شنی کا چکر۔ ۔ ۔ عالیہ تقوی

جب کئی بار کک مارنے کے بعد بھی بائک اسٹارٹ نہ ہوئی تو اکشے نے ٹنکی میں جھانک کر دیکھا۔ تعجب ہے ٹنکی خالی کیسے ہو گئی۔ کل صبح دو لیٹر پٹرول بھروایا تھا۔ یقین نہ آیا تو ٹنکی میں ڈنڈی ڈال کر دیکھا۔ ٹنکی بالکل خالی۔ جیسے کسی نے زبان سے چاٹ لیا ہو۔ رات وہ جلدی سو گیا تھا۔ لگتا ہے صاحبزادے رات میں بائک لے کر کہیں گھومنے نکل گئے تھے اور گاڑی خالی کر کے کھڑی کر دی۔ ڈانٹ نہ پڑے اس لئے صبح سے سامنے نہیں پڑے۔ ڈانٹنے ڈپٹنے کا وقت نہیں تھا اس لئے بس اڈے کی طرف چل پڑا پیدل ہی۔ پندرہ منٹ انتظار کے بعد بس ملی۔ آفس پہونچا تو گیارہ بج چکے تھے۔ صاحب آ چکے تھے۔ حاضری رجسٹر میں نام کے آگے کراس لگ چکا تھا۔ اسلئے چھٹی کی درخواست دے کر واپس گھر چل پڑا۔ بڑی مشکل سے بسوں کے دھکے کھا کر ساڑھے بارہ بجے گھر پہونچا۔ گھر کے دروازے پر تالہ اس کا منھ چڑھا رہا تھا۔ صبح جلدی میں وہ ڈپلیکیٹ چابی رکھنا بھی بھول گیا تھا۔ اب کیا کرے کہاں جائے۔ شانتی کو فون کیا تو معلوم ہوا مال گئی ہے اور لوٹنے میں کم سے کم ایک گھنٹہ لگے گا۔ اب کہاں جایا جائے۔

ایک جگہ ہے مشراجی کی بیٹھک۔ مشرا جی چونکہ جیوتشی کا کام کرتے تھے اس وجہ سے ہر دم اپنی بیٹھک میں براجمان رہتے تھے۔ چار گھر چھوڑ کر ہی ان کا گھر تھا۔ اکشے مشراجی کی بیٹھک میں پہونچا تو اسے دیکھ کر مشرا جی کے چہرے پر ایسی چمک آئی جیسی شکار کو دیکھ کر شکاری کے چہرے پر آتی ہے۔

کیسے آئے اکشے بابو مشراجی نے بڑی امید سے کہا تو اکشے کی سمجھ میں نہ آیا کیا کہے۔

"مشراجی میں نے سوچا آج میں بھی آپ سے قسمت کا حال جانوں۔ ”

اکشے نے پچاس روپئے مشراجی کے آگے رکھتے ہوئے کہا۔ گھر کے باہر تختی پر جو ریٹ لگے تھے اس میں کنڈلی کی فیس یہی لکھی تھی۔ مشراجی نے اکشے سے تاریخ پیدائش، وقت اور جائے پیدائش وغیرہ دریافت کیا اور کاغذ پترا وغیرہ نکالنے لگے۔ تھوڑی دیر میں مشرا جی نے کاغذ پر زائچے کھینچ کر کنڈلی بنا کر اکشے کو پکڑا دی۔ اکشے نے کاغذ دیکھا۔ بارہ خانے تھے جن پر ہندسے لکھے تھے اور سیاروں کے نام لکھے تھے۔ اکشے نے ریاضی کے ساتھ بی۔ ایس۔ سی۔ کیا تھا۔ مگر اس کی پڑھائی کچھ کام نہ آئی۔

مشراجی اس کا مطلب بھی تو بتائیے۔ اکشے نے عاجزی سے کہا۔

اسکے پچاس روپئے ہوتے ہیں آپ لائیے پچیس ہی دے دیجئے۔ پڑوسی ہیں۔ مشرا جی بولے۔

پھر جو مشراجی نے کنڈلی کی تشریح شروع کی تو اکشے کا سر چکرا گیا۔ کس گھر میں منگل بیٹھا ہے۔ کس میں شکر ہے۔ کس میں شنی ہے۔ کون اونچ کا ہے۔ کون نیچ کا۔ پتہ نہیں کون کس کو دیکھ رہا ہے۔ اسلئے جسمانی تکالیف ہیں۔ پتہ نہیں کون نیچ کا ہے اس لئے پریوار میں اشانتی کا یوگ ہے۔ منگل دوش ہے، شنی کی ساڑھے ساتی ہے اور نہ جانے کیا کیا الا بلا ہے۔

اکشے کے اوپر ایسی دہشت طاری ہوئی اسے لگا وہ ابھیمنیو ہے جو کورووں کی سینا میں گھر گیا ہے۔ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا "پھر مشرا جی کیا کیا جائے۔ ”

"گرہوں کی شانتی کے لئے پوجا کرانی ہو گی۔ ساڑھے سات کلو کالے تل کا دان کرنا ہو گا۔ ایک سو ایک براہمنوں کو بھوجن کرانا ہو گا۔ ” مشرا جی نے کہا۔

"خرچہ کتنا آئے گا "۔ ۔

"یہی پندرہ۔ سولہ ہزار۔ ”

ایک گھنٹہ سے زیادہ وقت بیت چکا تھا۔ اکشے گھر پہونچا۔ شانتی واپس آ گئی تھی۔ اکشے نے کھانا کھانے کے بعد شانتی کو روداد سنائی۔ شانتی بھی سائنس کی گریجویٹ اور پروفیسر کی بیٹی تھی۔ سن کر بھڑک گئی۔

” کیا کرنے گئے تھے اس پونگا پنڈت کے پاس۔ وہ پہلے اپنے گرہوں کو تو شانت کر لے۔ بیوی چھوڑ کر بھاگ گئی ہے۔ میلی دری پر بیٹھا رہتا ہے۔ یہ لوگ تو بس تاک میں رہتے ہیں۔ کوئی انکے چکر میں آ جائے بس ڈرا ڈرا کر اس کی جیب ڈھیلی کریں۔ فزکس پڑھ کر بھی گرہوں کی چال سے ڈرتے ہو۔ لعنت ہے تمھاری پڑھائی لکھائی پر۔ پچھتر روپئے برباد کر کے دل نہیں بھرا۔ ابھی ہزاروں برباد کرنے کا ارادہ ہے ؟”

شانتی کی باتوں سے اکشے کا وہم کچھ کم ہوا۔ اس کے اگلے ہفتے کچھ ناگوار واقعات ہو گئے۔ اکشے کی بائک ایک کار سے ٹکرا گئی۔ بائک میں پاور بریک تھا اسلئے اکشے کو کوئی خاص چوٹ تو نہیں آئی۔ مگر بیمہ سے پیسے ملنے کے باوجود اکشے کی جیب سے آٹھ۔ نو سو مرمت پر خرچ ہو گئے۔ لوگوں نے کار کو گھیر لیا ورنہ کار والا بھی شاید کچھ ڈمانڈ کرتا۔ اس کے اگلے دن وجے کا امتحان کا نتیجہ آیا۔ سائنس اور انگریزی میں بہت اچھے نمبر لانے کے باوجود ہندی میں پانچ نمبر سے فیل ہو گیا تھا۔ اس کے دو تین دن بعد منی کا سیڑھی سے پیر پھسل گیا۔ ہاتھوں اور پیروں میں کافی چوٹ لگی۔ ہر بار اکشے کو شنی کی ساڑھے ساتی یاد آتی مگر شانتی کے ڈر سے چپ رہتا۔ وہ تو یہی کہتی یہ سب محض اتفاق ہے۔

اگلے دن مہینہ کا دوسرا سنیچر تھا۔ اکشے کی چھٹی تھی۔ اسنے صبح خبر دیکھنے کیلئے ٹی۔ وی۔ آن کیا۔ چینل پر اکشے کو سیاہ کپڑے پہنے ہوئے ایک جیوتشی بابا دکھائی دئے۔ بابا جی نے شنی منتر بتائے اور شنی دیو کو خوش کرنے کے اپائے بتانے شروع کئے۔ زیادہ تر اپائے کافی خرچیلے تھے مگر کچھ اکشے کو بہت آسان لگے جیسے کالے گھوڑے کی نعل دروازے پر لگانا، کالی گائے کو چارہ کھلانا۔ کالے کتے کو روٹی کھلانا وغیرہ۔ یہ ٹھیک رہے گا۔ کچھ خاص خرچہ نہ ہو گا اور شانتی کو پتہ بھی نہ چلے گا۔ پھر اکشے اور بھی کالے چرند پرند کے بارے میں سوچنے لگا۔ جیسے کالا بکرا، بھینس، سور، کالی مرغی، کوا، کوئل وغیرہ۔ آخر جیوتشی نے ان بیچاروں کو کوئی اہمیت کیوں نہیں دی۔

اگلے دن اتوار تھا۔ صبح ناشتہ کر کے اکشے امام دین تانگہ والے کی تلاش میں اسٹیشن پہونچا۔ امام دین کے پاس ایک شاندار کالا گھوڑا تھا اور اکشے جب بھی پریوار کے ساتھ باہر جاتاواپس آنے پر گھر امام دین کے تانگہ سے ہی آتا تھا۔

اتفاق سے اسٹیشن پر امام دین بھی مل گیا۔ لیکن اب اس کے پاس ایک چھوٹی بھوری گھوڑی تھی۔ کالا گھوڑا اس کو بیچنا پڑ گیا تھا۔ امام دین نے کہا صاحب پہلے تو آپ کو کالا گھوڑا ملے گا نہیں۔ پھر ملے گا بھی تو کوئی نعل نہیں دے گا۔ کیونکہ لوگ اسے اپنی روزی سے جوڑتے ہیں۔ مجھ سے آپ نے ایک مہینہ پہلے مانگی ہوتی تو میرے پاس تھی۔ ۔ میں دے دیتا۔ کیونکہ ہم تو یہ سب مانتے نہیں۔ صاحب آپ بھی ان چکروں میں نہ پڑیئے۔ دھندے باز گھوڑے کو کالا رنگ کر اس کی نعل پکڑا دیں گے اور آپ سے ہزاروں اینٹھ لیں گے۔

ہزاروں کا ذکر سن کر اکشے کا جوش ڈھیلا پڑ گیا۔ ظاہر ہے شانتی کو بتائے بغیر ہزاروں خرچ نہیں کئے جا سکتے تھے۔

چلو کالا گھوڑا نہ سہی کالی گائے سہی۔ اکشے نے سوچا۔ گائے والے سے تو کچھ لینا نہیں ہے الٹا اس کی گائے کو چارہ کھلانا ہے۔ لیکن کالے گھوڑے کی طرح کالی گائیں بھی غائب ہو گئی تھیں۔ اکشے ادھر ادھر گھومتی آوارہ بوڑھی گایوں کو گھور گھور کر دیکھتا۔ ۔ کوئی سفید تھی، کوئی چتکبری، کوئی بھوری۔ آخر ایک دن اسے سبزی منڈی کے پاس ایک گھر کے باہر ایک کالی گائے کھڑ ی دکھائی دی۔ کچھ ہی دور پر گھاس والیاں گھاس بیچ رہی تھیں۔ اکشے نے گھاس والی سے پچیس روپئے میں ایک گٹھر خریدا اور گائے کو چارہ کھلانے کی مہم پر چل پڑا۔ ابھی وہ مٹھی بھر گھاس لے کر گائے کے قریب پہونچا ہی تھا کہ گائے کا مالک گالیاں بکتا ہوا کہیں سے نمودار ہو گیا۔ "کیوں رے گائے کو زہریلا چارہ کھلا رہا تھا۔ تجھے یہاں کس نے بھیجا ہے بتا۔ ابھی تجھے پولیس میں دیتا ہوں۔ "آس پاس محلے کے لوگ بھی اکٹھا ہو گئے۔ ” دیکھا آپ لوگوں نے چاچا جی کی کرتوت۔ ان کی آنکھ میں اب گؤ ماتا بھی چبھ رہی ہیں۔ آدمی بھیجا ہے زہریلا چارہ کھلانے "۔ لوگوں نے باقاعدہ لاٹھی ڈنڈے بھی سیدھے کرنے شروع کر دئے۔ تبھی گائے مالک کے پتاجی آ گئے جو اکشے کے شناسا ایک انکل نکلے۔ اکشے نے انھیں اپنی روداد سنائی تب بڑی مشکل سے جان بچی اور اکشے چارہ وارہ بھول کر کمان کے تیر کی طرح وہاں سے بھاگا۔

اگلے دن شانتی کی انگوٹھی کھو گئی۔ "دیکھا یہ شنی بھگوان کا چکر ہے "۔ اکشے نے کہا۔

” نہ بھگوان نہ شیطان انگوٹھی مجھ سے کھوئی ہے۔ میں نے سبزی کے چھلکے کے ساتھ باہر پھینک دی۔ واپس ڈھونڈنے گئی تب تک کوئی لے بھاگا تھا۔ سمجھے۔ اور کچھ؟” شانتی نے غصے سے کہا۔

تب اکشے کو کالا کتا یاد آیا۔ کالے کتے تو کئی تھے لیکن اکشے کو کتوں سے ڈر لگتا تھا اسلئے کتوں کا خیال اسے سب سے بعد میں آیا۔ اکشے نے گلی میں جھانک کر دیکھا۔ تھوڑی دور پر ایک کالا کتا بیٹھا دھیرے دھیرے غرا رہا تھا۔ شانتی روٹیاں بنا کر ڈبے میں رکھ کر کپڑے پھیلانے اوپر چھت پر گئی تھی۔ اکشے نے ڈبے سے ایک روٹی نکالی اس پر تھوڑی ملائی لگائی اور کتے کی خدمت میں پیش کرنے چل پڑا۔ اکشے جیسے جیسے کتے کے قریب پہونچتا گیا اس کی غراہٹ بڑھتی گئی۔ دفعتاًََ کتے نے ایک جست لگائی اور جھپٹا مار کر اکشے کے ہاتھ سے روٹی چھین لی۔ اکشے کے ہاتھ میں لمبی لمبی خراشیں آ گئیں اور خون ٹپکنے لگا۔

جمادار جو کہ گلی میں جھاڑو لگ رہا تھا لپک کر آیا اور جھاڑو مارکر کتے کو بھگایا۔

” آپ کو کاٹا تو نہیں صاحب۔ آپ اسے روٹی کیوں کھلا رہے تھے۔ یہ تو کئی لوگوں کو کاٹ چکا ہے۔ شاید پاگل ہے۔ ” جمادار بولا۔

اکشے گھر آیا تو شانتی اسے دیکھ کر گھبرا گئی۔ ڈاکٹر کے یہاں لے جا کر مرہم پٹی کرائی۔ انجکشن لگوایا۔ ابھی تین انجکشن اور لگنے تھے۔ ہزار ڈیڑھ ہزار کی چپت پڑ گئی۔ دوسرے دن اکشے نے گلی کے جمادار کودس روپئے رشوت دئے کہ وہ شانتی سے کتے کو روٹی کھلانے والی بات نہ بتائے ورنہ انکوائری شروع ہو جائیگی۔ وہ بیچاری تو یہی سمجھتی رہی کہ کتے نے یونہی اکشے پر حملہ کر دیا۔

ایک بات اور ہوئی۔ اکشے نے کنڈلی اٹھائی اور کچن میں جا کر گیس جلا کر برنر کے آگے کر دی۔

"یہ کیا کر رہے ہو” شانتی نے کہا۔

"شنی، منگل، راہو کیتو سارے گرہوں کے دوشوں سے مکتی پا رہا ہوں۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری ” اکشے بولا۔

"دے دی نہ شنی دیو نے ایک اور چپت۔ پچھتر روپئے کی کنڈلی سواہا کرا دی” شانتی نے ہنستے ہوئے کہا۔ اور اکشے سوچنے لگا جس کے گھر میں شانتی جیسی بیوی ہو کوئی گرہ اس کا کچھ بگاڑ سکتا ہے کیا ؟

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے