اس براعظم میں عالمگیری مسجد کے میناروں کے بعد جو پہلا اہم مینار مکمل ہوا، وہ مینار پاکستان ہے۔ یوں تو مسجد اور مینار آمنے سامنے ہیں لیکن ان کے درمیان یہ ذرا سی مسافت تین صدیوں پر محیط ہے، جس میں سکھوں کا گردوارہ، ہندوؤں کا مندر اور فرنگیوں کا پڑاؤ شامل ہیں۔ میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا ان گمشدہ صدیوں کا ماتم کر رہا تھا کہ مسجد کے مینار نے جھک کر میرے کان میں راز کی ایک بات کہہ دی:
’’جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہو جائیں، جب حق کی جگہ حکایت اور جہاد کی جگہ جمود لے لے، جب ملک کی بجائے مفاد اور ملت کی بجائے مصلحت عزیز ہو، اور جب مسلمانوں کو موت سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہو جائے، تو صدیاں یونہی گم ہو جایا کرتی ہیں۔ “
٭٭
’’جن دنوں میں ملازمت کی تربیت ختم کرنے کے بعد لائل پور میں تعینات ہوا مس جناح وہاں تشریف لائیں، دو چار دن رہنے کے بعد انہیں لاہور جانا تھا۔ گورنر پنجاب نے اس سفر کے لیے اپنی موٹر بھیجی تھی۔ مجھے حکم ملا کہ افسر مہمانداری کے خوشگوار فرائض ادا کرتے ہوئے میں لائل پور سے لاہور تک ان کے ساتھ اس موٹر میں سفر کروں۔
مس جناح نے راستے میں بہت سی باتیں کیں اور اکثر صاف اور کھری باتیں تھیں۔ مس جناح نے بتایا کہ قائد اعظم نے لیاقت علی خاں کی سوجھ بوجھ پر لیاقت ڈیسائی پیکٹ کے بعد بھروسہ نہ کیا اور اگر وقت اور واقعات کی رفتار اتنی تیز نہ ہوتی تو وہ ضرور کسی اور شخص کو ان کی جگہ دے دیتے۔ محترمہ نے یہ بھی کہا کہ ہیکٹر بولیتھو کو قائد اعظم کی سوانح عمری لکھنے کے لیے منتخب کیا گیا تاکہ وہ لیاقت علی خان کے کام کو بڑھا کر پیش کرے۔
جب ہیکٹر بولتھیو کی کتاب اس گفتگو کے چار سال بعد چھپ کر آئی تو میں نے اس کی ایک جلد خاص طور پر کراچی سے منگائی اور یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ مس فاطمہ جناح کے خدشات بالکل درست تھے۔ اس کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستان کی قسمت کا فیصلہ بڑی حد تک جولائی 1933ء میں اس روز ہو گیا تھا جب لیاقت علی خاں ہیمسٹیڈ ہیتھ گئے تاکہ جلاوطن جناح سے گفتگو کریں۔ یہی نہیں بلکہ اس کتاب میں بیگم رعنا لیاقت کے ذکر کے ساتھ یہ اشارہ بھی ہے کہ قائد اعظم اپنے خط میں لیاقت علی خان کو لکھا کرتے تھے کہ میرا دل تم دونوں کے ساتھ ہے۔ لطف یہ ہے کہ اس کتاب کے پانچویں باب میں بیگم لیاقت کی زبانی اس خیال کو بھی غلط ثابت کیا گیا ہے کہ اگر قائد اعظم کو حالات فرصت دیتے تو وہ لیاقت علی خان کو علیحدہ کر دیتے۔ بیگم لیاقت اس مفروضے کو مہمل قرار دیتی ہے۔ ممکن ہے یہ سچ ہو، مگر مجھے بولتھو کی ساری کتاب ہی مہمل معلوم ہونے لگی۔ “
٭٭
میں فلسطین کا حشر دیکھ کر پاکستان کے بارے میں پریشان ہو جاتا ہوں۔ جو قومیں اپنی ترجیحات متعین نہیں کرتیں اور اپنی روایات کی حفاظت کرنے کے بجائے کھیل کود اور ہنسی مذاق کو آزادی کا حاصل سمجھ لیتی ہیں ان سے سرزمین کا حق ملکیت، ان کی حکومت سے حق حکمرانی اور بالآخر لوگوں سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا جاتا ہے۔
٭٭
۔۔ ۔۔ کہتے ہیں ایک خاندان میں چینی کا ایک قیمتی اور قدیمی گلدان ہوا کرتا تھا۔ ایک لا ابالی نوجوان نے بوڑھے جد سے اس کی اہمیت کے بارے پوچھا، جواب ملا کہ وہ نسلوں سے خاندان میں سب سے قیمتی ورثہ کی حیثیت سے محفوظ چلا آ رہا ہے اور خاندان کے ہر فرد اور نسل کا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کرے۔ نوجوان نے کہا: اب اس کی حفاظت کا تردد ختم ہوا، کیونکہ چینی کا وہ گلدان موجودہ نسل کے ہاتھ سے پھسل کر فرش پر گرا اور چکنا چور ہو گیا۔
بوڑھا بولا: ’’حفاظت کا تردد ختم ہوا، ندامت کا دور کبھی ختم نہ ہو گا۔ ‘‘
٭٭
جہاز آہستہ آہستہ نیچا ہوتا جا رہا ہے۔ تھوڑی دیر میں حبشہ کا دارالسلطنت آنے والا ہے۔ ناشتہ کے برتن سمیٹے جا رہے ہیں۔ چینی لڑکی تام چینی کی کیتلی اٹھائے پھر رہی ہے یہ برتن بہت دنوں بعد نظر آیا ہے۔ مسافر سوچتا ہے یہ دنیا پچھلے سو برس میں کہاں سے کہاں نکل گئی۔ صدیوں آدمی ایک ڈھرے پر رہا۔ خاک سے اٹھا تھا سو اس سے رشتہ استوار رکھا ہوا تھا۔ پکانے کی ہانڈی، کھانے کی رکابی، پینے کے لیے کوزہ، مانگنے کے لیے کاسہ، یہ سب مٹی کے ہوا کرتے تھے۔ پیدائش کے لیے یہ تشبیہ تھی جیسے چاک سے گیلا برتن اتار لیں۔ موت کے لیے یہ استعارہ تھا گویا مٹی کا برتن ٹوٹ جائے۔ ہمہ اوست کے لیے یہ اشارہ تھا کہ خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گل کوزہ۔ لیکن اب یہ رشتہ ٹوٹ گیا ہے یہاں تک کہ ن۔ م۔ راشد آزاد شاعری سے آزاد منشی کے اس درجہ تک پہنچ گئے جہاں مٹی میں دفن ہونے کی بجائے بھٹی میں بھسم ہونے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ آدمی بھٹک گیا ہے۔ جب سے مٹی اور روغنی مٹی کے برتن رخصت ہوئے ہیں اس خاکداں میں اسے راستہ نہیں مل رہا۔ تام چینی اور چینی، تانبہ اور پیتل، جست اور المونیم، بے داغ لوہا اور فولاد، شیشہ اور پلاسٹک، مسالہ اور مرکبات بلکہ کاغذ کے برتن اور کاٹھ کی ہنڈیا، یہ بے یقینی کی ساری منزلیں وہ پچھلے سو برس میں طے کر چکا ہے اور کسی مقام پر چند برس سے زیادہ قیام نہیں کیا۔
٭٭
تام چینی کی کیتلی پچاس ساٹھ برس پہلے ایک مرغوب ایجاد تھی اور اب محض ایک متروک یادداشت۔ لاہور میں تام چینی کا ایک بورڈ دستبرد زمانہ سے محفوظ بہت سالوں تک ایک عجوبہ کے طور پر پنجاب پبلک لائبریری کی پیشانی پر نصب رہا۔ ایک روز ایک شخص کا اس سڑک سے گزر ہوا تو اس نے یہ بورڈ اتار کر انبار خانہ بھیج دیا اور اس کی جگہ میو سکول آف آرٹ کی مدد سے دھات کے تراشے ہوئے الفاظ میخی سہاروں پر آویزاں کر دئیے۔ سڑک پر جو اونچا سا پردہ بنا ہوا تھا اسے بھی گرا دیا۔ کتب خانہ اور عجائب خانہ میں تمیز کرنی آسان ہو گئی اور علم اور انسان کے درمیان کھنچی ہوئی دیوار بھی ڈھے گئی۔
٭٭
لتر کی پرسکون وادی کے جنوب مشرقی گوشہ میں نیلی شفاف جھیل کے کنار بیٹھے ہوئے مسافر نے جب پہلی بار اپنا عکس پانی کی نرم خیز سطح پر دیکھا تھا تو اس وقت بھی اسے گوتم بدھ کی یاد آئی تھی۔ گوتم نے کہا تھا: انسان چار طرح کے ہوتے ہیں: زندگی کے دھارے کے ساتھ بہنے والے، دھارے کے خلاف تیرنے والے، دھارے میں اپنا مقام بنا کر جم جانے والے اور وہ جو جیتے جی موت اور زندگی کے دونوں دھاروں کو عبور کر کے اتھاہ آسودگی کے خشک کنارے تک پہنچ جاتے ہیں۔ مسافر کو اس سلسلہ میں کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔ وہ دھارے کے ساتھ بہنے والی پہلی اور ادنی قسم کا فرد ہے لیکن اس نے بساط بھر کوشش کی کہ وہ اس دھارے کے ساتھ خوشی خوشی بہہ جانے والوں میں شامل نہ ہو۔ جھیل میں ہلکورے لیتے ہوئے عکس کو دیکھ کر اسے تسلی ہوئی۔ یہ عکس سطح آب کے اوپر ہے اور ناخوشی کا احساس مسافر کی انا کو ڈوبنے نہیں دیتا۔۔ ۔۔
٭٭
میں نے تاریخ کی سب سے بڑی جنگ کو کئی برس بہت قریب سے دیکھا ہے۔ جتنی سیاہی جنگ کے بادلوں میں ہوتی ہے آپ اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ جنگ کے اندھیرے گھپ اندھیرے ہوتے ہیں۔ لیکن جتنی تیز اور خیرہ کرنے والی سفید روشنی سخت آزمائش کے دنوں میں زندہ قوموں اور با کردار افراد کے طرزِ عمل سے پیدا ہوتی ہے آپ اس کی طرف آنکھ بھر کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔ روشنی جب اتنی روشن ہو جائے کہ آپ اسے دیکھ بھی نہ سکیں تو اسے نور کہتے ہیں۔ ”
کچھ دیر خاموش رہے اور پھر بولے: ” کہیں آپ مجھ سے مل کر صرف اس لیے مایوس تو نہیں ہوئے کہ میں اب کہکشاں کے رنگین جھولے پر جھولنے کو زندگی کا مقصد سمجھنے کی بجائے اس کا زیاں سمجھتا ہوں۔ بے مقصد زندگی ناشکری ہے، زندگی کا زیاں گناہ ہے، میں گناہ سے بچنا چاہتا ہوں۔
٭٭٭