حیدرآباد جو کل تھا۔۔۔ پروفیسر یوسف سرمست

(محبوب خان اصغر نے چار سال قبل روزنامہ سیاست حیدر آباد کے لیے ’حیدر آباد جو کل تھا‘ کے موضوع پر پروفیسر یوسف سرمست سے یہ تحریر حاصل کی تھی جو  اخبار میں شائع ہوئی تھی، اور ’سیاست‘ کے تشکر کے ساتھ یہاں بھی شامل کی جا رہی ہے)

 

میرا نام سید یوسف شریف الدین ہے۔ سید فصیح الدین میرے دادا حضرت تھے اور میرے والد بزرگوار کا نام سید قادر الدین تھا۔ والد اور میں چونکہ اہل قلم تھے اس لئے انہوں نے اپنا قلمی نام تمکین سرمست رکھ لیا اور میں نے یوسف سرمست۔ میری ددھیال اور ننھیال کے تمام ہی افراد زیور تعلیم سے آراستہ تھے۔ اس لئے تعلیم کی اہمیت و افادیت کو بہتر طور پر سمجھتے تھے۔ سرد و گرم زمانہ چشیدہ تھے ان کی دور اندیشی کا یہ عالم تھا کہ انہیں مستقبل کے تقاضوں اور مسابقتی دوڑ کا خوب اندازہ ہوگیا تھا اسی لئے انہوں نے اپنی نسلوں کو بھی تعلیم سے آراستہ کرنے کا قصد کر لیا تھا۔ میرے چچا اور والد کو شعر و ادب سے خاص شغف تھا۔

ممتاز افسانہ نگار اقبال متین میرے حقیقی چچازاد بھائی ہیں۔ اس طرح مجھے ابتداء ہی سے ادبی ماحول ملا۔ میری والدہ کا نام بدر النساء تھا جو تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ شاعرہ بھی تھیں اور بی بنؔ تخلص فرماتی تھیں۔ انہوں نے دیکھا کہ شاعری سے ان کا ذوق بچوں کی تربیت میں مانع ہورہا ہے تو انہوں نے شاعری کو ترک کر کے صرف بچوں کی نگہداشت اور صحیح خطوط پر ان کی رہنمائی کرنے کو اپنا مقصد حیات بنا لیا کیونکہ ان کی خواہش تھی کہ ان کے بچے تعلیم کے اعلی مراحل طے کر کے قابل بنیں۔ ان دنوں گھروں میں لائٹ نہیں ہوتی تھی۔ انہوں نے پنتیوں کی روشنی میں مجھے ا ب ت ث پڑھایا تھا۔ اس طرح بنیادی تعلیم والدہ ہی سے حاصل کی۔گویا ان کی گود میرا اولین مدرسہ ہے۔ میری اہلیہ کا نام شہناز یوسف ہے وہ بھی تدریس جیسے مقدس پیشے سے منسلک رہیں اور ابتداء ہی سے بیگم پیٹ پبلک اسکول میں پڑھاتی رہیں اور وہیں سے وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئیں۔ ہماری تین اولادیں ہیں اور تینوں لڑکے ہیں۔ ایک انجینئر ہے جو کنسٹرکشن کے میدان میں ہے، دوسرا بھی انجینئر ہے اور دوحہ قطر میں ہے اور تیسرے نے ہوٹل مینجمنٹ کیا ہے اور سعودی عرب میں ہے۔

میرے لاشعور میں جہاں بہت سی باتیں اب بھی محفوظ ہیں، وہیں چیتاپور کا منظر بھی روشن ہے۔ چیتاپور جو ضلع تانڈور میں واقع ہے وہاں چیتا شاہ ولیؒ کی درگاہ بھی ہے جہاں زائرین کا جم غفیر ہوا کرتا تھا۔ وہاں قرب و جوار میں ایک کھُلا میدان بھی ہوا کرتا تھا۔ میرے چچا عبدالقادر جو اقبال متین کے والد ہیں، تحصیلدار بھی رہے اور تعلقدار بھی۔ انہوں نے اپنے چند رفقاء کو لے کر کچھ یوں کیا کہ سالانہ ایک ادبی فیسٹول کا وہاں باقاعدہ اہتمام کرنے لگے۔ خیمے لگوائے جاتے، لوگوں کو اس میں ٹھہرایا جاتا تھا، والد کے حلقہ احباب کے کئی شعراء اس میں شرکت کرتے تھے۔ طعام اور سواریوں کا نظم قابل دید ہوا کرتا تھا۔ اس مشاعرے میں چوٹی کے شعراء کی شرکت سے ایک شفاف ادبی ماحول بن گیا تھا جو آج خال خال ہی نظر آتا ہے۔ آج کے ادبی منظر نامے کا کل کے ادبی منظر نامے سے موازنہ کریں تو دل میں ایک ٹیس سی اٹھتی ہے۔ چیتاپور کے اس سالانہ مشاعرے میں حضرت صفیؔ اورنگ آبادی، علی اختر، نظر حیدرآبادی، سلیمان اریب، مخدوم محی الدین، شاہد صدیقی اور اقبال متین کے علاوہ دوسری ادبی شخصیتیں موجود ہوتیں۔

میری ابتدائی تعلیم گھر پر ضرور ہوئی مگر آٹھویں تا دہم سٹی کالج میں تعلیم حاصل کی۔ وہاں سید علی برتر میرے استاد تھے، جو کہ غیر معمولی شاعر بھی تھے۔ ادب سے انہیں گہری دلچسپی تھی۔ طلباء کو کوئی ایک موضوع دیتے تھے اور اس موضوع پر مضمون لکھنے کی تاکید کرتے تھے۔ یہ بچوں کی تربیت کا ایک مخصوص انداز تھا۔ تمام طلباء مضمون لکھ کر لاتے جسے وہ پڑھ کر اول، دوم اور سوم کا درجہ دے کر اسے تحفے دیا کرتے تھے۔ ان کے اس انداز سے مجھے لکھنے کی تحریک ملی اور میرا پہلا مضمون ’’میر تقی میر شخصیت اور فن‘‘ ’’نگار‘‘ میں چھپا تھا۔ طالب علموں کے اندر پوشیدہ تحریری صلاحیتوں کو نکھارنے اور سامنے لانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ آج اس عمل کی تقلید کی جائے کیونکہ آج اردو لکھنے والے کمیاب ہو گئے ہیں۔

جامعہ عثمانیہ میں ان دنوں بی اے کی جماعتیں بھی ہوا کرتی تھیں، میں نے بی اے میں داخلہ لے لیا۔ اور پھر ایم اے بھی کیا اور پی ایچ ڈی بھی۔ اس طرح اپنی زندگی کے کئی برس یونیورسٹی کی شاداب فضاؤں میں گذرے۔ خانگی کالجوں میں پڑھاتا رہا۔ مگر مستقل ملازمت جامعہ عثمانیہ میں مل گئی جس کا اپنا لطف تھا اور جہاں سے ابھرنے اور نمایاں ہونے کے پورے پورے مواقع اللہ تعالی نے عطا فرمائے۔ بڑے بڑے اساتذہ کرام ہوا کرتے تھے۔ عبدالقادر سروری میرے استاد تھے، انھوں نے ایک طرح سے میرے ادبی ذوق کو پروان چڑھانے میں بڑا حصہ ادا کیا۔ ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ بھی تھے جو اکثر یونیورسٹی آیا کرتے تھے۔ مولوی عبدالحق صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ رہے، اگرچیکہ ان کا زمانہ بہت پہلے کا ہے مگر ان کی بابت کہا جاتا ہے کہ شعبہ کے کاموں میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور لکھنے پڑھنے کا جو ماحول انہوں نے پیدا کیا گویا کہ بنیادیں انہوں نے فراہم کردی تھیں۔ ڈاکٹر سجاد بھی صدر شعبہ اردو رہے۔ ان کی کئی تصانیف ہیں جو اہمیت کی حامل ہیں۔ پروفیسر وحید الدین سلیم بھی صدر شعبہ اردو رہے۔ ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ان کی بھی کئی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ان کی معیت میں کئی ریسرچ اسکالرز کو اپنی راہیں متعین کرنے میں آسانی ہوئی۔ وہ علم اور تحقیق کا ایک سمندر تھے۔

سرزمین دکن پر جامعہ عثمانیہ کا قیام اعلی حضرت نواب میر عثمان علی خان کی فیاضی کا اظہار ہے۔ انہوں نے ایک مقامی زبان کی ترقی و ترویج میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ ان ہی کیلئے مخصوص ہے اور آج وہی زبان ذریعہ تعلیم بنی ہوئی ہے، انہوں نے ترجمہ کا شعبہ قائم کیا۔ جہاں اس قدر وسیع کام ہوا کہ دنیا کی ہر زبان کی اصطلاحات کا اردو ترجمہ ہوا جو کہ ایک غیر معمولی کام ہے۔ اعلی حضرت سے متعلق بعض لوگوں نے منفی خیالات پیش کئے ہیں جن پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اس کی تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آصف سابع کی شخصیت کا ایک خوبصورت پہلو یہ بھی رہا کہ انہوں نے فضول خرچی سے ہر دم اجتناب کیا اور کفایت شعاری کو اپنا شعار بنا لیا۔ رکھ رکھاؤ، نفاست، تہذیب اور شائستگی کا وہ عملی نمونہ تھے۔ تعلیمی اداروں کی سرپرستی کرنے کو وہ فرض عین سمجھتے تھے۔ نظام آرتھوپیڈک ہاسپٹل، جامعہ نظامیہ، حکمت اور طب کو فروغ دینے کیلئے عثمانیہ دوا خانہ، عثمانیہ یونیورسٹی، میڈیسن کی تعلیم کے انتظامات اور دوسرے شعبوں کا قیام ان کی زندگی کے اہم کارنامے ہیں اور آج حیدرآباد دکن میں تعلیم کی جو روشنی نظر آ رہی ہے وہ اعلی حضرت ہی کی مرہون منت ہے۔ قدیم حیدرآباد میں ایسے درد مند حضرات ایک دو نہیں سینکڑوں گذرے ہیں۔ پروفیسر حبیب الرحمن ہی کو لیجئے۔ انہوں نے علم کے فروغ کیلئے اردو آرٹس کالج قائم کیا۔ اپنی اراضی صرف علم کی بقا کیلئے وقف کر دینا اردو دوستی کی ایک عمدہ مثال ہے۔ انجمن ترقی اردو کا دفتر بھی اسی احاطہ میں ہے جس کے زیر اہتمام کتابوں کی اشاعت اور ان کی نکاسی کا اہم کام جاری ہے۔ ڈاکٹر زورؔ نے اپنی بیگم صاحبہ کی جائیداد کو اردو کیلئے وقف کردیا اور ادارہ ادبیات اردو ایک ایسا ادارہ ہے جہاں تشنگان علم کی روحانی آسودگی کا سامان آج بھی موجود ہے۔

قدیم حیدرآباد میں اکثر لوگ فارغ اوقات میں کتب خانے چلے جاتے تھے۔ آصفیہ لائبریری، سالار جنگ لائبریری میں نادر و نایاب کتابوں کا ذخیرہ آج بھی ہے۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے کیمپس میں بھی ایک لائبریری اب بھی ہے جہاں بے شمار اہم کتابیں دستیاب ہیں۔ پہلے ہر محلے میں لائبریری ہوتی تھی۔ اب مطالعہ کا ذوق ناپید ہو گیا ہے۔ وقت نہیں ہے کہ تحقیق کر سکیں۔ ٹکنالوجی، تیز رفتار ترقی اور سہولتوں کے باوجود مطالعہ کی اہمیت مسلمہ ہے۔ کیونکہ مطالعہ علمی بصیرت دیتا ہے۔

قدیم حیدرآباد کی رسومات جن میں شادی بیاہ کی رسومات اہم ہیں۔ اس موقع پر کئی روز قبل تیاریوں کا آغاز ہوا کرتا تھا، عروس کو ایک ہفتہ قبل ہی سے الگ تھلگ رکھا جاتا تھا۔ پیلا لباس اس کے لئے مخصوص ہوتا تھا بلکہ آج بھی ہے۔ وہ کام کاج سے دستبردار ہو جایا کرتی تھی۔ خاندان کی ایک سن رسیدہ خاتون اس کے ہمراہ ہوا کرتی تھی جو نئے ماحول کے لئے اسے ذہنی طور پر تیار کرتی تھی۔ آج جدید تعلیم کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ حیا اب باقی نہیں رہی۔ ہر گھر میں صحن ہوتا تھا اور مکان وسیع اور کشادہ ہوا کرتے تھے جس میں بے حساب مہمان سماجاتے تھے۔ میدانوں میں شامیانے ڈالے جاتے اور خاندان کے بزرگ، نوجوان نسل سے کام لیا کرتے تھے۔ آج بزرگوں کی آواز صدا بہ صحرا بن گئی ہے اور فلیٹ کی زندگی نے جذبات اور احساسات کا خون کردیا ہے۔

پولیس ایکشن کے دوران بعض اضلاع میں پولیس یا فوج کی زیادتیاں رہیں۔ خوف و ہراس کا ماحول تھا اور لوگ تیز رفتاری سے نقل مکانی کرنے پر مجبور تھے۔ ایسی کوئی شخصیت بھی نہیں تھی جو مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کرسکے۔ قاسم رضوی نے جوش میں نوجوان طبقے کو فوج کے خلاف اکسایا۔ کوئی منظم لائحہ عمل نہیں تھا، ہتھیار نہیں تھے، بندوق اور لاٹھی چلانا تک نہیں جانتے تھے، غلط قسم کے جوش و جذبات نے مسلمانوں کو عظیم نقصان پہنچایا۔ پرانے حیدرآباد کو یاد کریں تو فضاؤں میں گھوڑوں کی ٹاپ ابھرتی ہے، اس زمانے کی سواریوں میں تانگے، بنڈیاں اور سیکل رکشے ہی تھے۔ شکرام بھی ہوا کرتا تھا جس میں بیٹھنے کا انتظام فرشی ہوا کرتا تھا۔ اکثر طلبا شکرام ہی کے ذریعہ مدرسہ جایا کرتے تھے، کیونکہ اس میں اپنے بستے رکھنے کی انہیں کافی سہولت حاصل ہوتی تھی۔ ہاتھ سے چلنے والے رکشے، پھر پیڈل والے رکشے بھی اہم سواریوں میں شامل تھے۔ گرد و غبار اور دھول سے پاک حیدرآباد من کو بہت بھاتا تھا۔

میں نے عرض کیا تھا کہ عبد القادر سروری میرے استاد تھے اور میں نے ان ہی کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کیا تھا، مگر اس کی تکمیل سے قبل ہی استاد محترم کا انتقال ہو گیا تھا، میں ملول اور رنجیدہ رہنے لگا تھا۔ ایک مشفق استاد کا گذر جانا وہ بھی زمانہ طالب علمی میں، طالب علم کیلئے ایک عظیم سانحہ سے کم نہیں ہوتا۔رفیعہ سلطانہ آپا کی سرپرستی حاصل ہوئی۔ پھر انہوں نے مشکل لمحات میں مجھے سنبھالا دیا۔ رفیعہ آپا جامعہ عثمانیہ کی قابل ترین استاد رہی ہیں۔ زینت آپا کا انداز درس و تدریس دلوں کو بھاتا تھا۔ بے شمار طلباء کا از خود شامل ہو کر کسی استاد سے لکچر سننا، استاد کے ذہین، فطین اور لئیق ہونے کا ثبوت ہے۔ انہوں نے متعدد پی ایچ ڈی پیدا کئے۔

غلام عمر خان میرے استاد تھے۔ ماہر اقبالیات تھے اور اقبال پر انکی کتابیں بھی ہیں۔ پروفیسر مغنی تبسم میرے ہمعصر تھے مگر کچھ سینئر تھے۔ میرے قریبی رفقاء میں ان کا شمار ہوتا ہے، وہ ریل کے ذریعے آرٹس کالج آتے تھے۔ یاقوت پورہ سے میں آیا کرتا تھا اور وہ دبیر پورہ سے آتے تھے۔ مغنی صاحب لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کے ماہر تھے اور لوگوں میں علم و ادب کا ذوق پیدا کرنا ان کی اولین ترجیح ہوتی تھی۔ علم، تعلیم اور ریسرچ کا جذبہ انہوں نے پیدا کیا۔ ’’شعر و حکمت‘‘ اور ’’سب رس‘‘ کی انہوں نے ادارت بھی کی۔ اب ایسے اساتذہ کہاں میسر ہیں ؟ آج طلباء میں بھی وہ ذوق اور انہماک باقی نہیں رہا۔ آج المیہ یہ ہے کہ طالبعلم، طالبِ ڈگری اور طالبِ سند ہو گئے ہیں۔ جس لگن، ایمانداری اور خون جگر کا علم متقاضی ہوتا ہے وہ ان دنوں مفقود ہوگیا ہے۔ خرابی کہاں پیدا ہو رہی ہے اس بات پر ماہرین تعلیم کو سنجیدگی سے متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔

حیدرآباد کا قدیم یونانی دوا خانہ، عثمانیہ دوا خانہ اور انکی خدمات کا دنیا بھر میں شہرہ تھا۔ دور دراز سے مریض یہاں آتے تھے۔ معالجین ان دنوں جس تحمل اور دلجمعی کا مظاہرہ کرتے تھے وہ مریض کے حق میں دوا سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتا تھا۔ ایک حکیم آشفتہ ہوا کرتے تھے، ان کا مطب چادر گھاٹ کے آس پاس تھا۔ حکیم نابینا ہمارے بچپن میں نامی گرامی حکیم تھے، انہیں دکھائی نہیں دیتا تھا۔ صرف نبض دیکھ کر نسخہ تجویز کرتے تھے۔ شاید حسینی علم میں ان کی رہائش گاہ تھی۔ انہیں اپنے وقت کا حاذق سمجھا جاتا تھا۔ پرانے شہر کے ایک اور ڈاکٹر سکسینہ کا ذکر بھی ناگزیر معلوم ہوتا ہے جو علی الصبح سے رات دیر گئے تک خدمات کیلئے دستیاب رہتے تھے۔ یہ اُس زمانے کی باتیں ہیں جب شہر میں ڈاکٹروں کا فقدان تھا اور مذکورہ ڈاکٹروں اور حکماء نے مفت خدمات انجام دیں۔ جو دوا خانے ان دنوں مرکز نگاہ تھے آندھرا تشکیل پانے کے بعد ان کی مرکزیت ختم ہو گئی۔

میں نے اپنے تدریسی دور میں اپنی رہائش گاہ پر ’’ریسرچ اسکالر کونسل‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا۔ ہفتہ میں ایک نشست رکھی جاتی تھی۔ جس میں میرے اپنے تلامذہ کے علاوہ دوسرے ریسرچ اسکالر جن میں ادبی ذوق و شوق ہوا کرتا تھا، شریک ہوتے تھے۔ ہال بھر جاتا تھا، طلباء میں حصول علم کا ذوق دیکھ کر مجھے بھی بڑا حوصلہ ملتا تھا اور یہ سلسلہ دو دہوں تک جاری رہا۔ میں ابتداء میں مغل پورہ میں مقیم تھا جو کہ ڈیوڑھیوں کے لئے کافی مشہور تھا۔ کئی نوابوں کی ڈیوڑھیاں ہوتی تھیں۔ کلیانی نواب کی ڈیوڑھی بہت وسیع تھی۔ مہاراجہ کشن پرشاد کی ڈیوڑھی کا بھی کافی شہرہ تھا۔ وہ صاحب دیوان شاعر تھے۔ ان کے دربار میں یگانہ چنگیزی، نظم طباطبائی اور دوسرے شعراء تشریف لاتے تھے اور محفلیں منعقد ہوتی تھیں۔ شعراء کو تحائف سے نوازنے میں انہیں لطف آتا تھا، البتہ امجد حیدرآبادی بہت کم جایا کرتے تھے۔ میرے خاندان کے بیشتر افراد اہل قلم تھے اور مجھ میں عہد طفولیت ہی سے فکشن کا ذوق پیدا ہوگیا اور یہ فطری ذوق بالخصوص والدین اور چچا کی جانب سے میراث میں ودیعت ہوا تھا۔ اس وقت میرے جذبات و احساسات بھی معصوم تھے اور اکثر گھروں میں ان دنوں خاص طور پر خواتین میں افسانہ اور ناول کے مطالعہ کا شوق پایا جاتا تھا اور خواتین اور مرد کچھ نہ کچھ لکھ لیتے تھے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے