کچھ چیزیں مجھ سے باتیں کرتی ہیں
چائے کی ٹوٹی پیالی
مجھے اٹھا لو
مجھے کسی یادگار جگہ پر رکھ دو
میں تم سے الگ نہیں ہوں
میں تو خود ان ہونٹوں پر ادھوری رہی
جنہیں تم چوم نہ سکے
میں تو خود ان ہاتھوں سے چھوٹ گئی
جنہیں تم تھام نہ سکے
جھونکا
وہ کون تھی، کہاں ملی
مجھے تو کچھ پتہ نہیں
مگر وہ جب چلی گئی
تو دور تک خیال میں
ہوا کا تیز شور تھا
(مطبوعہ ماہنامہ افکار کراچی)
شام
دن کی گہری دھوپ نے
جوجو گھاؤ دئے ہیں
ان میں میرے درد کا کوئی بھید نہ ڈھونڈو
میرے دکھ تو ان دیکھے ہیں
دیکھو!
اس دیوار کے پیچھے
برسوں کی نفرت سے گھائل
تھکی ہوئی انجانی یادیں
پتیاں بن کے بکھر گئی ہیں
دور آکاش کے اس کونے میں
اک میلی چادر میں لپٹی شام کھڑی ہے
آؤ چلیں اسی شام کی چادر میں چھپ جائیں
شام، جو ہم دکھیوں کی ماں ہے!
٭٭٭