مندرجہ ذیل نظموں کا جائزہ لیا جائے گا۔
(۱) بوادی کہ درآں خضر را عصا خفت است۔
عطا اللہ سجاد
(ہمایوں )
(۲) طلوع آفتاب
امین حزیں سیالکوٹی
(عالمگیر)
(۳) ایسا کیوں ہوتا ہے۔
سلام مچھلی شہری
(ادب لطیف)
بظاہر اردو شعرا کے دو بڑے گروہ اس وقت ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ایک گروہ اپنے کو ترقی پسند سمجھتا ہے اور اس کی اس تقسیم سے باقی تمام شاعر دوسرے گروہ میں آ جاتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے شاعر ترقی پسند نہیں، بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ پہلے گروہ میں تالاب کو گندہ کرنے والی مچھلیاں دوسرے گروہ کی بہ نسبت زیادہ ہیں۔ اس گروہ میں ایسے شعرا کی کثرت ہے، جن کے جذبات و خیالات اپنے نہیں، جن کے اپنے پاس کوئی خیال ایسا نہ تھا، جسے وہ شعر کے ذریعے پیش کرتے اور اس لیے انھوں نے چند تبلیغی باتوں کو، جو نثر میں بہتر طریق پر ادا کی جا سکتی تھیں، ایک سطحی اور کم و بیش غیر موثر انداز میں ظاہر کرنا شروع کیا ہے۔ لیکن مجھے اس وقت دوسرے گروہ کی کار گزاریوں سے تعلق ہے۔ ان کے کلام میں زندگی محدود ہو کر نہیں رہ گئی۔ یہ جو کچھ کہتے ہیں، فطری تحریک شعر کی بنا پر ہی کہتے ہیں، اسی لیے ان کے کلام میں زندگی کے ایک حقیقت نما بہاؤ کی بے ساختگی ہے۔ عطا ئ اللہ سجاد سر راہے کسی بھکاری لڑکے کی صدا سنتا ہے، ’’عشقے دی گلی وچّوں کوئی کوئی لنگھ‘‘ اور اس کی ذہانت جاگ اٹھتی ہے۔ اسے یاد آتا ہے کہ ایک زمانے میں وہ بھی اس گلی سے نکلا تھا۔
میں نے ایک بار محبت کی تھی۔
لذت اندوز تھا دل غم کی فراوانی سے۔
زندگی میری عبارت تھی غزل خوانی سے
آہ و کیف میں ڈوبے ہوئے دن رات مرے
رفعت عرش پہ رہتے تھے خیالات مرے
کسے معلوم کہ میں نے بھی یہ جراَت کی تھی،
’’وادیِ عشق میں پرواز کی ہمت کی تھی‘‘۔
لیکن اسے احساس ہے کہ ’’عشق کی راہ میں آتے ہیں بہت سخت مقام‘‘ اور اسی لیے اس گلی سے گزرنے والے افراد بہت کم ہوتے ہیں۔
نارسائی مری تقدیر میں تھی۔
ہمسفر چھوڑ گئے ساتھ مرا۔
تھام لیتا وہیں اے کاش ! کوئی ہاتھ مرا۔
اور ہاتھ کے تھامنے والے کی ضرورت بھی تھی، کیوں کہ
راہ انجانی، نشیب اور فراز
’’منزل دور دراز
تیرگی چاروں طرف اور بلاؤں کا ہجوم
’’راہ رو خستہ المناک نواؤں کا ہجوم‘‘
ایسی حالت میں کہ کوئی سہارا نہ ہو یہ کیفیت لازمی تھی کہ
خوف آلام و شدائد سے میں گھبرا ہی گیا۔
’’میرے ماتھے پہ عرق آ ہی گیا
بزدلی پاؤں کی زنجیر بنی
عزم نے چھوڑ دیا ساتھ تمناؤں کا
وہ مرا جوش سفر ختم ہوا
اور اب طاقت رفتار کہاں
اب سبک گام مرے شوق کا رہوار کہاں
تم نے بھیجا بھی تو کس وقت محبت کا پیام۔
اگرچہ یہ نظم محبت کی ناکامی کا ایک عام نوحہ ہے، لیکن اس میں شاعر جس ترتیب خیال سے حال کو چھوڑ کر ماضی میں کھو گیا ہے، وہ قابل غور ہے۔ راستہ چلتے ہوئے شاعر کسی بھکاری لڑکے کی صدا سنتا ہے کہ ’’عشق کی گلی میں سے ہر کوئی نہیں گزرا کرتا‘‘___وہ ٹھٹھک کر رک جاتا ہے، گویا سڑک پر ایک تنہا ستون ہو، لیکن اس کے ذہن میں حرکت پیدا ہوتی ہے، اس کا ذہن گویا الٹے پاؤں آہستہ آہستہ اپنے ساتھ ہمیں بھی، اس گلی میں لے جاتا ہے، جہاں شاید کبھی ہمارا بھی گزر ہوا ہو۔
آخری مصرعے پر پہنچ کر شاید شاعر کا ذہن نارسائی، تیرگی، بلاؤں کے ہجوم، آلام و شدائد اور المناک صداؤں سے بیزار ہو گیا۔ اور اس کے آسودہ نفسی پہلو نے یکایک کروٹ لی۔ ’’تم نے بیجا بھی تو کس وقت محبت کا پیام؟‘‘ ___یوں قاری کا ذہن، جو شاعر کے ساتھ ساتھ اْس کے یا اپنے ماضی کی طرف جا کر گزرے ہوئے زمانے کی یاد میں ڈوب گیا تھا۔ یک دم پھر حال میں آ پہچا۔ حقیقت پرستی کے لحاظ سے یہ پلٹا صحیح نہیں۔ کیوں کہ غیر جانبداری سے دیکھا جا سکتا ہے کہ ’’یہ محبت کا پیام‘‘ فریب نفس سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ یوں فنی لحاظ سے بھی اگر نظم اس مصرع سے پہلے مصرع پر ختم ہو جاتی ( اور اب طاقت رفتار کہاں، اب سبک گام مرے شوق کا رہوار کہاں ) تو ایک ایسی لرزتی ہوئی کیفیت پیدا ہوسکتی، جو ذہن کو ماضی سے دور لے جا کر تینوں زمانوں کی پابندی سے آزاد کر دیتی اور اْن لرزتے ہوئے ماضی میں کھو جاتے ہوئے سروں کا اثر زیادہ ہوتا۔
عطا اللہ سجاد نوحہ کناں تو نہیں، لیکن ایک حسرت بھرے انداز سے سوچ رہا تھا کہ محبت کا سورج چھپ گیا۔ لیکن امین حزیں (سیالکوٹی) مادی سورج کی طرف رجوع ہے، اسے ہر روز صبح نکل کر شام کو چھپ جانے والا سورج اپنی طرف متوجہ کیے ہوئے ہے :
اللہ کا فٹ بال فرشتوں نے اچھالا
یا خْم سے مے نور کا نکلا ہے پیالہ
یا اوڑھ کے انوار تجلی کا دوشالہ
سر حور نے جنت کے دریچے سے نکالا
تھا چاند کی کرنوں میں ابھی نور کا دم خم
تاروں میں سے اکثر نہ ہوئے تھے ابھی مدھم
اور نجم سحر نے ابھی کھولا ہی تھا پرچم
سر اپنا سیاہی سے سفیدی نے نکالا
پہنائے افق سے تھیں اٹھیں نور کی امواج
یہ نور کی امواج تھیں یا نور کی افواج
یلغار کیے آتا تھا پورب کا مہاراج
کرتے ہوئے ظلمت کی صفوں کو تہ و بالا
آتے ہیں جو یہ صبح و مسا ہم کو نظر رنگ
دن رات میں چھڑتی ہے جو شام و سحر جنگ
منظر ہیں یہ قدرت کے قوانین کی فرہنگ
ہے شرط مگر دل ہو کوئی دیکھنے والا
اقوام کا آغاز بھی انجام بھی خوں ہے
ہے ایک جنوں وہ بھی امیں یہ بھی جنوں ہے
وہ جذبہ بے باک ہے یہ حال زبوں ہے
فطرت نے گرایا بھی اسے جس کو اچھالا
اس نظم میں بعض باتیں قابل غور ہیں۔ سورج کو ’’اللہ کا فٹ بال‘‘ کہنا ایک تجدید ہے، شاید اس استعارے کا لطف ہر شخص کو نہ آسکے۔ لیکن اس کی وجہ تشبیہ کا اچھوتا پن ہے، اس کی خامی نہیں۔ ’’سر اپنا سیاہی سے سفیدی نے نکالا‘‘ منظر میں یہ قدرت کے قوانین کی فرہنگ ’’یلغار کیے آتا تھا پورب کا مہاراج‘‘ اپنے زور بیان کی دلیل آپ ہیں۔ کْل نظم میں ایک ایسی شوکت الفاظ ہے، جو طلوع آفتاب کے شکوہ سے پورے طور پر ہم آہنگ معلوم ہوتی ہے۔
جس طرح امین حزیں کی نظم میں ایک دو باتیں اچھوتی ہیں، اسی طرح سلام مچھلی شہری کی نظم میں بھی ہیں۔
دوسروں کی مغرور خوشی سے میں بھی اثر لے ہی لیتا ہوں
دوست جب آپس میں ہنستے ہیں میں بھی ان میں ہنس دیتا ہوں
ایسی صورت میں کیا جانے آخر ایسا کیوں ہوتا ہے
رات کو جب ناول کے رنگیں باب پہ آنے لگتا ہوں
موسیقی سی رومانی جذبات میں پانے لگتا ہوں
ایسی صورت میں کیا جانے آخر ایسا کیوں ہوتا ہے
فلم کے پردے پر جب کانن رقصاں ہو ہو کر گاتی ہے
میرے آنسو ہنس دیتے ہیں میری دنیا کھو جاتی ہے
ایسی صورت میں کیا جانے آخر ایسا کیوں ہوتا ہے
چاہے دن بھر کتنا ہی افسردہ بھوک سے ہوتا ہوں
لیکن خواب بہت کیف آگیں ہوتے ہیں جب سوتا ہوں
ایسی صورت میں کیا جانے آخر ایسا کیوں ہوتا ہے
’’تاج محل‘‘ کے رہبر جس دم پچھلے قصّے دہراتے ہیں
شاہی کا دشمن ہوں لیکن پھر بھی آنسو آ جاتے ہیں
ایسی صورت میں کیا جانے آخر ایسا کیوں ہوتا ہے
سوچتا ہوں دیہاتوں میں کیوں یہ دلکش دنیا غمگیں ہے
کیا دل کے بہلا لینے کو ان کا خدا کوئی بھی نہیں ہے
ایسی صورت میں کیا جانے آخر ایسا کیوں ہوتا ہے
خونی پرچم کے نیچے مزدوروں کے جب آتا ہوں میں
اپنی قوت سے خوش ہو کر باغی نغمے گاتا ہوں میں
ایسی صورت میں کیا جانے آخر ایسا کیوں ہوتا ہے
اس نظم میں شاعر کا ذہن ایک سیدھے خط میں نہیں چلتا۔ سجاد کی نظم میں جب ایک بار ذہن ماضی کی طرف رجوع ہوتا ہے، تو آخری مصرع سے پہلے تک ماضی ہی کی طرف چلا جاتا ہے۔ گویا ہر نیا سْر پہلے سْر میں گھلتا جاتا ہے اور اثر کو گہرا کرتا ہے۔ لیکن یہ نظم ان بنگالی گیتوں کی مانند ہے، جو ہر مصرع پر بدلتی ہوئی راگنی کے سانچے میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں۔
اس نظم کے شاعر کا ذہن ایک ایسے نوجوان کا ذہن ہے، جسے غور وتدبر کا مادہ ملا ہے اور وہ دنیا کی مختلف باتوں سے اثر لے رہا ہے۔ عنوان سے تو یہ ظاہر ہے کہ اْسے ایک خلش سی ہے۔ ایک استفسار سا اس کے دل میں کھٹک رہا ہے ’’ایسا کیوں ہوتا ہے ؟‘‘ وہ زندگی کی ندی میں بہتا جا رہا ہے۔ کیوں بہتا جا رہا ہے ؟ اس لیے کہ اس کے دائیں بائیں آگے پیچھے ہر شے بہتی جا رہی ہے۔ ’’دوست (میرے دوست) جب آپس میں ہنستے ہیں، میں بھی ان میں ہنس دیتا ہوں۔ ‘‘گویا یہ ہنسی بے ساختہ نہیں ہے، ایک نقالی سی ہے۔ اْس کا جی نہیں چاہتا ہے کہ وہ ہنسے، یہ بے دلی کیوں ؟ کیا اسے اپنے ماحول سے تسکین حاصل نہیں ہوتی۔ اگلا تصور بے ساختہ احساس کا حامل ہے۔ جب شاعر (وہ نوجوان) رات کو ناول پڑھتا ہے، تو خود بخود دل میں امنگیں پیدا ہوتی ہیں، کیسی امنگیں ؟ ___وہ امنگیں جن کو ایک ناول کے رنگین باب سے تحریک ہوسکتی ہے۔ نفسیاتی نقطہ نظر سے اس بند میں آغاز بلوغ کی کیفیت کا اظہار ہے۔ تصور پھر بدل جاتا ہے۔ ناول سے اس کے دل میں، جو بے چینی پیدا ہوتی ہے، اْس کی ادھوری تسکین فلم کے پردے پر ہوتی ہے۔ ایک لمحے کے لیے، اس کے ذہن کی مرکز کانن(؟)بالا بن جاتی ہے اور ناول کے رنگین باب نے جن آنسوؤں کو بیدار کر دیا تھا، وہ پلکوں سے گر پڑتے ہیں۔ ’’میرے آنسو ہنس دیتے ہیں، میری دنیا کھو جاتی ہے ‘‘۔ ’’میری دنیا‘‘ ___کونسی دنیا؟ کیا وہ دنیا، جس میں دوستوں کے ساتھ محض ظاہری ہنسی کا دخل ہے یا وہ دنیا، جس کی ایک ہلکی سی جھلک ناول کے رنگین باب سے دکھائی دی تھی۔ ہمیں اس سے غرض نہیں۔ ہمیں اتنا ہی کافی ہے کہ فلم کے پردے سے شاعر کے دل میں، وہ امنگیں، جو ناول سے پیدا ہوئی تھیں، زیادہ شدید صورت اختیار کرتی ہیں۔ امنگوں کی یہ شدت کسی لفظ سے ظاہر نہیں ہوتی، بلکہ اس بند اور اس سے اگلے بند کی درمیانی خلا میں ایک نفسی وضاحت پوشیدہ ہے۔ فرائڈ کے چیلوں نے نفسیات کی بحثوں میں کہا ہے کہ جنسی ناکامی انسان کو مناظر قدرت کا متوالا بنا دیتی ہے (اور ایک نقاد نے تو انگریزی شاعر ورڈزوتھ کی زندگی کے حالات کا تجزیہ کر کے ماہرین نفسیات کے اس نظریے کو ثابت کیا ہے۔ ہمارے دل میں بھی حالی کی قدرتی شاعری کے سلسلے میں ایسے تجزیے کی ضرورت ہے۔ ) کہتا ہوں۔ ’’نیچر میں کھو کر یہ نظّارے میرے ہوتے، کاش یہ کلیاں میری ہوتیں، کاش یہ تارے میرے ہوتے ‘‘___ان ستاروں میں کچھ بھی نہیں، نہ ان کلیوں میں کوئی بات ہے۔ یہ تلازم خیال اور انداز نظر کا مسئلہ ہے، کانن بالا یا ناول کے رنگین باب کی عورت یا ’’وہ‘‘ اگر مجھے مل سکتی تو ان کلیوں سے لطف اندوز ہوا جاتا۔ اس تاروں بھری رات میں وقت گنوایا جاتا___لیکن یہ کلیاں میری نہیں، یہ تارے میرے نہیں، یعنی میرے لیے بے کار ہیں۔ کاش یہ میرے ہوتے۔ یہ ’’کاش‘‘ بہت بامعنی لفظ ہے، اس میں حسرتوں کا انبار چھپا ہوا ہے۔ اس سے مناظر پرستی کی علت غائی کا بھید کھلتا ہے۔
’’چاہے دن بھر کتنا ہی افسردہ بھوک سے ہوتا ہوں میں‘‘___بھوک سے افسردہ ہونے کا تصور اس تخیل پرستانہ نظم کو یکدم حقیقت کے قریب لے آتا ہے۔ آج کل کے نوجوان بے کار ہیں، ناول پڑھتے ہیں، پردہ سیمیں پر کانن بالا کو دیکھتے ہیں، باغوں میں پھرتے ہیں، کلیوں کو دیکھ دیکھ کر غمگین ہوتے ہیں، چاندنی راتوں میں آوارہ گردی کرتے ہیں۔ ستاروں سے اکتساب غم کرتے ہیں، رات کو گھر آ کر پھر ناول پڑھتے ہیں اور سوجاتے ہیں۔ اس نظم کا نوجوان بھی اسی قسم کا ایک مرد بے کار ہے۔ تاج محل کی سیر کو جاتا ہے، تو اسے صرف ممتاز محل کا المناک فسانہ ہی موثر کر سکتا ہے، پرانے بادشاہوں کی شان و شوکت اْس کے جمہوری احساس کو جگاتی ہے، اس کا انداز نظر موجودہ ہندوستان کے سیاسیات سے آلودہ نوجوان کا انداز نظر ہے۔ اخباروں کے مطالعے نے اسے بتایا ہے کہ ہندوستان کی آبادی کی اکثریت کسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگلے بند میں اسے کسانوں کے مصائب کا ایک بے نام سا احساس ہوتا ہے اور پھر وہ ایک خالص نوجوان کی طرح خدا کے بھی خلاف چند لفظ کہتا ہے اور آخر میں زمانے کے فیشن کے مطابق مزدوروں کے پرچم کے نیچے جا کر کھڑا ہو جاتا ہے، لیکن یہ پرچم خونی کیوں ہے ؟ اس کی وضاحت اس مختصر جگہ میں نہیں کی جا سکتی۔ یہ بات لمبی ہے، جس کا اختصار یہ ہے کہ، موجودہ زمانے میں، جس قدر انقلابی تحریریں (خواہ پروپیگنڈا کی ہوں، خواہ ادب و شعر کی) پیدا ہو رہی ہیں، ان کے تحت میں ایک ازلی اصول کارفرما ہے۔ یہ اصول اذیت پرستی کا ہے۔ مغرب کی موجودہ جنگ اذیت پرستی ہی کا مظاہرہ ہے اور انسان کے ہر عمل میں اسی اصول کی کاروائی کی موجودگی کی دلیل دی جا سکتی ہے، لیکن اگر شاعری مقصود ہوتو کہا جا سکتا ہے کہ مزدوروں کا پرچم اس نوجوان کے خون آرزو سے سرخ ہے۔
٭٭
(ادبی دنیا، لاہور جون ۱۹۴۰ء)
٭٭٭