان کی دیا ہے کہ دونوں بچیاں بسنتی اور سلمہ دیدی کو اپنی مائیں سمجھتی ہیں۔ بھوک لگنے پر جو بچی جہاں ہوتی ہے وہیں دودھ پی لیتی ہے۔ نہ انجم میری پتنی کا دودھ پی کر ہندو ہو جاتی ہے اور نہ چندارمجانی بھائی کی بیوی کا دودھ پی کر مسلمان! آپ لوگوں کو یہ پریم اور بھائی چارہ کیوں نہیں دکھائی دیتا جو ان گھروں میں ہے ؟ یہ جھگڑا کھڑا کرنے سے آپ لوگوں کو کیا ملے گا؟‘‘
پنڈت سدانند جی نے مناسب سمجھا کہ اب معاملہ اپنے ہاتھ میں لے کر ٹھنڈا کرنے کی کوشش کریں۔ وہ اس بحث اور صورت حال سے خوش نظر نہیں آتے تھے۔ ایک طرف ان کے دل کی نرمی اور محبت تھی جو اس مسئلہ سے چشم پوشی کر کے انہیں پانڈے جی کو ان کے حال پر چھوڑ دینے پر اکسا رہی تھی اور دوسر ی جانب ان کا دھرم، گیان، مندر میں ان کا مقام اور سماج کے تقاضے تھے جن کے نزدیک رواداری اور درد مندی سے زیادہ اہم وہ بے لچک اور عقل سے کورے قانون تھے جو ہزاروں سال پہلے کسی شخص نے لکھ دئے تھے اور جن پر بے سوچے سمجھے عمل کرنا لوگوں نے دھرم بنا رکھا تھا۔
وہ رام چندر پانڈے سے مخاطب ہوئے تو ان کے چہرہ اور الفاظ سے ان کے دل کا درد اور ان کی مجبوری صاف ظاہر ہو رہی تھی : ’’پانڈے جی! آپ جو کہہ رہے ہیں وہ انسانیت کے ناتے ٹھیک معلوم ہوتا ہے مگر محلہ کے لوگ کہتے ہیں کہ اگر اسی طرح کا سمبندھ ہو تا گیا تو دھرم کا کیا ہو گا؟ ہو سکتا ہے کہ آگے چل کر ہندو مسلمان آپس میں شادی بیا ہ کرنے لگیں، پھر کیا ہو گا؟ آپ کو معلوم ہے کہ میں آپ کا یا کسی اور کا دشمن نہیں ہوں۔ پر کیا کروں کہ جو کچھ شاستروں میں لکھا ہوا ہے اس کو توڑ نہیں سکتا۔ آپ ہندو ہیں اور پھر برہمن۔ آپ کی بچی مسلمان کے گھر میں پل رہی ہے، مسلمان استری کا دودھ پیتی ہے اور معلوم نہیں کیا کیا اسے چکھنے چکھانے کو ملتا ہو گا۔ یہ سب باتیں ہندو دھرم کو بھرشٹ کرنے والی ہیں۔ دھارمک سنستھا نے اسی لئے مجھے یہاں بھیجا ہے کہ ہم لوگ آپ کو سمجھائیں اور آپ کی بچی کو پھر سے ہندو دھرم میں واپس لائیں۔ ‘‘،
پانڈے جی نے یہ سوچ کر کہ معاملہ جتنی جلدی نمٹ جائے اچھا ہے، اپنا لہجہ نرم بنا کر پوچھا: ’’تو آپ لوگ کرنا کیا چاہتے ہیں ؟ پنڈت جی! آپ نے کچھ نہ کچھ راستہ نکالا ہی ہو گا؟‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (۲)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
رام چندر پانڈے کو جب رمضان علی بابو کا پڑوس کا مکان ملا تھا تو چند ہی دنوں میں دونوں گھروں میں تعلقات قائم ہو گئے تھے۔ دونوں سیدھے سادے، در د مند آدمی تھے۔ مذہب اور دھرم کے فرق، ہندو مسلم سیاست اور خواہ مخواہ کے جھگڑوں سے دونوں نفرت کرتے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ ہوئی کہ دونوں کی بیویاں ایسی گھل مل گئیں کہ جو تھوڑی بہت اجنبیت دنیا داری کے تقاضوں سے رہ جاتی وہ بھی نہ رہی۔ اتنا ضرور ہوا کہ پانڈے جی رمضان علی کو سب کی طرح رمضان بھائی تو کہتے تھے لیکن ان کے گھر کا کھانا پینا انکی عمر بھر کی ہندو تربیت یافتہ طبیعت کو گوارا نہیں کرتی تھی۔ رمضان علی اور ان کی بیوی سلمہ پانڈے جی اور ان کی بیوی بسنتی کے اس اصول کا احترام کرتے تھے اور بھول کر بھی اس کا ذکر زبان پر نہیں لاتے تھے۔ سلمہ اور بسنتی کا بیشتر وقت ساتھ ہی گذرتا تھا اور سلمہ کا دو سالہ بچہ انور بسنتی سے ایسا مانوس ہو گیا تھا کہ اس کے گھر جاتا اور اکثر وہیں کھا پی کر سو بھی جاتا۔ بسنتی بھی اسے اپنے بچہ کی طرح چاہتی تھی۔
یوں بسنتی دل کی بڑی دکھی تھی۔ شادی کو بارہ برس ہو گئے تھے مگر اس کی گود اولاد سے محروم تھی۔ کون سا جتن تھا جو اس نے اولاد حاصل کرنے کی کوشش میں نہیں کیا تھا؟ ڈاکٹروں اور ویدوں کے علاج سے ہار کر پوجا پاٹھ، منت مراد اور تیرتھ یاترا سبھی کچھ تو کر ڈالا تھا۔ ہردوار کی پہاڑیوں کی پتھریلی خاک تک چھان آئی تھی مگر بھگوان انتریامی ہوتے ہوئے بھی اب تک اس پر مہر بان نہیں ہوئے تھے۔ سلمہ سے دل کا حال کہہ کر اسے سکون مل جاتا تھا اور سلمہ بھی اسے دلاسہ دیتی رہتی تھی:’’بسنتی! مایوس نہ ہو۔ کون سا ایسا وقت نکل گیا ہے ؟ بارہ سال ہی تو ہوئے ہیں۔ اللہ کو رحم کرتے دیر تھوڑی لگتی ہے۔ دیکھ لینا ایک دن جلد ہی تم مجھ کو خوش خبری سنانے بھاگی بھاگی آؤ گی۔ ‘‘،
اور بسنتی مری مری سی مسکراہٹ سے سلمہ کی باتیں سن کر خاموش ہو جاتی۔
پھر ایک دن بسنتی کو کیا سوجھی کہ سلمہ سے کہنے لگی : ’’دیدی! میں تو سب جتن کر کے ہار گئی۔ نہ ڈاکٹروں سے کچھ ہوتا ہے اور نہ پوجا پاٹھ سے۔ اب تم ہی کچھ کرہ۔ کیا پتہ تمہاری دعا لگ جائے۔ ‘‘،
سلمہ نے اس کے بھولے پن پر ہنس کر کہا: ’’اری پاگل، کیا میں تمہارے لئے دعا نہیں کرتی ہوں ؟ اب جب اللہ چاہے گا دعا قبول کرے گا۔ تم دل تھوڑا مت کرو۔ وقت پر سب ہو جائے گا۔ ‘‘،
مگر بسنتی پیچھے پڑ گئی :’’نہیں دیدی! تم کچھ کرو، میرا کہا مانو میری دیدی!‘‘
سلمہ نے سوچ کر کہا : ’’میں کیا کروں بسنتی؟ چلو اگلے جمعہ کو قرآن خوانی رکھے لیتی ہوں۔ پھر سب دعا مانگیں گے۔ اوپر والا بڑا کارساز ہے۔ تم بھی بھگوان پر بھروسہ رکھو۔ جو ہو گا اچھا ہو گا۔ ‘‘،
اور پھر اگلے جمعہ کو رمضانی بابو کے یہاں سلمہ کی کئی سہیلیوں نے مل کر قرآن حکیم ختم کیا۔ برآمدہ میں دریاں بچھا کر اور ان پر سفید چادریں ڈال کر بیٹھک کا انتظام کرایا گیا تھا۔ گھر لوبان اور اگر بتی کی خوشبو سے مہک رہا تھا اور بسنتی ایک کونہ میں سفید ساری سے سر ڈھکے خاموش سب کو دیکھ رہی تھی۔ قرآن خوانی کے بعد جب سلمہ نے اللہ تعالیٰ سے اس کی ویران گو د بھرنے کی دعا مانگی تو بسنتی بے اختیار رو پڑی اور دیر تک سلمہ کے کندھے سے لگی روتی رہی۔ سلمہ نے اپنے دوپٹہ سے ا س کے آنسو پونچھے تو دیدی کے بھیگے گال دیکھ کر وہ پھر سسکیاں لے کر سلمہ کے شانہ سے لگ گئی اور دونوں مل کر خوب ہی تو روئیں۔ محفل میں خاموشی تھی اور ہر شخص ا س منظر سے متاثر نظر آ رہا تھا۔
معلوم نہیں قدرت کن اصولوں پر کام کرتی ہے، کون سی دعا قبول ہوتی ہے اور کون سی نہیں ہوتی۔ پھر اگر قبول ہوتی ہے تو کیوں ہوتی ہے ؟ اللہ یا بھگوان کیسے اس کا فیصلہ کرتا ہے کہ ایک کو با مراد اور ایک کو محروم رکھے۔ بہر حال ایک صبح بسنتی بھاگی بھاگی سلمہ کے گھر آئی اور اس سے لپٹ کر ایسا بے اختیار روئی کہ سلمہ حواس باختہ ہو گئی۔
’’ارے کیا ہو ابسنتی، کیوں رو رہی ہو؟ بھائی صاحب تو ٹھیک ہیں ؟ کوئی بری خبر کہیں سے آئی ہے ؟‘‘ وہ گھبرا گھبرا کر پوچھ رہی تھی اور بسنتی کے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ تھوڑی دیر ہچکیاں لیتے لیتے اس نے دیدی کو جب وہ خوش خبری سنائی جس کا بارہ سال سے انتظار تھا تو سلمہ کی بے اختیار چیخ نکل گئی۔
’’ارے بسنتی سچ؟ یا اللہ تیرا شکر ہے :‘‘ پھر تو دونوں لپٹ کر ایسا روئیں کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔ ذرا حواس ٹھکانے آئے تو سلمہ سے اور تو کچھ نہ بن پڑا پاس رکھی شکر دانی سے شکر کا چمچہ بسنتی کے منھ میں ڈال دیا: ’’لے منھ تو میٹھا کر لے اپنا!‘‘ اور بسنتی نے روتے روتے اپنا منھ کھول دیا۔ پھر گھبرا کر سلمہ کا منھ حیرت سے تکنے لگی، مگر اب تو دیر ہو چکی تھی۔
’، اے ہے بسنتی! میں بھی باؤلی ہو گئی تھی۔ اپنے گھر کی شکر کھلا دی۔ ‘‘، سلمہ گھبرا کر بولی ’’پانڈے جی کو معلوم ہو گا تو کیا ہو گا؟ میری بہن، ان سے کہنا مت۔ میں بھی کسی سے نہیں کہوں گی۔ ‘‘،
’’چھوڑو دیدی، تم فکر نہ کرو۔ تمہارے بھائی صاحب اتنی سی شکر کھا لینے پر مجھ سے ناراج نہیں ہوں گے۔ ‘‘، بسنتی نے مسکر ا کر کہا۔
’’اچھا تو یوں کہو کہ پانڈ ے جی کو بس میں کر لیا ہے !‘‘ سلمہ نے ہنس کر چٹکی لی۔
بسنتی جھینپ گئی : ’’دیدی تم بھی کیا باتیں کرتی ہو!‘‘
اس ہنسی مذاق میں سلمہ اسے یہ بتانا بھول گئی کہ جس خوشی سے بسنتی آج مالا مال ہوئی تھی وہی خوشی خود اس کے گھر میں انور کے بھائی بہن کی شکل میں جلد ہی آنے والی تھی!
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (۳)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پھر یوں ہوا کہ ہفتہ بھر کے آگے پیچھے سلمہ اور بسنتی بچیوں کی مائیں بن گئیں۔ تیسرے ہی دن بسنتی اور پانڈے جی بابو رمضان علی کے مکان پر بچی کو لے کر پہنچ گئے اور پہنچتے ہی بسنتی نے بچی کو سلمہ دیدی کی گود میں ڈال دیا۔ رمضان بابوسوالیہ نظروں سے بسنتی کو دیکھ رہے تھے کہ پانڈے جی نے کہا:
’، رمجانی بھائی، یہ بیٹی سلمہ دیدی کی دعاؤں کی دین ہے، یہ آج سے آپ کی بیٹی ہے۔ اس کانام رکھئے اور اس پالئے بھی آپ ہی لوگ!‘‘
رمضان علی نے محبت سے پانڈے جی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جواب دیا: ’’بھئی تمہاری اولاد اور ہماری اولاد سب برابر ہے۔ تمہاری بیٹی ہمیشہ ہماری بیٹی رہے گی۔ مگر یہ نام وام رکھنے والی کیسی بے ڈھب بات کر رہے ہو؟ اللہ تمہاری بیٹی کو عمر دے، ہمیں شرمندہ مت کرو۔ ‘‘،
ابھی وہ شاید کچھ اور کہتے مگر بسنتی آنکھوں میں آنسو بھرے ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہو گئی: ’’بھائی صاحب! آپ کو ہماری بات ماننی ہی پڑے گی۔ یہ بیٹی سلمہ دیدی کو لینی ہی ہو گی۔ ‘‘،
رمضانی بابو نے بے بسی سے سلمہ کی طرف دیکھا تو اس نے مسکر ا کر کہا : ’’رکھ دیجئے نہ نام۔ ایسی کیا بڑی بات ہے ؟‘‘
اب رمضانی بابو بھی موڈ میں آ چکے تھے : ’’چلو یوں ہی سہی! پانڈے جی کی بچی کا نام چندرما دیوی رکھ دو۔ جیسی صورت ہے ویسا ہی نام بھی ہونا چاہئے !‘‘
سلمہ نے چندرما دیوی کا منھ چومتے ہوئے کہا : ’’میں تو اسے چاندسلطانہ کہوں گی، ہے بھی تو چاند ایسی۔ ‘‘،
’’ارے اللہ کا شکر ادا کرو کہ بچی ماں پر گئی ہے۔ خدا نخواستہ باپ پر جاتی تو لینے کے دینے پڑ جاتے۔ ‘‘، رمضانی بابو نے شرارت سے مسکرا کر کہا۔
ان کے اس مذاق پر رام چندر پانڈے بھی بے اختیار ہنس پڑے۔ پھر سلمہکی طرف بھیگی بھیگی آنکھوں سے دیکھ کر بولے : ’’ دیدی! دو دو بیٹیاں لے کر بھی کیا آج منھ میٹھا نہیں کراؤ گی؟‘‘
سلمہ ان کی بات سن کر ہکا بکا سی رہ گئی۔ پانڈے جی جو ان کے گھر کے گلاس میں خود اپنے نل کا پانی پینے میں جھجھکتے تھے آج ان سے مٹھائی مانگ رہے تھے۔ جلدی سے بھاگ کر باورچی خانہ سے پلیٹ میں تل کے لڈو سجا لائیں۔ ایسی خوشی کا تو تصور بھی ان میں سے کسی نے نہیں کیا ہو گا جو اس دن دونوں گھروں میں منائی گئی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (۴)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پنڈت جی نے پانڈے جی کاسوال سن کر ایک مرتبہ انہیں بڑی گہری نظر سے دیکھا، پھر آنکھیں معلوم نہیں کیوں نیچی کر لیں اور بہت دھیمی آواز میں بولے : ’’شاستروں میں لکھا ہے کہ آپ کی بیٹی کی شدھی ہونی چاہئے۔ ‘‘،
سریواستو جی نے پنڈت جی کی ہاں میں ہاں ملانے کے لئے جلدی سے فرش پر رکھی برگد کے پتہ سے ڈھکی پیتل کی لٹیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : ’’اور شدھی کے لئے ہم گؤ موتر ساتھ لے کر آئے ہیں !‘‘
’’گؤ موتر!‘‘ پانڈے جی کی چیخ نکل گئی۔ ’’آپ ہماری بیٹی کو گؤ موتر پلائیں گے ؟ کیا کہہ رہے ہیں آپ پنڈت جی؟‘‘، غم و غصہ سے ان کا رنگ بدل گیا تھا اور وہ تھر تھر کانپ رہے تھے۔
پنڈت جی کی خاموشی دیکھ کر سرپٹکاکا تو صرف سر ہلا کر رہ گئے مگر سریواستو جی نے جواب دینا ضروری سمجھا: ’’جب شاستروں کا یہی حکم ہے تو کوئی بھلا کیا کرسکتا ہے ؟ پھر گؤ موتر تو گؤ ماتا کا پوتر وردان ہے !‘‘
ابھی پانڈے جی اس پوتر وردان پر کچھ بولنے ہی والے تھے کہ کمرہ کا دروازہ کھلا اور گود میں سوئی ہوئی چندا کو لئے بسنتی اتر کر برآمدہ میں آ گئی۔ وہ محلہ کے مردوں کے درمیان اس سے پہلے ایسی بیباکی سے کبھی نہیں آئی تھی۔ اپنی پریشانی اور غصہ کے باوجود پانڈے جی اس کی ہمت اور حالت دیکھ کر اپنی حیرت پر قابو نہیں رکھ سکے اور منھ کھولے، آنکھیں پھاڑے اسے دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔
بسنتی پر اس وقت عجیب کیفیت کا عالم تھا۔ ساری کا پلو سرسے ڈھلکا ہو ا تھا اور بال بکھر کر پیشانی پر پسینہ سے چپکے ہوئے تھے۔ رنج اور غصہ سے اس کا چمپئی رنگ تانبہ کی طرح دمک رہا تھا، دونوں گال سرخ آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں سے تر ہو رہے تھے اور وہ سارے بدن سے تھر تھر کانپ رہی تھی۔ اس کے چہرہ پر کچھ ایسا جلال تھا کہ پنڈت جی کی نظریں ایک مرتبہ ہی اس کی نظروں سے مل کر پھر اٹھنے کی ہمت نہ کر سکیں۔
بسنتی نے آگے بڑھ کر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے چندا کو پنڈت جی کی گود میں ڈال دیا اور پھر بھرائی ہوئی آواز میں اس نے کہا : ’’پنڈت جی مہاراج! ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ماں کا دودھ بھی ہندو اور مسلمان ہوا کرتا ہے۔ پلائیے آپ اسے گؤ موتر! کرئے آ پ اس کی شدھی!‘‘
پھر اس کا گلا رندھ گیا اور وہ خاموش ہو گئی۔ معلوم ہوتا تھا جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔
پنڈت جی نے نظریں جھکائے جھکائے چندا کو دیکھا اور دیکھتے رہ گئے۔ نیند کے نشہ میں چندا نے آنکھیں آدھی کھولیں اور پنڈت جی کو دیکھ کر پھر بند کر لیں۔ اس کے پھول سے ہونٹوں پر ہلکی سی معصوم مسکراہٹ آئی۔ اس نے سوتے سوتے دو چار مرتبہ چسر چسر ہونٹ چلائے اور رال میں ملی ہوئی ابھی ابھی پئے ہوئے دودھ کی ایک بوند اس کی بانچھ سے نکل کر گال سے پھسلتی ہوئی پنڈت جی کے گیروے کرتے میں جذب ہو گئی۔
پنڈت جی ایک گہر ی سانس لے کر اٹھے اور انہوں نے نہایت آہستگی سے چندا کو پانڈے جی کی گود میں دے دیا، جھک کر گؤ موتر کی لٹیا اٹھائی اور بھاری بھاری قدموں سے باہر کے دروازہ کی طرف آنگن میں چل دئے۔ دروازہ پر پہنچ کر ایک لمحہ کو وہ رکے، پھر جھک کر گؤ موتر کی لٹیا نالی میں پو ری کی پوری انڈیل دی اور خالی ہاتھ دروازہ کھول کر لمبے لمبے قدم بڑھاتے وہ گھر سے نکل گئے۔
اور اُدھر چندرما دیوی عرف چاندسلطانہ عرف چندا تھی کہ پنڈت سدانندشاستری جی کی شدھی سے فارغ ہو کر پانڈے جی کی گود میں بے خبر سو رہی تھی!
٭٭٭