میں جب پیدا ہوا تو پاکستان کی عمر صرف سترہ برس تھی اور جس بھارت کے بطن سے پاکستان پیدا ہوا اس کی عمر ہزاروں برس تھی جہاں سے میرے والدین بھی ہجرت کر کے پاکستان کے شہر کراچی آئے تھے۔ میرے آباء و اجداد کی قبریں بھی وہیں ہیں اور میرے والد کی بین خواہش تھی کہ وہ ایک بار اپنے آبائی ملک بھی ضرور جائیں مگر ان کی خواہش اب تک پوری نہ ہوسکی جو اپنی زندگی کی ۹۰ ویں بہار دیکھ رہے ہیں۔ تاہم مجھے جب میں پاکستان کی شہریت بھی ترک کر چکا تو بھارت جانے کی شدید خواہش میرے سر پر سوار رہی اور اللہ اللہ کر کے یہ خواہش گزشتہ دنوں یعیو ۳۰، اکتوبر ۲۰۱۴ء کو پوری ہو گئی۔ میری یہ خواہش کیونکر پوری ہوئی اس کی ایک طویل داستان ہے مگر مختصراً بیان کروں گا کہ اگر اردو نیٹ جاپان کا میں خالق نہ ہوتا تو شاید یہ میری خواہش مرتے دم تک پوری نہ ہوتی۔ ۲۰۰۸ء میں جب اردو نیٹ جاپان شروع کیا تو اس کے قارئین کی تعداد جاپان کے بعد بھارت میں بڑھنے لگی اور اتفاق سے نیو دہلی میں مقیم ایک اردو دان پروفیسر ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین جو نیو دہلی میں قائم بھارت کی ایک عظیم الشان جامعہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں اپنی خدمات انجام دے رہے تھے انھوں نے اردو نیٹ جاپان وزٹ کا اور اس طرح ان سے رابطہ ہوا اور انھوں نے اردو نیٹ جاپان کو بھارت بھر کے اردودانوں میں اسے متعارف کروایا۔ خواجہ صاحب سے رابطے اس قدر مستحکم ہوئے کہ میں نے انھیں اردو نیٹ جاپان کی تیسری سالانہ تقریب میں بطورِ مہمانِ خصوصی جاپان مدعو کا اور وہ ۲۰۱۱ء میں اپنے دوست ڈاکٹر اشتیاق احمد کے ساتھ جاپان تشریف لائے اور اس کے بعد ان سے دوستی کا رشتہ بھائیوں میں تبدیل ہو گیا۔ جاپان کے دورے کے بعد انھوں نے اردو نیٹ جاپان کو وہ شہرت بخشی کہ اپنی تخلیقی کتابوں میں بھی اردو نیٹ جاپان کا ذکر کیا اور اس طرح مجھے بھارت کے اردو دانوں میں متعارف ہونے کا موقع ملا اور کئی بڑے بڑے ڈاکٹر، پروفیسر، ادیب و شاعروں کی تحریریں اردو نیٹ جاپان کی زینت بننے لگیں۔ دو سال قبل خواجہ صاحب کو بھارت کی قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کا ڈائریکٹر بنا دیا گیا اور بھارت میں اردو زبان کو فروغ دینے کے لئے انھوں نے شب و روز محنت کی اور ہر سال اس کونسل کے ذریعے جو بھارت کی وزارتِ ترقیِ انسانی وسائل کے تحت کام کرتی ہے سیمینار منعقد ہونے لگے۔ اس سال اس کونسل کی دوسری کانفرنس میں خواجہ اکرام الدین صاحب نے مجھے ماہِ اگست میں عندیہ دیا کہ مجھے بھی اس کانفرنس مں شرکت کرنی ہے اور جاپان میں سائبر میڈیا اور اردو کی صورتِ حال پر مقالہ لکھنا اور کانفرنس میں پڑھنا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ دنیا بھر کے اٹھارہ ممالک سے تقریباً بائیس مندوبین کا انتخاب کیا گیا ہے اور جاپان کی نمائندگی کے لئے قرعہ میرے نام نکلا ہے۔ جبکہ بھارت بھر سے بتیس مندوبین اس کانفرنس میں شریک ہوں گے۔ اتنی عظیم ہستیوں کا اس کانفرنس میں شریک ہونا اور مجھے بھی مدعو کیا جانا میرے لئے بہت بڑا اعزاز اور چیلینج تھا اور اس کا تصور کرتے ہوئے میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے کہ کیا لکھوں۔ خیر ایک چار صفحات پر مشتمل اپنا مقالہ انھیں بھیج دیا جو انھوں نے پاس کرتے ہوئے کہا کہ اب فوری طور پر انڈیا کے ویزے کے لئے اپلائی کر دیں۔ میں نے دو ماہ قبل یعنی ۳۰، اگست ۲۰۱۴ء کو ٹوکیو میں واقع انڈین سفارتخانے کی سائٹ پر جا کر آن لائین اپلائی کیا اور خواجہ صاحب کی طرف سے بھےج گئے دعوت نامے وغیرہ کے کاغذات ٹوکیو میں انڈین ویزا سینٹر میں چھ ہزار ین فیس دیکر جمع کروا دیئے۔ مجھے بڑا گھمنڈ تھا کہ میرے پاس جاپانی شہریت ہے ویز ہ آسانی سے مل جائے گا مگر مجھے بتایا گیا کہ آپ کی پیدائش پاکستان میں ہوئی ہے اور سابق پاکستانی ہونے کے ناطے میرے ساتھ وہی طریقۂ کار اختیار کیا جائے گا جو پاکستان میں بسنے والوں کے ساتھ ویزہ اپلائی کرتے وقت کیا جاتا ہے یعنی کہ طویل خواری لہٰذا آپ کو تقریباً ایک ماہ سے زیادہ انتظار کرنا پڑے گا یہ سننے کے بعد ہی میرا سارا گھمنڈ زمین دوز ہو گیا۔ اور پھر میں ہر دوسرے روز ویزہ سینٹر فون کرتا اور مجھے بتایا جاتا کہ ابھی آپ کی کلیئرنس نیو دہلی سے نہیں آئی ہے جب تک آپ انتظار کریں۔ وقت بڑی تیزی سے گزر رہا تھا اور میں نا امید ہوتا جا رہا تھا اور ساری صورتِ حال سے خواجہ صاحب کو آگاہ بھی کر رہا تھا اور وہ بھی ہر روز ہی مجھے فون پر تسلیاں دیتے تھے کہ آپ فکر نہ کریں ویزہ ضرور ملے گا انھوں نے نیو دہلی سے وزارتِ داخلہ و وزارتِ خارجہ کے کئی بڑے افسروں سے جاپان میں انڈین سفارتخانے فون بھی کروائے۔ میں نے ۲۷، اکتوبر کو انڈیا جانے کا ارادہ کر رکھا تھا مگر ۲۶، اکتوبر تک مجھے کوئی خوشخبری نہ ملی اور میں ہمت ہار بیٹھا اور خواجہ صاحب کو کہہ دیا کہ اب میرا آنا مشکل ہے میری مایوسی پر وہ افسردہ ہو جاتے اور کہتے کہ ناصر بھائی پلیز ایک دن اور انتظار کر لیں ہم یہاں سے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ آپ کو ویزہ مل جائے۔
مجھے ویزہ ملنے میں جتیز دیر ہو رہی تھی اور نا امیدی ہو رہی تھی میرے انڈیا جانے کی خواہش میں اتنی ہی شدت آ رہی تھی۔ میں نے انڈین سفارتخانے میں ایک بھارتی سفارتکار سے رابطہ کیا اور کہا کہ بھائی میں کوئی دہشت گرد نہیں ہوں اور میں ایک پچاس سالہ عمر رسیدہ انسان ہوں آپ کے ملک میں کوئی انتشار یا فساد پھیلانے کا ارادہ نہیں رکھتا، برائے مہربانی مجھے ویزہ عنایت کر دیں اس نے کہا کہ ناصر صاحب یہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے اور ملک کی پالیسی کے مطابق ہم عمل کرنے کے پابند ہیں آپ کے ملک میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کسی بھی انڈین کو اتنی آسانی سے ویزہ جاری نہیں کیا جاتا۔ اور یہ ایسے کو تےسا والا معاملہ ہے ہم مجبور ہیں۔ آخر کار ۳۰، اکتوبر کو جس دن میں بالکل مایوس ہو چکا تھا مجھے انڈین سفارتخانے سے فون موصول ہوا کہ میرا ویزہ منظور ہو گیا ہے، کیا آپ ابھی بھی جانا چاہتے ہیں ؟ کیونکہ کانفرنس کا آغاز آج ہو چکا تھا اور صرف دو روز باقی تھے۔ میں نے کہا کہ میں ایک دن کے لئے بھی جانا چاہوں گا، سفارتخانے کی جاپانی خاتون افسر نے بتایا کہ ٹھیک ہے آپ اپنا ٹکٹ خرید کر لے آئیں اور اپنا واپسی کا شیڈول بتا دیں تو ہم آپ کوویزہ جاری کر دیں گے۔ ۳۰، اکتوبر کو فوری طور پر متحدہ عرب امارات کی ایئرلائین سے مہنگا ٹکٹ خریدا اور انڈین سفارتخانے پہنچ گیا مجھے سہ پہر دو بجے پندرہ روز کا جرنلسٹ ویزہ جاری کر دیا گیا ٹوکیو سے گھر پہنچا اور خواجہ صاحب کو خوشخبری سنائی کہ میں آ رہا ہوں انھوں نے بھی بے حد خوشی کا اظہار کیا۔ اور اسی دن جلدی جلدی تھوڑا سا سامان اور اپنی چند کتابیں سوٹ کیس میں بھریں اور رات کے دس بجے کی فلائٹ سے دہلی کے لئے روانہ ہو گیا۔ ٹوکیو سے دبئی تک کی گیارہ گھنٹے کی طویل پرواز نے میری کمر دوہری کر دی مگر انڈیا جانے کی خوشی اس تھکاوٹ پر حاوی تھی، دبئی میں مزید پانچ گھنٹے انتظار کیا اور فون پر دبئی کے کچھ دوستوں سے بات چیت کرتے ہوئے وقت گزارا اور دبئی سے تقریباً چار پانچ گھنٹے کی پرواز سے نیو دہلی کے ایئرپورٹ پر جب جہاز نے لینڈ کیا تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ جہاز سے اتر کر بھارت کی سرزمین پر قدم رکھے تو عجیب سی کیفیت ہو گئی اور دیگر مسافروں کے ساتھ بھاگم بھاگ ایئرپورٹ کی عمارت میں داخل ہوا، دہلی ایئرپورٹ دیگر ترقی یافتہ ممالک کے ایئرپورٹس کی طرح خوبصورت تو نہیں تھا مگر پھر بھی غنیمت تھا۔ میڈیکل چیک پوائنٹ سے گزر کر امیگریشن کی ایک طویل قطار دیکھ کر گھبرا گیا معلوم ہوا کہ بیک وقت تین پروازیں پہنچی ہیں جس کی وجہ سے اتنا رش تھا۔ امیگریشن کی قطار کو کئی لوگ نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے مگر میری ہمت نہ ہوئی اور تقریباً ایک گھنٹے بعد میرا نمبر آیا تو نظر آنے میں ایک ادھیڑ عمر مگر مجھ سے یقینا عمر میں چھوٹا ہی رہا ہو گا آفیسر نے میرا پاسپورٹ اور میری شکل کا موازنہ کرتے ہوئے اپنی عینک درست کی اور کمر سیدھی کر کے بیٹھ گیا، وہ انگریزی میں سوال کرتا تھا اور میں اردو میں جواب دیتا رہا، آہستہ آہستہ اس کا شک دور ہو گیا اور وہ دوستانہ لہجے میں کہنے لگا کہ میری بیٹی بھی جاپانی سکھ رہی ہے کیا اسے جاپان میں جاب مل جائے گی، میں نے کہا کہ ضرور ملے گی وہ جاپانی نہ بھی سیکھے تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا۔ ۔ ۔ کیونکہ جاپان اور انڈیا کے تعلقات بہت خوشگوار ہیں اور وہاں انڈین کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔ اچانک اس نے پوچھا کہ آپ پیدا کہاں ہوئے تھے میں نے کہا کہ پاکستان میں تو اس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے اور اس نے اپنی عینک آنکھوں سے گرا کر ناک پر رکھی اور سر جھکا کر مجھے غور سے دیکھا اور اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے میرے پاسپورٹ پر لگے ہوئے ویزے پر ایک مہر ثبت کر دی اور با دلِ ناخواستہ مسکرا تے ہوئے میرا پا سپورٹ ڈائس پر اچھال دیا، میں نے بھی مسکرا کر شکریہ ادا کیا۔ جاپانی پاسپورٹ پر دیگر ممالک کی طرح ولدیت، مذہب، جائے پیدائش اور مکمل پتے کا خانہ نہیں ہے اس لئے صرف پاسپورٹ دیکھ کر کوئی اندازہ نہیں کرسکتا کہ یہ کہاں پیدا ہوا۔ جاپانی پاسپورٹ پر صرف خاندانی نام، اپنا نام، تاریخ پیدائش، صوبہ اور پاسپورٹ جاری ہونے اور ختم ہونے کی تاریخ درج ہوتی ہے۔ امیگریشن سے فارغ ہونے کے بعد میں اپنے سامان کی طرف لپکا جو بیلٹ پر آ رہا تھا اور وہاں جاتے جاتے میرے پاؤں من من کے ہو گئے تھے جی چاہ رہا تھا کہ بغیر سامان لئے ہی باہر نکل جاؤں۔ ڈاکٹر خواجہ صاحب کی ہدایت کے مطابق گیٹ نمبر چھ سے باہر نکلا تو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں فارسی کے استاد پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد باہیں پھیلائے کھڑے تھے ابھی ان سے بغل گیری ختم ہوئی ہی تھی کہ کامران غنی بھی نظر آ گیا۔ کامران غنی جو ہندوستان میں اردو نیٹ جاپان کے مدیرِ اعزازی بھی اور اردو نیٹ جاپان کی فیس بُک بھی چلاتے ہیں، اعلیٰ تعلیمِ یافتہ بہت ہی ذہین و فتین نوجوان ہے ایک اسکول میں ٹیچر بھی ہے مگر نہایت ہی سادہ اور بھولا بھالا سا نوجوان ہے۔ کامران غنی جو چند روز پہلے میری خاطر پٹنہ سے دہلی آیا تھا اور مجھے ۲۹ تاریخ تک ویزہ نہ ملنے کی خبر سن کر وہ واپس پٹنہ چلا گیا تھا مگر میں نے اسے ڈانٹ پلائی کہ میں آخری دن تک مایوس نہیں ہوا اور تم فوراً ہی واپس چلے گئے، میں نے اسے کہا کہ آج ہی واپس دہلی پہنچو۔ وہ بیچارہ اُلٹے پاؤں ہوائی جہاز کا ٹکٹ لے کر اسی دن پٹنہ سے دہلی ایئرپورٹ پہنچا تھا اس طرح کامران غنی سے بھی ایئرپورٹ پر ہی ملاقات ہو گئی۔
ایئرپورٹ کے باہر کا ماحول بالکل کراچی جیسا تھا لوگوں کے چہرے بھی ویسے ہی تھے، لباس و چال ڈھال بھی اور حرکتیں بھی لیکن کراچی کے مقابلے میں قدرے نظم و ضبط نظر آ رہا تھا، ، مجھے سگریٹ کی شدید طلب محسوس ہو رہی تھی مگر ایئرپورٹ کے باہر بھی کوئی سگریٹ پیتا ہوا نظر نہیں آ رہا تھا اور نہ ہی کوئی ایسی جگہ نظر آ رہی تھی جو سگریٹ پےنم والوں کے لئے مخصوص ہوتی ہے کہ یہاں مرو اور خوب کھانسو، ڈاکٹر اشتیاق صاحب میری طلب کو بھانپ گئے اور مجھے اس طرح پارکنگ سے تھوڑا دور لے گئے جےسش کوئی ماں اپنے بچے کو شی شی کرانے کے لئے لے جاتی ہے اور وہاں جا کر ہم دونوں نے اس طرح سگریٹ پی جےسً کوئی شریف انسان عوام اور پولیس سے چھپ کر چرس پیتا ہے ہم دونوں کندھے سے کندھا ملا کر مخالف سمتوں میں دیکھتے ہوئے سگریٹ پےنا لگے تاکہ کوئی دیکھ نہ لے، میں پریشان تھا کہ ایسا نہ ہو کہ اتنی مشکل سے انڈیا کا ویزہ ملا ہے اور صرف ایک سگریٹ پےنپ کے جرم میں اندر ہو جاؤں، اسی خوف سے صرف ایک سگریٹ کھینچا اور پارکنگ کی طرف چل دئے۔ سہ پہر کے تین بج چکے تھے گاڑی میں سوار ہوئے اور دہلی کی سڑکیں اور عمارتیں دیکھتے ہوئے آدھے گھنٹے میں ہوٹل پہنچ گئے۔ آج عالمی اردو کانفرنس کا دوسرا دن تھا جو پانچ بجے تک ختم ہونے والی تھی اس لئے خواجہ صاحب نے کہا کہ آپ ہوٹل میں ہی رہیں ہم یہاں سے فارغ ہو کر ہوٹل ہی آ رہے ہیں۔ ڈاکٹر اشتاصق میرے ساتھ ہوٹل کے کمرے تک آئے اور میرے لئے گرما گرم چائے کا آرڈر دیا چائے کے بعد وہ مجھے چھوڑ کر واپس چلے گئے اور میں نے فوری طور پر گرم پانی سے غسل کیا اور کامران کے ساتھ ہوٹل کے باہر آیا اور ہوٹل کے ارد گرد کے علاقے کی سیر کی جہاں مجھے ہر طرف سکون محسوس ہوا تاہم گاڑیوں کے ہارن کراچی کی طرح کبھی کبھی بجتے رہے اور پید ل چلنے والے اچھلتے کودتے ہوئے روڈ پار کرتے رہے۔ میں نے کامران سے کہا کہ مجھے کچھ کرنسی نکلوانی ہے، قریب ہی ایک ATMکارنر نظر آیا اور میں اندر گھس گیا اور کامران باہر ہی کھڑا رہا۔ اپنا کریڈٹ کارڈ جب مشین میں ڈالا ہدایات کے مطابق بٹن دباتا رہا، کافی دیر تک نہ کرنسی باہر آئی اور نہ ہی کریڈٹ کارڈ۔
ATMبکس سے جھانک کر دیکھا تو باہر کامران کھڑا ہوا اپنی چھوٹی اور پیاری سی داڑھی کھجاتے ہوئے کچھ پریشان سا تھا کافی دیر ہو چکی تھی۔ جب میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ ساری کاروائی کے بعد آخری میں ENTERکا بٹن شاید میں نے کافی زور سے دبایا دیا تھا وہ واپس ابھرا ہی نہیں اور اس کے نہ ابھرنے سے خاموشی چھا گئی تھی اور مشین کرنسی اگل نہیں رہی تھی، میں نے فوری طور پر اس پر ہلکا سا دوبارہ ٹچ کیا تو مشین کے بولنے کے ساتھ ساتھ بھارتی کرنسی اور میرا کریڈٹ کارڈ بھی باہر آ گیا۔ ابھی تک میں نے بھارتی کرنسی نہیں دیکھی تھی اور جلد ہی اس کا دیدار کرنے کو جی مچل رہا تھا۔ سو، پانچ سو اور ہزار کے تمام نوٹوں پر مہربان مسکراہٹ کے ساتھ گاندھی جی براجمان تھے بھارتی نوٹ چوڑائی میں کم اور لمبائی میں زیادہ تھے ہزار کا نوٹ تو اتنا لمبا تھا کہ میرے جاپانی لمبوتڑے پرس میں بھی سما نہیں رہا تھا مجبوراً ہزار والے نوٹوں کو دو حصوں میں اس طرح تہہ کیا کہ گاندھی جی کا چہرہ چھپ گیا، نوٹوں کی دوسری جانب مختلف النسل کے لوگ قافلے کی صورت میں جاتے دکھائی دے رہے تھے اور ایک نوٹ پر ہاتھی، چیتا اور گینڈا بھی نظر آیا مگر اس کا پسِ منظر کیا تھا یہ نہ سمجھ سکا، نوٹوں کی کوالٹی پاکستانی نوٹوں ہی طرح تھی کہ کتھا اور چونے کے نشانات بھی پائے جاتے تھے کسی نوٹ پر کوئی فون نمبر یا کسی گھر کا پتہ بھی لکھا ہوا دیکھا، خوشبو سونگھی تو کوئی خاص خوشبو محسوس نہ ہوئی جےس استعمال کی زیادتی سے خوشبو اُڑ گئی ہو۔ تاہم ہر نوٹ کی پشت پر ہندی، اردو انگریزی کے علاوہ بھی ایک دو زبانوں میں نوٹ کی مالیت درج تھی، دنیا کے بیشتر ممالک کے کرنسی نوٹوں پر وہاں کے بادشاہوں، شہزادوں، حکمرانوں اور بانیوں کی ہی تصاویر ہوتی ہیں مگر جاپان کے کرنسی نوٹوں پر جاپان کے دانشور، مفکر اور ادبی شخصیات کی تصویریں دیکھ سکتے ہیں اور ہر نوٹ پر ایک ہی شخصیت کی تصویر نہیں ہوتی بلکہ مختلف مالیت کے نوٹ پر مختلف شخصیت کی تصویر ہے اور ہمیشہ انہی شخصیات کی تصویریں ہی نہیں ہوتیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ دوسری شخصیات کو بھی متعارف کروایا جاتا ہے جن کا اس ملک کے بنیادی ڈھانچوں یا تعلیمی نظام میں اہم کردار رہا ہو۔ ATMکارنر سے باہر نکلا تو کامران باہر میرا منتظر تھا اور کچھ سہما ہوا تھا شاید اسے شک ہو گیا تھا کہ میں ATMمشنل سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر رقم نکالنے کی کوشش میں مصروف ہوں اور اسی لئے اتنی دیر ہو رہی ہے، ہم دونوں ایک بار پھر ہوٹل کی طرف گئے اور کامران کے فون پر ڈاکٹر خواجہ صاحب کا فون آیا کہ وہ کانفرنس کے اختتام کے بعد سیدھے ہوٹل آ رہے ہیں، کامران اجازت لے کر مجھ سے رخصت ہوا کہ وہ اپنے دوست عطا ندوی کے پاس ٹہرےا ہوا ہے کل کانفرنس میں ہی ملاقات ہو گی، تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین میرے کمرے میں موجود تھے۔ ان سے میری یہ تین سال بعد ملاقات ہوئی جب ۲۰۱۱ء میں میں نے انھیں جاپان مدعو کیا تھا ان تین سالوں میں ڈاکٹر خواجہ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بہت ہی ترقی دی اور وہ اس وقت بھارت کی نامور یونیورسٹی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کے سربراہ اور قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کے ڈائریکٹر بھی ہیں اور ایسی شخصیت آج مجھے انڈیا میں خوش آمدید کہہ رہی تھی جو میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں تھا، ڈاکٹر صاحب میرے ہم عمر ہی ہیں اور ہم میں کافی بے تکلفی بھی ہے تاہم علم و دانش میں وہ بہت آگے ہیں اور میں ان کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہوں، انھوں نے مجھ سے جاپان کے دوستوں کا حال احوال پوچھا اور اپنے دورۂ جاپان کی یادیں بھی تازہ کیں۔ انھوں نے مجھے انڈیا میں ویلکم کہتے ہوئے بہت ہی خوشی کا اظہار کیا تاہم ویزے کی تاخیر سے دو دن کانفرنس میں عدم شرکت کا مجھے بھی ملال تھا تاہم اگلے روز کانفرنس کا آخری اور اہم دن تھا، ڈاکٹر صاحب اور ان کے رفقاء کا میں تہہ دل سے مشکور ہوں جس محبت و خلوص سے انھوں نے مجھے اس عالمی کانفرنس میں نہ صرف مدعو کیا بلکہ ویزے کے حصول کے لئے جو کوششیں کیں وہ میں کبھی فراموش نہیں کرسکوں گا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آج شام ایک شادی میں جانا ہے اور اسی بہانے آپ انڈیا میں ایک شادی میں بھی شرکت کر لیں گے، چلو آج کا دن ضائع تو نہیں ہو گا اسی لئے میں نے بھی شادی میں شرکت کی حامی بھر لی، ڈاکٹر صاحب کے ہمراہ نےچک لابی میں پہنچا تو کئی مہمانوں سے ملاقات ہوئی جو کانفرنس میں شرکت کر کے واپس اسی ہوٹل پہنچے تھے اور اب ہر کوئی اپنی اپنی پسند کی تفریح کے لئے باہر جانے کے منصوبے بنا رہا تھا، ڈاکٹر صاحب نے وہاں موجود پاکستان سے تشریف لائے ہوئے فیصل آباد یونیورسٹی کے پروفسرں جمیل اصغر سے تعارف کروایا اور ہم تینوں خواجہ صاحب کی گاڑی میں ہوٹل سے نکلے اور آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد نیو دہلی کے پوش علاقے میں داخل ہوئے جو کراچی کے ڈیفنس جیسا تھا اور رات کے وقت ہر طرف روشنیوں کی وجہ سے دن کا سا سماں تھا، یہ علاقہ غالباً سرکاری اعلیٰ ترین منصب پر فائز افسران، بیورو کریٹ اور امیر کبیر لوگوں کی رہائش کا مرکز تھا جہاں بیرونی شہر کے مقابلے میں خاصا نظم و ضبط، صفائی ستھرائی اور خاموشی محسوس ہو رہی تھی، ان بنگلوں کے درمیان ہی ایک شادی ہال بھی نظر آیا، ہم ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین کی معیت میں شادی ہال کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوئے، اندر داخل ہوتے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ کسی مسلمان گھرانے کی شادی کی تقریب ہے۔
ایک وسیع و عریض میدان نما ہال میں مہمانوں کا ہجوم تھا اور انواع و اقسام کے دیسی کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبوئیں چارو ں طرف پھیلی ہوئی تھیں، ہال کے ایک سرے سے آخری سرے تک پکوان تیار ہو رہے تھے اور مہمان اپنی پلیٹوں میں اپنی پسند کی ڈش ڈال کر خو ب لطف اندوز ہو رہے تھے، پکوانوں میں درجنوں ڈشیں تیار کی جا رہی تھںا میرا اندازہ تھا کہ ایک سرے سے آخری سرے تک شاید ہی کسی مہمان نے تمام ڈشیں چکھی ہوں۔ کھانے کے ساتھ ساتھ خواجہ ڈاکٹر اکرام الدین ہمارا دیگر مہمانوں سے تعارف بھی کرواتے رہے، در اصل یہ شادی دہلی یونیورسٹی کے دو پروفیسرز حضرات پروفیسر ڈاکٹر ابنِ کنول کی صاحبزادی اور پروفیسر ڈاکٹر اسلم پرویز کے صاحبزادے ایمن پرویز کے مابین تھی جس میں زیادہ تر مہمانوں کا تعلق بھی تدریسی شعبوں سے تھا۔ ڈاکٹر خواجہ صاحب نے جتنے بھی مہمانوں سے ہمارا تعارف کروایا وہ سب پروفیسرز حضرات یا کوئی اعلیٰ سرکاری افسران ہی تھے۔ تقریباً سات سو کے لگ بھگ مہمان تھے جنھیں دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پورے نیو دہلی کی جامعات کے پروفیسر ز حضرات اس تقریب میں شریک ہیں کوئی علی گڑھ، لکھنؤ، بھوپال، جموں، کشمیر، حیدرآباد اور دور دراز سے تشریف لائے ہوئے تھے گویا پروفیسروں کا جمعہ بازار لگا ہوا تھا۔ ماحول تو بالکل پاکستانی تھا مگر اندازِ گفتگو اور کسی سے بات چیت کرتے وقت میں محسوس کر سکتا تھا کہ لب و لہجے میں کچھ فرق ہے، بڑے بڑے اردو دانوں کے لہجے میں ان کے مقامی علاقوں کا تلفظ حاوی تھا، کئی پروفیسرزحضرات یا دیگر مہمان جو خالص مشرقی لباس شیروانی، چست پاجامہ اور ترچھی ٹوپی میں بھی نظر آئے جنھیں دیکھ کر طبیعت خوش ہو گئی اور برِ صغیر کے قدیم دور کا تصور ابھر آیا۔ شادی کی ایسی تقریب میں ایک طویل عرصے کے بعد شرکت کرنے کا موقع ملا کیونکہ جاپان آنے کے بعد میں نے شادی کی کوئی تقریب اٹینڈ نہیں کی تھی یا یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ مجھے کبھی مدعو ہی نہیں کیا گیا۔ اس تقریب میں تقریباً وہ تمام مندوبین بھی مدعو تھے جو عالمی اردو کانفرنس میں شریک ہو رہے تھے اور مجھے یہاں ایسے کئی پروفیسرز و ڈاکٹرز حضرات سے ملاقات کا بھی موقع ملا جو اکثر و بیشتر اردو نیٹ جاپان پر اپنے مضامین یا ادبی سرگرمیوں کی رپورٹس وغیرہ بھےجتل رہتے ہیں، آخر میں ہال سے ملحق ایک اور چھوٹے ہال میں موجود دولہا ایمن پرویز سے بھی تعارف ہوا اور ان کے دوستوں سے بھی، دلہن اور خواتین دوسرے ہال میں تھیں اور غالباً وہاں بھی خواتین مہمانوں کی اتنی ہی تعداد موجود تھی۔ رات کافی ہو چکی تھی مگر مہمانوں کی آمدو رفت جاری تھی۔
نیو دہلی میں میرا پہلا آدھا دن بھر پور گزرا اور ڈاکٹر صاحب نے ہمیں ہوٹل تک ڈراپ کیا اور کل صبح جواہر لعل یونیورسٹی کے ہال میں ملاقات کا وعدہ کیا، اسی ہوٹل میں تقریباً ۲۹ مندوبین کا قیام تھا جن کا تعلق امریکہ، کینیڈا، ڈنمارک، پاکستان، ایران، ماریشس، جرمنی اور اندرونِ بھارت سے تھا جبکہ بقیہ مہمان قریبی دوسرے ہوٹل میں مقیم تھے، پروفیسر جمیل اختر سے اجازت لی اور صبح ناشتے پر ملاقات طے کی، قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کی انتظامیہ نے ہمیں تاکید کی کہ صبح نو بجے تک تیار رہیں تمام مہمانوں کو ایک بس میں لے جایا جائے گا۔ ہوٹل کے کمرے میں پہنچتے ہی نرم گداز بستر پر مجھے نیند نے آ لیا اور مسلسل ۲۴ گھنٹوں کے بعد چھ گھنٹے گہری نیند سے تھکاوٹ دور ہو گئی اور صبح سات بجے ہی میں نےچر ناشتے کے لئے پہنچا تو کافی چہل پہل اور گہما گہمی تھی، ناشتے میں بھارت کی خالص ڈشیں دال، آلو کی بھجیا، پراٹھے، ابلے ہوئے انڈے اور پوریوں کے ساتھ چائے اور کافی وغیرہ دستیاب تھی۔ ناشتے کے دوران ہی کئی مندوبین سے تعارف ہوا جن میں امریکہ سے تشریف لائے ہوئے امین حیدر، کڈنی ا سے نعمان بخاری، روبینہ فیصل، ڈنمارک سے مرزا صدف٭، ماریشس سے محمد عنایت عیدن حسین٭٭ اور ان کی اہلیہ، جرمنی کے اقبال حیدر، سیدتقی عابدی، پاکستان سے ناصر عباس، جمیل اصغر، مرزا حامد بیگ، ایران سے علی بیات، وفا یزدان، فرزانہ اعظم لوطفی اور اندرونِ بھارت حیدرآباد سے مظفر علی شاہمیری، جموں سرینگر سے محمد زمان آزردہ، کشمیر سے ملک عنایت شہاب اور الہ آباد سے علی احمد فاطمی شامل ہیں، خواتین کی کچھ تعداد دیکھ کر مرجھائے ہوئے چہرے پر رونق آ گئی۔ ان تمام دانشوروں کا تعلق اپنے اپنے ملک و علاقے کی اعلیٰ جامعات کے اردو شعبے سے تھا، میری جاپان سے شرکت کو سب نے بہت سراہا اور جاپان کے بارے میں خوب تبادلۂ خیال بھی ہوا میں نے اس موقع پر ان تمام اردودانوں کو اپنی کتاب ’’ دیس بنا پردیس‘‘ پیش کی جسے بڑی خوش دلی سے قبول کیا گیا۔ ٹھیک نو بجے اعلان کیا گیا کہ یونیورسٹی کی بس آ چکی ہے تمام مہمان جانے کے لئے تیار ہو جائیں، بس سے تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد بھارت کی معروف ترین جامعہ جواہر لعل یونیورسٹی میں داخل ہو گئی نیو دہلی کے پُر فضا مقام پر واقع یہ وسیع و عریض یونیورسٹی ہے جہاں مختلف ممالک کی زبانیں سےکھن کے لئے اندرونِ بھارت وہ دنیا کے کئی ممالک سے تقریباً نو ہزار طلبا و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ بھارت کی وزارتِ انسانی وسائل و ترقی کے ماتحت قائم ہونے والی قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کے زیرِ اہتمام اکیسویں صدی میں اردو کا سماجی و ثقافتی فروغ کے موضوع پر سہ روزہ کانفرنس کا آج تیسرا اور آخری دن تھا، جامعہ کے باہر بہت بڑے بڑے بینر آویزاں تھے، تمام مندوبین جب بس سے اترے تو پروفیسر ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین اور ان کے رفقاء ڈاکٹر رضوان الدین، ڈاکٹر اختر حسین اور انتظامیہ نے والہانہ استقبال کیا۔ جامعہ کے مرکزی و داخلی دروازے پر بھارت کے رہنما اور پہلے وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو جن کے نام سے یہ یونیورسٹی موسوم ہے، کا ایک مجسمہ نصب تھا کئی مندوبین نے ان کے مجسمے کے ساتھ کھڑے ہو کر یادگار تصاویر بھی بنوائیں اور جامعہ کے کنوینشن ہال کے باہر تمام مندوبین نے اپنی اپنی شناخت کروائی اور ہال میں داخل ہو گئے جہاں اسٹیج پر قومی کونسل کا بڑا سا بینر آویزاں تھا ایک پینل پر بیک وقت سات افراد کے لئے کرسیاں بھی لگائی گئی تھیں، اسٹیج کے دونوں اطراف پروجیکٹر اسکرین کا بھی اہتمام کیا گیا تھا، یہ ہال ساڑھے تین سو نشستوں پر مشتمل تھا جو کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور کئی لوگ تو سیڑھیوں پر بھی بےٹھ ہوئے تھے اور ہال کی دونوں کی دونوں دیواروں سے بھی ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے نظر آئے، ٹھیک دس بجے ڈاکٹر خواجہ صاحب نے تمام حاضرین و مندوبین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انھیں خوش آمدید کہا اور خوشخبری سنائی کہ آج کانفرنس کے آخری روز اب سے ایک گھنٹے بعد وفاقی وزیر برائے انسانی وسائل و ترقی محترمہ اسمرتی زوبین ایرانی صاحبہ بھی تشریف لا رہی ہیں۔ ان کی تشریف آوری تک اس ایک گھنٹے کو بھی مفید بنایا جائے اور آج کے کوئی دو مندوبین اپنے مقالات پڑھیں۔ مذکورہ کانفرنس کے لئے تمام مندوبین نے دو ماہ قبل ہی اپنے اپنے موضوعات پر اپنے مقالے کونسل کو بھیج دیئے تھے جو اب کتابی شکل میں بھی دستیاب تھے جس کی تقریبِ رونمائی بھی موصوفہ وزیر کے ہاتھوں ہونا طے پائی تھی۔ آج کے پہلے اور آخری پینل کی نظامت بھارت کے ریڈیو و ٹی وی کی سحر انگیز شخصیت معروف اینکر خاتون ڈاکٹر شگفتہ یا سمین کر رہی تھیں، پہلا مقالہ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے پروفیسر ڈاکٹر محمد کاظم نے، اکسوفیں صدی میں ہندوستانی اسٹیج و اردو ڈراموں، کے متعلق پڑھا۔ ڈاکٹر شگفتہ نے اپنی دلکش آواز میں شگفتگی سے اعلان کیا کہ محترمہ اسمرتی زوبین ایرانی صاحبہ تشریف لا چکی ہیں، ان کے اعلان کے ساتھ ہی جب وہ ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین اور ان کے رفقاء کی معیت میں ہال میں داخل ہوئیں تو حاضرین نے کھڑے ہو کر پُر زور تالیوں میں ان کا استقبال کیا۔ ان کے ہمرا ہ ان کی وزارت کے جوائنٹ سیکریٹری ایس ایس ساندھو، کمشنر برائے لسانیاتِ اقلیتی کے پروفیسر اختر الواسع، چیف کمشنر آف انکم ٹیکس سید محمد اشرف اور جامعۂ ہذا کے وائس چانسلر پروفرسک ایس کے سوپوری بھی تھے۔ ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین نے وزیر موصوفہ کا استقبال کرتے ہوئے انھیں کانفرنس کے اغراض و مقاصد اور اس ادارے کے تحت اردو زبان کے فروغ اور اس کی کارکردگی کا مختصر جائزہ پیش کیا۔ شگفتہ یاسین کی دعوت پر کمشنر برائے لسانیاتِ اقلیتی کے پروفیسر اختر الواسع نے بھارت میں اردو زبان کی اہمیت پر جامع خطاب کرتے ہوئے موصوفہ وزیر اسمرتی کو بھارت میں اردو زبان کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا اور ان سے درخواست کی وہ بطورِ وزیر بھارت میں دم توڑتی ہوئی اردو زبان کو استحکام بخشنے کے لئے ضروری اقدامات کریں اور بھارت کے تعلیمی اداروں میں ہندی کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی مساوی حیثیت دلانے میں اپنا کردار ادا کریں، اسی طرح کلکتہ سے تشریف لائے ہوئے چیف کمشنر آف انکم ٹیکس سید محمد اشرف نے بھی اردو زبان کو درپیش مسائل کا تفصیل سے ذکر کیا اور اردو زبان کی ترقی کے لئے نہایت ہی مفید تجاویز بھی پیش کیں۔ اس سہ روزہ کانفرنس کے آخری روز کا پہلا ہاف مہمانِ خصوصی معزز وزیر اسمرتی زوبین ایرانی کے خطاب سے ہوا۔ محترمہ کے بارے میں سنا تھا کہ وہ سیاست میں آنے سے قبل ٹی وی ڈراموں میں بہترین اداکارہ کے طور پر بھی کافی مشہور تھیں اور بہت ہی محنتی اور خوددار خاتون تھیں انھوں نے اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک عام سے ریستوران میں صفائی کا کام بھی کیا اور اس مقام تک پہنچی ہیں وہ ایک خوبصورت اور پُر کشش شخصیت کی مالک ہیں، شگفتہ یاسین نے جب ان کا تعارف کروایا تو پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور ڈائس پر تشریف لانے کے بعد انھوں نے بھی شگفتہ یاسین کی نظامت کی بہت تعریف کی۔ عام لوگوں کی طرح میرا بھی یہی خیال تھا کہ اردو اور ہندی ایک ہی زبان ہے جس کا رسم الخط ایک دوسرے سے جدا ہے، انڈیا یا پاکستان کے ڈراموں یا فلموں میں استعمال کی جانے والی زبانوں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا، اور لوگوں کی طرح ہندی زبان کے بارے میں میرا بھی اتنا ہی علم تھا کہ بھگوان، سواگت، دھرم، نمستے، نمسکار یا اسی سے ملتے جےت چند الفاظ اگر اردو میں شامل کر دیےی جائیں تو ہندی ہو جاتی ہے اور اس زبان کو ہندوستان میں ہندی کہا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں اردو کہا جاتا ہے۔ مجھے آج پہلی بار خالص اور ثقیل ہندی سننے کا موقع ملا تھا، توقع کی جا رہی تھی کہ محترمہ عالمی اردو کانفرنس کی لاج رکھتے ہوئے ہی سہی وہی ہندی زبان استعمال کریں گی جو بھارتی عوام عام بول چال میں استعمال کرتی ہے، مگر ان کا آغاز ہی عالمی ہندی۔ ۔ سوری۔ ۔ ۔ سے ہوا، اور انھوں نے دانستہ یا غیر دانستہ یہ لفظ استعمال کیا مگر فوراً ہی انھیں احساس ہوا کہ یہ عالمی ہندی نہیں بلکہ عالمی اردو کانفرنس ہو رہی ہے۔ انھوں نے شروع سے آخر تک اپنے بیس منٹ کے خطاب میں ایسی ہندی استعمال کی جو میں نے کبھی نہیں سنی تھی اور مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ ہندی زبان ایسی ہوتی ہے ان کی پوری گفتگو میں آپ، ہمارے، ان کا، ان کے، اگر، کا، کی اور ایسے ہی امدادی الفاظ اردو کے تھے باقی سب ہندی تھے اور یہ وہی ہندی تھی جو کبھی کبھار بھارتی فلموں میں دورانِ پرستش یا شادی کے موقع پر پنڈت وغیرہ استعمال کرتے ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ موصوفہ کے خطاب سے پہلے شاید پروفیسر اختر الواسع نے کہا تھا کہ جب بھارتی سائنسدان چاند پر گئے تھے تو اس وقت کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے ان سے براہ راست پوچھا کہ وہاں سے بھارت کیسا لگتا ہے تو اس نے بر جستہ جواب دیا تھا کہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا، اور یہ جملہ خالص اردو میں تھا، تو محترمہ نے اپنی تقریب کا اختتام بھی اسی انداز میں بڑے فخر سے کیا کہ ہندی ہے ہماری زبان ہندوستان ہے ہمارا۔ ۔ ۔ ۔ تاہم انھوں نے اپنے خطاب میں یہ باور کروایا کہ وہ اردو زبان کے فروغ کے لئے اپنی وزارت کے ذریعہ اسے مزید فروغ دینے کے لئے بھر پور کوششیں کریں گی مگر انھوں نے آخر تک مروتاً بھی اردو میں شکریہ کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ ان کی اس ہندی تقریر کے ساتھ ہی اردو کانفرنس کے آخری روز کے پہلے ہاف تک ۵۲ میں سے چالیس مقالے پڑھے گئے پہلے دو دنوں کی کانفرنس میں شرکت کا موقع نہ مل سکا۔ دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چکا تھا یونیورسٹی کے لان میں تمام مہمانوں اور مقررین کے لئے انواع اقسام کے کھانوں کا اہتمام کیا گیا تھا کھانے کے دوران بھی کئی لوگوں سے متعارف ہونے کا موقع ملا۔ لنچ کے بعد دوسرے ہاف کے پہلے پینل میں چار دیگر مندوبین کے علاوہ میرا نام بھی شامل تھا ہمارے پینل کی صدارت علیگڑھ کے پروفیسر افراہیم احمد صاحب ٭٭٭نے کی۔ سب سے پہلے لاہور سے تشریف لائے ہوئے پروفیسر مرزا حامد بیگ نے اپنا مقالہ، اردو تراجم، ضرورت و امکان، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسرشافع قدوائی نے، طلاع اساس معاشرہ کا تصور اور اردو زبان، چینائی سے پروفیسر سید سجاد حسین نے، اردو تراجم کا کردار، بہار کے سابق آئی جی پولیس معصوم عزیز کاظمی نے، ہندوستان میں اردو صحافت آئینہ ایام میں، جبکہ ماریشس سے تشریف لائے ہوئے محترم جناب عنایت حسین عیدن نے، ماریشس میں الیکٹرانک میڈیا اور اردو، کے موضوع پر اپنا مقالہ پڑھا۔، مجھ سے پہلے آنے والے تمام مقررین کو بھی دس منٹ کا وقت دیا گیا تھا مگر سب نے پروفیسر افراہیم کی جانب سے پرچی نہ آنے کی یقین دہانی کے باوجود پندرہ منٹ سے بھی تجاوز کیا اور آخر میں پرفیسر افراہیم نے جب مجھے مقالہ پڑھنے کی دعوت دی تو میرے دونوں ہاتھ پسےنپ سے شرابور تھے، چھوٹے موٹے جلسوں یا محفلوں میں تو کئی بار اظہارِ خیال کیا ہے مگر اتنے بڑے مجمع کے سامنے اور وہ بھی اتنی عظیم ہستیوں کے سامنے اپنا مقالہ پڑھنا میرے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف تھا، اس سے قبل پینل پر بےٹھ ہوئے میں نے کئی بار اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ کوئی ایسا سبب کر دے کہ میری باری ہی نہ آئے، کوئی مقرر اتنا ٹائم لے لے کہ میری باری ہی نہ آئے اور مجھے اس جمِ غفیر کا سامنا ہی نہ کرنا پڑے مگر اللہ جو ہمیشہ میری سنتا ہے نے اس مرتبہ میری نہیں سنی اور میرا بلاوا آ گیا، میرے قدم ڈگمگا رہے تھے قریب تھا کہ میں چکرا کر گر جاتا کہ ڈائس کا سہارا لے کر اپنے مقالے والے چار صفحات تھام کر اور اپنے سرد ہوتے ہوئے بائیں ہاتھ کو پتلون میں ڈال کر خشک ہوتے ہوئے ہونٹوں پر پہلے سے خشک زدہ زبان پھیری اور پہلے صفحے پر نظر ڈالی تو میرے حواس گُم ہو گئے۔ ۔ ارے یہ کیا!!
در اصل جب میری باری آنے والی تھی تو میں نے اپنے مقالے پر ایک نظر ڈالنے کے لئے صفحات الٹ پلٹ کئے تھے اور آخری صفحہ اوپر ہی رہ گیا تھا، گھبراہٹ پر قابو پانے اور نےچی والے صفحے کو اوپر لانے کے دوران اظہارِ تشکر کرتے ہوئے گھبراہٹ میں نہ جانے کیا کہتا گیا اور پھر پہلے صفحے پر نظر پڑی تو جان میں جان آئی اور اپنا مقالہ پڑھنا شروع کیا، گھگی بندھ چکی تھی اور دس منٹ کا ٹائم تیزی سے گزر رہا تھا سینکڑوں آنکھیں مجھے دیکھ رہی تھیں اور سب کی نظریں مجھ پر مرکوز تھیں اور اس سوچ میں گُم تھیں کہ نہ جانے جاپان سے آیا ہوا یہ افلاطون کیا گُل کھلائے گا؟ اس احساس نے مجھے تیز پڑھنے پر مجبور کر دیا اور کئی بار ہکلاہٹ کا شکار بھی ہوا، اور سامنے والی نشست پر ڈنمارک کی صدف مرزا نے کوئی جملہ بھی کسا جس سے گھبراہٹ میں مزید اضافہ ہو گیا مگر پروفیسر افراہیم کی پرچی آنے سے پہلے ہی بخیریت اپنا مقالہ ختم کیا۔ ہال میں زور دار تالیوں کی آواز بھی سنی، میرے مقالے کے ساتھ ہی چائے کے وقفے کا اعلان کیا گیا، چائے کے بعد دوسرے اور آخری پینل کا آغاز ہوا، اب میں بھی عام سامعین و ناظرین کے ساتھ ہال میں بیٹھا ہوا تھا۔
اچانک میں اپنی نشست سے اٹھا اور کامران کو بلایا اور کہا کہ دوسرے اور آخری پینل کے مقررین کو سننے کی بجائے میں جامعہ ہذا کی تھوڑی سی سیر کرنا چاہتا ہوں کہ کل تو میری واپسی ہے پھر یہ مشکل ہو جائے گا۔ مقالات جو کہ کتابی صورت میں بھی سب کو تھما دئے گئے تھے اور بقیہ مقررین کے مقالات نہ سےنہ پر دل میں شرمندگی محسوس کرتے ہوئے ہم ہال سے باہر آ گئے کہ بعد میں کتاب پڑھ لوں گا، یہ غالباً پہلی بار میں نے بھی دیکھا تھا کہ جن مقررین نے مقالے پڑھنے تھے وہ اسی روز کتابی شکل میں سب کے ہاتھوں میں تھے، یہ کاوش یقینا قابلِ ستائش تھی مگر اس کی وجہ سے مرھا اپنا ذاتی خیال تھا کہ اب وہی مقالات جو کتا بی شکل میں ہیں وہی پڑھے جائیں گے اس خیال نے براہ راست مقررین کے مقالات سننے میں عدم دلچسپی پیدا کر دی تھی۔ ہال کے باہر مقامی ٹی وی والے صحافیوں نے مجھ سے مختصر انٹرویو کی درخواست کی اور میں نے ان کے مائک میں مختصراً اس سیمینار کے بارے میں اظہارِ خیال کیا، کامران غنی نے وہیں پر کھڑے ہوئے ایک نوجوان ڈاکٹر عبد الرافع کا تعارف کروایا۔ ڈاکٹر رافع ہی کی معیت میں کامران، عطاء اور میں جامعہ سے باہر آئے اور دوسرے عام دروازے سے یونیورسٹی کے کیمپس میں داخل ہو گئے اور ڈاکٹر رافع نے یونیورسٹی کے بارے میں اہم معلومات فراہم کیں۔ ڈاکٹر رافع جو اسی جامعہ سے فارغ التحصیل ہیں اور اب یہیں پر ایک جدید لغت(ڈکشنری) جو تقریباً 32زبانوں میں تیار ہو رہی ہے اس میں اردو کے پروجیکٹ میں اپنے ایک سینئر کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ہم چاروں پیدل چلےا رہے اور کئی مقامات پر اندرونِ جامعہ مزید تعمیراتی کام ہوتے ہوئے بھی دیکھا جبکہ ہر طرف قدیم زمانے کی طرز پر سرخ اینٹوں سے تعمیر کی گئیں اونچی عمارتیں بھی افتادہ تھیں، جگہ جگہ ہرے بھرے اونچے درخت، پھولوں کی کیاریاں اور چھوٹے موٹے حوض نظر آ رہے تھے جس کی وجہ سے اندر کا ماحول بہت ہی پرکشش اور دلفریب تھا جو یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ ایک بہترین تفریح گاہ کا منظر بھی پیش کر رہا تھا۔ ڈاکٹر رافع نے بتایا کہ JNUیعنی جواہر لعل یونیورسٹی کی تاریخ اتنی پرانی تو نہیں ہے مگر اس کا شمار بھارت کی چھ سو سے بھی زائد جامعات میں سے مرکزی حکومت کے زیرِ نگرانی چلنے والی جامعات میں دوسرے نمبر پر ہوتا ہے جو 1969میں بھارت کے پہلے وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو کے نام سے اُس وقت کی بھارتی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے اپنے دورِ اقتدار میں اپنے والد کے نام پر قائم کی تھی۔ تاہم اپنے تعلیمی معیار کے لحاظ سے بہت جلدJNUنے بھارت کی قدیم اور اعلیٰ ترین جامعات کی تاریخ میں اپنا نام لکھوا لیا ہے۔ یہاں پر داخلے کے لئے خالصتاً اسٹوڈنٹس کی صلاحیتوں کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے اور اس جامعہ میں داخلہ لینا اتنا آسان نہیں ہے۔ یہاں اندرونِ ملک کے دور دراز سے طلباء و طالبات کی کثیر تعداد حصولِ علم کے لئے آتی ہے جبکہ بیرونِ ممالک سے بھی طلباء و طالبات کی بڑی تعداد یہاں پر تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ JNUمیں تقریباً 9ہزار اسٹوڈنٹس زندگی کے ہر شعبے سے متعلق تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ اس کے دفتری و تدریسی عملے کی تعداد بھی ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ اس کا رقبہ ایک ہزار ایکٹر یعنی چار کلومیٹر سے بھی زائد اراضی پر پھیلا ہوا ہے جس میں اسٹوڈنٹس کے لئے پندرہ سے بیس کے قریب ہوسٹل بھی تیار کئے گئے ہیں۔ ہمیں جامعہ کی سیر کرتے ہوئے ایک گھنٹے سے بھی زیادہ ہو چکا تھا مگر اس کی کوئی حد نظر نہیں آتی تھی اور میں جتنا پیدل چل رہا تھا میرا اتنا ہی جی چاہ رہا تھا کہ میں اسی طرح اس خوبصورت اور پُر فضا مقام کی سیر کرتا رہوں۔ جامعہ کے عین درمیان میں ایک بڑے سے چبوترے پر نہرو کا جہازی سائز مجسمہ نصب تھا جس میں وہ تیزی سے چلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، سیر کرتے ہوئے ہر طرف نوجوان طلباء و طالبات کی ٹولیاں بھی نظر آئیں جو چھٹی کا دن خوب انجوائے کر رہے تھے، JNUکے ماحول کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا جےسی ہم کسی ایک چھوٹے سے خوبصورت شہر میں آ گئے ہوں جہاں شہر کے تمام ضروری لوازمات بدرجۂ اتم موجود تھے جہاں کوئی ڈر یا خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا ہر طرف خاموشی اور سکون تھا مگر زندگی کی بھر پور رونق کے ساتھ۔ کئی بار دل میں خواہش ابھری کہ کاش میں بھی ایسی جگہ پر کچھ دن قیام کرسکوں۔ پیدل چلتے ہوئے کچھ بھوک کا احساس بھی ہو گیا تھا دوپہر کا کھانا ہضم ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر رافع ہم سب کو قریب ہی ایک کینٹین میں لے گئے جہاں ہم سب نے چنے کی دال اور تندور کی روٹی کھائی اور کاغذ کے کپ میں گرما گرم چائے سے لطف اندوز ہوئے، کینٹین کے اندر اور باہر نوجوانوں کا رش تھا جنھیں دیکھ کر اپنا لڑکپن بھی یاد آ گیا۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا ڈاکٹر رافع کے ساتھ ہم ایک کیمپس میں داخل ہو گئے جہاں انھوں نے مختلف تعلیمی شعبے دکھائے، ایک دفتر میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہا یہاں پر جاپانی زبان سکھائی جاتی ہے کمرے کے اندر بالکل جاپان جیسا ماحول نظر آیا اور چند نوجوان طلباء و طالبات سے گفتگو کا موقع ملا، ان سے براہ راست جاپانی میں گفتگو کی تو میں حیران رہ گیا کہ سب اتین بہترین جاپانی زبان بول رہے ہیں تھوڑی دیر کے لئے مجھے لگا کہ میں جاپان میں ہوں۔ انھوں نے بتایا کہ ہمیں جاپانی زبان سے بہت لگاؤ ہے اور ہم جاپانی زبان سیکھ کر بھارت و جاپان کے مابین خوشگوار تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے خواہاں ہیں ہمیں جاپانی کلچر سے بھی بہت محبت و لگاؤ ہے، عنقریب ایک جاپانی تہوار منعقد ہونے والا ہے اس لئے آج ہم اس کی تیاری کے لئے خصوصی طور پر یہاں آئے ہیں۔ میں ان کے ان جذبات سے بہت متاثر ہوا اور سوچا کہ بھارتی حکومت اور عوام کے جاپان سے کتنے گہرے مراسم ہیں اور یہ لوگ اپنے اسی مراسم کی وجہ سے جاپان کی جان بنے ہوئے ہیں اور جاپانی حکومت اور عوام کا بھی لگاؤ ان کے ساتھ بہت زیادہ ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ جاپان سے ہر روز کئی پروازیں بھر بھر کر جاپانی سیاحوں اور کاروباری لوگوں کو بھارت لے کر پہنچتی ہیں، ٹوکیو اور بڑے بڑے شہروں میں بھارتی ویزہ مراکز میں جاپانی لوگوں کی قطاریں لگی ہوتی ہیں۔ جاپان میں بھارتی لابی اپنے ملک کی ترقی کے لئے بہت جدو جہد کرتی ہے اور اس وقت جاپان کی سینکڑوں صنعتیں بھارت میں قائم ہیں اور بھارتی مصنوعات کی بھی جاپان میں بھر مار ہے۔ گزشتہ ماہ بھارتی وزیرِ اعظم مودی جب جاپان آئے تو انھوں نے حکومتی و نیم حکومتی اداروں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کیں اور بھارت میں جاپانی سرمایہ کاری کے لئے اپنا ذاتی اثر و رسوخ بھی استعمال کیا ان کے دورۂ بھارت کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی انھوں نے اپنے ملک کے لئے بڑے بڑے منصوبوں پر کام کیا۔ اس کے برعکس حکومتِ پاکستان کے سربراہ ہوں یا حزبِ اختلاف کے قائدین انھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ملک ترقی کر رہا ہے یا تنزلی کی طرف راغب ہے انھیں بس اپنے اقتدار سے دلچسپی ہے، دھرنوں اور ہڑتالوں سے دلچسپی ہے۔ جاپان سے جاپانی لوگوں کی جتنی تعداد ایک دن میں بھارت کا رخ کرتی ہے اتنی ہی تعداد بمشکل ایک سال میں پاکستان کا رخ کرتی ہے۔ ڈاکٹر رافع نے ہمیں ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین کا دفتر بھی دکھایا اور آخر میں وہ اپنے دفتر بھی لے کر گئے جہاں وہ مذکورہ لغت کے پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ اس لغت کی تیاری میں تقریباً پانچ سال درکا ر ہیں اور یہ لغت اپنی نوعیت کی پہلی لغت ہو گی جس میں ایک ایک لفظ کا خالصتاً اردو نعم البدل ہو گا۔ ڈاکٹر رافع کا تعلق بھی پٹنہ سے ہے اور ان کی سادگی نے بھی مجھے بہت متاثر کیا وہ کرتہ اور پاجامہ زیبِ تن کئے ہوئے تھے اور عام سی سینڈل پہنے ہوئے تھے مگر ان کے سےنی میں چھپے علم کے خزانے اُبل رہے تھے۔ ہم نے ان سے اجازت لی اور اسی طرح پیدل چلتے ہوئے کانفرنس ہال میں واپس آ گئے جہاں سیمینار اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا میں پھر خاموشی سے جا کر ہال میں پروفیسر جمیل اصغر کے پہلو میں بیٹھ گیا جہاں میرا بیگ رکھا ہوا تھا اور اس طرح میں نے بھی انگلی کٹوا کر شہیدوں میں نام بھی لکھوا لیا کہ میں سیمینار کے آخر تک موجود تھا۔ یہ عظیم الشان سیمینار جس میں اردو زبان کے فروغ کے لئے سیمینار کے روحِ رواں جناب ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین صاحب نے جو کاوشیں کی تھیں وہ رنگ لائیں اور یہ سہ روزہ سیمینار اپنے اختتام کو پہنچا۔ آخر میں تمام مندوبین کی گروپ تصاویر بھی لی گئیں۔
شام کے چھ بج چکے تھے میں نے کامران اور عطاء ندوی سے کہا کہ مجھے پیغام آفاقی جن کا شہرۂ آفاق افسانہ پلیتہ نے دھوم مچا رکھی ہے ان سے ملنا ہے، کامران غنی، عطاء ندوی اور میں ایک بار پھر خاموشی سے اختتامی تقریب سے نکل کر جامعہ سے باہر آئے، کامران نے پیغام آفاقی صاحب سے فون پر رابطہ کیا کہ چھٹی کی وجہ سے وہ گھر پر ہی تھے میری بھی فون پر بات چیت ہوئی اور انھوں نے کہا کہ آپ لوگ ابھی تشریف لا سکتے ہیں، ہم نے ٹیکسی یا رکشہ میں جانے کا ارادہ کیا مگر کوئی رکشہ یا ٹیکسی والا جانے کو تیار ہی نہیں ہو رہا تھا، یہاں کی رکشہ اور ٹیکسی برادری وطنِ عزیز کی برادری سے مختلف نہ تھی جو سواری کی مرضی سے نہیں اپنی مرضی سے اپنی پسند کی جگہ پر جاتے ہیں۔ بڑی مشکل سے ایک رکشہ والا تیار ہوا اور ہم پیغام آفاقی صاحب کی طرف جا رہے تھے تقریباً آدھ گھنٹے میں صرف چند کلو میٹر کا سفر طے ہوا تھا سڑکوں پر بے تحاشہ رش تھا اور وقت تیزی سے گزر رہا تھا میں نے کامران سے کہا کہ پیغام صاحب سے معذرت کر لو ہم وہاں نہیں پہنچ سکیں گے اور بہت دیر ہو جائے گی ان سے فون پر معذرت کی اور رکشہ واپس JNUکی طرف مڑوا لیا۔ پیغام آفاقی صاحب جو بھارت کے نامور افسانہ نگار اور شاعر ہیں اور نیو دہلی میں کمشنر پولیس ہیں ان سے ملاقات کا بہت شوق تھا مگر پورا نہ ہو سکا۔ JNU میں سب واپس جا رہے تھے اور مندوبین کو واپس ہوٹل لے جانے کے لئے بس تیار تھی۔ کامران اور عطاء سے بھی آخری ملاقات کی اور بس میں سوار ہو گیا۔ راستے میں ڈاکٹر خواجہ صاحب کا فون آیا کہ وہ ایک گھنٹے بعد ہوٹل پہنچیں گے۔ ہوٹل جاتے ہوئے بس میں میرے ساتھ حیدرآباد دکن یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے صدر ڈاکٹر مظفر علی شہ میری صاحب تشریف فرما تھے انھوں نے میرے مقالے کی بہت تعریف کی اور جاپان کے بارے میں گفتگو کرتے رہے اور جاپان کے بارے میں بہت دلچسپی سے معلومات لےتو رہے۔ ہوٹل پہنچ کر میں اپنے کمرے میں گیا ابھی شاور لے کر فارغ ہوا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی تو ڈاکٹر خواجہ صاحب اپنی اہلیہ کے ساتھ موجود تھے۔ ڈاکٹر صاحب جو گزشتہ کئی ہفتوں سے سیمینار کی تیاری مصروف تھے مگر تھکا دینے والی مصروفیت کے باوجود وہ بہت ہی ترو تازہ لگ رہے تھے۔ بھابی محترمہ نے مجھے میری اہلیہ اور میرے لئے کئی تحائف پیش کئے اور اصرار کیا کہ کل جاپان جانے سے پہلے میں ان کے ہاں لنچ کروں، بھابی محترمہ سے کئی بار فون پر گفتگو کرنے کا شرف حاصل رہا تھا مگر آج پہلی بار ملاقات ہو رہی تھی وہ بہت ہی سادہ مگر پُر وقار خاتون ہیں اور ان کی گفتگو یا انداز سے قطعی معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ وہ اتنی بڑی شخصیت کی شریکِ حیات ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ انھوں نے میرے لئے کل ڈرائیور کے ساتھ ایک گاڑی کا بندوبست کر دیا ہے وہ مجھے ہوٹل سے لے کر ان کے گھر پہنچے گی۔ کھانے کے بعد سارا دن نیو دہلی کے تفریحی مقامات کی سیر بھی کروائے گی اور اسی طرح مجھے ایئرپورٹ تک بھی ڈراپ کرے گی۔ ان کے جانے کے بعد میں اپنے کمرے میں بور ہونے لگا تو سگریٹ پےنے کے بہانے ہوٹل کے باہر آ گیا جہاں مندوبین کی چہل پہل تھی اور سب اپنے اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں تفریحی مقام پر جانے کے لئے پر تول رہے تھے۔ میں ہوٹل کے باہر سگریٹ سے شغل کر رہا تھا اور ایرانی پروفیسر علی بیات سے محوِ گفتگو تھا کہ پروفیسر ڈاکٹر مظفر علی شہ میری اور کشمیر سرینگر یونیورسٹی کے پروفیسر محمد زمان آزردہ میرے قریب آئے اور شستہ انگریزی میں کہنے لگے کہ ارے آپ نے تو بہت ہی اچھا مقالہ پڑھا تھا مجھے تو آپ سب سے زیادہ پسند آئے ہیں آپ کا اگر کہیں جانے کا پروگرام نہں ہے تو ہمارے ساتھ کیوں نہیں چلتے ؟ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں !! میں نے فوری حامی بھر لی اور علی بیات سے اجازت لے کر ان کے ساتھ ہو لیا، پروفیسر آزردہ صاحب جو پاکستان کے نامور ادیب اشفاق احمد کے ہمشکل ہیں اور اندازِ گفتگو بھی ویسا ہی ہے۔ میں ان کے ساتھ ایک گاڑی میں بیٹھ گیا، ڈرائیونگ سیٹ پر بےٹھم ہوئے صاحب سے تعارف کروایا کہ موصوف ڈاکٹر آصف زہری اسی جامعہ میں عربی کے استاد ہیں اور آج ہم ان کے مہمان بھی ہیں اور پرانی دہلی سے کچھ شاپنگ کر کے ان کے ہاں شام کا کھانا ہے۔ گزشتہ روز کی طرح آج بھی میرا شام کو تُکا لگ گیا تھا اور سیر کا موقع مل گیا تھا۔ آزردہ صاحب فرنٹ سیٹ پر میں اور ڈاکٹر شہ میری صاحب پچھلی نشستوں پر تھے اور مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے آصف زہری صاحب نے ایک جگہ اپنی کار پارک کی اور ہم چاروں پیدل چلتے ہوئے اس علاقے کی سیر کرتے رہے اور اسی سے ملحق ایک مارکیٹ میں گھس گئے جہاں ریڈی میڈ گارمنٹس کی بے شمار دکانیں تھی یہ بازار مجھے کراچی کے بوہری بازار کی طرح لگا، چھوٹی چھوٹی دکانیں تھیں جہاں بیک وقت دو گاہک کندھے سے کندھا ملا کر نہیں چل سکتے پیٹھ سے پیٹھ سے ملا کر چلتے ہیں اور دکاندار دیواروں کے ساتھ یوں لگے ہوئے تھے جےسر کسی نے انھیں پستول دکھا کر انھیں ہینڈ از اپ کر دیا ہو۔ ۔ چونکہ شام ہو رہی تھی اور کئی دکانیں بند ہونا شروع ہو گئی تھیں ہم کئی دکانوں میں داخل ہوئے اور سویٹر وغیرہ دیکھتے رہے ایک دکان سے شاہ میری صاحب نے سویٹر اور آزردہ صاحب نے گرم پاجامہ وغیرہ لیا اور میں نے ان کی تصویریں لیں اور ڈاکٹر آصف زہری ہمیں ایک دکان سے دوسری دکان لےس پھرتے رہے۔ جب ہم واپس اپنی پارکنگ کی طرف جا رہے تھے تو سڑک پر اتنا رش تھا اور ٹریفک اتنی ہی بے نظمی کا شکار تھی جتنی اسے ہونا چاہےٹ تھا یعنی مزید بد نظمی کی کوئی گنجائش ہی نہ تھی جو ہارن بجاتا تھا وہ راستہ لے کر اپنا رکشہ، گاڑی، ٹیکسی، ٹرک یا بس سے خالی جگہ کو پُر کر دیتا تھا اسی طرح سڑک پار کرنے والے بھی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اچانک کسی گاڑی کے سامنے سے فر سے گزر جاتے تھے، ڈرائیور اور پید ل چلنے والوں میں باہمی سمجھوتے بڑے مستحکم نظر آتے تھے کسی کو کوئی گزند نہیں پہنچتی تھی مگر مجھ جیسا جاپانی مسافر جو گاڑی میں بیٹھا ہو تو بھی دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی تھیں اور کسی گاڑی کے سامنے سے سڑک پار کرنی ہو تو دل کے ساتھ اور بھی کئی اعضاء دھڑکنا اور سکڑنا شروع کر دیتے تھے۔ آصف زہری صاحب مقامی ہونے کی وجہ سے سانپ کی طرح بل کھاتے ہوئے ہماری نظروں کے سامنے سڑک پار کر گئے اور دونوں پروفیسرز حضرات نے مجھے درمیان میں لے کر سڑک پار کروانے کی ذمہ داری لے لی اور مجھے اس طرح سڑک پار کروانے لگے جےس کسی نا بینا یا معذور کے بغلوں میں ہاتھ ڈال کر سڑ ک پار کروائی جاتی ہے، ہم ایک گاڑی سے گزر کر اگلے قدم پر کھڑے ہو جاتے تھے اور کافی دیر تک ٹرکوں اور بسوں کے گزرنے کی وجہ سے تینوں لہرا جاتے تھے اس طرح کئی قسطوں میں سڑک پار کی اور آصف زہری صاحب سے جا ملے جو سڑک کے دوسرے کنارے پر کھڑے ہمارے منتظر تھے۔ سڑک بخیریت پار کرنے کے بعد پروفیسر آرزدہ نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ وہ کراچی گئے تھے تو اسی طرح سڑک پار کرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر انھیں مسلسل ناکامی ہو رہی تھی تو انھوں نے وہیں کھڑے کھڑے ایک ٹیکسی کو ہاتھ دیا اور اس میں بیٹھ گئے اور ڈرائیور سے درخواست کی کہ وہ انھیں سڑک کے اس طرف تک پہنچا دے تو ٹیکسی ڈرائیور بہت حیران ہوا مگر وہ اسے کچھ روپے دیکر اپنی مطلوبہ سمت چلے گئے۔ رات ہو چکی تھی اور نیو دہلی میں ویک اینڈ کی وجہ سے ٹریفک اور لوگوں کی بھیڑ بھاڑ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔ آصف صاحب نے قریبی ایک پان کے کیبن سے ہمارے لئے خوشبو دار اور مےٹھ پان بنوائے، ایک مدت کے بعد پان چبانے کا اتفاق ہوا تھا پان کے ساتھ ایک سگریٹ سلگائی تو ڈاکٹر آصف نے کہا کہ پان کے ساتھ سگریٹ نوشی بہت مضر ہے میں نے کہا کہ لیکن میں تو سگریٹ کے ساتھ پان چبا رہا ہوں تو سب میرے اس ہلکے سے مذاق سے محظوظ ہوئے، ہم گاڑی میں بیٹھ کر ایک بار پھر اپنے ہوٹل سے گزرتے ہوئے JNUکے احاطے میں پہنچ گئے کیونکہ پروفیسر آصف زہری کی رہائش بھی دوسرے پروفیسرز اور اسٹاف کی طرح اسی کیمپس میں ہی تھی۔ آصف صاحب نے اپنے ڈرائنگ روم میں بٹھایا جہاں کافی دیر تک ادبی نشست رہی اور مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی، ڈاکٹر آزردہ نے اردو زبان کی تاریخ کے ساتھ ساتھ کشمیر کی قدیم زبان کی تاریخ بھی بتائی، ڈاکٹر آزردہ کا اردو لہجہ اتنا زبردست تھا کہ معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ ان کا تعلق کشمیر سے ہے، کئی بار مجھے گمان ہوا کہ وہ کشمیر سے نہیں بلکہ لکھنؤ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر آصف زہری نے اپنی کتاب ’’اختر الایمان کی دس نظموں پر تجزیاتی مطالعہ‘‘ نے اپنے دستخطوں کے ساتھ ہمیں پیش کی۔ اندرونِ خانہ سے عندیہ ملا کہ شام کا کھانا تیار ہے ہم سب ہاتھ دھوکر ڈائننگ روم میں منتقل ہوئے جہاں ایک بڑی میز پر انواع اقسام کے کھانے چنے ہوئے تھے ڈاکٹر آصف نے پروفیسر آزردہ اور ڈاکٹر مظفر شہ میری کی خواہش پر خصوصی طور پر رؤ مچھلی اور مٹر کا پلاؤ تیار کروایا تھا۔ ڈاکٹر آصف کے ہاں بھی مرچی تیز کھانے کا رواج تھا اور میں خود تیز مرچی خصوصاً ہری مرچ کھانے میں اپنے مدِ مقابل کسی کو نہیں سمجھتا مگر مان گیا کہ ڈاکٹر آصف مجھ سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں تھے۔ تازہ سلاد، ہر ی مرچی، مچھلی فرائی، چپاتی اور مٹر پلاؤ کا مزہ میں آج بھی محسوس کر سکتا ہوں۔ ہری تیز مرچی سے کھانے کے دوران میرا چہرہ پسےنی سے تر ہو چکا تھا جس سے میں ہمیشہ دوچار ہوتا ہوں اور عموماً لوگوں کا خیال ہے کہ یہ علامتِ صحت ہے، غالب امکان ہے کہ میری صحت کا راز بھی ہری مرچی کا کثرت سے استعمال ہے۔ چائے کے بعد ڈاکٹر آصف زہری ہمیں اپنی گاڑی میں ہوٹل تک الوداع بھی کہنے آئے اور اس طرح میرا دوسرا دن اور دوسری رات نیو دہلی میں تمام ہوئی۔ رات کے بارہ سے زائد کا وقت ہو چکا تھا پروفیسر آزردہ اور پروفیسر مظفر شہ میری کو شب بخیر کہا اور اپنے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ کمرے کے دائیں جانب الماری اور اس میں رکھی ہوئی تجوری کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔
پھر مجھے یاد آیا کہ ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین اور ان کی اہلیہ کے جانے کے بعد میں سگریٹ پےنی کے لئے نےچب چلا گیا تھا اور اپنی قیمتی اور اہم چیزیں اپنے ساتھ ہی لے گیا تھا اور الماری و تجوری کا دروازہ بند کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی تھی کمرے کا دروازہ ایک بار بند کر دیا جائے تو ویسے ہی لاک ہو جاتا ہے اور اس کی روشنیاں وغیرہ بھی خود بخود ہی گُل ہو جاتی ہیں۔ باہر پروفیسر آزردہ کی پیشکش کے بعد مجھے دوبارہ کمرے آنے کی ضرورت ہی نہ پڑی اور میں اسی طرح ان کے ساتھ چلا گیا تھا اور واپسی میں الماری اور تجوری کا منہ کھلا دیکھ کر خود ہی پریشان ہو گیا۔ آج کا پورا دن بھر پور گزرا تھا اور تھکاوٹ بھی کافی ہو چکی تھی لہٰذا سرسری سی پیکنگ کرنے کے بعد اس ہوٹل کے کمرے میں ہی انڈیا کی آخری شب بسر کی۔ صبح ناشتے پر پھر گہما گہمی تھی اور اس ہوٹل میں بطورِ مہمان سب کا آخری دن تھا اور کئی مندوبین کی آج مختلف اوقات میں اپنے اپنے دیس روانگی تھی اور سب آپس میں گپ شپ میں مصروف تھے اور تعارفی کارڈز کا تبادلہ ہو رہا تھا رابطے میں رہنے کے عہد و پیمان کئے جا رہے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ تصاویر بھی بنائی جا رہی تھیں اور آہستہ آہستہ رش کم ہوتا جا رہا تھا، میں سوچتا ہوں کہ اکثر و بیشتر لوگ ایسے مواقع پر خوب دوستی کے بندھن میں بندھ جا تے ہیں جذباتی ہو کر ایک دوسرے سے طویل بغلگیریاں اور بوس و کنار تک کر رہے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے رابطے وغیرہ بھی بڑے شوق سے لےت ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دونوں افراد آج کے بعد ہمیشہ ایک دوسرے کو یاد رکھیں گے مگر میرا خود ذاتی تجربہ ہے کہ اُس وقت بہترین، خوشگوار اور یادگار لمحات گزارنے کے باوجود بعد میں ان میں سے ایک دو ہی رابطہ رکھتے ہیں اور اس طرح اپنے نئے دوستوں کی فہرست طویل کرتے چلے جاتے ہیں۔ میری رات آٹھ بجے پرواز تھی اس لئے میرے پاس چند گھنٹے تھے اور میں ڈاکٹر خواجہ صاحب کی طرف سے آنے والی گاڑی اور کامران غنی کا منتظر تھا کہ اپنے چند گھنٹے نیو دہلی میں واقع چند یادگار تفریح گاہوں کی سیر کرسکوں۔ کینیڈا کی روبینہ فیصل اور حیدرآباد کے پروفیسر ڈاکٹر مظفر علی شہ میری میرے قریب آئے اور پوچھا کہ میرا کیا پروگرام ہے، میں نے کہا کہ تاج محل جانا چاہتا ہوں مگر یہاں کی ٹریفک کے خوف سے رسک نہیں لے سکتا کہ وقت پر ایئرپورٹ نہ پہنچ سکوں۔ انھوں نے کہا کہ ہم دونوں لال قلعہ اور ہمایوں کے مقبرے تک جانے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ روبنہہ کی فلائٹ چار بجے ہے اور ہر حال میں ایک بجے تک ہوٹل پہنچنا ہے۔ میں نے بھی اپنا ارادہ تبدیل کیا اور ڈاکٹر خواجہ صاحب اور کامران کو اطلاع دی کہ میرے لئے گاڑی نہ بھیجیں ہم تینوں اپنے طور پر جا رہے ہیں لیکن میں دوپہر ایک بجے تک ڈاکٹر خواجہ صاحب کے ہاں کھانے میں شریک ہو جاؤں گا۔ روبینہ فیصل اور شہ میری صاحب نے ایک ٹیکسی کال کی جو وہ گزشتہ روز بھی استعمال کر چکے تھے۔ دس منٹ میں ٹیکسی بمعہ اپنے ڈرائیور مسٹر شام کے ساتھ ہوٹل پہنچ گئی۔ روبینہ نے مسٹر شام کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ شام صاحب کی رہنمائی سے ہم گزشتہ روز بھی مستفید ہو چکے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ یہ آج بھی اپنی ماہرانہ اور عالمانہ رہنا ئی سے ہم تینوں کو مستفید کریں گے۔ شام نے اپنی خم زدہ گرد ن کو مزید خم دے کر دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر ہماری تعظیم کرتے ہوئے نمستے کہا۔ میں ٹیکسی کا دروازہ کھول کر شام کے پہلو میں اور روبینہ پچھلی نشست میں ڈاکٹر شہ میری کے پہلو میں بیٹھ گئیں۔ روبینہ فیصل نے شام جی کو مطلع کیا کہ ہر حال میں ایک بجے تک ہوٹل واپس پہنچنا ہے اور ان چند گھنٹوں میں ہمیں جتنا گھما سکتے ہو گھما دو، روبینہ کے کہتے ہی ہماری رہنمائی شروع ہو گئی شام جی نے ٹیکسی اسٹارٹ کی اور کہا کہ صاحب آپ(سیٹ) شیٹ بیلٹ باندھ لو، میں جو پہلے سے ہی سیٹ بیلٹ باندھنے کی کوشش کر رہا تھا مگر سیٹ بیلٹ اتنا چھوٹا تھا کہ میری توند پر سے گھوم کر اپنے ہُک میں نہیں جا رہا تھا اسلئے میں اسے اپنے دائیں ہاتھ میں تھام کر ہی بیٹھا رہا۔ شام جی نے لب کشائی کرتے ہوئے پنجابی لےج میں کہا کہ آپ لوگ پکھر نہ کرو جی میں آپ کو چند گھنٹوں میں کئی چیزاں وکھاؤں گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے ایک تو ویکھ لی ہے اگلی وکھاؤ تو وہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گیا شام بھی بہت ہی دلچسپ اور مزاحیہ انسان تھا اس کی ہر بات میں مذاق شامل تھا اور ٹیکسی میں قہقہے گونجنے لگے، پوچھنے لگا کہ صاحب جی آپ انڈیا کے کس شہر کے ہو میں نے کہا کہ بنگلور کا رہنے والا ہوں مگر ودیش میں جندگی بسر کر رہا ہوں اور بہت عرصے بعد یہاں آیا ہوں، پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو، میں نے کہا کہ جاپان سے، تو کہنے لگا کہ جاپان بھی کوئی ملک ہے ہمارے دہلی جتنا تو ہے کیوں اپنی جندگی وہاں برباد کر تے ہو کیا بھارت جیسا دیس بھی دنیا میں ہے ؟ یہاں پر کس چیز کی کمی ہے خوامخواہ آپ لوگ اپنا دیس چھوڑ کر ودیش چلے جاتے ہو مجھے تو کوئی جتنی بھی دولت کا لالچ دے میں تو کبھی بھارت کو چھوڑ کر نہ جاؤں۔ میں نے کہا کہ نہیں مجھے جاپان بہت پسند ہے، چھوٹے بڑے کی بات نہیں ہے میں نے جو گُلی ڈنڈا کھیلنا ہوتا ہے اسی چھوٹے سے ملک میں کھیل لیتا ہوں اور میں بہت انجوائے کرتا ہوں وہاں، ارے کھاک انجووئے کرتے ہو اپنی جاپانی جورو کے گُلام بن کر جندگی بسر کرتے ہو گے۔ گاہے بگاہے پےھ سے روبینہ اور ڈاکٹر شہ میری بھی لقمہ دیتے رہے۔ کہنے لگا کہ تم ابھی جوان ہو اسلئے کہہ رہے ہو جب میری عمر کو پہنچو گے تو پتا چلے گا کہ اپنا دیس اپنا ہی ہوتا ہے، میں نے پوچھا کہ تمھاری عمر کتنی ہے بڑے فخر سے جواب دیا کہ میں پورے چالیس سال کا ہوں مگر تم سے زیادہ جوان ہوں پنجہ لڑا کر دیکھ لو، شام پنجابی ہندو تھا اور پنجابی لہجے میں ہندی بولتا تھا۔ میں نے کہا کہ میں توپچاس سال کا بابا ہوں !! شرم نہیں آئے گی اتنے اپنے سے اتنے بوڑھے سے پنجہ لڑاتے ہوئے ؟ وہ ایک دم حیران رہ گیا اور کہنے لگا کہ ودیش میں رہ کر لوگ جھوٹ بھی بولتے ہیں میں نے اسے یقین دلایا کہ میں واقعی پچاس سال کا ہوں اور میرا بڑا بیٹا بیس سال کا ہے اور چھوٹا سولہ برس کا ہے تو پےچھت بیٹھی روبینہ نے بھی کہا کہ ناصر بس کرو اتنا جھوٹ نہ بولو۔ شام کہنے لگا کہ نہیں تم زیادہ سے زیادہ پینتیس کے لگتے ہو تو میں دل ہی دل میں بہت خوش ہوا اور شام جی اب محتاط ہو گئے تھے۔ مگر مجھے اسے چھیڑنے کا موقع مل گیا تھا اسی چھیڑ چھاڑ میں ہم لال قلعہ تک پہنچ گئے، شام جی نے کہا کہ آپ لوگ لال قلعہ دیکھ کر یہیں واپس آ جانا اور یہ میرا موبائل نمبر ہے گویا میرا ریموٹ کنٹرول ہے جب واپس آنا ہو تو کال کر لینا میں یہیں ملوں گا۔ اب ڈاکٹر مظفر نے ہماری رہنمائی کا چارج لے لیا تھا اور لال قلعہ کا احاطہ شروع ہو گیا عام تعطیل کی وجہ سے بہت زیادہ رش تھا، غیر ملکیوں اور مقامی سیاحوں کے ٹولے کے ٹولے لال قلعہ کی طرف گامزن تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ تقریباً ساڑھے چار سو سال قبل سولہویں صدی کے وسط میں یہ لال قلعہ شاہجہاں نے تعمیر کروایا تھا اور دو سو سال تک یہ قلعہ مغل بادشاہوں کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔ سرخ اینٹوں سے تعمیر کےا گئے اس قلعے کی دیواروں کو دیکھ کر آج کا انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اتنی طویل اور اونچی دیواریں اُس زمانے میں تعمیر کرنا کتنا کٹھن رہا ہو گا جب آج جیسی ٹیکنالوجی اور مشنری بھی دستیاب نہ تھی۔ قلعہ کے ساتھ ساتھ وسیع راہداریاں بنی ہوئی تھیں جہاں گاڑیوں کا داخلہ ممنوع تھا اور سیاح پید ل ہی اس کی سیر کر رہے تھے البتہ کہیں کہیں بھارتی پولیس کی گاڑیاں رینگتی ہوئی نظر آئیں۔ وقت کی کمی وجہ سے روبینہ فیصل لال قلعہ کے فصیل کی اس طرح سیر کر رہی تھی گویا وہ یہاں آنے کا فرض نبھا رہی ہو اور صرف ہاتھ لگا کر واپس جانا چاہتی ہو، ادھر تصویر اور اُدھر تصویر اتروا رہی تھی اور بھا گ بھاگ کر قلعہ کے آخر تک جانا چاہتی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے چلتے ہوئے قلعہ کے اوپر ایک مچان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پر ہر سال یومِ آزادی کے موقع پر وزیرِ اعظم ہندوستان عوام سے خطاب کرتا ہے۔ میں نے سوچا کہ بھارت کا یومِ آزادی ۱۵، اگست یعنی پاکستان سے ایک دن بعد منایا جاتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان پہلے آزاد ہو چکا تھا جبکہ بھارت اور بھارتی عوام نے مزید چوبیس گھنٹے انگریزوں کی غلامی میں گزارے اس کی کیا منطق رہی ہو گی!۔ ابھی ہم سب قلعے کے باہر کا طواف کر رہے تھے اور سوچا کہ اندر بھی داخل ہو کر اس کی سیر کی جائے مگر اندر جانے کے لئے اتنی طویل قطار دیکھ کر ہم پریشان ہو گئے جو بالکل چیونٹی کی طرح آگے بڑھ رہی تھی جبکہ اندر جانے کے لئے جہاں سے ٹکٹ خریدنا تھا وہاں بھی اتنی ہی طویل قطار دیکھی، ڈاکٹر صاحب ہمیں دروازے والی قطار میں لگا کر خود ٹکٹ خریدنے کے لئے قطار میں لگ گئے مگر وقت جو تیزی سے گزر رہا تھا اور روبینہ کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں اور ہم دونوں نے قلعہ میں داخل ہونے کا ارادہ ترک کر دیا اور قطار سے نکل کر ڈاکٹر صاحب کو ان کی قطار سے نکال کر واپسی کے لئے قطار بنا کر چلےس لگے اور اور خود ہی تسلی دے لی کہ اندر کیا ہو گا جو باہر وہی اندر ہو گا اور اگر کوئی پوچھے گا تو بتا دیں کہ اندر بڑے بڑے کمرے اور بہت ہی قدیم اشیاء دیکھیں جو اس زمانے میں شاہی خاندان کے زیرِ استعمال رہ چکی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لال قلعے کو ۲۰۰۷ میں اقوامِ متحدہ کی طرف سے عالمی ورثے میں شامل کر لیا گیا تھا جہاں دنیا بھر سے سیاح اس قلعے کی خوبصورتی دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ ایک گھنٹے میں ہم لال قلعہ سے فارغ ہو کر شام جی کی طرف جا رہے تھے راستے میں عمر رسیدہ بھارتی خواتین اور نوجوان بھارتی لڑکیوں کے ٹولے بھی ملے جو وہاں کے روایتی ملبوسات زیبِ تن کئے ہوئی تھیں ہم نے ڈرتے ڈرتے ان کے ساتھ یادگار تصاویر بھی بنوائیں اور انھوں نے بڑے شوق سے ہمیں اجازت بھی دی۔ شام جی کو فون کیا تو وہ چند منٹ میں ٹیکسی کے ساتھ بوتل کے جن کی طرح نمودار ہوئے۔ اس سے درخواست کی کہ اب وقت اور کم ہو گیا ہے جلدی سے ہمیں ہمایوں کے مقبرے تک لے چلو۔ شام جی کے ساتھ پھر ہنسی مذاق کرتے ہوئے تقریباً تیس منٹ میں ہم پرانا قلعہ پہنچ گئے اور شام نے بتایا کہ یہیں ہمایوں کا مقبرہ بھی ہے، پرانا قلعہ جو ہمایوں نے اپنی زندگی میں ہی تعمیر کروایا تھا جبکہ اس کی پہلی بیوی ملکہ بیگا بیگم نے اس کی موت کے بعد مقبرۂ ہمایوں تعمیر کروایا جس پر نا ُس وقت تیر ہ لاکھ روپے لاگت آئی تھی، او میرے خدا!!اُس وقت کے تیرہ لاکھ آج کے تیرہ ارب کے مساوی ہوں گے۔ ہمایوں کے مقبرے کے مرکزی دروازے پر پارکنگ لاٹ میں شام جی نے ہمیں اتار دیا اور ہم تینوں ایک باغ سے گزرتے ہوئے ٹکٹ لے کر ہمایوں کے مقبرے کے احاطے میں داخل ہو گئے دونوں اطراف بھی قدیم عمارتیں نظر آ رہی تھیں اور لکڑی کے قدیم دروازے اور ان کے ساتھ لگے ہوئے کنڈے دیکھ کر بہت ہی اچھا لگا یہاں پر بھی بڑی تعداد میں سیاح نظر آ رہے تھے ان سیاحوں میں جوان جوڑے بھی مقبروں کی سیڑھیوں پر بےٹھً آپس میں راز و نیاز میں مصروف تھے، ایک نوجوان جس نے اپنی محبوبہ کو اپنے گود میں لٹایا ہوا تھا اور کافی دیر سے اس کے کان میں سرگوشی کر رہا تھا یا پھر میل نکالنے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ دونوں دنیا سے بے نیاز تےس۔ یہ عیسیٰ خان نیازی کا مقبرہ تھا جس میں اور بھی کئی قبریں قطار در قطار بنی ہوئی تھیں مقبرے کا اندرونی منظر بہت ہی خوبصورت تھا اور جگہ جگہ محرابیں بنی ہوئی تھیں جن میں فریم کی صورت میں قرآنی آیات کندہ تھیں اور ہر قبر پر بھی قرآنی آیات لکھی ہوئی نظر آئیں۔ باہر سخت گرمی کے باوجود اندرونِ مقبرہ روشن دانوں سے آتی ہوئی ٹھنڈی ہوا غنودگی طاری کر رہی تھی۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا اور ہم تینوں خانہ پوری کرتے ہوئے ہر مقبرے کے پاس ایک دو تصاویر اتارتے اور آگے بڑھتے رہے اس لئے مجھے کچھ اتنا یاد نہیں کہ فلاں قبر شاہی خاندان کے کس فرد کی تھی اور اسے کس نے اور کب تعمیر کیا تھا اس سے مجھے غرض بھی نہیں تھی بلکہ میں تو حیران ہو تا رہا کہ اُس زمانے میں مغل بادشاہوں کے پاس وقت اور دولت کی کتنی فراوانی تھی کہ وہ صرف ایک مقبرہ یا قبر کی تیاری پر بے دریغ صرف کر دیےل تھے مانا کہ آج ا ن عمارتوں اور مقبروں کو عالمی ورثہ قرار دیا جا چکا ہے اور بھارت کی سیاحت کی صنعت کو اس سے بہت فائدہ بھی ہوتا ہو گا، کاش مغل خاندان ان فضولیات کی جگہ کوئی اسکول، کالج، یونیورسٹی، ہسپتال یا کوئی ایسی انسانی فلاح و بہبود کے لئے عمارتیں بنوا جاتے تو آج کا انسان کتنا فیضیاب ہوتا !! میرا خیال ہے کہ مغل حکمران ایک طرف تو فنون لطیفہ مثلاً شاعری، مصوری، خطاطی، موسیقی اور فن تعمیر کا بھی ذوق رکھتے تھے اور دوسری طرف انہیں اس بات کا بھی جنون کی حد تک شوق رہا ہو گا کہ ان کے اس دنیا سے جانے کے بعد بھی دنیا انہیں یاد رکھے لیکن شاید انہیں یہ ادراک نہ ہو گا کہ اگر کوئی ہسپتال، لائبریری یا تعلیمی ادارہ کی عمارت بھی تعمیر کروا دیتے تو ان کا ذوق ِ فنِ تعمیر بھی پورا ہو جاتا اور نہ صرف ان کی رعایا بلکہ آج کی عوام بھی اس سے استفادہ کرتی رہتی اور ا پنا نام زندہ رکھنے کا ان کا شوق بھی پورا ہوتا رہتا۔ بہر حال اپنی سوچ کی انہی بھول بھلیوں سے نکلا تو احساس ہوا کہ ہم ایک اور بڑے دروازے میں داخل ہو چکے ہیں جہاں فواروں سے گزر کر ہمایوں کے مقبرے میں داخل ہو گئے جو اونچائی پر ایک وسیع و عریض چبوترے پر محرابی شکل میں تعمیر کیا گیا ہے اس کے چارو اطراف محرابی دروازے لگے ہوئے ہیں جسے دور سے دیکھنے پرمسجد کا گمان ہوتا ہے۔ مقبرے کے اندر ہمایوں اور اس کی ملکہ کی قبریں پہلو بہ پہلو سنگِ مر مر سے تیار کی گئیں ہیں اور ان کے اوپر اور دونوں اطراف قرآنی آیات بھی کندہ تھیں تاہم یہ قبریں علامتی ہیں اور اصلی قبور عمارت کے نےچک ہیں۔ اسی طرح عمارت کے باہر یعنی چبوترے پر بھی جا بجا قبریں نظر آ رہی تھیں اور ان پر بھی قرآنی آیات لکھی ہوئی تھیں شاید اس زمانے میں قبروں پر قرآنی آیات لکھوا کر سمجھتے ہوں گے کہ ان کے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے !تاہم یہاں ایک بات جس نے مجھے بھارتی عوام اور حکومت نے بے حد متاثر کیا کہ مذہبِ اسلام اور مسلمانوں کے اتنے کٹر دشمن ہیں مگر ان کی نشانیوں کو انھوں نے آج بھی گزند نہیں پہنچائی بلکہ ان قبروں کی اتنی دیکھ بھال اور صفائی ستھرائی قابلِ دید ہے۔ اس کے برعکس پاکستان اور افغانستان میں ہندوؤں کے مندر، بدھ مت کے بڑے بڑے بُت یا مجسمے پاش پاش کر کے ان پر دانستہ گندگی ڈالی گئی ہے۔ ان چیزوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کون لوگ اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بھارتی عوام یا حکومت کا ان مقبروں کو بطورِ تفریحی گاہ استعمال کر کے دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ یہاں مبذول کروانا ہو اور اپنی سیاحت کی صنعت کو فروغ دینا ہو، اگر ایسا ہے تو کیا پاکستانی عوام اور حکومت ٹیکسلا، ہڑپہ، گندھارا، گجرانوالہ، لاہور اور کراچی میں بے شمار ایسے مقامات کو محفوظ کر کے اپنی سیاحت کی صنعت کو فروغ نہیں دے سکتی؟اہلِ قبور پر فاتحہ پڑھنے کے بعد ہم واپس پارکنگ کی طرف آ رہے تھے روبینہ فیصل نے ڈاکٹر مظفر اور میری چستی کی بہت تعریف کی اور کہا کہ آپ دونوں نے جس طرح کم وقت میں زیادہ سے زیادہ سیر کرنے میں میرا ساتھ دیا ہے وہ قابلِ ستائش ہے ڈاکٹر صاحب جو ہم دونوں سے عمر میں بڑے ہیں اور لیکن وہ بالکل نوجوانوں کی طرح چاک و چوبند رہے اور اپنی خوبصورت گفتگو اور ہلکے پھلکے مذاق سے ہمیں خوش کرتے رہے ہمیں بالکل محسوس نہیں ہوا کہ ہم تینوں صرف ایک دن کے دوست ہیں بلکہ ایسا لگا کہ ہم نہ جانے کتنے دیرینہ دوست ہیں اجنبیت کی ساری دیواریں مسمار ہو چکی تھیں اور ایک دن کی دوستی بہت مضبوط ہو چکی تھی، ڈاکٹر مظفر بڑی محبت و شفقت سے ہماری رہنمائی کر رہے تھے اور ہماری تصویریں بھی بناتے رہے۔ پارکنگ میں دور کھڑا شام جی بھی نظر آ گیا، پارکنگ میں میں نے ایک بہت ہی خوبصورت منظر دیکھا کہ ۲ کتے، ایک کوا اور ایک کبوتر ایک ہی کونڈے میں پانی پی رہے تھے میں انھیں غور سے دیکھ رہا تھا کہ تینوں جانداروں میں صرف ک مشترک ہے مگر کتنی محبت و اتفاق ہے کیا انسان ان جانداروں سے محبت و دوستی کا سبق حاصل نہیں کرسکتا؟ میں اپنی سوچوں میں گُم تھا دیکھا کہ ڈاکٹر مظفر شاہمیری کو ایک لمبے تڑنگے فوجی نما شخص نے روکا ہوا ہے۔ ۔ میں اور روبینہ چند قدم پےچھ تھے میں نے سنا کہ وہ پوچھ رہا ہے کہ کہاں سے آئے ہو؟میرے تلوے گےلا ہو گئے !!!!!
میرے کان میں آواز پڑی کہ وہ فوجی نما لمبا تڑنگا شخص ڈاکٹر مظفر شاہیر ی سے پوچھ رہا ہے کہ آپ کہاں سے آئے ہو؟ یہ آواز سنتے ہی میرے اور روبینہ کے حواس گُم ہو گئے کہ لو بھئی اب کام ہو گیا، ہم وہیں کھڑے رہے، وہ شخص ہمیں دیکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب سے دور ہو گیا اور جب ڈاکٹر صاحب ہمارے قریب آئے تو ہم نے پوچھا کہ وہ شخص کیا پوچھ رہا تھا آپ سے ؟ کہنے لگے مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ کہاں سے آئے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ میں انڈین ہوں اور حیدرآباد سے آیا ہوں، بس جواب سن کر چلا گیا۔ نہ جانے کون تھا۔ میں نے بہت کچھ سنا ہوا تھا کہ انڈیا میں جو بھی پاکستان سے آتا ہے ہے اس کی جا سکوسی ہوتی ہے اور یہاں کی خفیہ ایجنسیاں اور اس کے کارندے پاکستانیوں کے پےچھ سائے کی طرح لگے ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو وہ پاکستانی کو کسی بھی بہانے پکڑ کر اپنی گاڑی میں بٹھاتے ہیں اور پھر نا معلوم مقام پر لے جا کر اس سے زبردستی اگلواتے ہیں کہ بتاؤ یہاں کس کی جا سکوسی کرنے آئے تھے، مجھے انہی باتوں سے خوف آتا تھا کیونکہ میں بے موت اور بے خبر مرنا نہیں چاہتا، اس شخص کو دیکھ کر میرے اندر کا خوف جاگ اٹھا تھا۔ تاہم مجھے ایسے لوگوں پر جو غیر ملکیوں کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں ان پر قطعی غصہ نہیں آتا کہ کیونکہ وہ اپنے فرائض نبھاتے ہوئے حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہی وجہ ہے کہ اتنے بڑے ملک بھارت میں دہشتگردی کے واقعات پاکستان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں، اس کے برعکس ہمارے ملک میں کوئی بھی ایرا غیرا غیر ملکی آ جائے تو اسے کچھ نہیں کہا جاتا، اور کئی ایسے پاکستانی بھی ہیں جو اپنے غیر ملکیوں کو پاکستان لے کر آتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ پاکستانی ایجنسیاں یا خفیہ پولیس ان تک نہ پہنچے کیونکہ انھیں چیک کرنے سے ان کی ہتک ہو جائے گی، ہمارے ملک میں تعلقات، جان پہچان، مک مکاؤ اور رشوت کی وجہ سے کوئی بھی دہشتگرد آسانی سے ملک میں داخل ہو سکتا ہے، اگر ہمارے ملک میں بھی بھارت کی طرح غیر ملکیوں کو شک کی نظر سے دیکھا جائے تو یقینا دہشتگردی کے واقعات میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ پوری دنیا میں بھارت کے سفارتخانوں میں وہاں کے مقامی لوگوں کی بھارتی ویزہ لےنپ کی قطاریں لگی ہوتی ہیں مگر وہ کسی کو اتنی آسانی سے ویزہ نہیں دیتے اور ویزہ جاری کرنے کے بعد بھی ان پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے، یہ کوئی بری بات نہیں یہ حب الوطنی ہے جو اپنے ملک کو دہشتگردی سے بچانا چاہتے ہیں۔ ہم سب اس شخص کو نظر انداز کرتے ہوئے ٹیکسی میں بیٹھ گئے اور شام جی نے ٹیکس یہاں سے نکالی اور واپسی کی راہ لی۔ دوپہر کے بارہ چکے تھے میں نے شام جی سے کہا کہ بھائی جی بارہ بج چکے ہیں کچھ ہو گا تو نہیں ؟ کہنے لگا بھاجی میں پنجابی جرور ہوں پر سکھ نہیں ہوں آپ پکھر نہ کرو کچھ نہیں ہو گا۔ شام جی پنجابی، اردو، ہندی اور انگریزی کا مربہ بنا کر گفتگو کر رہا تھا کبھی انگریزی بولتا تھا کبھی خالص اردو اور کبھی کٹر ہندی اور پنجابی لہجے میں گفتگو کرتا تھا۔ کہنے لگا کہ آپ لوگوں کو ہوٹل لے جاتے ہوئے دہلی گیٹ، پرائم منسٹر ہاؤس، پارلیمنٹ ہاؤس اور آرمی ہاؤس بھی دکھا دیتا ہوں۔ ہم خوش ہو گئے کہ چلو راستے میں ٹیکسی سے اترے بغیر ہی یہ سب کچھ دیکھ لیں گے۔ دہلی کی سڑکیں بھی کراچی اور لاہور ہی کی طرح تھیں اور اس پر چلنے والی گاڑیاں بھی ویسی ہی تھیں مگر یہاں بھارتی تیار شدہ گاڑیوں کی بھرمار تھی اور ٹریفک کے قوانین مشترکہ تھے اور اس کی خلاف ورزی بھی اسی اسٹائل سے ہو رہی تھی۔ اچانک شام جی نے دہلی کی ٹریفک اور یہاں کے قوانین کی تعریف کرنا شروع کر دی اور کہنے لگا کہ صاب یہاں پر موٹر سائکل پر ڈبل ہیلمٹ پہننا جُروری ہے۔ ۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ کیا ؟ایک موٹر سائکل سوار اپنے سر پر ڈبل ہیلمٹ؟ کہنے لگا صاب آپ بھی بہت مخولےئ ہو۔ ۔ میرا مطبل تھا کہ اگر موٹر سائکل پر دو سواریاں ہوں تو ہیلمٹ بھی دونوں کو پہننا جُروری ہوتے ہیں۔ او۔ ۔ اچھا۔ ۔ اور اگر دونوں کے پاس ہیلمٹ نہ ہو تو ؟ تو پھر چالان ہو جاتا ہے جی۔ ۔ میں نے پھر اسے چھیڑا کہ اگر کسی کے پاس ہیلمٹ ہو اور موٹر سائکل نہ ہو تو بھی چالان ہو جاتا ہے ؟؟ شام جی نے پیار بھرے غصے سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ ایسا آپ کے ملک میں شاید ہوتا ہو گا ہمارے دیس میں نہیں ہوتا!!۔ ابھی ہم تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ اچانک دیکھا کہ ایک موٹر سائکل سوار بغیر ہیلمٹ کے بھاگا جا رہا تھا میں نے شام سے کہا کہ وہ دیکھو !!تو کہنے لگا کہ صاب یہ گریٹ انسان ہے اسے چھوڑ دیں۔ میں نے محسوس کیا کہ شام جی بہت ہی حب الوطن اور کسی بھی صورت بھارت کی برائی نہیں کرنا چاہتا تھا اور نہ ہی سننے کے موڈ میں نظر آتا تھا ہم نے جس برائی کی طرف اشارہ کیا اس نے کوئی نہ کوئی جواز پیش کر کے اسے اچھائی میں تبدیل کر دیا اور جتنے برے لوگوں یا پولیس والوں کی طرف اشارے کئے انھیں گریٹ انسان کہہ کر بات ٹال دی۔ بھارتی عوام کے حب الوطنی کے جذبے سے میں بہت پہلے سے واقف تھا میرے درجنوں بھارتی مسلمان، ہندو اور سکھ دوست ہیں مگر میں نے کبی بھی انھیں بھارت کی برائی کرتے ہوئے یا اپنے ہی ملک پر منفی تبصرے کرتے ہوئے نہیں سنا، بلکہ میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ خواہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں جن کا تعلق بھارت سے ہے وہ کبھی بھی ملک پاکستان کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے اور نہ ہی پاکستان ملک یا اس کی خوشحال عوام سے متاثر ہوتے ہیں، البتہ پاکستانی و بھارتی عوام کی دوستی کافی مستحکم نظر آتی ہے مگر دونوں طرف کے سیاستدان اور حکمران ملکی سطح پر دوستی کے خواہاں نہیں ہیں کیونکہ اس طرح ان کے سیاسی مستقبل تاریک ہو جائیں گے دونوں ملکوں کی افواج دوستی پر راضی نہیں ہیں کہ اگر امن ہو گیا تو پھر ان کے بھاری بھرکم بجٹ کیونکر پاس ہوں گے۔ جاپان میں بھی میرے کئی بھارتی نژاد مسلمان دوست ہیں جنھیں ہم اپنی تقریبات میں مدعو کرتے ہیں اور ان کی آؤ بھگت بھی کرتے ہیں مگر میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ ہم ان کی تقریبات میں کبھی مدعو کئے گئے ہوں، بھارتی مسلمان خواہ وہ کٹر مسلمان نہ ہو مگر وہ کٹر محبِ وطن ضرور ہے اسی طرح سکھ اور ہندو بھی اپنی مذہبی رسومات کو ثانوی حیثیت تو دیدیں گے مگر اپنے ملک کے گُن ضرور گاتے ہیں، جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے یہاں پر جتنے پاکستانی ہیں ان سے شاید کئی گنا زیادہ بھارتی شہری ہوں گے اور جاپانی عوام و حکومت میں ان کی قدر و منزلت بھی ہم سے بہت زیادہ ہے مگر پورے جاپان میں ہندو مندر دو یا تین سے زیادہ نہیں ہوں گے اور سکھوں کا گردوارہ صرف ایک ہے اسی طرح بھارتی مسلمانوں کے ہاتھوں شائد ایک بھی مسجد تعمیر نہیں ہوئی مگر پاکستانی مسلمانوں نے ایک سو کے قریب مساجد بنا ڈالی ہیں مگر پاکستان کا نام روشن کرنے کے لئے کوئی خاص کارنامے انجام نہیں دیئے، غالباً جتنی مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور جن جن شہروں میں تعمیر ہوئی ہیں وہاں کے مقامی لوگ مذہب اسلام سے متنفر و شاکی نظر آتے ہیں کیونکہ آئے دن مسلمان مسجد کے ارد گرد شور شرابا، گاڑیوں کی غلط پارکنگ، آپس کے لڑائی جھگڑے کرتے نظر آتے ہیں اور مقامی پولیس کو کئی بار مداخلت کرنا پڑتی ہے بعض مساجد تو ایسی ہیں کہ ان کے وضو خانوں سے باہر کئی میٹر دور تک وضو کرنے والوں کے آ۔ ۔ ۔ غا۔ ۔ ۔ ۔ آ۔ ۔ تھو۔ ۔ ۔ غرارے کرنے اور ناک چھنکنے کی آوازیں تک سنائی دیتی ہیں جو جاپانی پڑوسیوں پر گراں گزرتی ہے۔ شام جی ہمیں دہلی گیٹ دور سے دکھاتے ہوئے کہنے لگا کہ دیکھ لو جی یہ دہلی گیٹ ہے اب ہم آگے جا رہے ہیں اور وہ دیکھو جو بلڈنگ نظر آ رہی ہے وہ پارلیمنٹ ہاؤس ہے، وہ پرائم منشٹر(منسٹر) ہاؤس ہے اور یہ آپ کے لیفٹ سائڈ پر آرمی ہاؤس ہے یہ علاقہ بہت ہی خوبصورت اور صاف ستھرا تھا جیسا ہمارا اسلام آباد جس کی وجہ صاف ظاہر تھی کہ ان عمارتوں میں وقت گزارنے والے عام لوگ نہیں ہوتے وہ تو خاص لوگ ہوتے ہیں جنھوں نے غریبوں کا ملک چلانا ہوتا ہے جنھیں غریبوں اور گندگی سے نفرت ہو تی ہے۔ وقت بہت کم رہ گیا تھا اور چھٹی ہونے کی وجہ سے بھی یہاں کوئی خاص رش نہیں تھا روبینہ تھوڑی دیر کے لئے ٹیکسی سے اترتی اور میں فرنٹ سیٹ سے ہی اس کی تصویر اتار لیتا تھا اسی طرح یہ تمام سرکاری عمارتیں دیکھ کر ہم واپس ہوٹل کی طرف روانہ ہو رہے تھے کہ ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین کا فون آیا کہ وہ ہوٹل پہنچ گئے ہیں اور میرے منتظر ہیں کہ دوپہر کا کھانا گھر میں کھانا ہے اور اب وہ مجھے لےنا کے لئے ہوٹل آ چکے ہیں۔ میں نے شام جی سے درخواست کی کہ وہ ہوٹل پہنچ کر روبینہ کو اسی ٹیکسی مںا ایئرپورٹ چھوڑ کر جواہر لعل یونیورسٹی کے کیمپس میں ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین کے فلیٹ پر پہنچ جائے اور پھر مجھے وہاں سے لے کر ایئرپورٹ چھوڑ دے اور پھر اس کی ڈیوٹی کھتم۔ ہم ڈیڑھ بجے کے قریب ہوٹل پہنچے تو ڈاکٹر خواجہ صاحب ہمارے منتظر تھے۔ روبینہ فیصل بھاگم بھاگ اپنے کمرے میں اور میں اپنے کمرے میں گیا میں نے اپنی پیکنگ جو صبح ہی کر لی تھی ایک شاور لیا اور سوٹ کیس کے ساتھ نےچف آ گیا۔ ڈاکٹر مظفر شہمیری سے بھی آخری ملاقات کی انھوں نے بتایا کہ وہ بھی آج شام کی فلائٹ سے حیدرآباد چلے جائیں گے اور اب وہ اپنے کمرے میں کچھ آرام کریں گے، روبینہ تھوڑی دیر میں نےچے آ گئی اور میں نے شام جی سے کہا کہ چاند سی بنو ہماری تیرے حوالے۔ ۔ انھیں ایئرپورٹ چھوڑ کر کیمپس آ جانا۔ میں نے اپنا سوٹ کیس کاؤنٹر پر رکھوایا اور ڈاکٹر خواجہ ان کے دوست اور ساتھی ڈاکٹر اختر حسین کے ساتھ ان کی گاڑی میں بیٹھ کر ایک بار پھر جواہر لعل یونیورسٹی کے کیمپس پہنچے اور ایک خوبصورت فلیٹس کے بلاک کی ساتویں منزل پر واقع ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین صاحب کے لگژری فلیٹ میں داخل ہوئے تو بیگم خواجہ اور ان کے تینوں بچوں نے ہمارا پُر تپاک استقبال کیا۔ ڈاکٹر صاحب کا فلیٹ جتنا باہر سے خوبصورت تھا اتنا ہی اندر سے بھی خوبصورت تھا اور آج کے جدید دور کی ہر سہولت سے آراستہ تھا، گھر میں داخل ہوتے ہی دائیں جانب اونچی جگہ پر ڈاکٹر صاحب نے اشارہ کیا جہاں اردو نیٹ جاپان کی شیلڈ جو انھیں دورۂ جاپان کے دوران پیش کی گئی تھی آویزاں تھی۔ گھر کی بالکونی سے پوری یونیورسٹی کا دلفریب نظارہ کیا جا سکتا تھا ہم سب کافی دیر تک بالکونی میں کھڑے دور تک تک پھیل ہوئی یونیورسٹی اور اس کے ہر بھرے درختوں کا نظارہ کرتے رہے اور وہاں سے ہر پانچ منٹ کے بعد گزرتی ہوئی پروازوں کو بھی دیکھتے رہے۔ تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹر خواجہ کے ایک اور دوست اور ساتھی ڈاکٹر رضوان صاحب، جرمنی سے تشریف لائے ہوئے اقبال حیدر اور ایران سے تشریف لائی ہوئیں تہران یونیورسٹی میں اردو کی ایرانی پروفیسر محترمہ وفا یزدان منیش صاحبہ کی بھی آمد ہوئی سب کا ایک بار پھر تعارف ہوا اور بیگم خواجہ نے اعلان کیا کہ کھانا تیار ہے تمام لوگ ڈائننگ روم میں داخل ہوئے جہاں بیگم صاحبہ نے کھانے کے میز کو اس طرح پُر کیا ہوا تھا کہ وہاں پر مزید کچھ رکھنے کی گنجائش ہی نہ تھی۔ لال قلعہ، ہمایوں کا مقبرہ اور کئی گھنٹے کی سیر و تفریح اور بھاگ دوڑ کے بعد شدید بھوک لگی ہوئی تھی اور پیٹ میں دوڑنے والے چوہوں کا بھی یہی حال تھا۔ میں نے بھارت میں اس آخری ظہرانے سے اس طرح انصاف کیا کہ خوراک کی جتنی مقدار گزشتہ دو دنوں میں معدے میں ڈالی تھی اس کے مساوی آج کھایا تھا۔ کھانے کے بعد بڑی مشکل سے اٹھ کر پھر ڈرائنگ روم میں آئے اور چائے کا دور چلنے لگا، تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹر اشتیاق بھی تشریف لے آئے جو ڈاکٹر خواجہ صاحب کے دوسرے بلاک میں رہائش پذیر ہیں۔ دورانِ چائے تہران کی ڈاکٹر وفا یزدان کی اردو سننے کو ملی ان کا اردو لہجہ بالکل ایسا ہے جےسذ کوئی انگریز اردو بولتا ہے محترمہ کی با رعب اور پُر کشش شخصیت اور اردو زبان پر عبور نے مجھے بہت متاثر کیا، اگر میں شادی شدہ نہ ہوتا یا پھر میرے ازدواجی تعلقات اپنی جاپانی بیوی سے ذرا سے بھی خراب ہوتے اور محترمہ وفا شادی شدہ نہ ہوتیں یا ان کے اپنے شوہر سے تعلقات جتےی بھی اچھے کیوں نہ ہوتے تو سمجھ لےجئ کہ میں محترمہ وفا سے پچاس فیصد شادی کرنے کا فیصلہ کر چکا ہوتا، پچاس فیصد اس لئے کہا ہے کہ میری طرف سے ہاں ہوتی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ابھی آپ کے پاس کچھ گھنٹے ہیں تو آپ دہلی بازار کی سیر ہی کر آئیں، تو میں نے کہا کہ نہیں اب سیر بہت ہو چکی اور اب سستی بھی بہت ہو رہی ہے یہیں کچھ دیر بیٹھ کر گپ شپ کرتے ہیں اور پھر میں یہیں سے ایئرپورٹ چلا جاؤں گا۔ ڈاکٹر صاحب نے شام جی کو فون کیا کہ وہ یہاں آنے کی بجائے پہلے ہوٹل جائے اور وہاں کاؤنٹر پر رکھا ہوا میرا سوٹ کیس لے کر یہاں آ جائے، وہ ابھی روبینہ کو ایئرپورٹ چھوڑ کر واپس آ ہی رہا تھا کہ اس نے اپنی ٹیکسی ہوٹل کی طرف موڑ کر حکم کی تعمیل کی۔ ڈاکٹر وفا یزدان اور مجھے ڈاکٹر خواجہ صاحب نے اپنی لائبریری کا دورہ کروایا، ایک کمرہ جو ایک سرے سے دوسرے سرے تک اور نےچد سے لے کر اوپر تک بلکہ شیلف کے اوپر بھی کتابیں رکھی ہوئی تھںس ہزاروں کتابوں پر مشتمل لائبریری دیکھ کر میں بہت حیران ہوا کیونکہ اتنی بڑی لائبریری کسی فردِ واحد کی نگرانی میں پہلی بار دیکھی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے اور پروفیسر وفا یزدان کو اپنی اور دیگر مصنفین کی کئی کتابیں تحفے میں دیں اور پیغام آفاقی کا افسانہ پلیتہ مجھے خاص طور پر تحفے میں دی۔ تھوڑی دیر کے بعد ڈاکٹر رضوان صاحب، محترمہ وفا یزدان اور اقبال حیدر صاحب کو اپنے ساتھ دہلی بازار لے گئے جہاں سے وہ بھارتی دستکاری کا سامان خریدنا چاہتی تھیں۔ ڈاکٹر خواجہ، ڈاکٹر اختر حسین اور ڈاکٹر اشتیاق کے ساتھ کافی دیر تک گفتگو ہوتی رہی اور چائے کا دور چلتا رہا۔ ڈاکٹر خواجہ کو اس کامیاب عالمی اردو کانفرنس کے انعقاد اور اس کے بہترین انتظامات پر انھیں دلی مبارکباد پیش کی۔ شام جی کا فون آیا کہ وہ میرا سوٹ کیس ہوٹل سے لے کر یہاں پہنچ چکا ہے اور میں جب چاہوں نےچ آسکتا ہوں۔ ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین کی بیگم صاحبہ نے میرے لئے نیو دہلی کی خاص مٹھائی کا اہتمام کیا جو مجھے دورانِ ظہرانہ بہت پسند آئی تھی، تیسری چوتھی مرتبہ چائے کا دور چل رہا تھا اور وقت تیزی سے گزر رہا تھا میری فلائٹ کا ٹائم آٹھ بجے تھا اور کم از کم دو گھنٹے پہلے مجھے ایئرپورٹ پہنچنا ضروری تھا۔ میرا تین دن کا بھارتی دورہ بہت ہی مفید اور خوشگوار رہا، اس دوران میزبان ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین صاحب اور ان کے رفقاء کی خالص محبتوں سے میں بہت متاثر ہوا، بے شمار علمی و ادبی اور اردودانوں سے ملاقات کے تجربے نے مجھ میں اعتماد پیدا کر دیا تھا کئی علمی و ادبی شخصیات سے دوستی استوار ہو چکی تھی اور اب انڈیا سے میرے چل چلاؤ کا وقت تھا الوداعی کلمات کا تبادلہ ہوا اور ڈاکٹر خواجہ صاحب ان کی بیگم اور ڈاکٹر اشتیاق صاحب مجھے الوداع کہنے کے لئے باہر تک تشریف لائے اور آخری چند یادگار تصاویر بھی بنوائیں، ڈاکٹر خواجہ صاحب مجھے ایئرپورٹ تک الوداع کرنے کے لئے بضد تھے مگر میں نے ان کی حدِ درجہ مصروفیات اور کامیاب سیمینار کے بعد تھکاوٹ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ان سے وہیں پر آخری ملاقات کی تاہم ڈاکٹر اشتیاق احمد کو ڈاکٹر خواجہ صاحب نے تاکید کی کہ وہ میرے ساتھ ایئرپورٹ تک جائیں اس طرح ایئرپورٹ پر استقبال بھی ڈاکٹر اشتیاق نے کیا تھا اور جاتے وقت بھی وہ میرے ساتھ ہی ٹیکسی میں سوار ہو گئے۔ شام جی کو دیکھا تو میں حیران رہ گیا وہ منہ لٹکائے ہوئے تھے اور ان کے چہرے پر پہلے جیسی شگفتگی اور خوشی نہ تھی کہنے لگے کہ صاب میں بہت ادا س ہو رہا ہوں آپ لوگوں کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا ہے اور اب باری باری آپ سب جا رہے ہیں تو مجھے کھُوسی نہیں ہو رہی، میں نے کہا کہ ٹھیک جب دوبارہ آؤں گا تو تمھارے سے برا وقت گزاروں گا تاکہ تمھیں کھوسی ہو جائے، وہ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ پھر خاموش ہو گیا۔ ایئرپورٹ جاتے وقت راستے میں ڈاکٹر اشتیاق صاحب نے مجھے بھارت کے مختلف سگریٹ خرید کر مجھے تحفے دیئے اور کہا کہ آپ جب بھی ان کے کش لگائیں گے تو بھارت کی یاد آئے گی۔ ہم ٹھیک پانچ بجے نیو دہلی ایئرپورٹ پہنچ گئے، شام جی نے بڑی محبت و عقیدت سے میرا سامان ٹیکسی کی ڈگی سے نکال کر ایک ٹرالی میں رکھا، میں نے اصل کرائے کے علاوہ اسے خوشی سے کچھ رقم زبردستی اس کی جیب میں ٹرانسفر کر دی اور اس کے ساتھ بغلگیر ہو گیا، وہ بھی کافی دیر تک پوری طاقت کے ساتھ مجھ سے گلے لگا رہا تو مجھے گُمان ہوا کہ کہیں اسی طرح جیب سے خنجر نکال کر میری کمر میں نہ گھونپ دے مگر میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں نمی تھی اور میں بھی یکدم اشکبار ہو گیا، اس کے آخری الفاظ تھے کہ صاب۔ ۔ نائنٹی نائن پرسنٹ ہم بے ایمان ہیں۔ ۔ پر ہمارا دیس پھر بھی مہان ہے۔ ۔ ۔ ۔ جاپان سے کوئی بھی بھارت آئے تو اسے میرا موبائل نمبر دے دیا کریں مجھے آپ کے مہمانوں کی کھدمت کر کے کھُوسی ہو گی۔ ڈاکٹر اشتیاق سے بھی آخری ملاقات کی اور وہ اسی ٹیکسی میں بیٹھ گئے اور مجھے ایئرپورٹ کے اندر جاتے ہوئے دور تک دیکھتے رہے اور میں بھی وقفے وقفے سے ہاتھ لہراتا رہا اور پھر ایک دوسرے کی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ نیو دہلی ایئرپورٹ پر نہ آتے ہوئے کوئی مسئلہ پیش آیا اور نہ ہی جاتے ہوئے کسی نے کوئی مسئلہ پیش کیا۔ نیو دہلی سے دبئی ہوتے ہوئے ٹھیک پانچویں روز ٹوکیو پہنچ گیا، آج جاپان میں عام تعطیل تھی۔ کئی ممالک کے سفر کرنے کے بعد احساس ہوا کہ انڈیا کا سفر سب سے بہترین اور خوشگوار رہا، شاید وہاں کا ماحول اور لوگ اپنے جےسس ہی تھے اورایسا ملک تھا جہاں سے ہمارے آباء و اجداد کا تعلق تھا۔ گو کہ مجھے ایک ہی ملک دوبارہ جانے کی تمنا نہیں ہوتی مگر انڈیا دوبارہ جانے کی خواہش رہے گی کیونکہ کئی ایسی ہستیاں تھیں جن سے ملاقات نہ ہو سکی جن میں پیغام آفاقی صاحب، ڈاکٹر حاجرہ بانو اور عزیز بلگامی صاحب۔ تاہم میں ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین صاحب، کامران غنی، عطاء ندوی، ڈاکٹر رافع، ڈاکٹر مظفر شاہمیری، روبینہ فیصل، جمیل اصغر، ڈاکٹر اشتیاق، ڈاکٹر رضوان، ڈاکٹر اختر حسین اور ڈاکٹر محمد زمان آزردہ کا بے حد مشکور ہوں جنھوں نے اپنا قیمتی وقت مجھے دیا اور میرا دورۂ بھارت یادگار بنایا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
(نوٹ:مصنف نے سہواً کچھ غلط نام دئے ہیں۔ ان کی مراد غالباً بلکہ یقیناً
٭صدف مرزا
٭٭عنایت حسین عیدن
٭٭٭صغیر افراہیم
سے ہے۔ ا۔ ع)