وہ محض ایک شہری تھا۔
آپ جانتے ہیں نا۔ پاکستانی شہری کیا ہوتا ہے؟۔۔۔ وہی!۔۔۔ بہت شریف اور سیدھا سادا۔ جس سے کسی کو بھی کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ بالکل بے ضر ر۔۔۔ جھینگر جیسی لگاتار آواز بھی نہیں لگا سکتا کہ رات کاسناٹا ہی توڑ سکے۔ اسی لیے ہر طبقہ اس کی خاموشی سے ڈھیروں فائدے اٹھاتا رہتا ہے۔ یعنی لیڈر، وڈیرے، پیر، مولوی، تاجر، وکیل، ڈاکٹر، دکاندار، مزدور، اساتذہ، سرکاری ملازم، بلکہ خود سرکار بھی اس کا ایسے استحصالی استعمال کرتی رہتی ہے۔
اتنے برس گزرنے کے بعد بھی اسے باپ کی موت ایسے ہی یاد تھی جیسے کل کا واقعہ ہو۔
۱۹۵۷ء میں وہ پورے دس برس کا تھا اور بیمار باپ کی لاغر ٹانگیں دبا رہا تھا۔ جو آنکھیں بند کیے سیدھا لیٹا ہوا تھا۔ وہ کبھی کبھی بے چینی اور بے قراری سے اپنا سر تکیے پر دائیں بائیں موڑتا تھا۔ تو یہ زیادہ تن دہی سے دبانے لگتا۔۔۔ دھیرے دھیرے اس کو قرار آنے لگا۔ بچہ خوش ہوا کہ اس کے پاؤں دبانے سے فائدہ ہو رہا ہے۔ پھر جیسے غنودگی کے سے عالم میں مریض ساکت ہو گیا۔ گلے سے ہلکی سی خرخراہٹ ابھری۔ تو اس نے سمجھا کہ یہ نیم پختہ خرّاٹے کی آواز ہے۔ اور وہ ہولے ہولے اپنے ہاتھوں کا دباؤ کم کرنے لگا۔ تاکہ نیند نہ ٹوٹے۔ لیکن پھر اسے محسوس ہوا کہ اس کے ہاتھوں میں تھامی ہوئی ٹانگوں کے پٹھے ایکا ایکی اکڑنے لگ گئے ہیں اور ان میں جیسے بجلی کی لہر سی دوڑ رہی ہے۔
ڈر کر اس نے فوراً ہاتھ اٹھا لیے اور گھبرا کر باپ کے چہرے کی طرف دیکھا۔
وہ چہرہ اب ایک عجیب چہرہ تھا۔ ناقابلِ بیان سے کرب میں ڈوبا ہوا۔ موہوم سے رنگ بدلتا ہوا۔ زور زور سے آنکھیں میچتا، ناک سکوڑتا اور ہونٹ بھینچتا ہوا۔۔۔ ساتھ ہی بجلی زدہ ٹانگیں اور پاؤں مزید اکڑنے کے انداز میں کھنچنے لگے۔
خوفزدہ سا ہو کر اس نے ہاتھ کھینچے۔ چارپائی سے چھلانگ لگائی اور بھاگ کر فق چہرہ ماں کے کندھے میں چھپا لیا۔
وہ امن و اماں، سکون اور بھائی چارے کا زمانہ تھا۔ تھوڑی سی دیر میں رشتے دار، ہمسائے اور واقف کار آنے لگے۔ جنازہ اٹھنے تک تو گھر میں آہ و بکا کا شور تھا مگر جب وہ تھم گیا اور مہمان چلے گئے تو بھی اسے اپنے کانوں میں عجیب سی گونج محسوس ہوتی رہی۔ نہ معلوم کیسی۔ وہ کسی کو بتا نہ سکتا تھا۔ سمجھا نہ سکتا تھا، صرف محسوس کر سکتا تھا۔۔۔ چند دنوں میں دھیرے دھیرے وہ خود ہی تحلیل بھی ہو گئی۔ مگر اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ یہ سب کیا تھا۔۔۔ شاید اس خرخراہٹ کی کوئی شکل تھی جو اس نے آخری وقت مرنے والے باپ کے گلے سے سنی تھی۔
ان دنوں بڑی شدت سے اسے باپ کی کمی محسوس ہوئی۔ باپ ہوتا تو وہ پوچھ سکتا تھا کہ یہ گونج کیا ہے اور کیوں ہے؟
وہ باپ اپنے بچوں سے بہت باتیں کیا کرتا تھا۔ گرمیوں کی رات چھت پر کھلے آسمان کے نیچے وہ سب چارپائیوں پر بیٹھے یا لیٹے ہوتے تو وہ بچوں کو پچھلی باتیں سنانے لگتا۔ کہ دس برس پہلے پاکستان کیسے بنا تھا۔ مشرقی پنجاب میں ان کے علاقے میں کیسا قتل و غارت ہوا تھا۔ اس کا باپ کیسے لاپتہ ہوا تھا اور ابھی تک تھا۔ ماں اور بہن سے کیا ہوا تھا۔ ان کے جدّی گھر ان کی آنکھوں کے سامنے پہلے لُوٹے گئے۔ پھر جلائے گئے۔ وہ بڑی مشکل سے بچتے بچاتے سکول میں جا چھپے تھے۔ جو بعد میں پناہ گزینوں کا کیمپ بنا دیا گیا تھا۔ وہ قافلوں کی شکل میں کتنے دن کے جان لیوا سفر کے بعد بڑی مشکل سے پاکستان پہنچے تھے۔ کیونکہ راستے میں قافلے پر بھی حملہ ہو گیا۔ ادھر سے ریل گاڑیاں مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی چلتی تھیں۔ مگر بعض راستے میں حملے ہوتے اور جب لاہور پہنچتیں تو ان میں صرف کٹی پھٹی لاشیں ہوتیں۔
’’ہم وہ مہاجر نہیں بچو جو پاکستان بننے کے بعد ٹہلتے ہوئے اِکا دُکا ادھر پہنچے۔ یہاں آ کر اطمینان سے روزی ڈھونڈی پھر چند لوگوں کو ادھر بلا لیا اور باقی کو ادھر چھوڑ دیا۔ انہیں بغیر تکلیف، خوف اور تباہی کے پاکستان بھی مل گیا اور ہندوستان میں بھی جمے رہے۔ مگر ہم تو وہ ہیں جن سے سب کچھ چشم زدن میں چھٹ گیا۔ مکمل تباہی دیکھی، مہینوں خوف و ہراس۔ آگ، خون اور غارت گری میں قتل ہونے سے بچتے رہے۔ آدھے آدھے خاندانوں کی خون آلود لاشوں کو بغیر دفنائے بمشکل اپنی جانیں بچا کر اِدھر پہنچے۔ بچو اس ملک کی جو قدر ہمیں ہے وہ کسی اور کو نہیں۔۔۔ یہاں والوں کو بھی نہیں۔۔۔۔‘‘
وہ اپنی انگلی اٹھا کر کہتا ’’اس مبارک آسمان کے نیچے ہمیں دوسری زندگی ملی، نئی دنیا ملی، نئی روزی ملی، عزت ملی، امن و چین، سکون ملا، سب کچھ ملا۔۔۔ شکر ہے خدا کا۔‘‘
پھر بچے کئی قسم کے سوالات پوچھتے رہتے۔
’’کیا بتاؤں بچو۔ میری امی اور بہن نے اغوا سے بچنے کے لیے گاؤں کے کنویں میں چھلانگ لگا دی تھی۔ جہاں ان جیسی اور بھی بہت سی کود چکی تھیں۔ مرد حملہ آوروں سے لڑتے رہے۔ گھروں کے شعلوں سے بچتے رہے۔ اور بالآخر شکست کھا کر پہلے کسی ہندو دوست کے ہاں چھپے پھر وہاں سے بھاگ کر سکول کے کیمپ میں پہنچ گئے۔‘‘
بچے پوچھتے رہتے اور وہ رات گئے تک انہیں تفصیلات بتاتے نہ تھکتے۔ بچے بھی یہ باتیں بار بار سنتے تھے۔ مگر سننے میں تھکتے نہ تھے۔
’’یہ پاکستان تو جنت ہے۔۔۔ آج ہمارے لیے۔۔۔ کل تمہارے لیے۔۔۔ ہم سب خدا کے فضل سے خوش ہیں۔ آگے بڑھ رہے ہیں۔ اپنا دین ہے۔ اپنا ایمان ہے۔ اور کیا چاہیے ہم کو؟۔۔۔ چلو تمہاری آنکھیں بند ہو رہی ہیں۔ اب سو جاؤ‘‘
یہ کہہ کر باپ تو سو جاتا مگر ان تفصیلات سے اس کی نیند اڑ جاتی۔ وہ اپنی چارپائی پر سیدھا لیٹا لیٹا آسمان کو تکتا رہتا۔ چاند کو دیکھتا رہتا۔ تاروں کو گنتا رہتا۔ بعد ازاں رات کے سنّاٹے میں جب پاکستان کے متعلق باپ کی باتیں کانوں میں گونجتیں تو اسے تاروں بھرے آسمان پر پیار آنے لگتا۔
مگر اب وہ باپ نہ تھا۔ ماں البتہ ضرور تھی مگر وہ تو کچھ اور ہی دنیا تھی۔ اس کے پیار میں زندگی تھی۔ آواز میں شیرینی تھی۔ کھلانے میں مزہ تھا۔ آغوش میں خدائی تھی۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ اور بے شمار تھا۔ مگر وہ باپ والی بات کہاں تھی۔ بات سمجھانے کا مزہ تو بس باپ ہی سے تھا۔ اس لیے وہ خاموش رہنے لگا۔ اور خاموشی میں ہی بڑا ہوتا گیا۔
اچانک ملک میں پہلا مارشل لاء لگ گیا۔ اسے کوئی سمجھ نہ تھی کہ مارشل لاء کیا ہوتا ہے۔ مگر زندگی کی چال میں اچانک تبدیلی کا ہر طرف شور و غوغا تھا۔ اخباروں میں بڑی بڑی سرخیاں ہوتیں۔ بڑے بڑے لوگوں کی گرفتاری کی خبریں ہوتیں۔ با وردی فوجی بازاروں، گلیوں میں گھوم کر قصائیوں اور نان بائیوں وغیرہ کو مکھی سے بچنے کے لیے جالیاں لگانے پر مجبور کرتے۔ فوجی افسر چھڑی لہرا لہرا کر ہر طرف صفائی کی تلقین کرتے اور میونسپل کمیٹی والے بڑی تندہی سے نالیاں صاف کر کے ان میں چُونا ڈالتے رہتے۔ گلی محلوں میں لوگوں کی ٹولیاں حیرت سے چہ میگوئیاں کرتیں کہ اب کوئی بے ایمانی نہیں ہو گی۔ بے انصافی نہیں ہو گی۔ جیسے کوئی معجزہ ہو رہا ہو۔
وہ بھی بہت عرصہ تک یہی سمجھتا رہا۔
برس گزرتے گئے۔
گلیوں کی نالیاں پھر گندی ہو رہی تھیں۔ دکانوں کی جالیاں غائب ہو چکی تھیں۔ صفائی پر سابقہ گندگی غالب آ چکی تھی۔ بے ایمانی۔ بے انصافی اور بدامنی بھی خاموشی سے پاؤں پھیلا رہی تھی۔ معجزے کا پرچار تو اب بھی جاری تھا مگر عینی شہادت غائب ہو چکی تھی۔
اس کی عمر بڑھتی رہی۔ قد بڑھتا رہا۔ تعلیم آگے چلتی رہی۔ شعور پکتا رہا۔ تو ایک دن صدر ایوب کے خلاف تحریک کے دوران اس کے کالج کے طلباء کا ایک جلوس لاہور کی مال روڈ پر پولیس سے ٹکرا گیا۔ آنسو گیس، لاٹھی چارج، ہائے وائے، خاک و خون، اسے خود بھی چوٹیں آئیں۔ مگر ایک ہم جماعت تو شدید زخمی ہوا۔ ان دنوں ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس تو ہوتی نہیں تھی۔ اور پولیس ہجوم سے مصروف تھی۔ اس لئے لڑکے خود ہی گاڑی والوں کی منت سماجت کر کے زخمی دوست کو ہسپتال لے گئے۔
اپنی چوٹ پر پٹی باندھے ہوئے وہ دوست کو دیکھنے روزانہ ہسپتال جاتا رہا۔ کوئی دس دن بعد جب وہ اس کے جنازے کو کندھا دے رہا تھا تو اس کے کان پھر سے بجنے لگے۔ ایک مدھم سی آواز ابھر رہی تھی۔ جیسے کوئی گونج زیرِ زمین ہو یا تیز ہوا کی سرسراہٹ ہو یا گلے کی خرخراہٹ ہو۔
وہ کئی دن تک کانوں کو بار بار انگلی سے کھجاتا رہا۔ سرکو بار بار جھٹکتا رہا، کبھی کبھی وہ آواز غائب بھی ہو جاتی مگر صرف تھوڑی دیر کے لیے۔ پھر واپس آ جاتی۔ لمبے وقفے بھی پڑتے لیکن اسے مکمل چھٹکارا نہ ملتا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ تھک ہار کر اس کے اندر ہی کہیں کنڈلی مار کر چپ چاپ سی بیٹھ جاتی ہے۔ کبھی ذرا سی ہل گئی یا سر اٹھایا اور پھر سوگئی۔
زمانے کی زقند کے دوران ۱۹۷۱ء میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہو چکے تھے۔ وہ برسوں خون کے آنسو روتا رہا مگر جو کچھ اس نے جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں راولپنڈی کے جلسۂ عام میں دیکھا وہ اس کی یادداشت سے کبھی محو نہ ہو سکا۔ اس وقت وہ خود بھی تیس بتیس برس کا عیال دار نوجوان تھا۔
بہت بڑے میدان میں شامیانے کے نیچے فوجی اور سرکاری افسران اور اہل کار کرسیوں پر جمے بیٹھے تھے۔ سامنے کھلی جگہ پر جلّاد قسم کے لوگ پھر رہے تھے۔ اور کھلی جگہ کے ارد گرد ہزاروں تماشائیوں کا مجمع تھا۔ ان تک آواز پہچانے کے لیے جا بجا لاؤڈ اسپیکر تھے، جن پر کبھی قومی ترانے بجائے جاتے اور کبھی اعلان کے بعد ایک شہری کو درمیان والی کھلی جگہ لا کر لکڑی سے نصب شدہ سہارے سے باندھا جاتا۔ پھر جلّاد اپنی پوری قوت سے اسے کوڑے لگاتے۔ لوگ خوشی سے تالیاں پیٹتے، نعرے لگاتے، ڈاکٹر بار بار جھک کر معتوب کی نبض ٹٹولتا۔ یکے بعد دیگرے اعلان، کوڑے، تالیاں، نبض اور بار بار سپاہی ادھ موئے شکار کو اٹھا کر لوگوں کی نظروں سے دُور لے جاتے۔ ان باریوں کے درمیان قومی ترانے بجتے رہے۔ آخری سین یہ تھا کہ ایک سینئر ریٹائرڈ سرکاری افسر کو چبوترے پر کھڑا کر کے اس کے منہ پر کالک ملی گئی۔
اس نے یہ سب کچھ دیکھا ضرور۔ مگر وہ کسی واضح ردِ عمل سے قاصر تھا۔ کیونکہ اس کی جملہ حسیات جیسے اس منظر کے بعد شل سی ہو گئی تھیں۔ بظاہر تو یوں لگتا تھا کہ وہ اک بے حس ڈھیر ہے مگر اس بے جان ڈھیر کے اندر بھی اس کا دل اس شدید خواہش سے مغلوب تھا کہ ان لوگوں میں سے کسی سے مل سکے، جسے کوڑے لگے تھے۔۔۔ نہ معلوم کیوں؟ نہ ہی اس کے ذہن میں کوئی سوال تھا، نہ سوچ تھی کہ کیا بات کرے۔ بس ایک موہوم سا دھواں اس کے اندر گردش کر رہا تھا کہ وہ کسی طرح ان تک پہنچ جائے تاکہ ان کی دکھتی ہوئی پیٹھ کو سہلا سکے۔ اس سے آگے کچھ بھی واضح نہ تھا اور سب کچھ گڈمڈ تھا۔
کافی دنوں تک اس کی یہ خواہش تو پوری نہ سکی۔ مگر ایک دن اسے پتہ چلا کہ ایک معتوب کے کوڑوں والے زخم تو ٹھیک ہو گئے تھے مگر بعد ازاں وہ بے عزتی اور شرمندگی کی یلغار میں دل کا دورہ پڑنے سے مر گیا۔ کوڑے لگنے کی تصویریں تو تمام اخبارات میں چھپی تھیں مگر شرمسار کی موت کا ذکر کسی اخبار میں نہیں ہوا۔ یہ بات سن کر وہ بے نام سی چیز جو کئی برس پہلے اس کے کہیں اندر کنڈلی مار کر چھپ گئی تھی ایک دم پھن اٹھا کر کھڑی ہو گئی۔ اور اس کے کانوں کے پردے پھر اسی سرسراہٹ سے ایسے بے کل ہونے لگے جیسے بے وقت موت پر سوگوران کے بین دُور سے سنائی دیتے ہیں۔
جیسے جیسے اس کی کنپٹیوں کے بال سفید ہوتے گئے، سر کی چوٹی کے بال کم ہوتے گئے، ویسے ویسے ارد گرد بھی ماحول بدلتا گیا۔ نالیاں پھر سے بھرتی بھرتی کناروں سے باہر ابلنے لگیں، دکانیں پہلے سے بھی گندی ہونے لگیں۔ بے انصافی ہر طرف زہریلی گیس کی طرح پھیلنے لگی۔ بے ایمانی قانون سے زیادہ طاقتور ہونے لگی اور بدامنی رواج بننے لگی۔ ان سب سے کئی اور ایسے شاخسانے پھوٹنے لگے جو پہلے کبھی تھے ہی نہیں۔ یا اگر تھے تو شاذ و نادر تھے۔ مثلاً ایک دن اس کا دو سالہ بیٹا زیر زمین نالے کے کھلے مین ہول (MANHOLE) میں گر کر مر گیا۔ اور کچھ عرصہ بعد اس کے چچا نے بے روزگاری سے تنگ آ کر خود کشی کر لی۔
ان دونوں واقعات کے بعد اس کے کانوں میں سرسراہٹ نے یوں بسیرا کر لیا جیسے کان کے پردوں پر مسلسل کچھ رینگ رہا ہو۔
یہ کیا؟ وہ ارد گرد ہر طرف دیکھ کر دل ہی دل میں جھنجھلاتا۔
یہ کیوں ہے؟ وہ کانوں کو ہتھیلیوں سے دباتا اور رگڑتا ہوا اپنے آپ سے پوچھتا۔
یہ کس چیز کی آہٹ ہے؟ وہ آسمان پر نظریں دوڑاتے ہوئے زیرِ لب بڑبڑاتا۔
وہ کئی ڈاکٹروں، حکیموں اور نفسیاتی معالجوں کے پاس گیا مگر کوئی خاص افاقہ نہ ہوتا۔ کوئی معدے میں گرانی کی دوا اسے دیتا، کوئی اعصابی تقویت کی دوائیوں کی بھر مار کر دیتا، کوئی کانوں کی دوائیاں آزمانے لگتا۔
کسی نے کہا یہ بچپن میں باپ کی موت دیکھنے کا نفسیاتی خوف ہے۔ کسی نے وہم کہا۔ کسی اور نے اعصاب پر تشویش کی گرفت بتائی۔ کسی نے یہ کہہ کر معاملہ ختم کر دیا کہ تم ضرورت سے زیادہ حساس ہو، پتھر دل بن جاؤ۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ سب کچھ کرنے والوں کو دیکھو، کیسے مزے میں ہیں۔ دیکھنا چھوڑ دو۔ کرنا سیکھو۔
پھر ایک دن ایک دم بجلی کے شرارے کی طرح اسے ایک خیال سوجھا اور کئی دن تک من ہی من میں وہ اس خیال سے کشتی لڑتا رہا۔ اٹھتے بیٹھے، سوتے جاگتے، مصروفیت یا فراغت میں۔ بے خوف راتوں کی بے چین کروٹوں میں، اسی خیال کی الجھنوں نے ایک عجیب سے خیال کو جنم دیا۔ اور وہی سوال لے کر وہ مسجد کے مولوی صاحب کے پاس گیا اور پوچھنے لگا۔
’’یہ بتائیے جی کہ مرنے والے کی روح کو آسمان تک پہنچنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟‘‘
مولوی صاحب نے اسے غور سے دیکھا۔ ’’خدا کی باتیں تو خدا ہی جانے۔۔۔ مگر تم کیوں ان فاسد سوچوں میں گھس رہے ہو؟‘‘
’’میں تو نہیں گھستا جی۔۔۔ مگر جب وہ سنتا ہوں تو سوچنے لگتا ہوں۔
’’وہ کیا؟‘‘
’’وہ آواز جی۔۔۔ جیسے کسی پرواز کی سرسراہٹ ہو‘‘
’’کسی کی پرواز؟‘‘
’’یہی تو سمجھ میں نہیں آتا جی۔ اوپر دیکھیں تو نہ کوئی پرندہ نہ پتنگ، نہ ہوائی جہاز نہ ہوا کا جھونکا یا کوئی مرغولہ۔ اسی لیے تو آپ سے پوچھنے آیا ہوں کہ کہیں یہ آواز کسی روح کی پرواز تو نہیں ہوتی؟‘‘
’’کب سے سن رہے ہو؟‘‘
’’پہلے بچپن میں سنی تھی جب میرا باپ فوت ہوا تھا۔۔۔ وہ بوڑھا تھا، بیمار تھا، لمبی بیماری کاٹ کر مر گیا۔۔۔ مجھے ایک ہموار سی سرسراہٹ چند دن سنائی دیتی رہی۔۔۔ سیدھی لکیر جیسی۔۔۔ میدانی پانی کے نرم بہاؤ جیسی۔ پھر وہ دُور جانے والے ہوائی جہاز کی طرح دھیرے دھیرے مدھم ہوتی گئی اور بالآخر ختم ہو گئی۔‘‘
’’تو پھر اب کیوں پریشان ہو؟‘‘ مولوی صاحب نے پوچھا۔
اس لئے کہ وقتاً فوقتاً بعد میں آتی رہی ہے اور آج کل تو بہت زیادہ آ رہی ہے۔۔۔ پچھلے دنوں میرے چچا نے بے روزگاری سے تنگ آ کر خود کشی کر لی تو وہی سرسراہٹ پھر ابھری۔ مگر اب یہ بے چین تھی، با ہموار تھی، گھٹتی، بڑھتی، چنگھاڑتی، گھسٹتی، رگیدتی، ٹوٹتی اور ابھرتی۔۔۔ نہ معلوم کیوں؟۔۔۔ اور اب وہ ختم ہی نہیں ہوتی۔۔۔ مجھے بتائیے کیا یہ اسی کی روح بھٹکتی پھر رہی ہے؟‘‘
مولوی صاحب سر جھکا کر سوچتے رہے۔ ’’بھائی جی۔۔۔ میرا ذہن تو صرف یہاں تک جا سکتا ہے کہ تمہارا باپ خدائی قانون کے مطابق حلال موت مرا۔ مگر چچا خدائی قانون کے خلاف حرام موت مرا۔۔۔ شاید اس کا کوئی تعلق اسی بات سے ہو۔‘‘
’’تو پھر قیاس درست ہے کہ واقعی اس کی روح بھٹک رہی ہے‘‘
مولوی صاحب پھر سوچ کر بولے۔ روحوں کا معاملہ تو مجھے پتہ نہیں مگر مجھے یوں لگتا ہے کہ تم پر کسی آسیب کا سایہ ہے۔۔۔ کل صبح کی نماز کے بعد مجھ سے تعویذ لے جانا۔ اللہ فضل کرے گا۔۔۔ اس کے کلام میں بڑی طاقت ہے‘‘
تعویذ ملا تو اس نے چوما، ماتھے سے لگایا، بڑی عقیدت سے چاندی کے خول میں منڈھایا اور اس مصیبت سے چھٹکارا پانے کی دعائیں کرتے ہوئے گلے میں لٹکا لیا۔
یہ تعویذ اب صرف گلے میں ہی نہ تھا بلکہ اس کی مکمل ذات پر ایمان کی طرح چھایا ہوا تھا۔ اس پر رات کے وقت دونوں ہاتھ رکھ کر لیٹ جاتا۔ اور دعائیں کرتے ہوئے سو جاتا۔ دن میں زیادہ تنگ ہوتا تو گلے سے کھینچ کر ہونٹوں سے چومنے لگتا۔ نماز کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا تو بعض دفعہ تعویذ گلے سے اتار کر پھیلے ہوئے ہاتھوں میں رکھ لیتا۔
اس تعویذ کی بھر پور سنگت میں دن، ماہ اور سال گزرتے رہے۔ اس کی پریشانی میں افاقہ بھی ہوتا رہا۔ مگر کبھی طویل اور کبھی مختصر وقفوں کے بعد وہ آواز واپس آ جاتی۔ دریں اثنا اسے اب تک یقین ہو چکا تھا کہ اس سرسراہٹ کا تعلق کسی موت سے ہوتا تھا۔ اور مولوی صاحب سے گفتگو کے بعد اس کا رخ یوں بدلا کہ فطری موت کے بعد روح ہموار پرواز سے سیدھی آسمان پر پہنچ جاتی ہے۔ مگر فطرت کی بجائے انسانی تقصیر سے مرنے والوں کی روحیں اوپر نہیں پہنچ سکتیں بلکہ نیچے ہی بھٹکتی رہتی ہیں۔
اسی ادھیڑ بُن میں وہ خود بھی ادھیڑ عمر کا ہو گیا۔ چوٹی پر چمکتی چندیا کے گرد کھچڑی بالوں کی جھالر سی لٹکنے لگی۔ چہرے کے خطوط ڈھیلے پڑ گئے۔ کچھ ایسی ہی تبدیلیاں ملکی ماحول میں بھی ہو رہی تھیں۔ استحصالی نظام میں عوامی مفادات پر شخصی لالچ غائب ہو رہی تھی اور خواص پروری کی وجہ سے نظم و ضبط گھٹتا جا رہا تھا۔ جس کی وجہ سے دن بدن مزید سے مزید تر شہری عدم تحفظ کی تشویش میں لتھڑے جا رہے تھے۔
اسی عالم میں جب اکیسویں صدی طلوع ہوئی تو مسلسل نیچے گرنے والی ہر چیز کی طرح ہمہ جہت زوال بھی تیز تر ہوتا گیا۔ وہ اب خود بھی ترپن برس کا ہو گیا تھا۔ اسی لیے ماضی اور حال کا موازنہ نہ کر سکتا تھا۔
پہلے نالیوں سے صرف گندگی ابلتی تھی، اب ان میں جا بجا خون کے چھینٹے بھی نظر آتے ہیں۔ دائیں بائیں ایسی اموات بڑھنے لگیں جو فطرت کی بجائے انسانی تقصیر سے ہو رہی تھیں۔ حاکموں کی خود غرضانہ پالیسوں سے غربت اور بے روزگاری عام ہونے لگی۔ تو بھلے چنگے صحت مند لوگ اپنے اوپر تیل چھڑک کر اور ماچس جلا کر خود سوزیوں سے بھسم ہونے لگے۔ بھلی چنگی سوچ والے صحت مند دماغ اپنے معاشی مسائل کا حل خودکشی میں ڈھونڈنے لگے۔ ڈاکو اور لٹیرے سرکار میں شرکت کرنے لگے اور سرکاری سرپرستی یا چشم پوشی کی وجہ سے مال کے ساتھ جان بھی لوٹنے لگے۔ غیر ذمہ داری یا نا اہلی کی وجہ سے ریلوے ٹرینوں کے حادثوں میں بیسیوں لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح مرنے لگے۔ فرقہ واریت مسجدوں کے اندر باہر خون کی ہولی کھیلنے لگی۔ دھات اور مانجھے کی ڈور سے پتنگوں کی بجائے بچوں کی گردنیں کٹنے لگیں اور سر لڑھکنے لگے۔ اور ملک کے کونے کونے سے ہر روز وہ لوگ مرنے لگے جنہیں ابھی مرنا نہ تھا۔
وہ اپنے گرد و پیش اور شب و روز کا جائزہ لیتا رہا۔۔۔ ہر روز موت کی خبریں، ہر شہر موت کے سائے۔۔۔ ہر سانس ناگہانی موت کا سہم۔۔۔ زندگی دن بدن گراں۔۔۔ موت لمحہ بہ لمحہ ارزاں۔۔۔ ہر آج گذشتہ کل سے بدتر۔۔۔ عوام خوفزدہ۔۔۔ حاکم بے پرواہ۔۔۔ ہواؤں میں بے یقینی اور بے اعتمادی کی باس۔۔۔ افراد میں اسی باس کا خوف وہراس۔۔۔ لوگوں میں تشویش کی سرایت۔۔۔ خون میں خلش کی ملاوٹ۔
ایسے ماحول میں کبھی مسجد میں یا سرِ راہ اس کی ملاقات مولوی صاحب سے ہوتی تو وہ ضرور حال چال پوچھتے۔ وہ کبھی چپ رہتا، کبھی مسکرا کر ٹال دیتا۔ کبھی کہتا۔
’’تعویذ تو پہنا ہوا ہے جی‘‘
مولوی صاحب سمجھ جاتے۔ ’’فکر نہ کرو، اللہ فضل کرے گا، بعض آسیب سخت ہوتے ہیں مگر اللہ کے کلام کے آگے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔ بس وقت کی بات ہے۔‘‘
ایک دو دفعہ تو انہوں نے مزید تعویذ بھی دئیے مگر کانوں میں دھیمی اور مدھم سرسراہٹ بدستور تھی۔ اب وہ ذہنی طور پر اس سے سمجھوتہ کر چکا تھا۔ جیسے شہر کی بڑی سڑکوں پر رہائشی لوگ ٹریفک کے شور کے عادی ہو جاتے ہیں۔ لیکن اخبار، ٹی وی، ریڈیو یا لوگ جب کسی اچانک حادثے، جرم یا موت کی خبر سناتے تو جیسے کاہی جمے تالاب میں اینٹ پھینکی جاتی۔۔۔ ایک دھماکا۔۔۔ دائروں کی دوڑ۔۔۔ لہروں کی دھینگا مشتی۔۔۔ پھٹی ہوئی کائی کی افراتفری۔۔۔ اس کے بے ترتیب ٹکڑوں کی بھاگ دوڑ اور بدلتے نقشے۔۔۔ کیڑوں اور مینڈکوں کی جست اور ڈبکیاں۔۔۔ ایک ہوک کی طرح پرندوں کی فوری اڑان۔۔۔ گویا سارا منظر درہم برہم ہو جاتا اور پھر ہوتا رہتا۔ بلکہ دیر تک لرزتا رہتا۔
مگر یہ سب کچھ اس کے کانوں کے اندر ہوتا۔ دیکھنے والوں کو کچھ محسوس نہ ہوتا تھا۔ کہ اس بظاہر پر سکون چہرے کے پیچھے دل و دماغ میں کیا ہو رہا ہے۔ وہ تو صرف یہی دیکھتے کہ تنکوں یا دیا سلائی میں روئی لگا کر وہ کانوں میں گھماتا رہتا ہے۔ انگلیوں سے کانوں کو کھجاتا رہتا ہے، ہتھیلیوں سے سہلاتا رہتا ہے اور ان میں تیل گھی یا بادام روغن ڈالتا رہتا ہے۔
ایک رات یہ سرسراہٹ بڑھتے بڑھتے تیز ہوا کی سائیں سائیں بننے لگی۔ وہ چارپائی پر بیٹھ گیا۔ دونوں ہاتھ سے سر سہلانے لگا۔ کبھی اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگتا، کبھی گردن ہلا کر سر کو اِدھر اُدھر جھٹکے دیتا، کبھی لیٹ کر پہلو بدلتا رہتا۔۔۔ ساری رات اسی طرح گزر گئی۔
اس کے بعد جب بھی وہ کبھی نہ مرنے والے کی موت کی خبر سنتا تو وہ ایسی ہی راتیں کاٹنے لگتا۔ خبر زیادہ بری ہوتی تو سرسراہٹ بڑھتے بڑھتے تیز ہوا اور پھر آندھی کا شور بن جاتی۔ جس میں ان چیخوں کی دبی گھٹی باز گشت ہوتی جو غیر فطری موت میں بلند ہوتی ہیں۔ کئی دفعہ رات کے اندھیرے میں یوں لگتا کہ کمرے کی دیوار یا کونہ پھٹ گیا ہے۔ اور اس میں سے آندھی کا مرغولہ کمرے کے درمیان آ گیا ہے۔ جس میں کٹے ہوئے سر، بازو، ٹانگیں اڑ رہی ہیں اور اس کی گردش میں آہیں اور سسکیاں ہیں اور وہ دیوانہ وار گھوم رہا ہے۔ وہ سہم کر دیکھتا رہتا، سکڑ سکڑ بیٹھ جاتا۔ سمٹ کر منہ اور آنکھیں چھپا لیتا۔ اور جب وہ مرغولہ چلا جاتا تو حیرت سے دیکھتا کہ کمرے میں کوئی تنکا یا کاغذ تک نہیں ہِلا۔ بلکہ ہر چیز حسبِ سابق ساکت و جامد ہے۔
ایک دن وہ صبح اٹھا تو بہت پریشان تھا۔ بار بار گھر والوں سے پوچھتا۔
’’آسمان پر بادل تو نہیں ہیں؟‘‘
وہ اسے چمکدار سورج اور دھوپ کی تفصیلات بتاتے تو وہ اپنی آنکھوں کو ہاتھوں سے رگڑ رگڑ کر بار بار آسمان کی طرف دیکھتا۔
دو چار دن اسی کیفیت میں گزرے تو وہ مسجد میں چلا گیا۔ ’’مولوی جی! کوئی دم درود اوپر کی طرف پھونکیں۔۔۔ ان کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔۔۔ انہیں اپنی منزل پر بھیجیں‘‘
’’کیوں؟ کیا ہوا‘‘ مولوی صاحب نے حیرت سے پوچھا۔
’’پہلے میں صرف سنتا تھا جی، مگر اب میں انہیں دیکھ سکتا ہوں۔۔۔ ان گنت۔۔۔ اوپر تلے۔۔۔ سایوں کے ڈھیر۔۔۔ بالکل گھنے بادلوں کی طرح۔۔۔ ان کی وجہ سے اب مجھے آسمان نظر نہیں آتا۔‘‘
مولوی صاحب بڑے پیار سے اسے اپنے حجرے میں لے گئے۔ کچھ پڑھنے کے بعد پانی پر دم کیا اور اسے پلا دیا۔۔۔ ساتھ ہی ایک تعویذ اور بھی دے دیا۔ ’’تم ہر جمعرات کو صبح کی نماز کے بعد مجھ سے دم کرا لیا کرو۔ یہ آسیب بہت ڈھیٹ لگتا ہے۔۔۔ اللہ فضل کرے گا۔‘‘
بڑے احترام اور عقیدت سے اس نے وہ تعویذ گلے میں لٹکا لیا۔
دن گزرتے گئے۔۔۔ اور بہت سے لوگوں کی نا اہلی تساہل یا بد دیانتی سے بہت سے ایسے لوگ مرتے بھی گئے جنہیں ابھی مرنا نہیں تھا۔ اور خدائی قانون کی خلاف ورزی ہوتی رہی۔
خلوص بھرے تین چار تعویذ اللہ سے فریاد کرتے رہے۔
اب وہ اپنے گنجے سر اور ننگے پاؤں سے شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں آوارہ پھرتا رہتا ہے۔ وہ مختلف مقامات اور زاویوں سے اوپر دیکھتا ہے کہ شاید کسی شگاف میں سے آسمان نظر آ جائے یا کسی سوراخ میں سے روشنی کی کرن ٹپک پڑے۔
گھر والے بھی کیا کریں۔۔۔ کھچا کھچ بھرے پاگل خانے میں کوئی جگہ ہی نہیں۔
٭٭٭ (ماخذ: چہار سو، راولپنڈی)