(اپنی چھیاسویں سالگرہ پر لکھی گئی نظم)
دھند ہے چاروں طرف پھیلی ہوئی
میں بھی اس دھند کا کمبل اوڑھے
سر کو نیوڑھائے ہوئے بیٹھا ہوں
میں اکیلا ہی نہیں ہوں کہ یہاں اور بھی ہیں
منتظر اپنے بُلاوے کے لیے
لپٹے لپٹائے ہوئے، خود میں
اکیلے، چپ چاپ…….
جامد و ساکت و بے جان بتوں کی مانند
سر کو نیوڑھائے ہوئے بیٹھے ہیں
کچھ سے برسوں کی شناسائی ہے
میرے ہم عمر ہیں، میں جانتا ہوں
برق رفتار تھے سب بادیہ پیمائی میں
میری ہی طرح قدم زن تھے، سبک رو تھے یہ لوگ!
اپنے قد کاٹھ سے آدھے پونے
آج گم صم سے یہاں
صف بہ صف بیٹھے ہیں آنکھیں موندے
خستہ، درماندہ، تھکے ہارے، نڈھال
سانس پھولے ہوئے، بے دم ، ہلکان
میری ہی طرح جفا کش تھے، جیالے تھے یہ لوگ
کہیں پیچھے سے کوئی کندھا ہلاتا ہے مرا
اور تاکید سے کہتا ہے، ’’حضور اٹھئے تو
آپ کا نام پکارا گیا ہے!”
٭٭٭