میرے بچپن کے دوست عبدالحمید خاں (جو بہت پہلے ہمیش ہی کی طرح کراچی کے ہو رہے) نے جب مجھے فون پر احمد ہمیش کے انتقال کی خبر سنائی تو مجھے دھچکا سا لگا۔ میں نے پوچھا ’’کیسے؟‘‘ تو بولے آج ہی (۱۰ ستمبر) کے ’ڈان‘ میں یہ خبر آئی ہے۔ میں نے کہا اخبار میں کیا لکھا ہے، سناؤ… مجھے بہت دکھ ہوا۔ مگر کرتا بھی کیا۔ یقین نہیں آتا تھا۔ ابھی زیادہ مدت نہیں ہوئی، میں کراچی گیا تھا ۲۰۰۸ میں ، ہمیش کے ساتھ کئی تصویریں تھیں۔ وہ نکالیں۔ وہ، اس کی بیٹی انجلا، ناصر بغدادی، غالب عرفان۔ چالیس، پینتالیس برسوں بعد اس سے ملا تھا۔ یہ طویل وقفہ کسی کی عمر طبعی بھی ہوسکتا تھا۔ اور کچھ برسوں کے ہیر پھیر کے بعد یہی ہوا اور ہوگا بھی۔ بلراج کومل نے سچ کہا ہے:
ابھی ایک بے نام ماضی کے صحرا میں کھو جائیں گے ہم
یہ ساٹھ کی دہائی کی بات ہے۔ احمد ہمیش کی عجیب بے سر و سامانی کا دور تھا۔ وہ نہ جانے کہاں کہاں بھٹکتا ہوا حیدرآباد پہنچا تھا۔ ایک دن میں اتفاقاً ۱۷۔مجرد گاہ (ماہنامہ ’صبا‘ کا دفتر) گیا تو دیکھا اریب صاحب حسب ِ معمول اپنی مجلس سجائے بیٹھے ہیں۔ ارد گرد کئی ادیب و شاعر حلقہ بنائے ہوئے تھے۔ کئی جانے پہچانے چہرے۔ ان میں ایک چہرہ بالکل اجنبی ، سب سے الگ۔ اریب صاحب نے مسکراکر اپنے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے مجھ سے پوچھا انھیں جانتے ہو۔ میں نے ہمیش کو پہلے نہیں دیکھا تھا، لاعلمی کا اظہار کیا۔ پھر میرا نام ہمیش کو بتاتے ہوئے یہی سوال اس سے کیا۔ تو اس نے میرا نوٹس لیا اور پائپ کا دھواں فضا میں لہراتے ہوئے بڑے بے نیازی سے کہا ’’ہاں! ہم نے انھیں پڑھا ہے۔‘‘
حیدرآباد آنے سے قبل وہ (غالباً) سب سے پہلے بمبئی (موجودہ ممبئی) آیا۔ بلیا سے براہ پاکستان غیر قانونی طور پر ہندوستان میں پھر سے بسنے کے لیے۔ بمبئی میں ہمیش کے قیام کے بارے میں فضیل صاحب نے بتایا کہ ظ۔انصاری جو ان دنوں بمبئی سے خود اپنا رسالہ ’’آئینہ‘‘ نکال رہے تھے، انھوں نے احمد ہمیش کو آئینہ میں کچھ کام دیا، لیکن بہت جلد اپنی افتاد طبع سے مجبور ہو کر ہمیش نے یہ نوکری چھوڑ دی اور اورنگ آباد آ گئے۔ فضیل جعفری ان دنوں اورنگ آباد ہی میں تھے۔ انھوں نے ہمیش پر ایک مضمون بھی لکھا جو کسی سبب شائع نہ ہوسکا۔ لیکن اب انھوں نے تلاش کر لیا ہے۔ یہ الگ قصہ ہے جو فضیل صاحب ہی سنا سکتے ہیں۔
ظ۔ صاحب کو معلوم ہوا کہ ہمیش یوں غائب ہو گئے ہیں تو بہت ناراض ہوئے۔ ’’آئینہ‘‘ کے اگلے شمارے ہی میں انھوں نے ہمیش کے بارے میں سخت الفاظ لکھے جس میں یہ جملہ بھی تھا کہ احمد ہمیش اردو کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں اور پولیس احمد ہمیش کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہے۔‘‘ اورنگ آباد میں قاضی سلیم نے ان کی مدد کرنا چاہی لیکن یہاں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس میں ناکامی کے بعد قاضی سلیم نے ہمیش کے لیے حیدرآباد کا ٹکٹ کٹوا دیا اور شاید کچھ رقم بھی ان کے حوالے کی۔
ان حالات میں احمد ہمیش کی جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید اپنا دماغی توازن کھو بیٹھتا لیکن ایک کھرے، سچے تخلیق کار کے فطری لا ابالی پن اور اپنی ذات سے بے اعتنائی اور اس دنیا میں رہتے ہوئے کسی اور ہی دنیا میں رہنے کے رویے نے اسے بڑاسہارا دیا، طاقت دی۔ جیسے اورنگ آباد میں قاضی سلیم اور بمبئی میں گردیش دمنیا (انگریزی گجراتی ادب کی ایک معروف شخصیت، خاندانی رئیس) ، احمد ہمیش نے ان کے چوپاٹی والے بنگلے کی لائبریری میں کئی راتیں بسر کیں، انھوں نے ان کی ہر ممکن مدد کی۔ حیدرآباد میں انھیں سلیمان اریب اور حکیم یوسف حسین خاں مل گئے۔ ان دنوں حیدرآباد کی ساری ادبی رونق مخدوم، اریب اور شاہد صدیقی کے دم قدم سے تھی۔ اریب صاحب عجیب و غریب آدمی تھے۔ کسی نئے لکھنے والے میں انھیں ٹیلنٹ نظر آ جائے تو انھیں اس سے خدا واسطے کی محبت ہو جاتی۔ اسے پروموٹ کرنے میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھتے۔ انھوں نے ہمیش کو حیدرآباد کے ادبی حلقوں سے متعارف کروایا۔ ہر طرح حوصلہ افزائی کی، یہاں تک کہ سنگاریڈی کے ایک مشاعرے میں تاج مہجور کے علاوہ احمد ہمیش کو بھی ساتھ لے گئے۔ قدیر زماں ان دنوں بہ سلسلۂ ملازمت وہاں مقیم تھے۔ انھوں نے ان سب کی میزبانی کے فرائض انجام دیئے۔ حکیم یوسف حسین خاں جو حیدرآباد کے سب سے اعلیٰ سرکاری یونانی دوا خانے کے ناظم اور ایک صاحب طرز شاعر تھے۔ انھوں نے ہمیش کا سب سے زیادہ ساتھ دیا اور ہر طرح ان کا خیال رکھا۔ مجتبیٰ حسین نے اپنے بھائی محبوب حسین جگر سے کہہ کر ہمیش کو ’’سیاست‘‘ میں کچھ کام بھی دلوایا۔ اب اسے کیا کیا جائے کہ وہ یہاں بھی زیادہ دن نہیں رہ سکے، لیکن حیدرآباد کے لوگوں کی تہذیب اور نفسی شرافت کچھ ایسی تھی کہ یہاں ہمیش کا دل لگ گیا۔ وہ یہاں چند سال ہی رہ سکے لیکن خوش رہے۔ اگر انھیں ہندوستانی شہریت مل جاتی تو شاید یہیں کے ہو رہتے۔
احمد ہمیش سے میری دوسری ملاقات حکیم یوسف حسین خاں کے گھر پر ایک شعری نشست میں ہوئی۔ پھر نہ جانے کیا ہوا ہمیش بہت جلد مجھ سے گھل مل گئے۔ ہم تقریباً روز ہی ملتے۔ اسے میری شاعری بھی پسند آنے لگی۔ اب ہمیش نے اورینٹ ہوٹل بھی آنا شروع کر دیا تھا جہاں شام ہوتے ہی اردو، ہندی، تیلگو کے ادیبوں، شاعروں، صحافی، سیاست دانوں، مصور، موسیقار غرض ہر طرح کے اہل ِ فن ، اہل ِ غرض اور ان کے پرستاروں کے جمگھٹا رہتا۔ یہاں سب نے احمد ہمیش کو دیکھا (میرے دوست عبدالحمید نے بھی) ، اپنی اپنی عینکوں سے پسندیدگی، تحیر یا تاسف کی نگاہ سے۔ حیدرآباد کے شاعروں ، ادیبوں میں یوں تو ہمیش سبھی سے واقف ہو چلے تھے لیکن جن لوگوں سے ان کی ملاقاتیں رہیں اور جن کا وہ اکثر یا کبھی کبھی ذکر کرتے، ان میں حکیم یوسف حسین خاں، سلیمان اریب، اوم پرکاش نرمل، راجہ دوبے، ساجد اعظم،شاذ تمکنت، عوض سعید، ایم ٹی خاں، مجتبیٰ حسین، انور رشید، اقبال متین، حسن فرخ اور رؤف خلش کے نام آتے ہیں۔ غالباً اورینٹ ہی میں انھیں اظہر خورشید مل گئے۔ لوگ کہتے ہیں کہ انھوں نے ہی ہمیش کی ایک با ذوق، عمر میں ہمیش سے کچھ بڑی لیکن خاصی پرکشش خاتون سلمیٰ کا گھر دکھایا اور ہمیش وہیں رہنے لگے۔ کیا کرتے انھیں بھی کوئی ٹھکانہ چاہیے تھا جیسے ساقی فاروقی نے لکھا ہے کہ
شام ہوتے ہی تتلی بھی ڈھونڈتی ہے ملے
کوئی جگہ وہ جہاں تھوڑی دیر سستالے
احمد ہمیش حیدرآباد آئے تو یہ ہم دونوں کی نوجوانی کا زمانہ تھا۔ مجھے بہت کم لوگ جانتے ہوں گے لیکن اسے کافی شہرت مل چکی تھی۔ شاعری اور اس کی چونکا دینے والی کہانیوں کے سبب ہر نقاد اس کا ذکر کرتا ، اگر کہیں اسے ہدف بنایا جاتا تو بیش تر پڑھے لکھے لوگ اس کی شعری اور نثری تحریروں میں معنوں کی تہہ اردو داری ، ایک طرح کا تمثیلی اضطرار اور انفرادیت کی داد دیئے بغیر نہ رہتے۔ اس کے سخت مخالفین بھی اس کا ذکر بہ بدی ہی سہی لیکن بہرحال کرنے پر مجبور تھے اور وہ یہی چاہتا تھا۔ کبھی خامشی چھا جاتی تو وہ رسائل میں کسی خاتون کے فرضی نام ورنہ خود اپنے نام سے خط لکھ کر اس ادبی جمود کو توڑنے کی کوشش کرتا۔ عابد سہیل نے مجھے چند ماہ قبل بتایا کہ انھیں اپنے پرانے خطوط کے انبار میں ہمیش کا ایک خط ملا جس میں اس نے لکھا کہ میں اور مصحف اقبال توصیفی حیدرآباد میں جدید اردو نظم کے بارے میں عالمی پیمانے پر سیمینار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی ، میں اس معاملے میں بالکل اناڑی اور صریحاً نااہل تھا۔ حیدرآباد میں اسے جن لوگوں سے یگانگت تھی ان میں میرا نام سرفہرست تھا۔ شاید اس کا سبب یہ ہو کہ ہم دونوں ہم عمر تھے اور ہمارے مزاجوں میں کئی چیزوں میں ہم آہنگی تھی۔ ہماری گفتگو کا موضوع شاعری یا ادھر ادھر کی بے ضرر باتیں ہوتیں۔ میں نے کبھی اس کی نجی زندگی ،گھر، خاندان کے مسائل، ادبی مراسم وغیرہ کے بارے میں استفسار نہیں کیا۔ کسی سلمیٰ کے بارے میں بھی نہیں۔ ہاں، وہ خود ہی رواں ہو جائے تو اور بات تھی۔ ایک دوسرے کے بارے میں بہت سی باتیں نہ جاننے کے باوجود ایک دوسرے کو جاننے لگے تھے۔ ورنہ برسوں کی ملاقاتوں کے بعد بھی ہم بس ملاقاتی رہ جاتے ہیں۔ دوست یا دشمن نہیں بن پاتے۔ (نرگسیت یا اپنی بے جا اہمیت کے سبب کسی کے لیے اپنے دل میں خواہ مخواہ کی محبت یا کینہ پال لینے کی بات الگ رہی) احمد ہمیش کے ساتھ میرا ایسا معاملہ نہیں تھا۔ وہ اکثر صبح میرے گھر آ جاتا۔ میں نے اس سے کہہ رکھا تھا کہ میرے گھر آئے تو ناشتہ میرے ساتھ ہی کرے جو بھی برا بھلا میری ماں یا بیوی لا کر رکھ دیں۔ پھر ہم نرمل جی (اوم پرکاش نرمل) سے ملنے کمرشیل پرنٹنگ پریس چلے جاتے۔ نرمل جی ہندی کے صف اول کے شاعر اور کہانی کار اور ہندی کے اہم ادبی ماہ نامے ’’کلپنا‘‘ کے ایڈیٹر بھی تھے۔ پریس اور اس رسالے کے مالک بدری وشال پتی بہت بڑے انڈسٹریلسٹ ، رام منوہر لوہیا کے خاص آدمی، سوشلسٹ لیڈر ، ادب اور فنون لطیفہ کے ہر شعبے سے غیر معمولی شغف اور اس کی ترویج اور ترقی میں حد درجہ فعال، اردو کے مشاعروں، ادیبوں سے بھی وہ نہایت خلوص اور محبت کا رشتہ رکھتے تھے۔ پریس میں نرمل جی ہمارے لیے ہر آدھے گھنٹے کے بعد چائے منگواتے اور ہماری آمد کی وجہ سے پریس کا کام کم اور ہم سے باتیں زیادہ کرتے۔ منندر جی جو اس پریس کے منیجر اور خود ایک اچھے لیکھک تھے، نرمل جی کو ٹوکنے کی بجائے خود ہماری باتوں میں شامل ہو جاتے۔ پریس کے بعد آدھا دن نرمل جی کی ڈیوٹی ’کلپنا‘‘ میں ہوتی۔ کلپنا کے دفتر میں داخل ہونے سے پہلے وہ ہمیں قریب کے ہوٹل میں کھانا یا اڈلی، دوسا کھلانے لے جاتے۔ نرمل جی کی آمدنی قلیل تھی لیکن اگر کوئی بل دینے کی کوشش کرے تو ناراض ہو جاتے۔ نرمل جی نے ہمیش کو بدری وشال جی سے بھی ملوایا جو کلپنا میں اردو شاعروں ادیبوں کی تخلیقات، دیونا گری لیپی میں (بغیر کسی تبدیلی کے صرف حاشیے میں مشکل الفاظ کے معنی ہوتے) شائع ہونے پر فی نظم 50 بہ ذریعہ چیک ادا کرتے۔ کئی نظمیں، غزلیں، یا کہانی ہو تو یہ اس زمانے میں اچھی خاصی رقم ہو جاتی۔ اکثر شاعروں اور ادیبوں کا چونکہ کوئی بینک اکاونٹ نہیں ہوتا تھا، اس لیے یہ چیک مخصوص دکانوں پر کمیشن سے بھنا لیے جاتے۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں لیکن میرے خیال میں نرمل جی نے ہمیش کی بھی کئی نظمیں کہانیاں ’’کلپنا‘‘ میں شائع کیں اور ہمیش تو ہندی میں بھی لکھتے تھے۔ ہم تینوں کا ایک trio بن گیا تھا۔ نرمل جی اور احمد ہمیش ایک دوسرے کو بہت پسند کرنے لگے تھے۔ شام ہونے کو آتی تو ہم اپنے اپنے ٹھکانوں کو سدھارتے۔ پھر اورینٹ میں ہمیش سے ہماری ملاقاتیں تھیں، وہ الگ۔
دن گزرتے رہے پھر میرا تبادلہ کیرالا ہو گیا۔ چند مہینوں میں چھٹی پر حیدرآباد آیا تو معلوم ہوا کہ احمد ہمیش کو زبردستی پاکستان بھیج دیا گیا تھا۔ ہماری ملاقاتوں کا یہ دور یک لخت ختم ہو گیا۔ نرمل جی اور دوسرے مشترکہ احباب سے ملتا تو ہمیش کا ذکر درمیان میں آ جاتا۔ کبھی شاذ اور اکثر نرمل جی اسے یاد کر لیتے۔ رفتہ رفتہ یہ یادیں بھی دھندلانے لگیں۔ ندا فاضلی نے لکھا ہے
وہ جو اکثر یاد آتے تھے اب کم کم یاد آتے ہیں
وقت جہاں مرہم کا کام کرتا ہے وہیں زخم بھی دیتا ہے۔ اس مصرعے میں کم کم یاد آنے کا جو دکھ ہے، اس کا احساس اچانک طور پر احمد ہمیش نے کراچی سے ایک خط لکھ کر مجھے دلایا۔ اس میں کانچ کے ایک گلاس کے ٹوٹنے کا ذکر تھا، جو پچیس تیس برس پہلے میرے گھر میں پانی پیتے ہوئے اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا اور فرش پر اس کی کرچیاں بکھر گئی تھیں لیکن یہ گلاس اہم نہیں اہم بات یہ ہے کہ اہم اتنی جلدی کیسے بوڑھے ہو گئے کتنی کرچیاں بکھری ہوں گی، ایک دوسرے سے ناواقف ہماری زندگیوں میں اس کا احساس اسے ہوگا لیکن اس خیال میں اس کا ذکر نہیں تھا۔ اس خط کے ساتھ (جنوری 1995) اس نے مجھے ’’تشکیل‘‘ شمارہ ۱۵ بھیجا تھا۔ اس نے لکھا تمھارا پتہ بڑی مشکل سے ملا۔ پھر تشکیل باقاعدہ میرے پتے پر آتا رہا۔
احمد ہمیش سے دوبارہ ملاقات کی خواہش اس وقت پوری ہوئی جب ۲۰۰۸ میں ریٹائرمنٹ کے کئی برسوں بعد کراچی جا سکا۔ میرے کئی قریبی عزیز تقسیم کے بعد سے وہیں ہیں۔ بہ ظاہر اب وہ پہلا سا ہمیش نہیں تھا۔ اس کی گھریلو زندگی خوش گوار تھی۔ بیوی شہناز، ایک لڑکا فرید، ایک بیٹی انجلا ہمیش جسے اس نے تشکیل کا معاون مدیر نامزد کر رکھا تھا۔ وہ NAPA (نیشنل اکیڈمی اف پرفارمنگ آرٹ) میں سسنکرت، ناٹک اور انڈین ڈراما کے شعبے کا انچارج تھا۔ میں وہاں گیا تو دربان اس سے ملوانے مجھے لائبریری میں لے گیا جہاں وہ انجلا کے ساتھ بیٹھا تھا۔ انجلا وہاں لائبریرین ہیں۔ وہ مجھ سے بڑی محبت اور اپنائیت سے ملا۔ اسٹوڈیو لے گیا جہاں اس کی نگرانی میں ’’مہابھارت‘‘ ڈرامے کی ریہرسل ہو رہی تھی۔ ڈراما ڈائرکٹر انجم ایاز ، بھیشم، دریودھن اور دروپدی سے ملوایا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ اس کی زندگی اب ہم وار راستے پر چل رہی تھی، لیکن مزاج کے کھڈ وہی تھے، وہی لاابالی پن، روز تقریباً روز فون کرتا، حیدرآباد میں گزرے ہوئے دنوں کو یاد کرتا۔ میری خیریت پوچھتا ، آنے کا وعدہ کرتا لیکن نہیں آتا۔ ان دنوں اس کی ناصر بغدادی سے بہت دوستی تھی۔ ناصر بغدادی نے مجھے اپنے گھر مدعو کیا تو احمد ہمیش اور غالب عرفان کو بھی مدعو کیا۔ غالب عرفان کلاسیکی طرز میں جدید احساس کے عمدہ شاعر ہیں۔ انھیں پہلی بار سننے کا موقع ملا اور برسوں بعد احمد ہمیش کو اس کے مخصوص انداز میں ، میں نے بھی کچھ نظمیں سنائیں۔ ناصر بغدادی کی افسانہ نگاری کا تو ہر اہل نظر قائل ہے اور وہ ایک بے باک نقاد ہیں اور ایک سہ ماہی ادبی رسالہ ’’بادبان‘‘ نکالتے ہیں۔ انھوں نے ’’بادبان‘‘ کے کئی شمارے (بعد میں ایک ضخیم شمارہ اقبال متین نمبر بھی شائع ہوا) اور اس رسالے کے اداریوں پر مشتمل اپنے تنقیدی افکار کا مجموعہ ’’ضربِ تنقید‘‘ بھی مجھے عنایت کیا۔ کراچی کے اس قیام کے بعد 2012 میں دوبارہ ایک نہایت قلیل مدت کے لیے ایک شادی میں شرکت کے لیے مجھے کراچی جانا پڑا تو احمد ہمیش سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ میں بہت کم دنوں کے لیے گیا تھا۔ ہمیش سے صرف فون پر بات ہوسکی۔ روانگی سے بس ایک دن پہلے میں نے فون کیا تو اس نے بہت سی باتوں کے بعد کا ’’اپنی صحت کا خاص خیال رکھنا‘‘ ہم جب بھی بات کرتے گفتگو اسی جملے پر ختم ہوتی۔ اس کی بڑی آرزو تھی کہ ایک بار پھر حیدرآباد آئے۔ ایک محلہ ایک گلی تھی جو اسے مسلسل صدا دے رہی تھی۔ تنگ کیے جا رہی تھی، اور اس کا یہ حال کہ:
مجھے ا بھی یاد ہے خواب سا گل ِ شام ہجر کھلا ہوا
کوئی ہے جو داغِ وصال سے مری آستیں کو جدا کرے
(احمد مشتاق)
وہ اور سلمی۔ لوگوں نے اسے منٹو کی کسی کہانی کا کردار بنا دیا تھا۔ میں اس سے ملتا مگر اس بارے میں کچھ نہ پوچھتا نہ نرمل جی ایسا کوئی ذکر چھیڑتے۔ میں اس لیے کہ میرے خیال میں کچھ باتیں پردۂ خفا میں ہی اپنا بھرم رکھتی ہیں، انھیں کھوجیں ، بے لباس کریں تو بے معنی ہو جاتی ہیں۔ حیدرآباد میں لوگ اس کا نام لیتے لیکن میراجی کی طرح وہ اپنے فن نہیں بلکہ میلی کچیلی شخصیت کام نہیں بلکہ نام اور افواہوں کے سبب جانا جاتا۔ یہاں اس کی شہرت یا بدنامی اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی۔ پاکستان لوٹ کر اس نے اپنا رسالہ تشکیل جاری کیا۔ زندہ اور نمائندہ ادب کا شاک انگیز استعارہ، تشکیل میں اس نے ’سلمی اور ہوا‘ جو شب خون میں چھپی تھی، اسے دوبارہ شائع کیا۔ اس کہانی میں سلمیٰ کو نہایت پاک باز، نرم دل اور کلام پاک کی تلاوت میں مصروف دکھایا۔ یہ میری سلمیٰ تھی یا کوئی اور سلمیٰ؟ کوئی گوشت پوست کا انسان یا محض کہانی؟ حقیقت یا خواب؟ زندگی کی طرح دونوں آنکھیں کھولے سانس لیتا ہوا خواب۔
احمد ہمیش نے زیادہ نہیں لکھا (نظمیں ، کہانیاں) ۔ محبوب خزاں کے اس مصرعے پر عمل کرتے ہوئے کہ ’’کم کہو، اپنا کہو، اچھا کہو‘‘ ’’ہمیش نظمیں‘‘ اور ان کے علاوہ ’مکھی‘ اور ’کہانی مجھے لکھتی ہے‘ کہانیوں کے دو مجموعے اور ایک خود نوشت سوانح ’مکر چاندنی‘ اسے اردو ، انگریزی، ہندی، خاص طور پر سنسکرت اور فارسی پر خاصا عبور تھا اور اس نے ان زبانوں کی ادبیات کا دل جمعی سے مطالعہ کیا بھی تھا۔ پاکستان جانے سے پہلے اپنی نوجوانی میں اسے ہندوستان ہی میں بہت شہرت مل چکی تھی۔ ہندوستان کے ہر رسالے ہر انتھالوجی میں اس کے نام کی شمولیت ضروری تھی۔ شاعری میں اس کا نام محمد علوی اور عادل منصوری کے ساتھ لیا جانے لگا۔ نثری نظم کی ترویج اور اسے مقبول بنانے میں اس نے جو رول ادا کیا، اس سے کسے انکار ہوسکتا ہے۔ اس کا اصرار تھا کہ اردو میں وہ اس صنف کا بانی قرار دیا جائے۔ فاروقی صاحب نے لکھا ’’اگر تم نے واقعی اردو میں اس صنف کو ایجاد کیا ہے تو لوگ تسلیم کر لیں گے، تمھیں اس پر کہنے یا لکھنے سے کچھ نہیں ملنے والا۔ یہ زمانہ بڑی ریاکاری کا ہے۔ یہاں تو لوگوں کو اچھے اچھوں کے کارناموں پر پانی پھیرنے میں ذرا دیر نہیں لگی۔ (’تشکیل‘ شمارہ ۲۵ تا ۲۷) فاروقی نے اسے نثر نظم کا خالق مانا (’ہمیش نظمیں‘ آخری سرورق) تشکیل کے ایک اور خط میں (شمارہ ۲۱) انھوں نے بڑی محنت سے لکھا۔ ’تم کو میں نے ہمیشہ سچا اور اعلیٰ ادیب کہا۔ میں نے عدل اور انصاف کی بنا پر ، تمھاری خوبیوں کی بنا پر تمھاری تعریف کی۔ تھوڑی سی زندگی ہے، اسے ہنس بول کر کاٹ دو‘ آخری جملہ اس تناظر میں کہ تشکیل کے صفحات میں اب وہ ہر اہم اور مشہور شاعر ادیب کو غیر شاعر، نااہل اور ناکارہ قرار دینے لگا تھا۔ بس درجہ بندی کا فرق تھا۔ چاہے وہ وزیر آغا ہوں، احمد ندیم قاسمی، ظفر اقبال، گوپی چند نارنگ، انتظار حسین، اسلم فرخی، آصف فرخی، مشفق خواجہ، انور سجاد، جمیل الدین جمالی، امجد اسلام امجد، منیر نیازی، احمد فراز، کشور ناہید، افتخار جالب، انیس ناگی وغیرہ وغیرہ (اتنے ناموں کے بعد بھی یہ فہرست نامکمل ہے) گوپی چند نارنگ کے خلاف تو اس نے حد کر دی۔
احمد ہمیش کو شہرت بہت ملی ساتھ میں بدنامی بھی۔ اس میں کچھ کمیاں ہوں گی۔ چاند کا ایک سیاہ رخ بھی ہوتا ہے۔ بس چند ہی نقاد ہوں گے جنھوں نے اس کی تخلیقات میں فکر کی گہرائی اور اسلوب کے انوکھے پن کے سب اس کے فن کی ہر طرح پذیرائی کی ورنہ اس کی زندگی ہی میں اسے نظر انداز کرنے کے جواز ڈھونڈ لیے گئے۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
٭٭٭
بشکریہ معاصر ’’منصف‘‘ ، حیدر آباد/ ’’شبخون خبر نامہ‘‘، الہ آباد