اس شہر میں مجھ سا کوئی تنہا بھی نہیں تھا
مَیں گھر میں پڑا رہتا تھا، ایسا بھی نہیں تھا
اک زہر ہر انساں پئے جاتا تھا خوشی سے
اس بات کا اطراف میں چرچا بھی نہیں تھا
کیا تھا مجھے کیوں خار سی چُبھتی تھی یہ دُنیا
ایسا کبھی دُنیا سے مَیں اُلجھا بھی نہیں تھا
وہ جلد مجھے چھوڑ گیا غم بھی ہے اس کا
یوں دیر تک اُس کا مجھے ہونا بھی نہیں تھا
ہر پیکر اُلفت کے اُڑے جاتے تھے پُرزے
یہ زِندگی تھی کوئی تماشا بھی نہیں
اِک بجھتے دِ یئے میں پڑھیں اِک کہنہ ورَق وہ
اور اُن کی نظر میں یہ اندھیرا بھی نہیں تھا
عنواں مِری ہستی کا تھا ہر دِن کا جو میرا
مَیں اصل میں کاوِش وہاں رہتا بھی نہیں تھا
٭٭٭
(نذرِ رضی اختر شوق)
وہی گلیاں ہیں، وہی ربط نہاں لگتا ہے
دِل میں کچھ کچھ غمِ فرقت کا سماں لگتا ہے
کِس قدر دُور نکل آئے ہیں اے دِل ہم تُم
گُزرا ہر وقت بُت وہم و گماں لگتا ہے
جاں میں وقت الاؤ سا ہے برپا کوئی
منظر ابر بھی آنکھوں کو دھواں لگتا ہے
آنکھ کو لاکھ کئی چہرے بھلے لگتے ہوں
مگر اُس جیسا کوئی دِل کو کہاں لگتا ہے
آپ اپنی جگہ راسخ سہی لیکن مجھ کو
آپ کا سچّا یقیں جھُوٹا گُماں لگتا ہے
سچ یہ ہے وہ مجھے اچّھا نہیں لگتا ہے مگر
آپ پوچھیں گے تو کہہ دوں گا کہ ہاں لگتا ہے
کسی نے دیکھا ہے کاوش بھری نظروں سے مجھے
اپنا آپ آج مجھے اور جواں لگتا ہے
٭٭٭